New Age Islam
Mon Jun 16 2025, 08:48 AM

Urdu Section ( 13 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Some Remarks of RSS Chief about Muslims آر ایس ایس سربراہ کے مسلمانوں سے متعلق کچھ فرمودات

پروفیسر اخترالواسع

12 جنوری،2023

حضرت مولانا ارشد مدنی سے ملاقات ہو یا ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب کی رسم اجراء اس کے بعد کچھ او رمسلم رہنماؤں سے مذاکرہ یا پھر ایک مسجد اور مدرسے کی حاضری آر ایس ایس کے سربراہ کے جو بیانات آئے ہیں، وہ ایک طرفہ فکر کے حامل نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں مذکورہ بالا اکابرین اور ممتاز شخصیتوں کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے ایک اہم کتاب لکھ کر ان دوریوں کو کم کرنے کی عملی کوشش کی ہے جو آر ایس ایس کے ذریعے دو فرقوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے کی جارہی تھی۔

مسلمان اس ملک میں آٹھ سو سال اقتدار میں رہے، لیکن اس اقتدار کو انہوں نے کبھی اسلامی حکومت قرار نہیں دیا،بلکہ ایک ایسااقتدار قرار دیا جس کا آٹھ سو سال تک اقتدار میں بنے رہنا ہی ممکن نہیں تھا اگر اس ملک کی غالب ترین ہندو اکثریت نے ان کا ساتھ نہ دیا ہوتا ۔ وہ اقتدار یقینی طور پر کچھ مسلمان خاندانو ں کا تھا لیکن اس کی تائید اس ملک کے راجپوتوں نے بھی کی، جو ان کے آنے سے پہلے حکومت کرتے آئے تھے ۔ یہی نہیں مسلم حکمرانوں نے ان کو برابر کا شریک بھی رکھا۔ کسی غوری کی ہمت نہیں تھی کہ وہ جے چند کے اشارے کے بغیر پرتھوری راج کو شکست دے سکتا۔ اسی طرح کسی بابر میں اتنادم نہیں تھا کہ وہ راناسانگا کی حمایت کے بغیر ہندوستان پر قبضہ کرلیتا۔ آپ تاریخ کی اس سچائی کو کیسے چھپائیں گے کہ ایک مسلم خاندان کو تخت سے تختے تک لے جانے والے کوئی اورنہیں ان کے ہم مذہب مسلمان ہی تھے۔ آپ غلام خاندان سے خلجی ہوں یا تغلق ،لودھی ہوں یا مغل سب کی تاریخ پڑ ھ ڈالیے راجا سوائی مان سنگھ ہوں یا راجا سوائی جے سنگھ، بیربل ہوں یا ٹوڈرمل ،سب اپنے اپنے زمانے میں حکومتوں کے استحکام کاذریعہ بنے۔

ایسے میں اس کاامکان نہیں کہ مسلم حکمرانوں نے اس ملک کی اکثریت کے ساتھ مذہبی عناد برتا ہو۔ یہ صحیح ہے کہ بادشاہوں کادھرم سوائے ان کی راج شاہی کے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمایوں کو شیرشاہ کے ہاتھوں وربدری حصے میں نہ آتی۔ہمایوں شیر شاہ کے وارثوں کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوتا۔ اورنگزیب کے ہاتھوں شاہ جہاں گرفتار نہ ہوتا، داراشکوہ اور اس کے بھائی او ربچے اورنگزیب کے حکم سے قتل نہ ہوتے ،سرمد دہلی کے جامع مسجد کی سڑھیوں پر شہید نہ کیے جاتے ،یہی نہیں اس سے قبل بھی ایسی بہت سی مثالیں ہیں جب جلال الدین خلجی ،علاء الدین خلجی کے ہاتھوں ڈبودئے گئے۔ اس لیے بادشاہوں کے ظلم تعدی کو مثال بنانا صحیح نہیں ہے۔ ہمیں انصاف کی بحالی ،مثالی معاشرہ بنانے کے لیے کوششوں اور مذہبی خیر سگالی کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔اکبر کے دورمیں ہندوؤں کے مذہبی گرنتھوں کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔اس سے قبل البیرونی نے کتاب الہند لکھ کر دنیا سے ہندوستان اور ہندو مذہب کااپنی سمجھ کے مطابق تعارف کرایا او رپھر داراشکوہ نے ہندوستانی مذاہب بالخصوص ہندو مذہب او راسلام کے درمیان نئی تعبیر ،تطبیق اور تفہیم کے جو دروازے کھولے وہ سرِ اکبر اور مجمع البحرین کی صورت میں آج بھی ہمارے لیے مسرت و بصیرت کا شاندار نمونہ ہیں۔

انہی بادشاہوں نے جن میں اورنگزیب بھی شامل ہے، ہندوؤں کے مذہبی متبرک پوجا استھلوں کے لیے غیر معمولی عطیات دیے ۔ یہ ہماری تاریخ کی وہ ناقابل تنسیخ سچائیاں ہیں جن کا انکار کوئی نہیں کرسکتا۔کوئی سچا او راچھا مسلمان بادشاہوں کے ظلم و ناانصافی کی تائید نہیں کرے گا۔ اسی لیے ہماری تاریخ ا س کی گواہ ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء جیسے صوفی سنت بادشاہوں سے دوری بناکر رکھتے تھے۔ اور ان کی خانقاہوں کے دروازے ہمیشہ دکھوں کے مارے اور ظلم کے شکار لوگوں کے لیے کھلے رہتے تھے ۔ماضی میں سب کچھ یاد رکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ مسلمان اس ملک کے مسلم حکمرانوں پر فخر نہیں کرتے بلکہ وہ فخر کرتے ہیں اس بات پر کہ انہوں نے اس ملک کو قطب مینار کی بلندی دی،تاج محل کا حسن عطا کیا،لال قلعہ کی پختگی ، شاہ جہانی مسجد کا تقدس اور معین الدینؒ اور نظام الدینؒ کاعرفان عطا کیا ہے اور یہ فخر ہے جو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر ہندوستانی پر واجب ہے۔

اب جہاں تک رہا سوال اس بات کا کہ‘ مسلمان یہ بات کرنا چھوڑ دیں کہ ہم ایک عظیم قوم سے ہیں ،ہم نے اس ملک پر ایک بار حکومت کی اور پھر حکومت کریں گے’ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہی نہیں ہر ہندوستانی کو جو کسی بھی مذہب کا ہو اسے اپنی دینی عظمت پر فخر وناز تو ہوناچاہئے لیکن ٹکراؤ اور تصادم کے جذبے کے تحت نہیں بلکہ انکسار اور اخلاص کے ساتھ۔ ہر مذہب ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے ،حیوانیت کا نہیں۔ وہ عافیت و سلامتی کا ہم نوا ہوتاہے وحشت و دہشت کا نہیں۔ اس لیے ہمیں مل ملا کر اخوت حریت اور مساوات کے جذبوں کے تحت ایک ہوکر اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیناچاہئے نہ کہ سڑکوں پر ایک فرقے کا چلنا دشوار کردیا جائے ، اس کی بستیوں کو بغیر نوٹس کے اجاڑ دیا جائے، اس کے قتل عام کی کھلے عام ترغیب دی جائے اور سرکاریں اس سلسلے میں وہ ضروری اقدامات نہ کریں جو انہیں فوری طور پر کرنے چاہئیں ، ایسی صورت میں خوف کا ماحول تو پیداہوگاہی ۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ مسلمانوں کو ماضی میں اپنی حکمرانی پر ناز نہیں کرناچاہئے اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ وہ پھر اس ملک پر راج کریں گے تو ہمیں یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ جہاں تک کل کا معاملہ ہے تو پیچھے مڑکر وہی دیکھتا ہے جس کا کچھ پیچھے ہوتاہے ،لیکن یہ پیچھے دیکھنا صرف فخر و مباحات کے لیے نہیں بلکہ اپنی غلطیوں کے سدھار کے لیے ناگریز ہوتاہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہندوستانی مسلمان جو کبھی اس ملک پر حاکم تھے اور برطانوی حکومت میں محکوم بھی رہے ،15 اگست 1947 ء سے اس ملک میں نہ حاکم ہیں، نہ محکوم بلکہ اقتدار میں برابر کے شریک ہیں اور اس حیثیت پر ہمیں کل بھی ناز تھا، آج بھی ناز ہے اورکل کیلئے بھی ہم اسی کے تمنائی ہیں۔ موہن بھاگوت کو آر ایس ایس سے ذہنی وفکری غذا او رنظریاتی رہنمائی حاصل کرنے والی مرکزی وریاستی حکمرا ں جماعتوں سے یہ کہناچاہئے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولیں ، زمینی حقائق کیا ہیں اس کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں،عدل وانصاف کے تقاضے پورا کریں ،تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کریں۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر کسی کو کسی سے کچھ شکایت نہیں رہے گا۔ سوال آج مسلمان کا نہیں بلکہ ہندوستان کو بچانے کا ہے اور اس کا طریقہ یہی ہے جو ابھی پچھلی سطروں میں ہم نے بیان کیا ہے۔

12 جنوری،2023، بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی

----------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/remarks-rss-chief-muslims/d/128864

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..