ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
22 ستمبر،2023
بابری مسجد کی شہادت کے
بعد پوری قوم نرسمہاراؤ کو معتوب کررہی تھی، میں ان کے ساتھ ایک معتمدومعاون خصوصی
کی حیثیت سے اس وقت جڑا جب لوگ ان کو چھوڑ کر جارہے تھے۔ میں مستقبل کی سیاست اور
سماجیات کے بدلتے رخ کو دیوار پر لکھا دیکھ رہا تھا۔آپ کے سامنے نرسمہاراؤ سے بدلہ
او رکانگریس کی شکست تھی میرے سامنے کچھ اور تھا۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں ادارے
او رنظریات کے دفاع کو ہر حال میں مقدم رہنا چاہئے۔
میں اس انڈین نیشنل کانگریس
کے زوال میں بنیادی آئینی قدروں کا اٹھتاہوا جنازہ دیکھ رہا تھا جس کی اجتماعی
قیادت کی کوکھ، کاوشوں اور قربانیوں سے وطن عزیز ہندوستان آزاد ہوا۔ یہ مجھے کسی
قیمت منظور نہ تھا۔ بدقسمتی سے نہ قوم سمجھی اور نہ اس کے اکابرین! لہٰذا پہلی
مرتبہ بی جے پی کو انتخابات کے نتائج نے ایوان میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بنادیا۔
اٹل بہاری واجپئی کو حکومت تشکیل دینے کی دعوت ملی اور ان کی قیادت میں بی جے پی
کی مرکز میں اولین حکومت تشکیل پائی۔لیکن محض تیرہ دن میں ایوان کا اعتماد حاصل نہ
کرپانے کی وجہ سے وہ گر گئی، مگر اٹل جی مستقبل کے حوالے سے جو بیج بوگئے اس کے
نتیجے میں دوبارہ 13 مہینے، پھر پورے پانچ سال او راب پورے دس سال سے مکمل اکثریت
کے ساتھ بی جے پی برسراقتدار ہے۔
1996 ء میں لوک سبھا میں تحریک اعتماد پر پانچ دن لگاتار جو بحث
ہوئی اس کو میں نے متواتر دیکھا اور سنا۔ یہ وہ وقت ہے جب سیکولر سیاست میں سیندھ
لگنے کی قطعی بنیاد رکھی جارہی ہے۔جس کو اس وقت تو شکست ہوگئی‘ آپ سب خوش بھی
ہوگئے مگر اٹل جی ایک اسٹیسمین تھے وہ جس سیاست کی بنیاد ڈال گئے پھر برسہا برس
وہی چلی۔ ان کی فکر کو یہ کم عقل وکم فہم تو پڑھ سکا اور سمجھ بھی سکا مگر میری
قوم نے اس کی زحمت ہی گوارہ نہ کی۔ اٹل جی نے تین بنیادی موضوعات 370، رام مندر
اور یونیفارم سول کوڈ کو قربان کرکے تمام غیر کانگریس جماعتوں کو اپنے ساتھ آنے کا
دعوت دی۔ اپوزیشن میں ایک بھی ایسا سیاستداں نہ تھا جو اٹل جی کی تعریف نہیں کررہا
تھا مگر اس وقت مسلم ووٹ بینک جو سیکولرسیاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا
اس کے خوف نے کسی کو پہلے مرحلے آگے نہ بڑھنے دیا۔
1998ء کے عام انتخابات میں معدود ے چند کو چھوڑ کر مشترکہ ایجنڈے
پر تمام ہی سیکولر سیاسی جماعتیں اٹل جی کے ساتھ آگئیں۔ وہ حکومت 13 مہینے چلی۔سیکولر
جماعتوں نے مسلم ووٹ جم کرلیا اور ہاتھ بی جے پی سے ملا لیا۔ آپ تب بھی نہ
سمجھے۔آخر 1999ء کے عام انتخابات میں سیکولر حلیف او ربڑھ گئے۔ پھر ہمارا ووٹ ڈٹ
کرلیا او راٹل جی سے جا ملے۔ چنانچہ یہ حکومت پورے پانچ سال چلی۔ آپ نے اب بھی کچھ
نہ پڑھا۔ مت بھولئے سرکار بی جے پی کی ہے او رخامو شی سے مضبوط ہورہا ہے سنگھ او
رآر ایس ایس۔ میں نے 1996 ء کے وقت لکھا اور زبانی بھی متعدد بار کہا کہ آج
کانگریس کو بچالو نرسمہا راؤ آج ہیں کل نہ ہوں گے۔اگر اب کانگریس چلی گئی تو پہلے
جائے گی پھر آئے گی او رپھر چلی جائے گی۔ بی جے پی کے لئے کہا تھا کہ اگر آگئی تو
پہلے آئے گی او رجائے گی اور پھر آجائے گی۔آج دس سال سے وہ اقتدار میں ہے۔ سنگھ
اور آر ایس ایس آج کہا ں کھڑے ہیں اس کا کچھ اندازہ وادراک ہے؟
1986ء میں جب بابری مسجد کا تالا کھلا اس وقت او ران حالات میں جو
ہندو بچہ پیدا ہوا اس کی عمر آج 37/ برس ہے، جو اس وقت دس سال کا تھا وہ آج 47
/سال کاہے جو 20/کا تھا وہ 57 / کا، جو 30/ کا تھا وہ 67/ کا او رجو 40/ کا تھا وہ
77/ کا ہے۔ گویا آج کی ہندو اکثریت نظریہ ہندوتو کی پیداوار ہے آپ کہا ں گم ہیں؟
اس مقبولیت کے پیچھے مندر۔منڈل، رتھ یاترا، بڑھتی ہوئی فرقہ واریت و منافرت کا بڑا
دخل ہے۔ سیکولر سیاسی جماعتیں اب آپ کو تنہا چھوڑ کر جانا شروع کرچکی ہیں اور آپ
کے لحاظ کا پاس کرنا ان کی نہیں آپ کی مجبوری بن چکی ہے۔
ادھر بی جے پی آپ کی تمام
تر مخالفت اور طاقت لگانے کے باوجود اپنے سفراقتدار پر رواں دواں ہے۔ آپ جسے جتاتے
رہے وہ ہارتا رہا او رجسے ہراتے رہے وہ جیتتا رہا۔سیکولر سیاست کی سوچ کہاں آگئی
کہ میاں جائیں گے کہاں؟ یہ تو ہماری دائیں یا بائیں جیب میں پڑا ہوا پکاووٹ بینک
ہے،بی جے پی میں جا نہیں سکتا! ہمارے ووٹ لینے والے ہم سے بے پروا بی جے پی سے ہاتھ
ملانے میں ہمارے بارے میں سوچ بھی رہے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ ہمارا ووٹ لے کر
اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ سنگھ، بی جے پی اورآر ایس ایس کے ساتھ ہماری دوریاں اس
حد تک بڑھ گئیں کہ جس کی انتہا نہیں۔ ادھر بی جے پی اور سنگھ کی جڑیں اتنی وسیع
وعریض او رگہری ہوگئیں کہ کوئی شعبہ حیات اب اس کی گرفت سے باہر نہیں!
یاد رکھیں آج جس معاشرے،
معاشرت، ثقافت اور سیاست سے آپ کا واسطہ ہے، اس پر اس 37/ سے 77/ سال کی ہندو
اکثریت کا غلبہ ہے، جو سنگھ او رنظریہ ہندتو کی پروردہ ہے۔ آج کے ہندوستان میں یہ
تبدیلی جمہوری عمل کے نتیجے میں آئی ہے، انتخابات میں واضح کامیابی سے آئی ہے،
مخالفت کرنے والے آج آپ کے کاندھوں پر اپنی بقا کی آخری جنگ لڑرہے ہیں او ران
انتخابات میں اگر انہیں کامیابی نہ ملی تو دیکھئے گا کون بڑا سیکولر کہاں کھڑا
ہوگا؟
آج کے ہندوستان میں آئڈیا
آف انڈیا بدل چکا ہے۔ یہ ہندواکثریتی ریاست تو ہمیشہ سے ہے مجھ جیسوں کو تو کبھی
غلط فہمی نہ تھی۔ میں 1996 ء سے یہ سب پڑ ھ رہا ہوں، لکھ رہا ہوں، او رسمجھا رہا
ہوں۔ قائدین وہ ہوتے ہیں، جو وقت پر اپنی وحدت کو آگاہ کریں۔ بروقت تنبیہ کرنے میں
کوتاہی نہ برتیں تصحیح کے اقدام سے روگردانی نہ کریں، عوام کیا چاہتے ہیں قائد کی
فکر کا محور وہ نہیں ہوتا وہ ہواؤں کا رخ موڑ تاہے، اپنی دلیل او رمنطق سے قوم کے
ذہن کو ہموار کرتاہے اور ہر وقت مقبولیت اس کے فیصلوں کا معیار نہیں ہوتی، بلکہ
کبھی کبھی سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں، بھلے ہی وہ غیر مقبول ہی کیوں نہ ہوں؟
میں ایک منفرد او رمختلف
فکر کا روز اول سے حامل ہوں، جو سابقہ 27/ سال سے کہتا،لکھتا او ردعویٰ کرتا آرہا
ہوں۔ حالات اگر اس سے مختلف سمت میں ہو ں تو گریباں حاضر ہے۔ اور اگر وہ حقائق بن
کر آپ کے سامنے منہ پھاڑے کھڑے ہیں تو کب سوچنا شروع کریں گے۔ آج آپ سے سب کنی کاٹ
رہے ہیں، آپ کی بات کرنے کو کوئی تیار نہیں، آپ کو ساتھ بٹھانے کو تیار نہیں، آپ
کو بنیادی فیصلوں او رپالیسی سازی میں شریک کرنے کو کوئی تیار نہیں، وہ ووٹ بنک
جسے کسی کو اقتدار دینے اور کسی سے چھیننے میں اپنے کردار پر بڑا ناز تھا، وہ آج
بے یارومددگار ہے۔ آپ تنہا تنکھیا کی طرح میدان سیاست و معاشرت میں موجود ہوتے
ہوئے بھی بے وجود ہوچکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مسئلے کا
حل سیاسی جماعتوں او ران کے قائدین کے پاس ہے؟ جی نہیں چاہے وہ این ڈی اے ہویا
انڈیا نام کا اتحاد! حل اب ان کے پاس ہے، جو فکر پر اپنی اجارہ داری قائم و مستحکم
کرچکے۔ میں ایک پرامن، خوشحال، ترقی پسند، باہمی عزت نفس، بقا، بھائی چارگی او
رسلامتی کا حامی و حامل ہندوستان دیکھنا چاہتا ہوں، جس میں تمام وحدتیں ایک دوسرے
کے احساسات و جذبات کے احترام کے لئے ضد او رہٹ دھرمی سے باہر آکر اپنے اختلافات
کو اگر ختم بھی نہیں تو کم از کم کم کرنے پر تو کام کر سکتی ہیں۔ سیاست اور سیاست
دانوں سے جس کا دل چاہے وہ مذاکرات و مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھائے میں اس میں کہیں
نہیں!
آر ایس ایس جو آج کے
ہندوستان کے اصل نفس ونفسیات کی واحد نمائندہ ترجمان کی حیثیت سے ہر شعبہ حیات پر
حائل، حاوی وغالب قومی وحدت ہے جس کا راج آج اقتدار کے ایوانوں، سرکاری وغیر
سرکاری ادارووں، ایجنسیوں، مسلح افو اج، انتظامیہ، عدلیہ، تعلیمی اداروں، معاشرہ،
معاشرت، گلی، محلے، پڑوس او رگھر تک سرایت کرچکاہے تبدیلی، اصلاح او رمسائل کے حل
کا مرکز مسلمانان ہند کے حوالے سے اب وہاں ہے، اگر اس سے مذاکرات و مفاہمت کے عمل
کو نہ بڑھایا گیا تو اب سیاست مسائل کاحل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ثقافت سیاست پر آج
حاوی ہے اور قابض بھی! اب ہندوتو مخالف کوئی نہیں
بس ہارڈ(Hard) اور (Soft) ہندوتومیں نبردآزمائی ہے۔
22 ستمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism