New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 04:09 PM

Urdu Section ( 5 Jun 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Respectable Bureaucrat or Suspicious Muslim? باوقار بیورو کریٹ یا مشکوک مسلمان؟

عبدالحلیم منصور

3 جون،2025

کرناٹک کا ضلع گلبرگہ جو اپنی صوفیانہ روایات اور گنگا جمنی تہذیب کی آماجگاہ رہاہے،آج ایک ایسے واقع کامرکز بن گیا جس نے پورے ملک کے سماجی ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ریاست کے پسماندہ مگر تاریخی، تہذیبی، علمی اور روحانی شناخت رکھنے والے ضلع میں خدمات انجام دینے والی ڈپنی کمشنر فوزیہ ترنم کے خلاف ریاستی بی جے پی کے ایک ایم ایل سی کا متنازعہ بیان محض سیاسی شوشہ نہیں،بلکہ ایک ایسے ذہنی رویے کی عکاسی ہے جو مذہب،لباس اور شناخت کی بنیاد پر ایک منتخب، باوقار افسر پر انگلی اٹھائے جانے کی جرأت کرتا ہے۔”کیا وہ پاکستان سے آئی ہیں؟“ یہ سوال نہ صرف بدزبانی کانمونہ ہے بلکہ ایک ایسے تعصب کانمائندہ بھی،جو ہندوستان جیسے جمہوری، کثرت پسند ملک میں خطرناک انداز میں جڑ پکڑ چکاہے۔ یہ سوچ کہ ایک مسلمان خاتون، جو حجاب پہن کر ریاستی خدمات انجام دے رہی ہے، مشکوک ہے، ہمارے جمہوری اور آئینی روح پر کاری ضرب ہے۔

فوزیہ ترنم ان نایاب مسلم خواتین میں سے ہیں جنہوں نے اپنی محنت،قابلیت اوردیانتداری سے یہ عہدہ حاصل کیا۔ ا ن کا تعلق ایک ایسی اقلیتی برادری سے ہے جہاں تعلیم یافتہ خواتین کی شرح کم ہے، اور سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی بھی محدود۔ ایسے میں ایک حجاب مسلم خاتون کا ڈپٹی کمشنر جیسے اہم عہدے پرفائز ہونا نہ صرف قابل فخر ہے بلکہ ہندوستانی جمہوریت کی کامیابی کی علامت بھی ہے۔جنہوں نے اپنے نظم ونسق،شفاقیت اور اصول پسندی سے نہ صرف بیوروکریسی پر عوام کا اعتماد بحال رکھا، بلکہ اقلیتوں کے اندر بھی ایک احساس تحفظ پیداکیا۔ ان کا حجاب،جوان کی مذہبی وثقافتی شناخت کا مظہر ہے، ان کے خلوص نیت اور محنت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ ان کی انفرادیت کا حسین پہلو ہے۔

لیکن جب ایک ریاستی رکن قانون ساز کونسل یہ کہے کہ ’ان کی وفاداری مشکوک ہے‘ تویہ محض ایک فرد کی توہین نہیں، بلکہ بیوروکریسی کی آزادی، آئینی مساوات، اور خواتین کی عزت نفس پر براہ راست حملہ ہے۔ یہ بیانیہ اس ذہنیت کو بڑھاوا دیتاہے جو مذہب ولباس کی بنیاد پر حب الوطنی کو ناپنے کا رجحان پروان چڑھارہی ہے۔فوزیہ ترنم جیسی افسران نہ صرف اپنی قابلیت سے نظام کو بہتر بناتی ہیں بلکہ وہ اس سسٹم کی وہ علامت ہیں جس پراقلیتوں کا اعتماد قائم ہے۔ ان کے خلاف اٹھائے گئے سوالات گویا اس کوشش کا حصہ ہیں جو اقلیتی خواتین کو قومی دھارے سے الگ تھلگ رکھنے کی دانستہ سازش کی غمازی کرتی ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک بھر میں بیورو کریسی پر سیاسی مداخلت کے الزامات شدید ہوچکے ہیں، ایک عوامی نمائندے کا اس حد تک گرجانا بیوروکریسی کے وقار اور خود مختاری کے لیے ایک خطرناک نظیر قائم کرتاہے۔ تاہم خوش آئند پہلو یہ ہے کہ کرناٹک آئی اے ایس ایسوسی ایشن نے فوری ردِ عمل ظاہرکرتے ہوئے نہ صرف بیان کی شدید مذمت کی،بلکہ قانونی کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ بیان اشتعال انگیز اور افسران کی توہین کے مترادف ہے۔ ایسوایشن کے اراکین نے ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ سے بھی ملاقات کرکے اس واقعے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ اسی طرح ’کے اے ایس‘ افسران کی تنظیم نے بھی قانون ساز کونسل کے چیف وہپ کے ذریعے خاتون افسر کے خلاف دیے گئے ریمارک کی شدید مذمت کی ہے۔ یہ شاید پہلا موقع ہے جب کسی مسلم، با حجاب خاتون افسر کے خلاف بیان پر ادارہ جاتی سطح پر اتنی مضبوط او ربروقت مذمت سامنے آئی ہے۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ہندوستان میں آئینی شعور مکمل طور پر مٹا نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتوں نے اس احساس معاملے پر خاموشی اختیار کی۔ بی جے پی نے تو اس بیان سے خود کو علیحدہ کیا اورنہ ہی متعلقہ ایم ایل سی کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ کانگریس، جو ریاست کی حکمراں جماعت ہے،طویل خاموشی کے بعد محض رسمی بیانات تک محدود رہی، جو ظاہر کرتاہے کہ اصولی موقف کی جگہ اب سیاسی مصلحتوں نے لے لی ہے۔ یہ معاملہ اس عمومی رویے کو بھی نمایاں کرتاہے جس میں اقلیتی خواتین خصوصاً با حجاب اور تعلیم یافتہ خواتین کو ان کی شناخت کی بنیاد پرنشانہ بنایا جاتاہے۔ایک اعلیٰ افسر کی حب الوطنی، دیانتداری اور فرض شناسی کو لباس یامذہب سے مشروط کرنا اس ذہنی افلاس کی علامت ہے جو پورے سماج کو زہریلی انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہا ہے۔

کرناٹک ہا ئیکوٹ میں جب یہ معاملہ پہنچا تو فاضل جج نے روی کمار کو ہدایت دی کہ وہ فوزیہ ترنم سے ذاتی طور پر تحریر ی معافی مانگیں اور اس معافی کو باضابطہ طور ریکارڈ میں لایاجائے۔ مزید یہ کہ اس معافی کی قبولیت فوزیہ ترنم کی صوابدید پرہوگی، او راسی کی بنیاد پر روی کمار کی ضمانت پر غور کیا جائے گا۔ اس طرح یہ مسئلہ اب محض اخلاقی وسیاسی نہیں بلکہ قانونی پیچیدگی اختیار کرچکاہے، جس پر عوامی سطح پر بھی مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ نہایت اہم ہے کیونکہ یہ صرف ایک فرد کا نہیں، بلکہ پورے ادارہ جاتی نظام کا وقار بحال کرنے کا موقع ہے۔ اگر اب بھی کوئی کارروائی نہ ہوئی تو یہ نظیر بن جائے گی کہ عوامی نمائندے اقلیتوں،خصوصاً خواتین کو ان کی شناخت کی بنیاد پرنشانہ بنا کر بچ کر نکل سکتے ہیں۔

فوزیہ ترنم کا اگر کوئی ’جرم‘ ہے،تو وہ صرف یہ کہ وہ ایک مسلمان ہیں، ایک باحجاب خاتون ہیں، اور اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ ریاستی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ جب کہ درحقیقت شرمندگی ان عناصر کو ہونی چاہئے جنہوں نے ایک محب وطن، قانون پسند او رباصلاحیت خاتون کی کردار کشی کی۔ روی کمار کا بیان محض بداخلاقی نہیں،بلکہ آئین کی روح، جمہوری اخلاق اور صنفی مساوات کے منافی ہے۔عوامی نمائندوں کو اپنی زبان کے استعمال میں شائستگی، آئینی حدود اوراجتماعی حساسیت کا پاس رکھنا چاہئے۔ جب سیاسی رہنما ایسی زبان بولتے ہیں تو وہ صرف اپنی جماعت کی بلکہ پورے نظام کی ساکھ کوداؤ پر لگادیتے ہیں۔

جس ملک میں دستور کی پہلی سطر’ہم ہندوستان کے لوگ۔۔۔۔۔‘ سے شروع ہوتی ہو، وہاں کسی افسر کے لباس کو اس کی حب الوطنی سے جوڑ دینا صرف غیر آئینی حرکت ہی نہیں بلکہ آئین کے چہرے پر ایک طنزیہ قہقہہ ہے۔ یہ سوال اب ہر ہندوستانی کے ضمیر پر دستک دے رہا ہے: کیا ہم ایک ایسا ملک چاہتے ہیں جہاں نام، عقیدہ اور لباس حب الوطنی کے پیمانے بن جائیں؟ اگر ہم واقعی ایک متحد، بااصول او ر مہذب جمہوری معاشرہ چاہتے ہیں توہمیں سیاست، بیوروکریسی اور عوامی سطح پر ایسے ذہنی رجحانات کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا جو شناخت، مذہب او رلباس کی بنیاد پرنفرت کو فروغ دیتے ہیں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس واقعے کو ایک وقتی تنازعہ نہ سمجھیں،بلکہ اس کے دور رس اثرات کا سنجیدہ تجزیہ کریں، تاکہ رائے عامہ بیدار ہو اور اقلیتوں کے اندر تحفظ کا احسا س بحال ہوسکے۔

ُٰفوزیہ ترنم صر ف ایک فرد نہیں بلکہ ایک علامت ہیں۔ ان پرحملہ، درحقیقت اس ہندوستان پر حملہ ہے جو گنگا جمنی تہذیب، آئینی مساوات اور غیر جانبدار بیوروکریسی پریقین رکھتاہے۔ اگر ہم نے وقت رہتے آواز نہ اٹھائی تو یہ خاموشی تاریخ کے صفحات پر ہماری ضمیر کی شکست کے طور پر لکھی جائے گی۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ہم کیسا ہندوستان چاہتے ہیں۔ ایک ایسا ہندوستان جہاں ہر فرد کو اس کی اہلیت کار کردگی اورکردار سے پرکھا جائے، یا پھر وہ ہندوستان جہاں نام، عقیدہ اور لباس ہی وفاداری کی کسوٹی بن جائیں۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/respectable-bureaucrat-suspicious-muslim/d/135779

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..