ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
24جنوری، 2025
زندگی نشیب وفراز سے گزرنے کانام ہے۔ یہ وہ گلاب ہے جو کانٹوں کے ساتھ کھلتاہے مگر چمن میں اپنی خوبروئی،خوبصورتی، خوشنمائی اور خوشبو کے حوالے سے بے مثال رہتاہے۔ دنیا کی رونقیں،چمک دمک، ظاہری عروج وزوال،پستی وپسپائی ہرگز وہ پیمانے نہیں جن سے صحیح العقیدہ فرد، اکائی یا کسی وحدت کے بارے میں قطعی رائے قائم کرلی جائے۔ ہر کیفیت کو مشیت ربی کے تناظر میں جب آپ دیکھیں گے تو اطمینان قلب و روح سے منور ہوں گے اور جب دنیاوی زاویوں سے نتائج اخذ کریں گے تو پشیمان،پریشان اور پسماندگی کے احساسات آپ کو نفسیاتی دلدل میں دھکیل دیں گے۔
یاد رکھیں ماضی میں حال کے حوالے سے کچھ سبق ہوتے ہیں۔ مہذب معاشرے ان کو پڑھ کر سیکھتے ہیں اور اسے درست کرنے میں جٹ جاتے ہیں۔ غلطیوں کے تدارک پر غور وفکر کرتے ہیں اور ایسا آگے نہ ہو اس کو یقینی بنانے کی تگ ودو میں لگ جاتے ہیں۔ حال ماضی کی کوکھ سے جنم لیتاہے کل کی کڑی مستقبل کی لڑی کا اٹوٹ حصہ ہوتی ہے۔ اس میں مواقع ہوتے ہیں، فیصلوں اوران کی عمل آوری کی زمین ہوتی ہے۔ انتھک محنت، جذبہ ایثار وقربانی، مقصد پر نظر اس طرح ٹک جاتی ہے کہ کرشمے وجود پاجاتے ہیں۔ اب ناممکن بن جاتاہے اور دوست تو دوست مخالفین بھی آپ کی کارکردگی سے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔آپ دوسروں کے لئے معیار قرار پاجاتے ہیں، نمونہ تقلید واتباع کی زمین بن کر سامنے آتے ہیں، آپ کے اندر کی خود اعتمادی آسمان چھوتی ہے، احساس ندامت وکراہت آپ سے دور چلے جاتے ہیں اور بالآخر ایک تابناک مستقبل کی نوید نظر آنے لگتی ہے۔ مستقبل میں جہاں خدشات وخطرات ہوتے ہیں وہیں امکانات کا بھی ایک جم غفیر رہتاہے۔ چیلنج ایک مثبت اشاریہ ہے۔ اکثر لوگ اسے منفی رجحان کے طور پر لیتے ہیں۔ یہ ترقی یافتہ ذہن کی غذا او رکاروبار زندگی کوبلند ترین سطح تک لے جانے کی آرزو رکھنے والو ں کے لیے ایک ایسا موقع بن کر سامنے آتے ہیں جس سے سرفراز ہوکر دنیا ومافیہا اس سے سیراب بھی ہوتے ہیں اور فیضیاب بھی۔
دقیانوس تنقید، تنقیص اور تکرار میں اپنی صلاحیت ضائع کرتا ہے۔روشن خیال حکمت عملی میں جٹ جاتا ہے اور ترقی پسند اپنے شب وروز کو سنوارنے، سدھارنے اور استوار کرنے میں اس قدر منہک ہوجاتاہے کہ جنون اسے اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔قوموں، نسلوں، ملکوں، معاشروں، اداروں، افراد سب پر ہی یہ اصول لاگو ہوتاہے۔اخلاقیات کا بھی انسان اور انسانیت نوازی، دادرسی،بقائے باہم کو جہتوں کو مضبوط اور مربوط کرنے، قیادت کے کردار میں آنے یا تقلید ہی کو مقدر بنانے، امام اور امامت کو اپنا شعار بنانے یا پھر کیڑے مکوڑوں کی طرح دوسروں کے رحم وکرم، کسی خاص کی نظرکرم پر اس طبقے کا پورا وجود ہی کہیں گروی ہوجاتاہے۔ اس کی شاخت اور شناخت دونوں مسخ ہوجاتی ہیں۔ ترجیحات آپ کی اپنی ہوتی ہیں۔
اسلام جس سے الحمداللہ میرا اور آپ کا دینی، روحانی اوروالہانہ رشتہ ہے، وہ ایمان کے بعد اخلاقیات کو سب سے پہلی فوقیت دیتاہے۔ تقویٰ رب جلیل کی ایک مسلم ومومن سے وہ پہلی امید ہے جو دین ودنیا دونوں میں سرخ روئی کی ضامن ہے۔ اس حقیقت کو بھی مت بھولیے کہ دنیاوی ومال ومتاع،مادی ترقی، سائنسی وتخلیقی کمالات میں کسی مخصوص وحدت یا چنداکائیوں کی اجارے داری، ظلم وجبر، تشدد اور شدت پسندی پر کسی کی بالادستی مجھے اورآپ کواس گمان میں مبتلا نہ کردے کہ آپ پسپا ہیں۔
کائنات کا خالق ومالک اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ ہر شئے او رہرکیفیت اس کی مصلحت، حکمت اوررضاکے تابع ہے۔ دنیا میں قیام کی مدت محدود اور آخرت میں حد اور حدود سے ماوراہے۔ اب پہلے یہ بات ذہن میں صاف کریں کہ نصرت کا تعلق اور اس کے تمام زاویے اس مادی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں، نعوذ باللہ زندگی یہیں سے شروع ہوکر یہیں تمام ہوجاتی ہے اور بس اس کے آگے کچھ نہیں۔ عقیدہ اسلام کے مطابق جس پر میری او رآپ کی جان، مال، اولاد، عزت وآبرو، آن، بان، شان سب قربان،آخرت میں سرخ روئی میری منزل نہ کہ یہ پرفریب دنیا۔ لہٰذا کوئی بھی دنیاوی کیفیت چاہے وہ کتنی ہی پسپائی کی بظاہر حامل نہ ہو، وہ آپ کو مایوسی میں مبتلا نہ کردے۔ یادر کھیں شکست میں فتح پوشیدہ ہوسکتی ہے اور فتح میں شکست بھی۔ اگرایمان اس درجے کاہے تو فاتح، فتح کے بعد بھی خوف وہراس اورابہام کی کیفیت سے باہر نہیں آتا۔ نہ سرزنشوں سے باز رہتا ہے او رنہ ہی سازشوں کے جال بننے سے بلکہ منافقت،چھل، فریب جس کا نام سفارت کاری ہے اس کے داؤ پیچ سے کھیلتا ہے۔1491 میں اسپین جو علم کا مسلم عالمی حیثیت کا گہوارہ تھا۔ جس کی علمیت اور تحقیق پر مستقبل کے یورپ کی بنیاد پڑی،اس کا زوال ہوا۔ یہ عرب او رمسلمانوں کی بالادستی کا دورتھا۔ اس کے بعد 600برس ترکوں یعنی عثمانیوں کا دنیا کے ایک بڑے حصے پراقتدار رہا جو عملاً پہلی جنگ عظیم میں شکست کے ساتھ ختم ہوا۔ بس دنیا میں چند ہی مسلم ممالک رہ گئے،مگر قیام پاکستان جس سے ہمارے اپنی قومی اختلافات ہیں اور درست ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے بعد اسلام کے نام سے پہلی سب سے بڑی مسلم ریاست وجود میں آئی اور 70کی دہائی تک بیشتر مسلم ممالک وجود میں آگئے۔ آج 57 مسلم ممالک ہیں جن کی مشترکہ جی ڈی پی 27فیصد ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک میں انکاشمار ہے۔ دنیا کی 20 عظیم معیشتوں میں سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ تمام کمزوریوں کے باوجود ساری طاقت آج بھی اسلام، مسلمان اورمسلم ممالک پر لگی ہوئی ہے۔ افغانستان جیسا پسماندہ ملک اپنے عز م اور عقیدے کی بدولت دومرتبہ موجودہ عالمی قوتوں کو پسپاہونے او رمیدان چھوڑکربھاگنے پر مجبور کردیتاہے۔فلسطین کی پامرد قوم وحشیانہ ظلم وسمگی شکار ہوئی مگر پسپانہ ہوئی۔ ظاہری پستی میں بھی الحمداللہ عروج کی کرنیں اور شعائیں موجود ہیں۔
وطن عزیز ہندوستان میں ساری سیاست کا محور مسلمان ہے۔ دونوں نظریاتی سیاسی قوتیں ہماری موافقت اور مخالفت سے اپنا اپنا مقام حاصل کر رہی ہیں۔ اس کا ہم اپنے حق میں استعمال نہیں کرپارہے، مانتاہوں پر تبدیلی میں وقت لگتاہے۔ محنت، مشقت، قربانی، ایثار، حس اور حسد سب کو اپنی اپنی جگہ رکھنا ہوتاہے۔گفتگو کم او رکام زیادہ کرناہوتاہے۔آج ہمارے شکستہ دل کو بہت سے واقعات کاسامنا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی مستقل پسپائی نے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ یہ عارضی کیفیت ہے مستقل صورتحال نہیں۔ آج بھی 542 کے ایوان میں 300 ارکان سیکولر نظریے سے تعلق رکھتے ہیں اور 240 دیگر نظریے سے۔دونوں اعداد کے پس پشت کردار آپ کا ہی ہے۔ اسے پہچانئے اور دونوں کو یہ کیسے باور ہوکہ آپ اس سارے عمل کی روح ہیں، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔دشمنی اور مخاصمت سے جو حاصل ہے اس کے بھی کھونے کا اندیشہ ہے جب کہ حکمت اور مصلحت سے ناکامی او رنہ مرادی کو کامیابی او رکامرانی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ فرد ہو یا کوئی بڑی سے بڑی اکائی حوصلہ اصل طاقت ہوتاہے۔ جہاں یہ پسپا ہوا تو اعلیٰ ترین اسلحہ رکھنے والا عزم محکم اورجواں مردی کے پیکر کے آگے زیر ہوجاتاہے۔ حوصلہ مند سپاہی کمزور ہتھیار سے بھی جنگ جیت لیتا ہے۔کوئی وجہ نہیں کہ حالات سے دل برداشتہ یا خوفزدہ ہوا جائے بلکہ ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ جس میں کسی کو چیلنج نہیں دینا، کسی کے لئے خطرہ نہیں بننا، ملک وقوم وملت کے مشترکہ مفاد کے خلاف کرنا تو بہت دو رکی بات، سوچنا بھی نہیں۔تعمیری فکر، مہذب لہجے، خوش کلامی وگفتاری سے ہر اس گو شے سے رابطہ کرناہے جہاں کوئی ایسی غلط فہمی یا بدگمانی پیدا ہوگئی ہے جو حالات کو منافرت کی اس حد تک لے آئی ہے۔ گھروں سے نکل کر پڑوس تک اور اس سے آگے تک چار قدم اٹھانے اور چلنے کی نیت کیجئے۔ساتھ ہی عمل کے میدان میں استدلال، استقلال، اعتدال اور استحکام ان چار ستونوں پر اپنی عمارت تعمیر کرنے کی طرف قدم مل کر بڑھائیں۔ اس جیسا ملک جہاں اتنی تکثیریت کے لئے زمین وجگہ ہو دنیا میں کہیں نہیں۔ محبت اور اخلاق سے اٹھی آوازیں بہت کچھ بدل سکتی ہیں۔ آخر میں اتناہی کہوں گا کہ وہ خود اعتمادی جو آج کہیں ہم نے کھودی ہے اسے تلاش کیجئے۔ یہ ہمارے اندر بدرجہ اتم موجود ہے۔ اپنے نفس اور دماغ پر ذرا زور تو ڈالئے اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔آمین۔
24 جنوری،2025، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی
-------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/retreat-care/d/134430
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism