غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام
(قسط اول)
9
جون 2023
‘بر’ باء کے کسرہ (زیر) اور راء کی تشدید کے ساتھ نیکی اور حسن
سلوک کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے ۔ جب اس لفظ کا استعمال والدین اور رشتہ داروں کے
حق میں ہو ہے تو اس وقت یہ عقوق کے مقابل معنی دیتا ہے ۔ چونکہ ‘عقوق’ کے معنی
نافرمانی ، بد سلوکی اور حقوق تلفی کے ہیں اس لیے ‘بر’ کا معنی فرمانبرداری ، نیک
سلوک یعنی اچھے برتاو اور حقوق کی ادائیگی کے ہیں ۔ لفظ ‘بر’ کا استعمال جب عام
معنی میں ہو تو اس وقت اس کا مطلب مطلق نیک برتاو ہوتا ہے ۔
اسی ‘بر’ لفظ سے اسم فاعل
‘بار’ بنا ہے جس کے معنی ‘نیکی کرنے والا’ کے ہیں، اور اس کی جمع ’ابرار‘ آتی ہے
، جس کا استعمال اکثر زاہدوں، عبادت گزاروں اور اولیا کے حق میں ہوتا ہے ۔ قرآن و
حدیث میں لفظ ‘بر’ کا استعمال کئی مواقع پر ہوا ہے ، محدثین عظام نے تو اس موضوع
پر اپنی کتابوں میں ایک مستقل کتاب یا باب قائم کیا ہے ۔
لفظ ‘‘صلہ’’ قطع کے مقابل مستعمل ہوتا ہے ۔ وصل کے معنی
ملانے کے ہیں مگر ‘‘صلہ’’ سے مراد ‘‘صلہ رحمی’’ ہے جس کے مقابل‘‘ قطع رحمی’’
مستعمل ہوتا ہے ۔ ‘‘قطع رحم’’ کا معنی
رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ رشتہ داری توڑنے اور لا تعلقی کے ہیں جبکہ ‘‘صلہ
رحمی’’ کا معنی رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ
داری جوڑنے اور اچھے تعلقات قائم کرنے کے ہیں ۔اس کو یوں سمجھیں کہ اگر کوئی آپ
کے ساتھ حسن سلوک کرے تو بدلے میں آپ ان کے ساتھ جو حسن سلوک کرتے ہیں ، تو احسان
کے بدلے احسان اور محض بدلہ ہوگا لیکن جب
آپ کا رشتہ دار آپ کے ساتھ رشتہ داری توڑے اور آپ رشتہ داری جوڑنے اور ان کے
ساتھ حسن سلوک کا کام کریں تو یہ ‘‘صلہ
رحمی’’ ہے، جس کی فضیلت بہت زیادہ ہے ،
جیساکہ حدیث پاک کے حوالے سے آنے والی عبارتوں میں ملاحظہ کریں گے ۔
قرآن و سنت میں بر ،
احسان ، حسن سلوک ، صلہ رحمی کی مطلق تعلیم دی گئی ہے یعنی تمام رشتہ داروں حتی کہ
پڑوسیوں اور تمام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسلام کی تعلیمات میں سے ہے ۔مگر
ان تمام رشتہ داروں میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو زیادہ فضیلت حاصل ہے ۔ اس
بات کا اندازہ درج ذیل آیت سے بھی کیا جا سکتا ہے جس میں اللہ تعالی نے والد ین کے حق کو اپنی بندگی اوراطاعت کے فورا
بعد ذکر فرماکر گویا یہ اشارہ فرما دیا کہ
تمام رشتہ داروں میں سب سے بڑا حق
والدین کا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
’’وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ
وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ
أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَا أُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا
وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا ۔‘‘
ترجمہ: اور تمہارے رب نے
حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک
نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔ (۱۷ : ۲۳)
اس آیتِ مقدسہ میں اللہ عز و جل نے سب سے پہلے اپنی عبادت و اطاعت کا حکم ارشاد
فرمایا کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ: اپنے
والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آو۔ اس میں
حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالی کی تخلیق اور اِیجاد
ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ
ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسانی
وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم
دیا ۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب تبارک و تعالی نے حکم فرمایا کہ تم اپنے
والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر
احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔(
تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۳،
۷ / ۳۲۱،۳۲۳)
والدین میں ماں کے ساتھ
حسن سلوک کرنا مقدم ہے کیونکہ والدہ باپ کے مقابلے زیادہ محنت و مشقت اور تکلیف برداشت کرتی ہے۔ اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ وَصَّیْنَا
الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ
اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ
حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ-حَتّٰۤى
اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةًۙ-قَالَ
رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ
عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ
ﱂاِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ
وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔
ترجمہ: اور ہم نے آدمی کو
حکم دیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے، ا س کی ماں نے اسے پیٹ میں مشقت سے رکھا
اور مشقت سے اس کوجنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے
یہاں تک کہ جب وہ اپنی کامل قوت کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیاتو اس نے
عرض کی: اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ
پراور میرے ماں باپ پر فرمائی ہے اور میں وہ نیک کام کروں جس سے تو راضی ہوجائے
اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی رکھ، میں نے تیری طرف رجوع کیااور میں مسلمانوں
میں سے ہوں ۔ (۴۶ : ۱۵)
حدیث پاک میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
سوال کیا کہ سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی
احسان) کا مستحق کون ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘تمہاری
ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا :‘‘تمہاری ماں
۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ماں کو بتایا۔
انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد
فرمایا: تمہارا والد۔ ( بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، ۴ / ۹۳، الحدیث: ۵۹۷۱)۔ اسی حدیث کو امام ترمذی
نے اپنی جامع میں کتاب البر و الصلہ کے تحت بھی ذکر کیا ہے ۔
علمائے کرام فرماتے
ہیں کہ اس حدیث میں تین مرتبہ ماں کے ساتھ بر اور حسن صحبت کو
ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ماں بچے کی خاطر عموما
تین مرتبہ اکیلے تکلیف برداشت کرتی ہے ، پہلی مرتبہ جب وہ اس کو پیٹ میں نو
مہینہ تک رکھتی ہے ، پھر پیدائش کے وقت ، پھر دودھ کے ایام میں ۔ان تین حالتوں میں
صرف ماں اکیلے تکلیف برداشت کرتی ہے باپ ان میں شریک نہیں ہوتا ،
صرف چوتھی حالت بچے کی تربیت جس
میں ماں باپ دونوں شریک ہوتے ہیں ، لہذا
والدہ حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے ۔
بعض علما کی رائے یہ ہے
کہ حدیث میں یہ تکرار تکثیر حق کے لیے نہیں بلکہ تاکید کے لیے ہے کیونکہ اکثر لوگ
باپ کا خیال رکھتے تھے اور ماں کی پرواہ کم کرتے تھے تو حقوق اگرچہ دونوں کے برابر
ہیں اور اولاد کو دونوں کے ساتھ مساوی سلوک کرنا لازمی ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ماں کا ذکر فرما کر لوگوں کی کوتاہی اور کمی دور کرنے کی تاکید
فرمائی ۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ
اگر والدین اولاد پر ظلم کرے تب بھی اولاد کے اوپر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین کے
ساتھ حسن سلوک کریں ، جیساکہ الادب المفرد
میں امام بخاری نے ایک روایت حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ذکر
فرمایا ہے ۔ ہاں ، اگر والدین اللہ تعالی اور اس کے رسول کی نافرمانی کا حکم دیں
تو ایسی صورت میں والدین کی فرمانبرداری نہیں کی جائے گی کیونکہ والدین کی اطاعت
اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہی جائز ہے ۔
قرآن وسنت کی تشریحات سے
یہ معلوم ہوتاہے کہ والدین اگر مشرک یا کافر ہوں تب بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک
کیا جائے گا ۔اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ
والدین کے شرکیہ یا کفریہ اعمال میں ان کی اطاعت یا ان کا تعاون کرنا جائز
نہیں ۔ علما ئے عظام یہ مثال دیتے ہیں کہ
اگر والدہ یا والد آپ کو حکم دیں کہ میرے لیے کوئی بت خرید کر لا دے تاکہ
میں اس کی پوجا کروں تو ایسی صورت میں بت خرید کر لانا گویا بت پرستی میں تعاون
کرنا ہے ، لہذا یہ جائز نہیں ۔ ہاں اگر ایسی جگہ جہاں پر شرکیہ افعال کیے جاتے ہوں
، وہاں سے گھر واپسی کے لیے اگر والد یا والدہ گاڑی وغیرہ پر سوار کرکے لے
جانے کی مدد مانگے تو ایسی صورت میں مدد
کرنا جائز ہے ۔
قرآن کریم نے بر اور
نیکی پر ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کرنے
کا حکم دیا ہے اور گناہ اور عدوان پر ایک دوسرے کی مددر اور تعاون کرنے سے منع کیا ہے :
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى
الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ
لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(المآئدۃ)
ترجمہ: اور نیکی اور
پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور
اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ
تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے (1)نیکی
اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔ (2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون
نہ کرنے کا۔ اس آیت میں بِر سے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر
اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اِثْم سے مراد گناہ ہے اور عُدْوَان
سےمراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (جلالین، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۹۴)
ایک قول یہ ہے کہ اِثْم
سے مراد کفر ہے اور عُدْوَان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔ (خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ:
۲، ۱ / ۴۶۱)
اس آیت کو ذہن میں رکھیں
اور غور و فکر کرتے رہیں تو بات سامنے آتی ہے کہ ،شرک ، کفر ، ضلالت و گمراہی
، جھوٹ ، چغلی، غیبت، بد گوئی ، فحش کلامی
، ظلم ، انتہاپسندی ، دہشت گردی ، خیانت ، سود ، وغیرہ جیسے گناہوں میں مدد کرنا ہرگز جائز نہیں ۔اللہ تعالی نے ان
باتوں سے سختی سے منع فرمایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شدید عذاب کا ذکر بھی اسی مقام
پر فرمایا ہے ۔ (جاری )
------------------
اسلامک ریسرچ اسکالر غلام
غوث صدیقی، عالم و فاضل ، متخصص فی الادب العربی ، والعلوم الشرعیہ والنقلیہ ،
اور مشہور عالمی ویب سائٹ ‘‘نیو ایج اسلام’’ کے مستقل کالم نگار اور
متعدد زبانوں ، بالخصوص انگریزی ، عربی، اردو اور ہندی کے مترجم ہیں۔
----------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism