ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
24 مارچ 2025
تہذیب و معاشرت کا تنوع اور قومی امتیازات کا غلغلہ جب ہمارے معاشرتی نظام پر اثر انداز ہوتا تو اس کے مثبت یا منفی دونوں اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ لیکن تہذیب و تمدن اور قومی افتخار کے مثبت پہلو سے نوع انسانی امن و یکجہتی اور بقائے باہم کے زیور سے آراستہ ہوتی ہے ۔ اخلاق و کردار اور علم و تحقیق کے راستے وا ہوتے ہیں ۔ افکار و نظریات اور مذاہب و ادیان کے تعدد کے ساتھ ساتھ عالمی افق پر ایسے معاشروں کا تشخص جھلملاتا ہے ۔ برعکس اگر معاشروں میں تہذیب و معاشرت کا تنوع نہ ہو یا قومی امتیازات و افتخار کی بنیاد پر تفریق و امتیاز کا سلوک روا رکھا جانے لگے تو پھر یقینی طور پر نہ صرف معاشرتی نظام اور اس کی عالمی حیثیت مجروح ہوگی بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ سماج اپنے مخالف نظریات کا احترام کرنا تو کجا ان کا وجود تک برداشت نہیں کر پائے گا۔ نتیجتاً معاشرے کا امن و امان اور اتحاد و اتفاق پاش پاش ہو جائے گا ۔ لہذا علمی و فکری اور نظریاتی توازن کے ساتھ ساتھ معاشرتی امن و ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر ان روایات و اقدار کی اتباع کو فروغ دیا جائے جن سے معاشرتی نظام کسی بھی طرح سے متاثر نہ ہو اور باہم احترام و اہمیت کی فضا بھی مکدر نہ ہو پائے ۔ آج کے اس کثیر ثقافتی اور بین العلوم تکثیریت کے دور میں ضروری ہے کہ ہم انسانی حقوق کے تحفظ اور سماجی مواصلات کو بہتر خطوط پر انجام دینے کے لیے ان تمام موافق اور مخالف نظاموں سے شعور و آگہی حاصل کریں جو آج سماج میں رائج ہیں ؛ تاکہ مسلم معاشرے پر کسی بھی طرح سے حرف نہ آئے ۔ یہ سچ ہے کہ مسلم مفکرین و ارباب علم و تحقیق نے اپنی فکری بصیرت اور علمی تفوق کی بنیاد پر وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جنہوں نے مسلم معاشرے کے فکری و نظریاتی توسع و توازن کے سبب اپنی شناخت قائم کی ہے ۔ اسی طرح افکار و تصورات اور مذاہب و ادیان کے حوالے سے مسلمانوں کا مطالعہ عالمی سطح پر ایک نئی فکر پیش کرتا ہے ۔ مسلمانوں پر یہ الزام بے جا ہے کہ وہ تنگ نظر ہیں انہیں جہاں موقع ملا انہوں نے دیگر مذاہب و ادیان کی تعلیمات کو مسخ کیا ، نشرو اشاعت کے اسباب کو معدوم کیا ۔ ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے کسی بھی دور اور کسی بھی نوعیت سے تنگ نظری یا تشدد کا مظاہرہ نہیں کیا یہ الزام بے بنیاد اور نرے تعصب پر مبنی ہے ۔
سماجی مسائل سے لے کر علمی و تحقیقی مسائل میں مسلمانوں نے اپنی گہری بصیرت اور علم دوستی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ان نظریات اور خیالات کو بھی فروغ دیا جو ان کے عقیدہ اور مذہب کے مخالف تھے ۔ عباسی عہد کے ان زریں نقوش پر نظر ڈالیے جن میں علم و ادب اور بحث و تحقیق کے لیے باضابطہ ایک اکیڈمی کو ترتیب دیا گیا جسے تاریخ میں بیت الحکمت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس ادارے میں ہندوؤں ، عیسائیوں یہودیوں اور دیگر اقوام کے علوم و فنون اور مذاہب و ادیان سے واقفیت پیدا کرنے کے لیے عربی زبان میں منتقل کیا گیا ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے علوم و فنون اور افکار و خیالات منتقل کرنے کے لیے بیت الحکمت میں ہندو پنڈتوں ، عیسائی و یہودی ماہرین کو رکھا گیا تاکہ کوئی مخالف مذہب کا شخص ان کی چیزوں میں دست درازی نہ کرسکے ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ایک خالص مسلم حکومت میں مخالف افکار و نظریات کی تبلیغ و ترویج کا کام پوری آزادی سے حکومت کی سرپرستی میں انجام دیا گیا ۔ اسی طرح ہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے بھی اسی روشن روایت اور تہذیب کو برقرار رکھا اور بین العلوم تکثیریت کے ساتھ ساتھ سماجی تنوع کو بھی زمینی سطح پر نافذ کیا ۔
معروف سیاح اور جغرافیہ داں ابو ریحان البیرونی نے محمود غزنوی کے دور اقتدار میں ہندو دھرم کے متعلق جو تحقیق اور مطالعہ پیش کیا اس میں پوری طرح معروضیت اور رواداری نظر آتی ہے ۔ جس دور میں ابوریحان البیرونی ہندوستان آیا اس وقت محمود غزنوی کا اقتدار تھا ادھر ہندو پنڈت اپنے دھرم کی باتیں دوسروں کو سیکھنے و پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اس کے باوجود ابو ریحان البیرونی نے اپنی دلچسپی اور لگاؤ کی بنیاد پر ہندوؤں کی زبان سنسکرت سیکھ کر اور یہاں کے جوگیوں ، سنیاسیوں اور ہندو پنڈتوں کے ساتھ رہ کر ہندو دھرم کا ایسا شاہ کار تصنیفی کارنامہ انجام دیا جو اپنی رواداری عدم تعصب کی بنیاد پر ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ اسی طرح مغل حکمرانوں نے رواداری اور سیکولر ازم نیز ہندوستانث تنوع کی نہ صرف قدر کی بلکہ انہوں نے سماجی اور علمی سطح پر تکثیریت کو پوری طرح پروان چڑھنے کا موقع دیا ۔ مغلیہ عہد میں مہا بھارت ، رامائن وغیرہ کے فارسی تراجم کراکے یا دیگر ہندوؤں کی رسم و رواج کے متعلق وسعت پسندانہ سلوک روا رکھ کر اس بات کا واضح اعلان کیا کہ مسلمان کسی بھی دور اور وقت میں تنگ نظر نہیں رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ذریعے جملہ سماجی تقاضوں اور بنیادوں کو مد نظر رکھ کر کام کیا ہے ۔ جب ہم تاریخ کو تعصب کی عینک ہٹا کر پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیکولر نظریات اور سماجی عدل و انصاف کی اعلی مثالیں مسلم معاشروں میں مل جاتی ہیں ۔ اگر ان تمام حقائق کے باجود کوئی فرد ، جماعت یا گروہ اپنے مخصوص نظریات اور تصورات کی بالادستی یا سیاسی مقصد کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کی علمی و سماجی تاریخ اور ان کے رویوں کو مجروح کرتا ہے تو پھر یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ عمدا ایسا کررہا ہے ۔ چنانچہ تجزیہ نگاروں ، انصاف پسند محققین اور اصحاب فکر و بصیرت کو بلا تفریق مذہب و ملت اس جانب توجہ مبذول کرنی ہوگی اور حقیقت کوسامنے لانا ہوگا کہ مسلم معاشرے کی امانت و دیانت اور صداقت و ثقاہت کو تعصب و جانب داری سے جوڑنا غلط ہے ۔
اسی طرح آج ایک سرد جنگ جدیدیت کی جاری ہے، اس میں وہ طبقہ جو جدیدیت کا علمبردار ہے وہ دینی اور مذہبی مفکرین پر پیہم الزام عائد کرتا ہے کہ انہوں نے مذہب کو اپنے اپنے مسلک و مشرب اور فکر و عقیدہ کی جاگیر کے طور پر پیش کیا ہے یا کررہے ہیں ۔ اس مسلکی تنازع اور فکری جمود میں حقیقی اسلام کی تعلیمات کہیں نہ کہیں دب جاتی ہیں ۔ اسی طرح یہی روایت پسند علماء کا طبقہ ہر اس چیز کو ناجائز کہہ ڈالتا ہے جن کا تعلق جدید ایجادات و اختراعات سے ہوتا ہے؟ اس سوال کے تناظر میں بات سمجھنے کی یہ کہ اسی مسلکی تعبیر و تشریح کی بنیاد پر عہد حاضر میں بہت سارے شکوک وشبہات پیدا ہورہے ہیں۔ کتنے ایسے افراد ہیں جو حقیقی اسلام کے متلاشی ہیں مگر جب وہ ان تشریحات و توضیحات کو دیکھتے ہیں جو اپنے اپنے مسلکوں کی تائید و حمایت میں کی گئی ہیں تو وہ مزید الجھ کر رہ جاتے ہیں ،اس لیے اس جانب یقینی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام نہ کسی علم و ادب کا مخالف ہے اور نہ ہی کسی اختراعات و ایجادات کا ،البتہ اسلام ہر اس فتنہ اور فکر و نظر کا سخت ترین مخالف ہے جس سے معاشرتی امن و امان غارت ہوتا ہو، یا وہ نظریہ اسلامی روح کے مخالف ہو ۔
اس وقت بنیادی طور پر معاشرتی امن و امان اور قومی مفاہمت و یکجہتی کے لیے جو ضرورت ہے وہ یہ کہ ہمارا علمی و فکری مزاج نہ صرف متوازن ہو بلکہ دیگر معاشروں کے تہذیبی عناصر کا احترام کرنے کا عادی ہو ۔ مسائل معاشروں اور قوموں یا مخالف نظریات میں اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب کسی کی حریت اور آزادی پر پابندی عائد کی جائے یا اس کے عقائد ونظریات کی توہین کی جائے۔ آج جس تیزی سے حالات کروٹ لے رہے ہیں اور باتیں سامنے آرہی ہیں وہ اس بات کی طرف ہم کو بلاتے ہیں کہ ہمارے سوچنے کا طریقہ اور استنباط و استخراج کا انداز کیا ہے،،؛ ہم ان حالات سے مرعوب و متاثر ہورہے ہیں یا ان حالات میں اصولی باتوں کو سامنے رکھ کر معاشروں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ اگر کہیں ہماری فکر اور سوچنے سمجھنے کے انداز میں کوئی لچک یا جانب داری پائی جاتی ہے تو ہم اس میں مثبت اصلاح کریں اور منطقی انداز میں چیزوں اور اسلامی تعلیمات کو پیش کرکے ان تمام شکوک وشبہات کو رفع کرنے کی کوشش کریں جن آج کل کیے جارہے ہیں ۔
-----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/respect-ideologies-society-essential/d/134957
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism