نیلوفراحمد (انگریزی سے ترجمہ۔
سمیع الرحمٰن ، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
13جنوری، 2012
ذکر لفظ قرآن مجید میں کئی
بار مختلف معنی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔اس کے معنی یاد کرنےیا خدا کے کسی نام یا تمام ناموں کو بار بار لیکر ذکر کرنے یا قرآن کی کچھ آیتوں
یا کسی حصے کی تلاوت کرنے یا رسول اللہ ﷺ پر
درود بھیجنے کے ہو سکتے ہیں۔
نماز کو بھی ذکر ہی کہا جاتا
ہے۔ ذکر کے معنی `مخلصانہ مشورہ` (3:58) کے بھی ہیں، دونوں جب یہ دی جاتی ہے اور جب اس پر عمل کیا جاتا
ہے۔ ہر ذکر کا اپنا ہی فائدہ مند اثر ہے۔ شیطان
کی منفی توانائی اور اس`کے اقدامات اور کوششیں ذکر کی مثبت توانائی سے زائل ہو جاتی ہیں۔
اس دنیا میں سب کچھ اپنے رب
کی حمدو ثناء کرتے ہیں، جاندار اپنی زبان سے اور بے جان اپنے حالات کی خاموش رضامندی
کے ذریعہ حمد کرتے ہیں۔ ‘ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح
کرتے ہیں۔ اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی
ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ بےشک وہ بردبار (اور) غفار ہے (17:44) ’۔
فرشتے خدا کی تسبیح کرتے ہیں
(2:30)۔ پرندوں، درختوں اور پہاڑوں نے اپنے
رب کی تسبیح میں پیغمبر دائودؑ کا ساتھ دیا (34:10)۔ چونکہ انسانوں اورجنوں کو مرضی کی آزادی
عطا کی گئی ہے وہ بے اختیار طور پر خدا کی تسبیح نہیں کرتے ہیں۔
صوفی اساتذہ کے مطابق، خدا
کی یاد کو دو اقسام ، براہ راست اور بالواسطہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلی قسم میں
کسی ایک لفظ کو بار بار یا کسی ایسی تشکیل جس سے خدا راضی ہوتا ہے ، شامل ہے۔ اس طرح
کاذکر نسبتاً آسان ہوتاہے، کیونکہ یہ تکرار
تک ہی محدود ہوتا ہے۔
اگر عمل جاری رہتا ہے تو ،
دل غالب آ جاتا ہے اور خود بخود ذکر شروع
کر دیتا ہے۔ بالواسطہ ذکرنسبتا! تھوڑا مشکل ہے، اس میں ہر ایک لفظ اور نیعت خدا کی
رضا کے مطابق مسلسل ذکر کیا جاتا ہے۔ ضمیر اب محافظ کے ساتھ ہی ساتھ ولی بھی ہو جاتا ہے، جو اس کو خدا کی تسبیح کرنے کے فرض سے جوڑے رکھنے کے لئے خود میں کافی ہوتا
ہے۔
زندگی کا مقصد سب سے پہلے ایک خدا کے وجود کے اعلی حق کو تسلیم کرنا،
اور پھر اس حق کا اپنی زبان، دل، تخیل عمل اور آخر میں اپنے پورے وجود کے ساتھ دن
رات ذکر کرناہے۔ جو شخص اس منزل کو پہنچ گیا اسے متقی کہہ سکتے ہیں جس کے معنی پرہیزگار
ہیں حق بیدار یا ایک شخص `جو خدا سےاس قدر محبت کرتا ہق کہ وہ اسے ناراض کرنے سے ڈرتا
ہو۔
صوفی حضرات کے مطابق اس سے
قطع نظر کہ باہر کیا ہو رہا ہے، سکون، قلب کے اندر سے ہی آتا ہے۔ وہ لوگ جو دنیاوی خوشیوں کا تعاقب
کرتے رہتے ہیں وہ ایسی حالت مین پہنج جاتے ہیں کہ انہیں احساس ہوتا ہے کہ تمام کامیابیوں
نے ان کے اندر قناعت پیدا نہیں کی۔ قرآن میں کہا گیا ہے، ‘ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
’یقیناً خدا کی یاد دل کو آرام دیتی ہے’
(13:28) اور اس کے علاوہ ’ فاذ کرونی اذ کر کم ’ تم مجھے یاد کرو۔ میں تمہیں یاد کیا
کروں گا (2:152)۔
سورۃ الاحزاب میں 10 بہترین خصوصیات کے مالک مردوں اور عورتوں کی ایک فہرست
پائی جاتی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم ہیں ‘...خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور
کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کے لئے خدا نے بخشش اور اجر عظیم
تیار کر رکھا ہے’ (33:35)۔ روحانی میدان میں، مردوں اور عورتوں دونوں کے ایک ہی مقاصد
اور ایک جیسے ہی انعامات ہے۔
ایک حدیث کے مطابق، رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا کہ، ‘اللہ فرماتا ہےکہ، ‘میں اپنے بندوں کو اپنے بارے میں ان کی رائے کے
مطابق ہی نوازتا ہوں اور میں ان کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتے ہیں۔ اگر وہ
ذاتی طور پر مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے ذاتی طور پر یاد کرتا ہوں اور اگر ہوہ
مجھے عوام میں یاد کرتا ہے، میں اسے ایک بہتر اجتماع (فرشتوں کے) میں یاد کرتا ہوں۔’
بخاری
اللہ `کے ذکر کے انگنت فارمولوں
میں سے بہت سے حدیث میں پائے جاتے ہیں:` جو دن میں 100 مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہی کا
ورد کرتا ہے اسے اجرعظیم حاثل ہوگا (بخاری)۔
تسبیح فاطمہ نبی کریم ﷺ نےاپنی
بیٹی کو سکھایا تھا: 33 مرتبہ سبحان اللہ (`خداعدم تکمیل سے آزاد ہے)، 33 مرتبہ الحمد
للہ (تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں) اور 33 بار اللہ اکبر (خدا سب سے بڑاہے) ایک اور روایت کے مطابق 34 بار (بخاری) پڑھا جا
سکتا ہے۔ یہ ذکر، جب نماز کے بعد کیا جاتا
ہے، عظیم روحانی فوائد لاتا ہے اور جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے تعلیم دی ہے جو صدقہ نہیں
کر سکتے ہیں ان کے لئے یہ تسبیح ایک متبادل ہو سکتی ہے۔
پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ، اللہ
کو یاد کرنے کا سب سے بہترین طریقہ، لا الہ الا اللہ (نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے
۔ تر مذی)کا ورد کرنا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ابو موسٰی سے یہ پڑھنے کو فرمایا، ‘لا حول ولا قوتہ الا با للہ’
(نہیں ہے کوئی قدرت اور طاقت سوائے اللہ کے۔
مسلم)۔ چوتھے کلمہ کو ایک دن میں 100 مرتبہ پڑھنے سے تحفظ حاصل ہوگا اور اجر
عظیم ہوگا(بخاری)۔ اللہ کی پناہ حاصل کرنے کے لئے آیت الکرسی (2:255) کے ورد کرنے
کی روایت رہی ہے۔
ایک جماعت میں ذکر خدا کرنے
کی فضیلت کے بارے میں کئی احادیث ہیں۔ پیغمبر ﷺ نے فرمیا کہ، ‘ جب لوگوں کی ایک جماعت
اللہ کی یاد کے لئے جمع ہوتی ہے تو فرشتے اپنے پنکھوں سے انہیں گھیر لیتے ہیں، اللہ
تعالی کی رحمت انہیں اپنے حصا ر میں لے لیتی ہے۔ سکون کاان پر نزول ہوتا ہے اور اللہ
اپنے قریب کے لوگوں سے ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے (مسلم)۔ استغفار یا معافی کا مطالبہ،
پورےملک سے سزا کو دور رکھ سکتا ہے کیونکہ، ‘ خدا ایسا نہ تھا کہ جب تک تم(محمدﷺ) ان
میں سے تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور ایسا نہ تھا کہ وہ بخششیں مانگیں اور انہیں عذاب دے’(8:33)۔
ذکر کے بارے میں لمتناہی سلسلہ
برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ قرآن کے مطابق، ‘اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں
(سب کے سب) قلم ہوں اور سمندر (کا تمام پانی) سیاہی ہو (اور) اس کے بعد سات سمندر اور
(سیاہی ہو جائیں) تو خدا کی باتیں (یعنی اس کی صفتیں) ختم نہ ہوں۔ بیشک خدا غالب حکمت
والا ہے’ (31:27)۔
مصنف قرآن کی اسکالر ہیں اور
معاصر مسائل پر لکھتی ہیں۔
بشکریہ: روزنامہ ڈان،
کراچی
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-spiritualism/remembrance-or-`zikr`/d/6366
URL: