سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
1 اگست 2022
قرآن ایک آسمانی کتاب ہے
اور دیگر آسمانی کتابوں کی طرح ہی یہ زبان وبیان اور اسلوب کے لحاظ سے بہت تہہ دار
اور متمول ہے۔ قرآن کا اسلوب دیگر آسمانی کتابوں ہی کی طرح خشک نہیں ہے بلکہ اس
میں علم بیان کے اصولوں کا استعمال بات کو معنی خیز,اور پراثر بنانے کے لیۓ
کیا گیا ہے۔ بلکہ دنیا نے فصاحت و بلاغت کے اصول آسمانی کتابوں سے ہی اخذ اور وضع
کئے ہیں۔۔
قرآن میں تشبیہوں ,
استعاروں اور تمثیلوں کا استعمال جا بہ جا کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کلام میں حسن,
تہ داری اور زور پیدا ہوگیا ہے۔ ان سب کے علاوہ قرآن میں خطیبانہ سوالوں کا
استعمال بھی کلام میں زور اور تاثیر پیدا کرنے کے لئے جا بہ جا کیا گیا ہے۔
خطیبانہ سوالوں کا
استعمال قرآن سے قبل بائبل میں بھی ملتا ہے۔ خطیبانہ سوال وہ جملے ہیں جن کا مقصد
جواب یا معلومات طلب کرنا نہیں ہوتا بلکہ کسی حقیت پر زور دینا یا مخالف پر طنز
کرنے یا پھر مخاطب کی توجہ کسی وقوعے کی طرف مبذول کرنا ہوتا ہے یا پھر کوئی بات
مخاطب کے ذہن نشیں کرانی ہوتی ہے۔
خطیبانہ سوال مشرقی زبان
و اسلوب کا طرہ امتیاز ہے۔ مغرب میں خطیبانہ سوالوں کا اسلوب مقبول نہیں ہے۔ وہاں
سوال صرف جواب اور معلومات حاصل کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ مشرق میں اکثر سوالوں
کا جواب بھی سوال سےہی دیا جاتا ہے جس میں جواب سے زیادہ معنویت اور تہ داری ہوتی
ہے۔ مثال کے طور پر۔۔
سوال : تم نے ایسا کیوں
کیا ؟
جواب : تو پھر اور کیا
کرتا؟
یہاں جواب دینے والے نے
یہ بتا دیا کہ اس کے پاس ایسا کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔
قرآن میں سوالات دو طرح
کے آئے ہیں۔ ایک جواب طلب سوالات اور دوسرا خطیبانہ سوالات۔ جواب طلب سوالات وہ
ہیں جو صحابہ یا عام مسلمانوں یا پھر یہودیوں نے نبی اکرم ﷺ سی پوچھے اور جن کا
جواب وحی کی صورت میں نازل ہوا۔ جیسے
تجھ سے پوچھتے ہیں حکم
شراب کا اور جوئے کا۔
تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا
خرچ کریں۔
تجھ سے پوچھتے ہیں یتیموں
کا حکم ۔
اور تجھ سے پوچھتے ہیں
حکم حیض کا
تجھ سے پوچھتے ہیں مہینہ
ء حرام کو۔
تجھ سے پوچھتے ہیں حال
نئے چاند کاتجھ سے پوچھتے ہیں کیا چیز ان کے لئے حلال ہے۔
حکم پوچھتے ہیں تجھ سے سو
کہہ دے اللہ حکم بتاتا ہے تم کو کلالہ کا۔
ان تمام سوالوں کے جواب
اللہ نے بذریعہ وحی دئے لیکن خطیبانہ سوال خود اللہ کرتا ہے اور ان سوالوں کا جواب
خود سوالوں ہی میں مضمر ہے۔ ان سوالوں کا مقصد صرف کسی امر یا موضوع کی طرف
مسلمانوں کی توجہ مبذول کرنا ہے۔ مثال کے طور کچھ آیات پیش ہیں: ۔
.۔"کیا وہ زمین کو نہیں دیکھتے کہ .ہم نے اس میں کتنی ہر ایک
قسم کی خاص چیزیں اگائیں۔ اس میں نشانی ہے اور ان میں بہت سے لوگ نہیں ماننے والے۔
۔"(الشعرا:8).
۔"بھلا کیا نظر نہیں کرتے اونٹوں پر کہ کیسے بنا ئے ہیں اور
آسمان پر کہ کیسا اس کو بلند کیا ہے اور پہاڑوں پر کہ کیسا جما دیا ہے اور زمین پر
کہ کیسا ہموار کیا ہے۔"(الغاشیہ:17-20).
۔"کیا نہیں دیکھتے ہم نے بنایا رات کو کہ اس میں چین حاصل
کریں اور دن بنایا دیکھنے کا۔بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان
رکھتے ہیں۔"۔(النحل:86).
.۔" کیا تونے نہ دیکھا کہ جہاز چلتے ہیں سمندر میں اللہ کی
نعمت لیکر تا کہ دکھلائے تم کو کچھ اپنی قدرتیں۔البتہ اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک
تحمل کرنے والے احسان ماننے والے کے واسطے۔ "۔(لقمن:31).
مندرجہ بالا آیتوں میں ان
مظاہر کی طرف انسانوں کی توجہ دلائی گئی ہے جو انسان کی نظروں میں ہر وقت ہوتے ہیں
مگر وہ ان مظاہر میں چھپی ہوئی حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ لہذا ان
خطیبانہ سوالوں کا مقصد انسانوں سے یہ پوچھنا نہیں ہے کہ آیا انہوں نے ان کو دیکھا
بلکہ ان پر غور نہ کرنے اور ان سے سبق نہ لینے پر سرزنش کی گئی ہے۔
اب دوسری قسم کے خطیبانہ
سوالوں پر نظر,ڈالتے ہیں۔
کیا تو نے نہ دیکھا کہ
اللہ کی یاد کرتے ہیں جو کوئی ہیں آسمان میں اور زمین میں اور اڑتے جانور پر کھولے
ہوئے ہر ایک نے جان رکھی ہے اپنی طرح کی بندگی اور تسبیح ۔(النور 41).
۔"۔کیا تونے نہ دیکھا ایک جماعت بنی اسرائیل موسی کے بعد جب
انہوں نے کہا اپنے نبی سے مقرر کردو ہمارے لئے ایک بادشاہ تاکہ ہم لڑائی کریں اللہ
کی راہ میں۔ "(البقرہ:246).
۔"کیا نہ دیکھا تو نے اس شخص کو جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے
اس کے رب کی بابت اس وجہ سے کہ دی تھی اللہ نے اس کو سلطنت۔۔"۔ (البقرہ:258).
مندرجہ بالا آیتوں میں
خطیبانہ سوال ان واقعات یا حقائق سے متعلق ہیں جو قدیم زمانے میں گزر چکے ہیں اور
موجودہ دور کا انسان ان واقعات کا شاہد نہیں ہے یا پھر ان حقائق کا بیان ہوا ہے جو
انسان کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ مثال کے طور پر انسان نییں جانتا کہ جانور پرندے
اور پہاڑ اللہ کی بندگی کس طرح کرتے ہیں یا پھر بنی اسرائیل کی جماعت نے اپنے نبی
سے یا پھر فرعون نے موسی سے کیا کہا تھا۔ لہذا کیا تو نے نہ دیکھا سے اللہ کا مقصد
یہ معلوم کرنا نہیں ہے کہ انہوں نے ( نبی پاکﷺ) دیکھا یا نہیں بلکہ یہ صرف ایک
حقیقت سے واقف کرانے کا قرآن کا اپنا اسلوب ہے۔ جس میں حسن اور تاثیر ہے۔
خطیبانہ سوالوں کی چند
اور مثالیں پیش ہیں۔
۔"یہی ہیں جنہوں نے خریدا گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب
بخشش کے بدلے۔ سو کس,قدر صبر کرنے والے ہیں وہ دوزخ پر۔ ۔"(البقرہ:175).
۔
اس آیت میں کفار و مشرکین
کی ناعاقبت اندیشی پر بہت لطیف طنز ہے کہ وہ دوزخ پر صبر کئے بیٹھے ہیں۔ جبکہ
انہیں جنت کی تمنا کرنی چاہئے تھی۔
۔"اور اس سے بڑا ظالم کون جو بہتان باندھے اللہ پر جھوٹا تاکہ
لوگون کو مراہ کرے بلا تحقیق۔۔"(الانعام:144).
."کیا تم کو تعجب ہوا کہ آئی تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی
طرف سے ایک مرد کی زبانی جو تم ہی میں سے ہے تاکہ وہ تم کو ڈرائے اور تاکہ تم
بچو,اور تاکہ تم پر رحم ہو۔"(الاعراف:64).
ان خطیبانہ سوالوں کا
مقصد انسانوں کو ان کے غلط طرز,عمل پر تنبیہ کرنا اور ان کی صحیح سمت میں رہنمائی
کرنا ہے۔ ان سوالیہ جملوں کا مقصد بات میں زور پیدا کرنا اور پڑھنے اور سننے والوں
کے ذہن میں غور و فکر کو مہمیز کرنا ہے۔ ان خطیبانہ سوالوں سے قرآن کے اوراق بھرے
ہوئے ہیں جن کی بدولت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا انسانوں سے براہ راست گفتگو کررہا
ہے۔ قرآن میں خطیبانہ اسلوب کی اور بھی دیگر خصوصیات ہیں جن کا مقصد انسان کو یہ
احساس دلانا ہے کہ خدا اس کے بہت قریب ہے اور ہر قدم پر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔
لہذا وہ کہتا ہے۔
۔"دیکھ ہم کس کس طرح سے بیان کرتے ہیں آیتوں کو تاکہ وہ سمجھ
جائیں۔"(الانعام:65
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism