New Age Islam
Thu May 15 2025, 07:22 PM

Urdu Section ( 7 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Desire to Rewrite History: A Nation's Disagreement with the Erasure and Distortion of Facts تاریخ کو پھر سے لکھنے کی خواہش

عمیر کوٹی ندوی

6 مئی 2025

ملک کی تاریخ کونئے سرے سے لکھنے اورمن مرضی رنگ بھرنے کی خواہش رہ رہ کر ابھرتی اور سامنے آتی رہتی ہے۔ حال ہی میں منظرعام پرآئی قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت (این سی ای آر ٹی)کے ذریعہ ساتویں جماعت کے سماجی علوم کے نصاب سے مغلوں اور دہلی سلطنت سے متعلق ابواب کو مکمل طور پر نکال دینے کی خبر بھی اسی سےتعلق رکھتی ہے۔درسی کتابوں پر نظرثانی کے عمل کےضمن میں مغلوں کی حکمرانی، ان کی کامیابیوں، مملوک، خلجی، تغلق اور لودی خاندانوں سے متعلق ابواب کو ہٹا کر ان کی جگہ قدیم ہندوستانی سلطنتوں جیسے مگدھ، موریہ، شنگاس اور ستواہن خاندانوں پر مشتمل نئے ابواب شامل کیے گئے، جن میں’ہندوستانی اخلاقیات‘ اور’ مقامی تہذیبوں‘ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔نئے نصاب میں قدیم سنسکرت اصطلاحات جیسے ’جنپد‘(جہاں لوگ آباد ہیں)، ’سامراج‘ (اعلیٰ ترین حکمراں)، ’ادھیراج‘ (بادشاہ)، اور ’راجادھیرج‘ (بادشاہوں کا بادشاہ) کا استعمال بھی بڑھا یا گیا اور یونانیوں کے ایک تفصیلی باب کوبھی اس میں شامل کیا گیاہے۔

نئی نصابی کتاب میں ۱۳؍جنوری تا۲۶؍فروری۲۰۲۵ء میں اترپردیش کے پریاگ راج میں منعقد ہونے والے مہا کمبھ میلے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جسے ہندوستانی ثقافت اور روایات کو نمایاں کرنے کے رجحان کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی نے کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ’ نئی نصابی کتاب طلباء میں مطلوبہ اقدار کو پروان چڑھانے اور ہندوستانی ثقافتی پس منظر میں عالمی نظریات کو عمر کے مطابق متعارف کرانے کی کوشش ہے‘۔ ۲۳-۲۰۲۲ء میں بھی مغلوں اور دہلی سلطنت سے متعلق مضامین کو مختصر کیا گیا تھا، اس مرتبہ مکمل طور پر نصاب سے خارج کر دیا گیا ۔درسی کتاب سے مغلوں اور دہلی سلطنت سے متعلق ابواب کے اخراج کی خبرمعمولی نہیں ہے۔ اس پرملک کے مختلف حلقوں سے ردعمل کا اظہار ہونا تھا، ہو رہا ہے۔ اس عمل کو ادھوری تاریخ پڑھانے کے مترادف قراردینے کے ساتھ ہی اس اقدام سے بچوں کے تاریخی شعور کے متاثر ہونے، ان کی نظر سے ہندوستان کی تاریخ کے ایک اہم باب کے اوجھل ہو جانے ، ایک خاص تناظر میں تعلیم دئے جانے سے ان کے اندر تنگ نظری کے پیدا ہونے کے خدشہ کااظہار کیا جارہاہے۔

تاریخ نویسی کے موجودہ رجحان پر معرو ف مؤرخ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری کے چیئرمین پروفیسر علی ندیم رضوی کا یہ رد عمل لائق توجہ ہے کہ ’تاریخ اچھی ہو یا بری، تاریخ تاریخ ہے اور اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے‘۔ نصاب میں تبدیلی پر ’آج تک‘ نے اپنے نیوز پورٹل میںان کے ردعمل کو بڑی تفصیل سے پیش کیا ہے۔نیوز پورٹل کے مطابق پروفیسر علی ندیم رضوی نے تاریخی حقائق کو مٹانے کی کوششوں اور ملک کے ماحول میں تبدیلی کی موجودہ روش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ تاریخ سے کسی بھی اہم منظر کو ہٹانا درست نہیں ہے۔ تاریخ یا کسی بھی مضمون کے نصاب پر بار بار نظر ثانی کی جا سکتی ہے لیکن تاریخ کے کچھ صفحات کو غائب کردینا تشویشناک ہے... تاریخ کے بعض حصوں کو ہٹانا یا نظر انداز کرنا ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے...(نصاب میں) تبدیلی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مغلوں کے تعاون کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ آنے والی نسلوں کو یہ نہ معلوم ہوسکے کہ مغلوں نے ملک کی تاریخ اور ثقافت میں کیا حصہ ڈالا ہے‘۔

پروفیسر رضوی کا کہنا تھا کہ ’ یہ تبدیلی کہیں نہ کہیں اس ماحول کا حصہ ہو سکتی ہے جس میں تاریخ کو دوبارہ لکھا جا رہا ہے اور کچھ حصوں کو جان بوجھ کر ہٹایا جا رہا ہے‘۔اپنی گفتگو کے دوران ہندوستانی ثقافت، تہذیب ، سماج اورتاریخ کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے اوران کے مابین صحیح توازن قائم کرنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے مزید یہ بھی کہاکہ ’ تاریخ کو تاریخ ہی رہنے دینا چاہیے اور اسے بدلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے... مغلوں کو’اِنوِیزیبل( 'غیر مرئی)‘ بنانے کی جو کوشش ہو رہی ہے وہ ہندوستان کی تاریخ کو سمجھنے میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے‘۔اتنی واضح باتوں کے بعد وزیر مملکت برائے تعلیم اور مغربی بنگال بی جے پی صدر سکانت مجمدار کی اس بات کے کیا معنیٰ رہ جاتے ہیں کہ’ مغل دور کواین سی ای آرٹی کی کتابوں سے خارج نہیں کیا گیا ہے بلکہ صرف دہرائے جانے والے مواد کو ایڈٹ کیا گیا ہے‘۔اس پر مزید یہ کہ ۲۹؍اپریل کو امراجالاکی طرف سے شائع خبر میں وزیرموصوف دو متضاد باتیں بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ ’مغل دور ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے‘لیکن اگلے ہی پل وہ ’مغل دور کو ہندوستانی تاریخ کا سیاہ ترین دور‘ قرار دیتے ہیں۔

 ادھوری باتیں ،ادھورا سچ، آدھاسچ اور آدھا کچھ اور موجودہ مزاج کا اہم ترین حصہ سا بن گیا ہے۔حالیہ برسوں میںملک کے تعلیمی نصاب ، تاریخ ، تہذیب وثقافت پر بہت شدومد سے اورکئی جانب سے باتیں ہورہی ہیں۔اسی سال ۱۱؍جنوری کو شائع ایک خبر کے مطابق مدھیہ پردیش حکومت میں کابینی وزیر کیلاش وجے ورگیہ نے ایک پروگرام میں اپنے خطاب کے دوران ’وزیراعظم نریندرمودی سے تاریخ نویسوں سے ملک کی تاریخ کو دوبارہ لکھانے‘ کی اپیل کی تھی۔آرایس ایس  بھی ملک کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی بات بار بار کہتی رہی ہے۔ٹی وی ۹بھارت ورش نے ۱۸؍ فروری۲۰۲۱کو اپنی خبر میں لکھاتھا کہ ’ اب تک لکھی گئی ہندوستانی تاریخ پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ایک بڑی بحث چھیڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔سنگھ کا ماننا ہے کہ مؤرخین نے ہندوستانی تاریخ کو تنگ نظری سے لکھا ہے جسے اب وسعت دینے کا وقت آگیا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت ۲۱؍ فروری کو '’اِتیہاسِک کال گڑنا:ایک بھارتیہ وویچن ‘(تاریخی تجزیہ: ایک ہندوستانی تناظر)کے عنوان سے ایک کتاب کا اجراء کریں گے جو ہندوستانی تاریخ نویسی پر سنجیدہ سوالات کھڑے کرتی ہے‘۔

آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ۵؍مارچ۲۰۲۲کو ’دھیروپا سرسوتی‘ نامی کتاب کی تقریب اجراء کے موقع پرکہا تھا کہ ’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے موجودہ نظام تعلیم کو پرائمری سطح سے ہی درست کیا جائے...ایسی کتابیں تیار کی جائیں جو مستند طور پر غیر ملکی مؤرخین کی رائے کی تردید کرتی ہوں اور ہندوستانی نظریات اور اصولوں کو قائم کرتی ہوں‘۔نصاب میں تبدیلی کے ذریعہ تاریخ کو پھر سے لکھنے کی موجودہ روش اپنے ظاہر میں جس سوچ وفکر کا عملی مظہر معلوم ہوتی ہے وہ ان سب کے سوا اور کیا ہے۔لیکن ملک کے شہریوں کی اکثریت اس سوچ کی حامل ہو یہ بھی درست نہیں ہے۔ اس سوچ سے عدم اتفاق کا اظہار وہ بہت واضح الفاظ میں کرتی ہے ۔ ان کی باتیں، تحریریں،سوشل میڈیا میں بڑے پیمانے پر موجود ویڈیو، آڈیو، کمنٹس اور مواد اس کا واضح ثبوت ہیں۔ قلم کار پون کمار شرما کی یہ بات بھی اسی کا ہی حصہ ہے کہ ’تاریخ لکھنے میں مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اسے لکھتا ہے،وہ دانستہ یا نادانستہ اس میں اپنی نیت اور نقطۂ نظر کوشامل کر دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی نصابی کتابیں کبھی بھی غیر جانبدار نہیں ہوتی ہیں۔ ان میں اس سیاسی جماعت کے نظریہ کی آمیزش ہو جاتی ہے جو تاریخ کی نصابی کتب کے مصنفین کا تقرر کرتی ہے‘(قیو یواو آر اے ڈاٹ کام)۔ تاریخ لکھنے اور تاریخ بنانے میں بہت فرق ہے۔ تاریخ کے ساتھ چھیڑچھاڑ ماضی میں بھی کی جاتی رہی ہے لیکن تحقیق اور دریافت کے عمل نے ہمیشہ سچ کو سامنے لانے کا کام کیا ہے اور آئندہ بھی یہ عمل جاری رہے گا۔ ملک کے مؤرخین اور فکرمند شخصیات کی اس تشویش کو کہ تاریخ میں مخصوص فکر ونظریہ کی آمیزش نقصاندہ ہوتی ہے اور یہ عمل ملک اور اگلی پیڑھی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/rewrite-history-nation-erasure-distortion/d/135456

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..