معصوم مراد آبادی
28 نومبر،2024
سنبھل کی پانچ سو سالہ قدیم جامع مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے گ زشتہ ہفتہ جو کھیل کھیلا گیا وہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک تھا۔ ایک طرف ہم ملک میں آئین کی 75/ویں سالگرہ منارہے تھے اور دوسری طرف سنبھل میں آئین کی روح کا خون ہورہا تھا۔ملک کا وہ سیکولر جمہوری آئین جو ہر شہری کو یکساں انصاف اور مساوات فراہم کرنے کا گارنٹی دیتا ہے، جب اس کے نفاذ کی قسمیں کھانے والے ہی آئینی روایات کا خون کرنے لگیں تو پھر اس ملک میں کچھ بھی محفوظ نہیں۔ سنبھل کی جامع مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے بھی وہی سب کچھ کیا گیا جو اس سے پہلے بنارس کی گیان واپی مسجد میں کیا گیا تھا۔جس طرح بنارس میں ذیلی عدالت نے آناً فاناً گیان واپی مسجد کے سروے کے نام پر اس کے حوض میں نام نہاد شیولنگ تلاش کرکے پوری مسجد کو متنازعہ بنادیا تھا،ٹھیک وہی سازش سنبھل کی جامع مسجد میں رچی جارہی تھی۔ یہاں بھی سروے کے دوران حوض خالی کرنیکے لئے کہا گیا تھا۔ انتظامیہ کی بدنیتی بھانپ کر جب مسلمانوں نے مزاحمت کی تو انہیں اس کا جواب گولیوں سے دیا گیا اور پانچ بے گناہ مسلم نوجوان شہید ہوئے۔ یہ دراصل اپنی عبادت گاہ کے تقدس کے لیے دی جانے والی ایسی قربانی ہے، جس کے دیر پا اثر ات مرتب ہوں گے۔بلاشبہ اگر سنبھل کے مسلمان مزاحمت نہ کرتے تو اب تک ان کی جامع مسجد کے حوض میں ایک عدد شیولنگ تلاش کرکے عدالت اسے سیل کردیتی۔ پھر وہاں کے مسلمان برسوں عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے اور وہاں سے انہیں ایسا ہی انصاف ملتا جو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج نے رام چندرجی کی مورتی سامنے رکھ کر ایودھیا معاملے میں کیا تھا۔ سنبھل کی جامع مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی کوششوں کے خلاف مسلمانوں کی دلیل ہے کہ جب ملک میں عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون موجو د ہے تو پھر روزانہ ایک مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے کی سازشیں کیوں رچی جارہی ہیں۔ اس کا کریڈٹ بھی سبکدوش چیف جسٹس چندر چوڑ کو جاتاہے جنہوں نے عبادت گاہوں تحفظ سے متعلق قانون پر دوٹوک فیصلہ دینے کی بجائے یہ کہا تھا کہ اس قانون میں کسی عبادت گاہ کی اصل پوزیشن کا سروے کرنے پر کوئی روک نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب1991 ء میں یہ قانون پاس ہوچکاہے کہ آزادی کے وقت یعنی 1947 میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رکھی جائے گی تو پھر ذیلی عدالتیں اس پر عمل کیو ں نہیں کررہی ہیں۔
سنبھل امن پسند لوگوں کی ایک روایتی بستی ہے جہاں ہندومسلمان مل کر رہتے چلے آرہے ہیں، لیکن اب وہاں عداوت اور دشمنی کے ایسے بیج بودیئے گئے ہیں، جن کی فصلیں آئندہ دنوں میں ووٹوں کی شکل میں لہلائیں گی۔ ذرا غور کیجئے کہ 19 /نومبر کو سول جج (سینئر ڈویژن) آدتیہ سنگھ کی عدالت میں صبح گیارہ بجے ایک مقدمہ دائر ہوتاہے۔ دوپہر ایک بجے سماعت ہوتی ہے اورشام چار بجے کورٹ کمشنر کا تقرر ہوجاتاہے۔ شام 6بجے کورٹ کمشنر کی سربراہی میں سروے ٹیم جامع مسجد پہنچ جاتی ہے۔شام ساڑھے سات بجے سروے کا کام مکمل ہوجاتاہے۔مسجد کے نمازی اور انتظامیہ کمیٹی عدالت کے حکم کا احترام کرتے ہوئے کوئی مزاحمت نہیں کرتی۔ اتوار 24/نومبر کی صبح سات بجے جب کہ نمازی فجر اور اشراق سے فارغ ہورہے تھے تو سروے ٹیم دوبارہ وہاں پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ صرف سروے ٹیم وہاں نہیں پہنچتی بلکہ اس کے ساتھ شرپسندوں کا ایک ہجوم ہے جو ’جے شری رام‘ کے نعرے لگارہا ہے۔ سروے ٹیم کی پیش قدمی کی ویڈیو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ یہ سروے کرنے نہیں بلکہ مسجد کو فتح کرکے وہاں ہری ہرمند ر بنانے کے لیے آئے تھے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ پولیس جو احتجاجی مسلمانو ں پر گولیاں چلاتی ہے، وہ سروے ٹیم کے ساتھ چل رہے شرپسندوں کو پورا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ عزائم پورے کرنے کی تھی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ جن پانچ مسلم نوجوانوں کی موت ہوئی ہے، ان کے جسم میں دیسی کٹوں سے چلائی گئی گولیاں ملی ہیں۔ جب کہ ایسی ویڈیوز موجود ہیں۔،جن میں پولیس فائرنگ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جن پانچ مسلم نوجوانوں کی موت واقع ہوئی ہے، ان میں سے تین کے سینوں میں گولیاں لگی ہیں اور یہ کام پولیس کے علاوہ کسی او رکا نہیں ہے۔ سنبھل کی جامع مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر ظفر علی ایڈوکیٹ نے اتوار کے تشدد کے لیے پولیس اور انتظامیہ کو مورد الزام قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے پولیس کو گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا اور چار گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد چھوڑا۔ظفر علی ایڈوکیٹ کا کہناہے کہ ’اتوار صبح جو سروے ٹیم مسجد پہنچی تھی اس نے حوض خالی کرانے کے لیے کہا تھا، جس کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ جب لوگوں کو پتہ چلا کہ حوض خالی کرایا جارہاہے تو انہیں ایسا محسوس ہواکہ سروے کے ساتھ مسجد کی کھدائی ہورہی ہے۔ اسی وجہ سے ماحول خراب ہوا۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر سنبھل میں حالات کو خراب کرنے اور پانچ مسلم نوجوانوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سوال کاایک ہی جواب ہے کہ سنبھل کا سانحہ پوری طرح پولیس کی جانبداری، تعصب اور مسلم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پولیس نے بے قصوروں کے سینوں پر گولیاں چلائیں اور جب وہ اس معاملے میں پھنستی ہوئی نظر آئی تو کہا گیا کہ جن نوجوانوں کی موت ہوئی ہے ان کے جسم سے دیسی طمنچوں سے چلائی گئی گولیاں ملی ہیں۔ اس پراتر پردیش اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ماتا پرساد پانڈے نے کہا کہ ’پولیس سرکاری بندوقوں سے گولیاں چلاتی ہے، یہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔ بہت سے پولیس اہل کار پرائیویٹ ہتھیار رکھتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ سرکاری بندوق سے گولی چلائیں گے تو سرکار ی مجرم بن جائیں گے۔ سب کومعلوم ہے کہ تھانے میں ہر قسم کے اسلحہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ لڑکے ایک دوسرے کی گولی سے مارے گئے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ اپنے بچاؤ کے لیے پولیس اس طرح کے بیان دے رہی ہے۔
پولیس کے بچاؤ میں سب سے شرمناک بیان یوگی کابینہ کے وزیر نتن اگروال کا آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’سنبھل کا تشدد ترک برادری او رپٹھانوں کی چپلقش کا نتیجہ ہے۔ ان کا اشارہ دراصل سنبھل میں مرحوم شفیق الرحمن برق(ترک) او رسابق ممبر اسمبلی نوا ب اقبال محمود (پٹھان) کے درمیان جاری سیاسی برتری کی لڑائی کی طرف تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر برق اور نواب اقبال محمود کے درمیان سیاسی اختلافات پرانے ہیں، لیکن یہ لڑائی ہمیشہ سیاسی ہی رہی اور کبھی کسی نے ایک دوسرے کی نکسیر تک نہیں پھوڑی۔ اس موقع پر ترک بنام پٹھانوں کی محاذ آرائی کو درمیان میں لانا ایک شرمناک حرکت ہے جس کی جنتی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ یہ دراصل پولیس کو کلین چٹ دینے کی ناکام کوشش ہے۔ سنبھل کے واقعہ میں پولیس اور انتظامیہ کا کردار انتہائی مشکوک ہے اور اس کی اصلیت اسی وقت بے نقاب ہوگی جب ا س معاملے کی غیر جانبدارانہ عدالتی تحقیقات ہوگی، لیکن یوگی سرکار میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ جن لوگوں نے سنبھل کی جامع مسجد کے خلاف عدالت میں عرضی داخل کی تھی، ان میں یوپی سرکار کا ایک اسٹینڈنگ کونسل بھی شامل تھا، جو حکومت سے ماہانہ 18/ ہزار روپے کی تنخواہ لیتاہے۔ یہی وہ سچائی ہے جو سنبھل فساد میں سرکاری مشنری کی شمولیت کا پردہ چاک کرتی ہے۔
28 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/responsible-death-innocent-sambhal/d/133854
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism