New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 12:16 PM

Urdu Section ( 16 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Relying Solely on the 'Faith' of the Majority Community! !صرف اکثریتی فرقہ کی ’آستھا‘ کے سہارے

ظفرعبداللہ

12دسمبر،2024

ملک میں مسجد۔مندر کے قضیہ میں عدالتوں کا فیصلہ قانونی گھونگھٹ کی آڑ میں ’آستھا‘ (عقیدہ) کی بنیاد پر،آئینی دفعات حوالہ دے کر انتہائی دیدہ دلیر ی کے ساتھ دیا جارہا ہے۔ملک میں صرف اکثریتی طبقہ کی آستھا باقی ہے،بقیہ سبھی مذاہب کے ماننے والے یا ملحد ہوچکے ہیں، یا صبر کرچکے ہیں کہ مسجد۔مندر کے حوالہ سے جو بھی عدالتی فیصلے ہورہے ہیں یا ہوں گے وہ صرف آستھا کی بنیاد پرہونگے۔ اس لیے ملک کی اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ عدالتوں کے ’فیصلوں‘ کا احترام کریں۔ یاد کیجئے، نومبر 2019 ء میں شہید بابری مسجد کے فیصلہ میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ عدالتیں عقیدت مندوں کی آستھا پر سوال نہیں اٹھا سکتیں او رنا ہی انہیں ایسا کرنا چاہئے۔ تب سی جے آئی رنجن گوگوئی کی قیادت والی عدالت عظمیٰ کی بنچ ے کہا تھا۔’ہماری عدالتیں آئینی سسٹم اور ا س کا وجود بھی آئینی نظام پر ہی منحصر ہے۔ ہمیں مذہبی نظریہ کی مطلق او رانتہائی شکل میں تشریح کرنے اور عقیدت مندوں کی آستھا پر سوال اٹھانے کے لئے عدالت کی رہنمائی کرنے کی کسی بھی کوشش کو سختی سے مسترد کرنا چاہئے‘۔ بنچ نے مزید کہا تھا۔’آئین کے آرٹیکل 25کے تحت موجود اقدار کے لیے اس سے زیادہ تباہ کن کچھ بھی نہیں ہوگا‘۔ تب ہندو فریق نے عدالت عظمیٰ سے ان حقائق کی جانچ کرنے کو کہا تھا کہ ایودھیا میں مسجد اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔

آج ملک بھر کی قدیم مساجد کی جو کھدائی مہم چلائی جارہی ہے وہ سب عدالت عظمیٰ کے مذکورہ فیصلہ کے بعد سے شروع ہوگئی تھی۔ کس قانون کے تحت مسجد وں میں یہ کھدائی مہم چلائی جارہی ہے تو جواب ملتاہے۔ ’یہ آستھا کا معاملہ ہے‘ اور آستھا صرف اکثریتی فرقہ کی ہی ہے۔سنبھل کی جامع مسجد کا جس طرح سروے کیا گیا، ایسا کہیں نہیں ہوتا ہوگا۔ ایک وکیل کی عرضی پر ضلع عدالت فیصلہ سنادیتی ہے مسجد کا سروے ہوگا۔ یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک تھا،جب ٹیم مسجد کی جانب روانہ ہوئی تو ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ کوئی ٹیم سروے کرنے جارہی ہے، بلکہ محسوس ہورہا تھاکہ کوئی فوج کسی قلعہ کو فتح کرنے جارہی ہو۔ اس کے بعد جوکچھ ہوا وہ ہندوستان سمیت دنیا نے دیکھا۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت وقتا ً فوقتاً مختلف معاملوں پر (صرف) اکثریتی فرقہ کے لوگوں کو نصیحتیں اور مشورے دیتے رہتے ہیں۔ سنبھل جامع مسجد کے سروے کے بعد جو واقعات رونماہوئے، جس سے وہ دکھی تھے۔ انہوں نے کہا۔’ہر مسجد میں شیولنگ کیوں ڈھونڈ نا‘ ۔اس طرح کے بیان بھاگوت پہلے بھی دے چکے ہیں۔بظاہر تو ان کا یہ بیان رواداری والا معلوم ہوتاہے، لیکن ان کے اس ٹائپ کے بیان تب آتے ہیں، جب سب کچھ ہوچکا ہوتا ہے۔اگر وہ واقعی ان جھگڑوں کو ختم کرناچاہتے ہیں تو انہیں آگے بڑھ کر اکثریتی فرقہ کو صاف صاف کہناچاہئے کہ جو کچھ ہوا وہ ختم کرو،اب مل جل کر محبت سے رہو۔ بھاگوت کے اس بیان کے بعد اگلے ہی دن ’پانچ جنیہ‘ میں ایک مضمون شائع ہوتاہے جس کا عنوان۔’مسجدوں کا اتہاس بتانے میں سمسیا کیاہے؟‘ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں لاتعداد مساجد ایسی ہیں، جو ہیں تو مندرلیکن وہ مسجد میں تبدیل ہوچکی ہیں‘۔ فاضل مضمون نگار لکھتا ہے۔ ہندوستان میں لاتعداد مساجد ہیں، جن کے فن تعمیر اور تاریخ بتاتی ہے کہ اس مساجد کی تاریخ کچھ او ررہی ہے۔ اگر ان مساجد کا فن تعمیر خود یہ کہے کہ یہ ماضی میں مندر تھے یا ان مندروں کا سامان ان کی تعمیر میں استعمال ہوا تھا، جنہیں حملہ آوروں نے گرادیا تھا، تو اسے ماننے میں کیا اعتراض ہے‘۔مضمون نگار نے اکثریتی فرقہ کے حقوق کو دوہائی دیتے کہا۔’کیا یہ ملک کے ہندوؤں کا حق نہیں ہے کہ کم از کم یہ جان لیں کہ ان کے مندروں کا کیا حال ہوا تھا؟آخر ہندوستانی سرزمین پر اتنی مساجد کہاں سے آگئیں؟ اور اگر یہ مسجدیں مندروں کو گرانے کے بعد بنی ہیں تو کم از کم اسے مان لیا جاناچاہئے! یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ مساجد بے مثال فن تعمیر کی مثالیں ہیں۔ یہ ہندوؤں کے ساتھ دوہر ا ظلم ہے‘۔ مضمون نگار دعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔’ایک تو ان کے (ہندوؤں) مذہبی مقامات کو توڑا گیا اور دوسری جانب ان کی تاریخ کو بھی دبا دیا گیا‘۔

اگر ایسا نہیں ہے تو انہیں اور ایسے تمام لوگوں کو جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں نے ہندوؤں کے ساتھ ظلم وزیادتی کی اور ان کی عبادتگاہوں کو توڑا تو انہیں مشہور مؤرخ ڈ ی این جھا کی کتاب۔’اگینسٹ دی گرین: نوٹس آن آئڈینٹی، انٹالرینس اینڈ ہسٹری‘ کا مطالعہ ضرور کرناچاہئے۔ڈاکٹر جھا اس کے آغاز میں کہتے ہیں۔’یہ (کتاب) ان لوگوں کیلئے ہے جو دائیں بازو کے ہندوؤں کی جانب سے پھیلائی جانے والی بکواس  کا شکار ہیں۔کتاب میں ڈی این جھا نے تاریخی حوالو ں سے اعلیٰ ذات کی کرتوتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ’قدیم ہندوستان میں مذہبی فرقے ایک دوسرے کے تئیں روا دار تھے، لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ برہمن وادی فرقہ دومتضاد مذاہب۔بودھ مت اورجین مت سے شدید دشمنی رکھتے تھے‘۔

دنیا میں دو ایسے فرقے ہیں جو ہمیشہ اپنے اوپر ہونے والے خودساختہ مظالم کی کہانیاں سناسنا کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرتے رہے ہیں۔ ایک یہودی، دوسرا برہمن۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہودی اور 2014ء سے برہمن اپنا دکھڑا سناکر دنیا/ ہندوستانیوں سے ہمدردی حاصل کررہے ہیں۔ اسی ہمدردی کی آڑ میں یہ طبقہ ملک میں مندر۔مسجد، ہندو۔مسلم،ہندو خطرے میں ہے جیسے شوشے چھوڑ کر ’دھرم اور ہندو گورو کی رکشا‘ کے نام پر پسماندہ طبقات کے ہندوؤں کو آگے کرکے اپنی اجاری داری قائم کرنا شروع کردیاہے۔ہندتو اور سناتن دھرم کا’بکھان‘ کرنے والی قوم اور علیٰ ذات کی کارستانیو کی تاریخ بتاتے ہوئے ڈاکٹر جھا لکھتے ہیں، قدیم ہندوستان میں بہت سے برہمن اور غیر برہمن فرقے۔ وشنو اور شیومت آپس میں ہی دست گریباں رہے، یہ دونوں بدھ او رجین مت کے ساتھ ٹکراتے رہے، ان پر ظلم وستم ڈھائے گئے، ان کا قلع قمع کیا گیا اور ان کی عبادتگاہوں کے مندروں میں تبدیل کردیا۔ جھا نے کہاکہ برہمنی قوتوں کی بدھسٹ یادگاروں، بودھ وہاروں اور دیگر ڈھانچوں کی بے حرمتی اور تباہی کی لاتعداد مثالیں ہیں۔ ایسے سینکڑوں تاریخی شواہد موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ اعلیٰ ذاتوں نے بودھ وہاروں، مٹھوں کو زمیں دوز کردیا اور اس پر مندر بنا دیئے اور یہی حال جین مت کے ’اپاسنا استھلوں‘ کے ساتھ کیا گیا۔آج ملک میں جب بودھ مت کے لوگ آستھا کے نام پر ان ہی بودھ وہاروں کی بازیابی کے لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو ان کی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتاہے، لیکن اگر کوئی ہندو کسی مسجدمیں مندر ہونے کی درخواست لے کر عدالت پہنچ جائے تو مسجد کی کھدائی کاحکم فی الفور جاری کردیاجاتاہے۔

آلہٰ آباد ہائیکورٹ کے جج شیکھر کمار یادو نے کہا ’یہ دیش اکثریتی طبقہ کے حساب سے ہی چلے گا‘، یہ جج صاحب کی کسر نفسی تھی جو انہوں نے مستقبل کا صیغہ استعمال کیا،ورنہ تو ملک 2014 ء سے ہی اکثریتی طبقہ کے آستھا کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ آخر میں عدالتوں سے درخواست ہے کہ مسجد کی بنیاد کی کھدائی کے حکم میں یہ اضافہ کیا جائے کہ اگر کھدائی کے دوران مندر کے آثار نہ ملے تو کھدائی تب تک کی جائے جب تک وہاں سے پیٹرول نہ نکل آئے۔

12 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/relying-solely-faith-majority-community/d/134039

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..