New Age Islam
Tue Mar 25 2025, 11:24 PM

Urdu Section ( 5 Jul 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Review of Mr. Rashid Shaz's Autobiography 'Layamoot' راشد شاز کی خود نوشت ’لایموت‘پر ایک نظر

ذیشان احمد مصباحی

5 جولائی، 2022

راشد شاز، ملت اسلامیہ ہند کی جامد، منتشر، فرقہ پرست اور بےکیف روایت کے خلاف بغاوت کا ایک منفرد ساز اور ایک نئے اور شاذ منصب ارشاد کے بنیاد گذار ہیں۔ دربھنگہ، بہار کے ایک علمی و ادبی اور زمین دار گھرانے میں پیدا ہونے والا ایک بچہ، جس نے اذان کے بعد سب سے پہلے مودودی صاحب کی صدائے انقلاب سنی ہے اور شعور کی آنکھیں کھولنے کے بعد تقسیم وطن سے پہلے اور بعد میں لٹے پٹے مسلمانوں کی درد ناک داستانیں سنی، پڑھی اور دیکھی ہیں، وہ علی گڑھ پہنچ کر وقت سے پہلے بالغ، عمر سے زیادہ بزرگ اور باہر سے زیادہ اندر سے مضبوط اور توانا ہوجاتا ہے۔

ملت کے لیے اسے کچھ کرنا چاہیے۔ مگر کیا اور کیسے؟ اس کے جواب کی تلاش نے اسے مجذوب دانا بنا دیا ہے۔ انتہائی عزم و حوصلہ اور محنت و جاں فشانی کے ساتھ اس نے ہر گلی کی خاک چھانی۔ علمی، فکری اور انقلابی رجحان کے حامل اساتذہ اور طلبہ کے جھرمٹ میں رہا۔ علی گڑھ، جے این یو، ندوۃ العلما، دائرہ شاہ علم اللہ رائے بریلی، مسلم پرسنل لابورڈ، مسلم مجلس مشاورت، جمعیۃ العلما، بابری مسجد ایکشن کمیٹی، طالبان، اخوان، انقلاب اسلامی ایران، رابطہ عالم اسلامی مکہ، یورپ و امریکہ کی انسانی اور اسلامی کانفرنسیز، ہر جگہ یہ دیوانہ وار پہنچا اور اپنی تمام تر کم عمری اور ناتجربہ کاری کے باوجود مشائخ کبار کی صفوں میں جگہ پائی۔ مگر یہ کیا کہ دور سے دکھنے والے مشیخت کے پرتقدس ہالے قریب پہنچ کر ٹوٹتے بکھرتے چلے گئے۔ اسے کیا خبر تھی کہ مسلم قیادت کے نام پر نظر آنے والے عمامے اور جبہ و دستار باہر سے جس قدر پر رونق نظر آتے ہیں، اندر سے اسی قدر یاسیت ، بزدلی اور بے تدبیری و بےتوقیری کی سیاہی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ آخر میں وہی ہوا، کہ بقول اقبال:

تنگ آ کے میں نے آخر دَیر و حرم کو چھوڑا

واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے

’لایموت‘ ، دراصل راشد شاز کی نصف خود نوشت ہے۔ ابھی نصف ثانی ’ولایحییٰ‘ آنا باقی ہے۔ مصنف نے خواب و خیال، حقیقت و فسانہ اور غم جاناں و غم دوراں کے تاروں کو باہم اس مہارت سے پیوست کر دیا ہے کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ دراصل آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی اسیری کا رومانوی نوحہ ہے، جس میں زہر غم پینے کا بھی اپنا لطف ہے۔ شاز کا کہنا ہے کہ یہود نےاپنی مقہوریت کو ہولوکاسٹ کا عنوان دیا اور فلسطینیوں نےاپنی مہجوریت کو نکبہ کا نام دیا۔ اس سے جہاں ایک طرف پوری دنیا میں ان کی مظلومیت واشگاف ہو کر سامنے آئی، وہیں دوسری طرف پوری دنیا کی ہمدردی ان کی طرف متوجہ ہوئی اور خود ان کے اندر بھی باز آباد کاری اور اصلاح حال کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس کے برعکس ہندوستانی مسلمان گذشتہ سو سالوں سے مسلسل پٹ رہے ہیں۔ ایک بے عنوان تعذیب گاہ ہے جو انہیں اندر اور باہر سے مسلسل کھائے جا رہی ہے۔انہیں اول روز سے حاشیہ پر رکھ دیا گیا ہے اور اس حاشیے کو تنگ کرنے کی کوشش مسلسل جاری ہے۔ ان کی نسل کشی اور فکر کشی منصوبہ بند طریقے پر کی جا رہی ہے۔ گجرات، مراد آباد، بھاگل پور، میرٹھ ، نیلی، ملیانہ اور ہاشم پورہ میں حکومت کی نگرانی میں ہونے والا ان کا منظم قتل عام ’فساد‘ کے نام پر ایک معمولی خبر بنتا رہا ہے، جس کی اعلیٰ سطحی تحقیق و تفتیش، مظلومین کی دادرسی، ظالموں کو سزا اور آئندہ اس قسم کے سانحات کی پیش بندی کی مخلصانہ کوشش، نہ کبھی حکومت کا موضوع رہی اور نہ بریف کیس داعیوں اور ’مولوی کاپو‘(۱) قسم کے قائدین کا موضوع رہی۔ ہاں! اس قسم کے خونیں سانحات نام نہاد مسلم قیادت کے لیے وقت کے وزراے اعظم سے ملنے، اخبارات میں تصویریں چھپوانے اور چندہ بٹورنے کا ذریعہ ضرور بنے۔

مصنف نے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ تعذیب مسلسل کی داستان کی یہود کے ساتھ ہونے والے قلیل مدتی ہولوکاسٹ سے تشبیہ دی ہے۔ اسی طرح اس اذیت ناکی کےجواز اور تسلسل کے لیے مسلم قائدین کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، جس طرح یہودیوں کی ایک تعداد ہولوکاسٹ کا ذمہ دار خود اپنے یہودی رہنماؤں کی سرد مہری اور بےتدبیری و بےتوفیقی کو بتاتی رہی ہے۔ مصنف نے اس کٹہرے میں مسلمانوں کے مولوی اور مسٹرز کو ایک ساتھ کھڑا کیا ہے۔ حوصلہ، تدبر و تفکر، منصوبہ بندی اور اولو العزمی، حالات کا درست تجزیہ و تحلیل اور مسائل کے صحیح ادراک کی کمی کے ساتھ شاز نے اس کے لیے اس فقہی روایت کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جس میں اپنے امام کے قول کی حفاطت کی فکر اسلام اور مسلمانوں کے وقار کی حفاظت سے بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ جہاں فقہی حصار اسلام کی وسعت کو خود میں محصور کرتا نظر آتا ہے۔مصنف نے اس کے لیے بہشتی زیور اور فتاویٰ رضویہ کے حوالے ایک ساتھ استعمال میں لائے ہیں۔

اس سب کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند کو اس تعذیب گاہ سے نکالنے کی تدبیر کیا ہے، جس کا - شاز کے بقول- عام طور پر مسلمانوں کو احساس تک نہیں ہے؟مگر حیرت یہ ہے کہ اس سوال کے واضح جواب سے خود یہ کتاب بھی خالی ہے، اگرچہ مصنف نے جابجا جواب دینے کی کوشش کی ہے، لیکن ان کا جواب کوئی واضح عملی خطہ پیش کرنے کے بجائے اقلیدس کا خیالی نقطہ اور معشوق کی موہوم سی کمر بن کر رہ گیا ہے، جس پر ہونے والی دقیق اور نکتہ سنج گفتگو کانوں کو تو بھلی معلوم ہوتی ہے، لیکن پرشکوہ الفاظ کے پیچ و خم میں اصل منظر اسکرین سے غائب ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ مر مر کے جی رہے ہندوستانی مسلمانوں کی اس ہیبت ناک داستان کے دوسرے حصہ ’ولایحییٰ‘ میں اس سوال کا کوئی واضح جواب مل سکے۔

ایک دوسرا سوال- یا قاری کی خلش- یہ بھی ہے کہ ایک طرف مصنف ہندوستانی علما کو حلف الفضول کے حوالے سے روکتے ہیں، ان کے بقول یہ قبل نبوت کا وقوعہ ہے اور ہمیں پیغمبرانہ خطوط پر اپنا مشن استوار کرنا چاہیے، دوسری طرف وہ اسلام کی انسانی عظمت کی باز آباد کاری بھی چاہتے ہیں۔ یہاں ضمناً اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ اس متکلمانہ بحث سے قطع نظر کہ حضور نبی کریم ﷺ ۴۰؍ سال کی عمر میں نبی ہوئے، یا اعلان نبوت فرمایا، ایک اہم بات یہ ہے کہ جس حلف الفضول کو راشد شاز آج ناقابل عمل سمجھتے ہیں، پیغمبر اپنی مدنی زندگی میں اس کی آمد ثانی کی آرزو کیا کرتے تھے اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ جس چالیس سالہ زندگی کو حیات قبل نبوت کہہ کر محترم شاز ناقابل التفات سمجھتے ہیں، قرآن نے اسی زندگی کو دعویٔ نبوت کا برہان قرار دیا ہے۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے: فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ(یونس: ۱۶) میں نے اس سے قبل بھی تمہارے بیچ ایک لمبی زندگی گزاری ہے، تم اس میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اور یہ بات تبصرہ نگار کے لیے تو بہرکیف معمہ ہی ہے کہ جس انقلاب میں اسلام کے فلسفۂ انسانیت کو نمایاں کرنا ضروری ہے، اس سے حلف الفضول جیسے انتہائی انسانیت نواز واقعات کا اخراج ضروری کیوں ہے؟

یہ معمہ بھی اپنا حل چاہتا ہے کہ شاز صاحب ایک طرف سیکولر سیاست کو تسلیم کرنے پر پھبتیاں کستے ہیں اور دوسری طرف مشرق و مغرب کے انسانیت نوازوں کے ساتھ بیٹھ کر عالمی شہریت کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ موصوف نے ان مسلم قائدین کی- بجا طور پر- شدید مذمت کی ہے، جو اپنی شعلہ افشانیوں سے ہندو مسلم منافرت کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے بعد پھر سیکولر سیاست کا استہزا چہ معنیٰ دارد؟ اگر یہ نیک کام شاز صاحب ببانگ دہل فرمائیں تو کیا اس سے ہندو مسلم وحدت کی فضا ہموار ہو گی؟ پھر یہ کہ اس ہمواری کی بھلا اسے کیا ضرورت پڑ سکتی ہے جو ہندوستان میں سیکولر سیاست کو مسلمانوں کے لیے ناقابل تسلیم سمجھتا ہے؟

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کا طائر فکر فضائے بسیط میں پرواز کرتے ہوئے کہیں یکبارگی معلق ہو جاتا ہے، ان کا اشہب خامہ سر پٹ دوڑتے ہوئے کسی موڑ پر اچانک ٹھہر جاتا ہے اور ان کے اندر کا خطیب شعلہ بار اپنی گرج دار اور کاٹ دار خطابت کے دوران کبھی کبھی ایک دم سے خاموش ہو جاتا ہے، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتے ہوں، مگر الفاظ ان کا ساتھ دینے سے قاصر ہوں، یا شاید کوئی غیرمحسوس خوف ہے جو انہیں اندر سے کھلنے نہیں دے رہا ہے۔ طالبانی اور اخوانی روابط کو جس جرأت کے ساتھ انہوں نے قلم بند کیا ہے، اس کی داد نہ دنیا حق تلفی ہو گی، لیکن مجھ جیسا مصلحت کوش- جس کے لیے ممکن ہے کہ شاز کی ڈکشنری میں بزدل کا لفظ زیادہ موزوں ہو- اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں ان کا یہ اظہار حق خدانخواستہ مستقبل میں کبھی ان کا اقبال جرم بن کر ان کے پاؤں کی زنجیر نہ بن جائے۔

مصنف اپنے گرد و پیش کی متصوفانہ روایات پر جی کھول کر صلوات پڑھتے ہیں،- ممکن ہے اس کا محرک ان کے فکری پس منظر کے علاوہ متصوفین زمانہ کی حالت زار بھی ہو- مگر اسی کے ساتھ ان کی زندگی میں تلاوت، عبادت، اعتکاف، مناجات، مراقبات، اوراد و وظائف ، زاہدانہ سادگی اور اپنے خدا سے بےتابانہ مناجات اور شکایات کا بھی انبار ہے۔ خوابوں کی بارات کا عالم یہ ہے کہ سخت نازک لمحات میں بعد وفات بھی والد گرامی کی طرف سے دست گیری کا سلسلہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔ شاز صاحب نے اس کا ذکر بڑے شوکت و افتخار سے فرمایا ہے۔

راشد شاز صاحب اسلوب مصنف ہیں۔ الفاظ، محاورات اور امثال پر غیر معمولی قدرت ہے۔ نئی نئی اور دل چسپ و بامعنی تشبیہات و استعارات خود ہی تراشتے جاتے ہیں۔ بعض لفظیات و تعبیرات تو ایسی برمحل اور بامعنی ہوتی ہیں کہ قاری بےساختہ ’واہ‘ کہے بغیر نہیں رہ پاتا۔ مولانا علی میاں ندوی جیسےصلح کل افراد، جو کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے، ان کے لیے مصنف نے لکھا ہے کہ یہ گول کونے کے لوگ ہیں، یہ کبھی چوکور نہیں ہوتے، یا یہ کہ ان کی پیٹھ میں ریڑھ کی ہڈی ہی نہیں ہوتی، اس لیے وہ ہر جگہ سے بے ضرر اور بہ آسانی مڑ جاتے ہیں، نتیجے میں نہ ان کا کوئی موقف ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا وزن، جو ارباب حکومت کے روبرو ملی مسائل کے حل میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔

زبان و بیان پر اس قدرت کے باوجود جگہ جگہ ’بولا‘، ’بولے‘، ’اہل یہود‘ اور اس قسم کی تعبیرات پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے لکھنوی کباب کھاتے ہوئے اچانک منہ میں ہڈی آ گئی ہو، یا جیسے ملیح آبادی آم کھاتے ہوئے یک بارگی حاجی پوری کیلے پر پیر پھسل گئے ہوں۔

کتاب دسمبر ۲۰۲۱ء میں موصول ہوئی تھی، مگر اپنی مصروفیات اور کتاب کے حزنیہ پلاٹ کے سبب جرعہ جرعہ پیتے ہوئے آج مکمل ہوئی ہے ۔کتاب ۴۲۸؍ صفحات اور ۵۴؍عنوانات پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر عنوان/ مضمون ڈرامے کا ایک مستقل ایپی سوڈ معلوم ہوتا ہے۔ ہر ایپی سوڈ کے اختتام پر ایک ہلا مارتی خاموشی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور دیر تک اسے اسلامیان ہند کے غم میں نڈھال رکھتی ہے۔ کتاب میں لطف و مزاح کی باتیں بھی ہیں، مگر ایسے ہی جیسے آٹے میں نمک۔ آخر میں اشخاص اور مقامات کے اشاریے نے استفادے کو آسان کر دیا ہے۔طباعت و اشاعت شاز کی سابقہ کتابوں ہی کی طرح ہے۔

اس حسین ادبی، تاریخی، ثقافتی اور ملی المیہ کی تصنیف پر ہم مصنف کو مبارک باد پیش کرتے ہیں!

تحریر:۲۹؍ جون ۲۰۲۲ء

-----------------

(۱) ’کاپو‘ ان یہودیوں کو کہا جاتا جو جرمنی کی تعذیب گاہوں میں اپنے یہودی بھائیوں سے مار مار کر کام کراتےاور انہیں درست رکھتے اور اس کے بدلے جرمن انہیں نسبتاً اچھا کھانا اور اسپیشل ٹوایلٹ کے استعمال کی اجازت دیتے۔ شاز نے یہ اصطلاح وہاں سے مستعار لے کر ان مولویوں کے لیے استعمال کی ہے جو آزاد ہندوستان میں حکومت وقت سے معمولی ذاتی منافع کے عوض اپنی ملت کا سودا کرتے رہے ہیں۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/review-rashid-shaz-autobiography-layamoot/d/127404

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..