New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 08:32 PM

Urdu Section ( 17 Apr 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Role of Masjid in the Muslim Society مسلم معاشرہ میں مسجد کا کردار

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

16 اپریل،2023

مسجد کو اسلامی معاشرہ میں مرکزی وقائدانہ حیثیت حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہ مسجد محض عبادت گاہ نہیں بلکہ دین کی ترسیل، تذکیر تبلیغ، تعلیم و تربیت کا مرکز تھی۔ یہیں بیٹھ کر آپ نے قبائل کے ساتھ معاہدے کئے۔مملکتوں کے سربرہان کو دین کی دعوت کے پیغامات بھیجے۔ تمام سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی معاملات طے فرمائے۔ مہمانوں سے ملاقات،بیت المال اور جنگی سپاہیوں کی بھرتی کا کام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود امامت فرماتے تھے۔ بعد کے زمانہ میں خلفاء راشدین (امیر المومنین) سربراہان مملکت گورنر اور ذمہ دارعلاقہ امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی دربار او ر درباری علماء کا دور شروع ہوا۔ حالانکہ سربراہ حکومت خود کو خلیفہ کہتے تھے۔ اس دور کے درباری علماء کو دینی مصلح، مفکر اور عالم پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن مسجد کی پھر بھی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔معاشرتی مسائل کے لئے مسلمان مسجد کا رخ کیا کرتے تھے۔

بادشاہوں نے مساجد کے تقدس کو باقی رکھا۔نئی مساجد اور مسافر خانے تعمیر کرائے، ائمہ کے وظائف مقرر کئے۔مساجد کے اخراجات پورے کرنے کے لئے جائیداد یں ان کے نام کیں۔ یہ خود کن موذن اور امام مساجد میں مقرر کئے گئے۔ سب کے لئے تعلیم،تعلم کانظام قائم کیا گیا۔ اس زمانہ میں دین کی تبلیغ و ترسیل کا کام صوفیاء خانقاہوں، مصلحین ومفکر ین امت کے ذریعہ انجام پایا۔ کچھ مدارس مساجد سے متصل بھی تھے۔ اس دور میں مسجد کی وہ حیثیت نہیں رہی جو نبی آخر الزماں یا خلفاء راشدین کے زمانے میں تھی۔ مسجد عبادت اور دینی معاملات تک محدود ہوگئی۔ بادشاہوں کا نام جمعہ عیدین کے خطبہ میں پڑھا جاتاتھا۔ جس میں ان کا اقبال بلند رہنے کی دعا شامل ہوتی تھی۔ انہوں نے مسجد کے وسیع تصور کی کبھی ہمت افزائی نہیں کی۔ بادشاہ کو حکومت کے خلاف سازش او ربغاوت کا ہمیشہ خطرہ رہتا تھا۔ وہ صوفیاء اور خانقاہوں کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھتے تھے۔ جب کہ صوفیاء کرام کا مکمل دین کے بجائے صرف روحانیت اور ذکر پر فوکس تھا۔

بھارت میں انگریزوں کی سب سے زیادہ مخالف علماء کرام نے کی۔ یہاں تک کہ احمد شہید بریلوی او راسماعیل شہیدؒ دہلوی نے پنجاب میں اور رشید احمد گنگوہی نے شاملی کے میدان میں انگریزوں سے مسلح جنگ کی۔ مولانا محمودالحسن، مولانا عبیداللہ سندھی اور بہت سے دیوبندی علماء نے انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی کی۔ اس کے نتیجہ میں انگریزوں نے بڑی تعداد میں علماء کرام کو پھانسی پر چڑھایا۔ یہاں تک کہ اکابرین کو یہ خطرہ لاحق ہونے لگا کہ ملک میں نماز پڑھانے، دین سے واقف کرانے اور دین کی باتیں بتانے والے عالم بھی باقی رہیں گے یا نہیں۔ اسی فکر کے تحت ملک بھر میں مکاتب او رمدارس دینیہ قائم کئے گئے۔ ان اداروں کی کفالت مسلمانوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے کی۔ دینی تعلیم پر غیر معمولی زور دینے کی وجہ سے ایک طرف تعلیم دین اور دنیا کے خانوں میں تقسیم ہوگئی۔ دوسری طرف مساجد کے امام تنخواہ وار ملازم بن گئے۔محلے کے سب سے متقی، باکردار، اچھا اخلاق، بہتر معاملات، خوش لحن، دین کے سمجھ اور روحانیت کے تعلق رکھنے والے شخص کے امامت کرنے کا تصور دھیر ے دھیرے ختم ہوگیا۔ اب جس کے پیچھے نماز پڑھی جارہی ہے اس کے بارے میں نہ مقتدی کچھ جانتے ہیں او رنہ مسجد کے کمیٹی کے افراد۔ عام طور پر مسجد کی کمیٹی میں دولت مند، دبنگ حضرات ہوتے ہیں۔ تعلیم یافتہ ہونا دین کی سمجھ ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے مساجد عالی شان بن اور سہولیات سے آراستہ ہوگئیں لیکن وہ روحانیت سے خالی ہے۔ پھر ایک اور دور آیا جب کھانے  او رمعمولی تنخواہ پر نماز پڑھانے کے لئے امام رکھے جانے لگے۔ رہنے کے لئے مسجد میں جو حجرہ (کمرہ) دیا جاتا وہ اکیلے رہنے کے لئے بھی ناکافی ہوتا تھا۔ اس کا تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ امام صاحب کو خو د گھروں سے جاکر کھانا لانا پڑتا تھا۔ رمضان یا جمعہ کو چھوڑ کر باقی دنوں میں بوڑھے اور ادھیڑ عمر لوگ ہی نماز پڑھتے دکھائی دیتے تھے۔ کوئی بچہ نماز میں شریک ہوگیا تو اسے کندھے سے پکڑ کر پچھلی صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا۔ کچھ مساجد میں بچوں کو قرآن پڑھانے کا نظم رہتا تھا۔ اس وقت جمعہ کی نماز جامع مسجد اور عیدین کی نماز عیدگاہ میں ادا کرنے کاچلن تھا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی آپس میں ملاقات او رایک دوسرے کے حالات سے واقفیت ہوتی تھی۔ کئی مرتبہ مسجد میں جمع ہونے کی برکت سے رکے ہوئے کام بن جاتے تھے۔دراصل اخوت و مساوات، اتحاد، ایثار اور ہمدرد کے جوہر مسجد سے ہی حاصل ہوتے تھے۔ آداب مجلس اور آداب معاشرت کی عملی ترتیب بھی مساجد میں ہی انجام پاتی تھی۔ عبادت کا سماجی پہلو بہت واضح تھا۔ غیر مسلموں میں مسجد او رنماز پڑھنے والوں کا احترام پایا جاتا تھا۔ کئی غیر مسلم خواتین چھوٹے بچوں کو نمازیوں سے پھونک لگوانے کے لئے مسجد کے دروازے پر کھڑی ہوتی تھیں۔ غیر مسلم مسجد یا درگاہ کے سامنے سے ہاتھ جوڑ کر گزرتے تھے۔

آج ائمہ مساجد کو معقول تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ ا ن کوفیملی کے ساتھ رہنے کے لئے (خاص طور پر شہروں میں) مکان مہیا کرایا جاتا ہے۔ ہر عمر کے لوگ نماز میں نظر آتے ہیں۔ مکر مسجد کی قرون وسطیٰ میں جو حیثیت تھی وہ نہیں ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد غیر مسلموں میں مسجد و درگاہوں کا احترام تھا وہ لگ بھگ ختم ہوتا جارہا ہے۔ مساجد کے خطبے عصری تقاضوں او رملکی معاملات میں عوام کی رہنمائی سے قاصر ہیں۔ جب کہ مسجد نبوی ؐ کے خطابات ملت کے مسائل کا حل اور سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے عکاس ہوا کرتے تھے۔ مساجد کے ائمہ دین کے معلومات تو رکھتے ہیں لیکن ملک اور دنیا میں آرہی تبدیلیوں سے نہ واقف ہیں اور نہ ہی ان کی اس میں دلچسپی ہے۔ ہماری سماجی اور اصلاحی تحریکات کی ناکامی کا بھی یہی سبب ہے۔ مسجد جو نظم و ضبط اور اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا نمونہ ہوتی تھی۔ وہاں پھل فروٹ بیچنے والوں کے ٹھیلے بے ترتیب کھڑ ی سائیکل اورکاریں، بکھرے ہوئے جوتے چپل، فقیروں اور مساجد کے  سفر کا جمگھٹا اس کی پہچان بن گئی ہے۔ اکثر نمازیو ں کا مسجد سے نکلنا تک دوبھر ہوجاتا ہے۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے لئے حضرت بلال حبشیؓ کا انتخاب کرکے اصول وضع کردیا کہ اذان وہ شخص دے جو خوش الحان ہو۔ یہ التزام مکہ مکرمہ او رمدینہ منورہ میں آج تک جاری وساری ہے۔ بھارت کے مساجد میں یہ قابل عمل کیوں نہیں؟ اہل وطن کرخت آوازوں کی وجہ سے اذان پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمعہ کے دن مسلمانوں کے سڑک پر نماز ادا کرنے کی وجہ سے راستہ بند ہوجاتاہے۔ ایمبولینس تک نہیں گزرپاتی۔ تاویلات کی بجائے اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔

مساجد نماز کے بعد زیادہ وقت خالی رہتی ہیں۔ اس وقت میں مسجد کو رفاہ عامہ کے کاموں کے لئے استعمال کرنے پر غور کرناچاہئے۔ مثلاً اسکول، ڈشپنسری،مفت دوا کا مرکز، مفت کوچنگ، لائبریری، مسافروں کے قیام اور شادیوں کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جو مساجد تبلیغی جماعت کے تسلط میں ہیں وہاں جماعت کے افراد ٹھہر سکتے ہیں۔ کسی مسافر کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ کئی ممالک میں مساجد کو اسلامک سینٹر کہا جاتاہے۔ یہ سنیٹر دینی بیداری، مسلمانوں کے درمیان اتحاد، اتفاق، اخوت، رابطہ کا ذریعہ ہیں۔ یہاں لائبریری، کوچنگ،اسپتال، مختصر وقت کے لئے آرام گاہ، میٹنگ ہال، خواتین کیلے نماز پڑھنے اور اگر کسی کا انتقال ہوجائے تو اس کے کفن دفن تک کا انتظام کیا گیا ہے۔ بھارت میں 19 ویں صدی سے خواتین کے مسجد آنے پر پابندی ہے۔ جب کہ خاندان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری انہیں کے کاندھوں پر ہے اورو ہی دینی ماحول سے بیگانہ ہیں۔ خواتین کے مسجد آنے کا نہ رجحان ہے نہ مساجد (چند کو چھوڑ کر) میں ان کے لئے انتظام۔ اس کا نتیجہ ہے کہ خواتین دینی شعور سے بتدریج محروم ہوتی چلی گئیں۔ اب جب کہ مسلم لڑکیوں کے مرتد ہونے کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عبادات کے سماجی اور مساجد کے معاشرتی کردار کو فعال کیا جائے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے ائمہ مساجد کی مخصوص تربیت کی جائے تاکہ وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں رہنمائی کے فرائض انجام دے سکیں۔

16 اپریل،2023، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/role-masjid-muslim-society/d/129581

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..