امام سید شمشاد احمدناصر، نیو ایج اسلام
دہشت گردی اور قرآنی نصیحت
اللہ تعالیٰ جابجا قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ نہ ہی قتل و غارت کو پسند کرتا ہے۔ بلکہ قرآنی حکم ہے کہ جس نے ایک شخص کو بھی قتل کیا گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر دیا۔
قرآن کریم نے فساد کے بارے میں یہ بھی خصوصیت سے حکم دیا ہے کہ
1۔ جو لوگ زمین میں فساد پیدا کرتے ہیں وہ یقیناًگھاٹا پانے والے ہیں۔ 2:28
2۔ جو لوگ قطع تعلقی کرتے اور فساد پھیلاتے ہیں ان پر خدا کی لعنت اور ان کے لئے بہت برا ٹھکانا ہو گا۔ 13:26
3۔ زمین میں فساد مت چاہو۔ 28:78
4۔ فرعون کے حالات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ملکوں میں سرکشی کی اور ان میں بہت زیادہ فساد کیا پس تیرے رب نے عذاب کا کوڑا ان پر برسایا۔ (89:12-14)
5۔ زمین میں فسادی بنتے ہوئے بدامنی نہ پھیلاؤ۔ (2:61)
6۔ اور اے میری قوم! ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو اور لوگوں کی چیزیں انہیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں مفسد بنتے ہوئے بدامنی نہ پھیلاؤ۔ (11:86 اور 26:185)
اس کے علاوہ بھی اور کئی جگہ پر قرآن کریم نے فساد کرنے والوں کی مذمت بیان کرتے ہوئے انہیں تنبیہ بھی کی ہے اور یہاں تک فرما دیا ہے کہ فسادیوں کا ٹھکانہ بہرحال جہنم ہو گا۔
جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یوں تو ہر ملک میں بدامنی، فساد اور بے چینی ہے مگر بدقسمتی سے مسلمان ممالک تو اس کی لپیٹ میں بہت زیادہ ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ یہ لوگ ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جس کا نام اسلام ہے۔ اور ایسے رسول کے ساتھ اپنا ناطہ اور تعلق جوڑتے ہیں جو سب جہانوں کے لئے رحمۃ للعالمین تھے۔ اور اس شریعت کے ساتھ اپنے آپ کو باندھتے ہیں اور اس کے احکام کے پابند ہیں جو دنیا کی ہدایت کے لئے آخری شریعت ہے۔ ان سب نعمتوں کے ہوتے ہوئے فساد پیدا کرتا۔ فساد میں حصہ لینا یا فساد کا حصہ بننا اور پھر مسلمان کہلانا کسی طرح بھی ٹھیک نہیں ہے۔ قرآن کریم نے فساد برپا کرنے والوں اور فسادیوں کو بہت بڑا انذار دیا ہے۔
بدقسمتی سے مسلمان ممالک اس فساد عظیم کی لپیٹ میں ہیں۔ اور وہ عقل سے اور دانش مندی سے ہرگز کام نہیں لے رہے۔ پھر تہمت مغربی ممالک یا امریکہ پر لگا دیتے ہیں کہ وہ ہمارے درمیان پھوٹ اور بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ جب آپ کو یہ معلوم ہے تو پھر آپ ان کے پیچھے کیوں چلتے ہیں۔ کیوں ان کی بات مانتے ہیں۔ اگر تو پتہ نہیں تو پھر بات کسی حد تک ٹھیک رہتی ہے مگر جب آپ کو معلوم ہے کہ مغربی ممالک آپ کے درمیان پھوٹ ڈال رہے ہیں تو آپ ان کا کیوں شکار بن رہے ہیں۔ گویا نیتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ صرف اور صرف اپنی مملکت، اپنی کرسی ، اپنی حکومت کے لالچ میں مسلمانوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں بے دریغ قتل ہورہا ہے۔
تاریخ بھی ہمیں یہی بتا رہی ہے کہ مسلمان کو کسی دوسری ریاست یا حکومت یا پاور نے شکست نہیں دی بلکہ مسلمانوں کے اندر سے ہی منافقت پھوٹتی ہے اور وہ دوسروں کے لالچ میں آکر آلہ کار بنتے ہیں اور پھر اسی کھڈّے میں خود گرتے ہیں جو وہ دوسروں کے لئے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ اس پر گواہ ہے زیادہ حقائق لکھنے کی ضرورت نہیں۔
اس وقت بھی سعودی عرب، یمن، ایران کی آپس میں خصومت اور بمباری اور قتل و غارت میں یہی ہو رہا ہے کہ ’’مسلمان‘‘ ’’مسلمان‘‘ کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں اور اس کا الزام غیر ملکی طاقتوں پر ہے۔
قرآن کریم نے یہ مضمون بھی سورۃ الحجرات میں کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔ اگر صلح ہو جانے کے بعد پھر ایک فریق یا گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو تم سب مل کر زیادتی کرنے والے کے خلاف لڑائی کرو یہاں تک کہ وہ باز آجائے۔ (49:10)
یہ ہے قرآنی اصول مسلمانوں کے لئے! کیا اس پر عمل ہوا؟ ہرگز نہیں۔ تو جب خود مسلمان کہلا کر قرآنی حکم کی خلاف ورزی کریں گے تو برکتیں اٹھ جائیں گی اور ناکامی و نامرادی ہی حصہ میں آئے گی۔
قرآن ، سنت اور حدیث کا مقام و مرتبہ
ایک اور بحث بھی کئی دنوں سے چل رہی تھی کہ سنت کیا ہے اور حدیث کیا ہے۔ ان دونوں کا مرتبہ کیا ہے۔ بعض سنت کو قرآن پر مقدم مانتے ہیں، بعض حدیث کو اور بعض حدیث کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ سوچا کہ قرآن، سنت اور حدیث کے صحیح مرتبہ کے بارے میں بھی چھوٹی سی تحریر لکھ دی جائے اور اس کا صحیح مقام و مرتبہ بتایا جائے۔
مسلمان کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لئے تین چیزیں ہیں۔
(1) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے۔ وہ شک اور ظنّ کی آلائشوں سے پاک ہے۔
(2) دوسری، سنت۔۔۔ سنت سے مراد۔۔۔ آنحضرت ﷺ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اور ابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں قرآن شریف خدا کا قول ہے اور سنت رسول اللہ ﷺ کا فعل۔ اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسرے سے بھی عمل کراتے ہیں۔۔۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ کے اس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلا دیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ رکعات ہیں ایسا ہی حج کر کے دکھلا دیا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزارہا صحابہؓ کو اس فعل کا پابند کر کے سلسلۂ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اَب تک امت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اسی کا نام سنت ہے۔
(3) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے۔ اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت ﷺ سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعہ سے جمع کئے گئے۔۔۔ جب۔۔۔ دور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم کا گزر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اس میں شک نہیں ہو سکتا کہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متقی اور پرہیزگار تھے انہوں نے جہاں تک ان کی طاقت میں تھا حدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو ان کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی بہت محنت کی مگر تاہم ساری کارروائی بعد از وقت تھی اس لئے وہ سب ظنّ کے مرتبہ پر ہے۔ بایں ہمہ سخت ناانصافی ہو گی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ ان حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی جس کی نظیر دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتی تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بے خبر تھے کیونکہ سلسلۂ تعامل نے جو سنت کے ذریعہ سے ان میں پیدا ہو گیا تھا تمام حدود و فرائضِ اسلام ان کو سکھا دیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مدتِ دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اسلام کی اصل تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھاکیوں کہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے ان ضرورتوں کو پور اکر دیا تھا تاہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نورٌ علیٰ نور ہو گیا اور یہ حدیثیں قرآن اور سنت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہو گئیں۔‘‘
(ریویو برمباحثہ چکڑالوی صفحہ2-3)
آنحضرت ﷺ کی ایک نصیحت
مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ
(صحیح البخاری کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی ﷺ حدیث110)
جو میری طرف منسوب کر کے جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے تو وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تیار کر لے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/rioters-abode-be-hell-/d/103097