ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
28 مئی 2025
ایک صحت مند اور مہذب سماج کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس میں رہنے والے افراد کے اندر برداشت و انگیز کا داعیہ پایا جائے ۔ جب ہم برداشت اور تحمل سے کام لیتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ امن اور یگانگت و اتحاد کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔ برداشت کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ سماج میں جتنے بھی نظریات اور عقائد و تصورات ہیں ان تمام کا احترام کیا جائے ، دوسرے مذاہب کے متبعین کی رسومات یا ان کے مذہبی شعار کے ساتھ کسی کو بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے۔ آج کتنے مسائل صرف اس لیے جنم لے رہے ہیں کہ ہم اپنے سوا دوسرے نظریات اور دیگر مذاہب و ادیان کی باتوں کو برداشت کرنے کے عادی نہیں ہیں ۔ دیگر ادیان تو بہت دور کی بات ہے، خود ہمارے درمیان مسالک کے نام پر جو چیزیں پائی جاتی ہیں ہم ان کو بھی برداشت نہیں کر پاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلک نے اپنے اپنے مسلک کی تعریف و توصیف اور خوبیوں کو ظاہر و باہر کرنے کے لیے ادب و لٹریچر کا سہارا لیا ہے۔ اور دوسرے مسالک کی خامیاں بیان کی ہیں جس کی وجہ سے مسلکی تشدد اور عدم برداشت کا مظاہرہ آئے دن دیکھنے کو ملتا رہتا ہے ۔ اسی کے ساتھ ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے مذہب و فکر اور دین و دھرم کی بالادستی کی خاطر دوسرے مذاہب کی خوبیاں اور ان میں پائی جانے والی اچھائیوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اس وجہ سے بھی سماج میں مذاہب کے نام پر قومیں اور معاشرے باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں ۔ امن سے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کریں ۔ آج برادران وطن کا ایک طبقہ عدم برداشت سے لت پت نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے مذہب کے لوگوں کے علاوہ خصوصا مسلم ، عیسائی اور دلتوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اس کی تصویریں آئے دن سوشل میڈیا پر نظروں سے گزرتی ہیں۔
برادران وطن کے اس طبقہ میں جو جنونی کیفیت مذہب کے نام پر پائی جارہی ہے وہ در اصل اپنے مذہب و دھرم کی بالادستی کے حصول کا نتیجہ ہے ۔
یہ طبقہ جو کچھ بھی متذکرہ طبقات کے ساتھ کررہا ہے وہ ہندوستانی سماج کے لیے تو خطرہ ہے ہی البتہ ان کا یہ رویہ آئین و دستور اور جمہوری نظام کے خلاف بھی ہے ۔ وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس طبقہ نے عدم برداشت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے ۔ گویا یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ عدم برداشت خواہ وہ کسی بھی کمیونٹی کے اندر پائی جائے اس کے نتائج ہمیشہ مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتے ہیں ۔ سماج میں جب بھی عدم برداشت کا مظاہرہ ہوا ہے تو اس کے نتائج غیر اطمینان بخش ثابت ہوئے ہیں ۔
دیگر مذاہب کا احترام اور عدم برداشت کے خاتمہ اور اس کے زور کو ختم کرنے کے لیے ، قوت برداشت کا مادہ پیدا کرنے کی تعلیم و تلقین اسلام نے بڑی زور دے کر کی ہے اگر اسلام کی ان تعلیمات پر عمل ہونے لگے تو اس کا تقاضا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ سماج میں امن و امان اور ایک دوسرے کے نظریات و افکار کو انگیز کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا جو ایک مہذب سماج کے لیے مستحسن اقدام ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ بھی کہ مذہب اسلام نے جس طرح سے دوسروں کے مذاہب اور ان کے نظریات کا احترام کرنے کا درس دیا ہے اس سے ہم کوسوں دور ہیں ۔ جب ہم اپنے مسائل سے دو چار ہوتے ہیں اور کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں اس وقت بھی ہمیں برداشت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ یہ صداقت ہے کہ جب بھی معاشروں نے اس پر عمل کیا ہے تو وہ سماج ہمیشہ سرخ رو رہا ہے ۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اگر کوئی چیز اس سسکتی ہوئی انسانیت کو نجات دلا سکتی ہے تو وہ ہے قوت برداشت اور مذاہب و ادیان کا احترام ۔ تحمل و بردباری ، رواداری کا داعیہ جب مرجاتا جاتا ہے یا سرد پڑ جاتا ہے تو اس کے اثرات سے محفوظ رہ پانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ ملکوں کی جنگوں ، خاندان کے تنازعات اور افکار و نظریات کے جھگڑے یا مذاہب و مسالک کے نام پر پرخاش کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب بہت تیزی سے قوت برداشت کا دامن چھوٹ رہا ہے اور اس کی جگہ جذباتیت و جنونیت و دیگر بری خصلتیں لے رہی ہیں چنانچہ تمام حساس معاشروں کو اس روش پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا ۔
جب جذباتیت اور جنونیت مذہب کے نام پر آتی ہے تو یہ سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں وہ مذہب کے لیے کررہا ہوں ۔ یہ میرے لیے باعث ثواب ہے ۔ اس مذہبی جنونیت اور عدم بردا شت میں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ میرے اس عمل سے سماج کو کتنا نقصان ہوگا ۔ یہ جذبہ اس کے لیے انسانی صفات سے خارج کردیتا ہے ۔ مذہب کے نام پر جذباتیت و جنونیت میں عالمی سطح پر جو حرکتیں ہورہی ہیں اور اس میں جو تیزی آئی ہے یقینی طور پر وہ بہت ہی افسوسناک ہے ۔ احترام مذاہب کا مظاہرہ اور اس کے جملہ تقاضوں پر عمل درآمد سے ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ آج کا نوجوان جو اپنے ملک اور سماج کا مستقبل ہے اس کے اندر وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جن سے وہ وابستہ ہوکر اور اپنی صلاحیتوں کو کام میں لاکر ایسے تعمیری اور مثبت کارنامے انجام دے سکتا ہے جن کو دیکھ کر عش عش کر اٹھیں ۔ مگر اس کو مذہب کے نام کی ایسی گھٹی پلائی ہے جس کی وجہ سے اس نے نہ صرف قوت برداشت کو چھوڑا ہے بلکہ جذباتی ہوکر ایسے کارنامے انجام دے رہا ہے جو اس کو اور پورے سماج کو بدنام کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہاں یہ بات عرض کرنی بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں تعلیم و تربیت کا خاصا فقدان ہے اور نوجوان بے روزگارہیں ان تمام وجوہات کی بنیاد پر وہ عدم برداشت کا شکار ہوکر غیر انسنای حرکتیں انجام دے رہا ہے ۔ اس لیے حکومتوں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے روشن مستقبل اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں نہ کہ انہیں مذہب کے نام پر سڑکوں پر چھوڑ دیا جائے اور وہ تخریبی کارروائیاں کرتے پھریں ۔ اسی کے ساتھ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جب سماج میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجس میں مذہبی جنونیت و جذباتیت کا عنصر غالب ہے تو اسے روکنے کے لیے فوری طور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ مگر افسوس آج ایسا نہیں ہورہا ہے بلکہ سچائی یہ ہے کہ باقاعدہ نوجوانوں کو اسی لیے استعمال کیا جارہاہے کہ وہ ایسے واقعات کو دانستہ طور پر انجام دیں جن میں عدم برداشت اور مذہبی جنونیت کا اظہار ہو ۔ اس سے راست طور پر فرقہ پرست طاقتوں کو فائدہ ہوتا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ اس کے مظاہر ہم آئے دن اپنے سماج میں کثرت سے دیکھ رہے ہیں ۔
عہد حاضر میں جب ہم بھارت کی تصویر دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی وہ سب کچھ ہونے لگا ہے جس سے جمہوری قدریں کمزور پڑ رہی ہیں اور فرقہ پرستی عروج پکڑ رہی ہے ۔ اس کی وجوہات یہی ہیں کہ سماج میں احترام مذاہب کا تو جذبہ ختم ہو رہا ہے البتہ مذہبی جنونیت جس طرح سے دل و دماغ کو مفلس بنا رہی ہے وہ بھارت جیسے تکثیری اور تعدد پسند سماج کے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔ اس پر ان طاقتوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا جن کو بھارت کے آئین اور جمہوری قدروں سے محبت ہے ۔
اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں ان باتوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ جن کے انجام دینے سے سماج میں رواداری اور مشفقانہ برتاؤ کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور یہ ماحول اسی وقت بنے گا جب ہم ایک دوسرے کے نظریات و افکار اور قدروں کو برداشت کریں گے ۔
آخر میں یہ بات کہنا مناسب معلوم ہوتی ہے کہ برداشت اور رواداری کے فروغ کے لیے ہمیں اپنے اپنے مذہب کی بالادستی کے غلبہ سے دست بردار ہونے کی ضرورت ہے ۔ مذہب کی بالادستی کا نظریہ کسی ایک مذہب کے ماننے والوں میں نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کے یہاں یہ نظریہ پایا جاتاہے ۔ یاد رکھیے! یہ ایک ایسا عمل ہے جو فطری طور سماج میں امن کے لیے سد باب ہے ۔ بناء بریں اگر ہم چاہتے ہیں کہ سماج میں رواداری اور مشفقانہ مزاج کی ترویج و اشاعت ہو تو اس کے لیے ہمیں دوسرے مذاہب اور ان میں پائی جانے والی تعلیمات و ارشادات کے احترام کو یقینی بنانا ہوگا تبھی جاکر سماج میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔
آج عدم برداشت کے تناظر میں جہاں جہاں بھی تشدد و تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے اس میں بنیادی کردار مذاہب و ادیان کے عدم احترام کا ہے ۔ مذاہب کے عدم احترام کی وجہ سے سماج میں بد امنی پیدا ہوتی ہے جو ایک ناسور کی شکل میں ابھرتی رہتی ہے ۔ گویا پر امن سماج کی تشکیل کے لیے مذاہب کا احترام ضروری ہے ۔
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/respecte-religions-essential-social-peace/d/135698
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism