عمیر کوٹی ندوی
14جنوری، 2025
مذہب سے متعلق تشدد کا جائزہ لینے والے ایک سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں مذہب کے نام پرلوگوں کو ہراساں کرنے، مارپیٹ، دہشت گردی جیسے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ترو ن اگروال 7جنوری کو اے بی پی نیوز پورٹل ’اے بی پی لائیو ڈاٹ کام‘ میں ’مذہبی پابندیوں کے معاملہ میں ہندوستان بھی ٹاپ 25ممالک میں شامل،اعداد وشمار میں ایسا دعویٰ کیوں؟‘ کے عنوان سے تحریر کردہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ یہ ’تشویشناک بات ہے کہ ہندوستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں مذہبی پابندیاں سب سے زیادہ ہیں۔مذہب سے متعلق تشدد کا جائزہ لینے والی ایک تحقیقی رپورٹ نے ہندوستان کے سیکولرزم پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔پیوریسرچ سینٹر کی شائع کردہ اس رپورٹ کے مطابق،مذہب سے متعلق تشدد کے معاملہ میں ہندوستان 198 ممالک میں سرفہرست ہے۔ اس رپورٹ نے ہندوستان میں مذہبی آزادی پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستانی حکومت مذہب سے متعلق معاملات میں بہت زیادہ مداخلت کرتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ’یہ رپورٹ سوشل ہاسٹی لیٹیز انڈیکس (ایس ایچ آئی) کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جو مذہبی ظلم و ستم ہجومی تشدد، دہشت گردی اور رتبدیلی مذہب سے متعلق جھگڑے یا مذہبی علامتوں کے تعلق سے تنازعات کا جائزہ لیتاہے‘۔ مذکورہ رپوٹ کے تنقیدی جائزہ اور سیاست،صحافت اور سماج سے وابستہ متعدد شخصیات کی آراء پر مشتمل مضمون میں درج بالا باتیں سو چنے سمجھنے کے لئے بہت کچھ مواد فراہم کردیتی ہیں۔مضمون نگار نے اپنے مضمون میں مذکورہ رپورٹ پر کانگریس لیڈر راشد علوی کی رائے بھی شامل کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’اس پر کانگریس رہنما راشد علومی نے اے بی پی نیوز کوبتایا کہ ہندوستان کو اس فہرست میں شامل کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ہندوستان میں گزشتہ 10-11 برس سے یہی کام ہورہاہے۔ مساجد کو مسمار کیا جارہاہے، گجرات کے اندر 10مساجد اور ایک 500 سال پرانے قبرستان کو مسمار کردیا گیا۔ مسجد کے نیچے ہر جگہ شیولنگ تلاش کیا جارہا ہے۔سروے ہورہا ہے 500سال پہلے اس مسجد کے نیچے کیا تھا‘۔
راشد علوی مزید کہتے ہیں کہ ’آج دنیا بہت چھوٹی ہوگئی ہے،ایسا نہیں ہوسکتا کہ کہیں ایک جگہ کچھ بات ہو اور وہ دنیا کے دوسرے کونے تک نہ پہنچے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کو لگتاہے کہ اسے مسلم مخالف نظریہ سے فائدہ ہوتا ہے۔ جس بھی طرح سے ہندوستانی مسلمانوں کو تکلیف پہنچے بی جے پی وہی کام کرتی ہے۔ وقف بورڈ، تین طلاق کے خلاف قانون لانا، یکساں سول کوڈ کابھی یہی مقصد ہے، جب کہ قانون یہ کہتاہے کہ مندرمسجد کی حیثیت 1947 جیسی ہی رہے گی، اس کے باوجود عدالتیں اس قانون کے خلاف حکم دے رہی ہے۔ الہٰ آباد ہائی کورٹ کے جج نے ”کٹھملاّ“ کوغدار بتادیا، بنگال ہائی کورٹ کے ایک جج نے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی، سنبھل کی ضلع عدالت کے جج نے دوگھنٹے میں فیصلہ سنایا۔ یہ خبریں پوری دنیا کو پتاہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ان 25 ممالک میں شامل ہوگیا جہاں مذہبی پابندیاں سب سے زیادہ ہیں۔ ہندوستان کا قانون مذہبی پابندیوں کی بالکل اجازت نہیں دیتاہے لیکن ہندوستان میں اس قانون کامذاق اڑایا جارہاہے۔ اگر ہائی کورٹ کا جج یہ بات کرے گا کہ یہ ملک اکثریت کے جذبات کے مطابق چلے گا تو آئین تو ختم ہوگیا، قانون رہہی نہیں گیا۔ یہ بات کہنے والا ہائی کورٹ کا جج ہے او رکل بھی رہے گا، وہ اپنی مرضی سے فیصلے کرے گا۔ ایک وزیراعلیٰ کہہ رہاہے کہ میں گرمی نکال دونگا، مٹی میں ملا دونگا۔۔۔ یہ آئین کے مطابق نہیں ہے۔ بہار کا مرکزی وزیر کہہ رہاہے کہ مسلمانوں کی دوکانوں سے کوئی چیز نہ خریدی جائے۔ اگر ہندوستان میں آپ آئین کے خلاف کام کریں گے تو آپ وزیر بھی رہیں گے، وزیراعلیٰ بھی رہیں گے،ہائی کورٹ کے جج بھی رہیں گے تو قانون تو مذاق بن کر رہ گیاہے‘۔
مذکورہ رپورٹ سے چند ماہ قبل ملک میں مذہبی آزادی کے موضوع سے متعلق ایک اور رپورٹ زیر بحث آئی تھی، وزارت خارجہ کے ترجمان اندھیر جیسوال نے 2023 کے لئے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’انتہائی متعصبانہ‘ قرار دیا تھا۔ دراصل گزشتہ برس 26جون کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے اقلیتی گروہوں کے مذہبی حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کیلئے کئی ممالک کی طرف اشارہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ’ہندستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد ہورہاہے۔ ہندوستان میں ہم اقلیتی مذہبی طبقوں کے لیے تبدیلی مذہب مخالف قوانین، نفرت انگیززبان، گھروں اورعبادت گاہوں کو مسمار کرنے میں تشویشناک اضافہ دیکھتے ہیں‘۔ 69 صفحات پرمشتمل اس رپورٹ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اکثریتی طبقوں کے مابین واضح ربط اور یکساں سول کوڈ (یوسی سی) کے لیے مہم کے ساتھ ہندوستان میں ’ہندوراشٹر‘ بنا نے کی مہم جیسے کئی عوامل کی نشاندہی کی گئی تھی۔
اسی طرح انگلش روزنامہ دی ہندو نے 27فروری 2024 کو ’بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں نفرت انگیز تقریر کے 75 فیصد واقعات: رپورٹ ’میں لکھا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک گروپ ’انڈیا ہیٹ لیب‘ جو ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی تفصیلات جمع کرتا ہے، اسی کی طرف سے جاری کردہ رپور ٹ کے مطابق 2023 میں ہندوستان میں باضابطہ دستاویزی طور پر 668 نفرت انگیز تقاریر کے واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں مسلمانوں کونشانہ بنایا گیا،’ہیٹ اسپیچ ایونٹس ان انڈیا‘ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 کے پہلے نصف میں 255 واقعات ہوئے اور سال کی دوسری ششماہی میں 62فیصد اضافہ کے ساتھ یہ تعداد بڑھ کر 413 ہوگئی،۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ء36 فیصد (239) واقعات میں مسلمانوں کے خلاف برا ہ راست تشدد کی کال شامل تھی جب کہ تقریباً 25فیصد (169) میں ایسی تقاریر شامل تھیں جن میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کامطالبہ کیا گیا تھا‘۔
مذکورہ بالا تمام رپورٹوں کا مختلف حلقوں میں جائزہ لیا گیا، تجزیہ یہ کیا گیا، ان پرکلام بھی کیا گیا ہے۔ ان رپورٹوں پر کلام کی تمام گنجائشوں کے باوجود ان میں کچھ باتیں قدر مشترک ہیں جومعاملہ کی سنگینی کو بیان کرتی ہیں۔ ان میں مذہب کے نام پرلوگوں کو ہراساں کرنے،مارپیٹ کرنے،مذہب سے متعلق تشدد کے روز افزوں معاملوں پر بات کی گئی ہے۔اس سے یقینی طور پر ملک کے شہریوں کو حاصل مذہبی آزادی پر کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ ان سب کے باوجود مذکورہ بالا مضمون میں نقل کی گئی راشد علوی کی یہ بات لائق توجہ ہے کہ ’ہندوستان ہندومسلم محبت کیلئے جانا جاتاہے۔ موجودہ صورت حال کچھ عرصہ کے لیے ہے، یہ صورت حال ہمیشہ رہنے والی نہیں۔ اس ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کچھ عرصہ کے لیے غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے، لیکن یہ ہمیشہ کے لیے نہیں رہے گی‘۔ یقینا ہماراملک اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب چہار عالم میں مشہور ہے اور اس سے پھوٹنے والی خوشبو فرحت وراحت کا سامان فراہم کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھونیشور میں منعقدہ پرواسی بھارتیہ دیوس کانفرنس میں ’ناری شکتی‘ پر خطاب کے دوران اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ’ہماراملک ایک جدید، صنعت وٹیکنالوجی پر مبنی معاشرہ بننے کی راہ گامزن ہے۔ جنوبی ممالک کے ساتھ ہم بہت زیادہ ترقیاتی تعاون کرتے ہیں، ہم 78 ممالک میں مختلف طریقوں سے منصوبوں اور صلاحیت سازی کے ذریعہ موجود ہیں‘۔ ایسے میں ملک کے ہر شہری کے لئے ہر قیمت پر اپنی شناخت یہاں سے پھوٹنے والی خوشبو کی حفاظت کرنا اور اس تعلق سے اپناکردار ادا کرنا لازمی ہوجاتاہے۔
14 جنوری،2025، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/restrictions-religious-freedom-question/d/134355
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism