سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
29 مئی 2023
بھارت زمانہء قدیم سے ہی
مختلف مکاتب فکر کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں ویدک مذہب ، جین مذہب اور بدھ مذہب کے
ساتھ ہندو مذہب کی مختلف شاخیں بھی مقبول ہوئیں ۔ عہد وسطی میں سکھ مذہب بھی وجود
میں آیا اور اس کے ساتھ ساتھ ناتھ پنتھ کو بھی مقبولیت ملی۔ بارہویں صدی سے بھارت
میں اسلام کی مقبولیت کے ساتھ اسلامی تصوف کو بھی مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے
اپنایا۔ بودھ مذہب ، ناتھ پنتھ اور اسلامی تصوف کے زیر اثر ہندوؤں میں بھکتی تحریک
کو بھی فروغ ہوا ۔ تصوف اور بھکتی تحریک نے بھارت کے عوام۔میں مذہبی رواداری اور
آزادیء اظہار کی روایت کو فروغ دیا۔ ایک مذہب کے پیروکار دوسرے مذہبوں کا بھی
احترام کرتے تھے اور ان کے تنقیدے افکار کو خندہ پیشانی سے قبول بھی کرتے تھے۔
عہد,وسطی میں فنون لطیفہ کو بھی کافی فروغ ہوا۔ اس دور کے بادشاہوں نے شاعری اور
دوسرے علوم و فنون کی سرپرستی کی۔ ا س دور میں خصوصا شاعری نے کافی ترقی کی اور اس
ترقی کی ایک وجہ اس دور میں آزادیء اظہار کو دی جانے والی اہمیت ہے۔ بودھ مذہب سے
وابستہ شاعروں کے گیتوں اور دوہوں میں برہمنی نظام۔کے خلاف احتجاج اور ان کے طرز
عمل اور اعتقادات پر تنقید ملتی ہے جبکہ برہمن طبقہ اس,دور میں ایک طاقتور اور
بااثر طبقہ تھا۔ بودھ شاعر سراہا پاد برہمنوں کی نمائشی عبادات پر طنز کرتے ہوئے
کہتے ہیں
وہ مٹی کا ایک ٹکڑا، پانی
اور کوس گھاس لیتے ہیں اور جاپ کرتے ہیں
گھر میں بیٹھ کر اگنی
کوبھینٹ چڑھاتے ہیں اور بیکار میں اپنی آنکھیں دھوئیں میں جلاتے ہیں
ایک دوسرے دوہے میں وہ
کہتے ہیں
مالک اپنے تن پر راکھ
ملتے ہیں اور سر پر جٹاؤں کا بوجھ ڈھوتے ہیں
وہ گھر میں بیٹھ کر دیا
جلاتے ہیں اور کونے میں بیٹھ کر گھنٹی بجاتے ہیں۔
جین سادھوؤں کے طرز عمل
پر تنقید کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں
سراہا کہتا ہے مجھے جین
منیوں کو مکتی ملتی نظر نہیں آتی
حقیقت سے محروم ان کا جسم
صرف تکلیف اٹھاتا ہے۔
بودھ مذہب کے دیگر شاعروں
نے بھی برہمنوں اور نمائشی عبادات کو,اہمیت دینے والے مذہبی فرقوں پر طنز کئے ہیں۔
لیکن ان پر برہمنوں کا عتاب نازل نہیں ہوا کیونکہ اس دور میں تنقید کو اظہار رائے
کی آزادی میں شامل سمجھاتا تھا اور ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی تھی۔۔
چودھویں صدی کے عظیم
بھکتی شاعر کبیر نے بیشمار دوہے اور شبد لکھے اور وہ اپنے باغیانہ تیور کے لئے
جانے جاتے ہیں۔ ان کے دوہوں میں عشق الہی کا بے لوث اظہار بھی ہے اور نمائشی
عبادات اور رسوم پر طنز بھی ہے۔ وہ نمائشی رسوم کے خلاف بے خوف ہوکر اپنے خیالات
کا,اظہار کرتے ہیں۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک
نروان اور نجات پانے کے لئے دل کا خلوص اور عشق شرط ہے۔ ظاہری عبادتوں سے خدا نہیں
ملتا۔ ان کی باتیں کبھی کبھی بہت تلخ ہوجاتی ہیں۔ اگر اس طرح کی شاعری کوئی شاعر
اس دور میں کرے تو اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا ہوجائے۔ کبیر کہتے ہیں۔
تیرا صاحب کیسا ہے
مہجد بھیتر ملا پکارے کیا
تیرا صاحب بہرا ہے
چیونٹی کے پگ نیور باجے
سو بھی صاحب سنتا ہے
پنڈت ہوکے آسن مارے لمبی
مالا جپتا ہے
انتر تیرے کپٹ کترنی سو
بھی صاحب لکھتا ہے
اونچا نیچا محل بنایا
گہری جماتا ہے
چلنے کا منصوبہ ناہیں
گہری نیو جماتا ہے
ایک دوسرے شبد میں کبیر
کہتے ہیں
اے جاندار اللہ اور رام
تجھی میں ہیں تو دوسروں پر مہربانی کر
سر منڈا کر شیو جی کے آگے
سرجھکانے یا پانی میں نہانے سے کیا ہوتا ہے
تم جانوروں کا خون کرتے
ہو اور خود کو مسکین کہتے ہو تم۔سے اصلیت چھپی ہوئی ہے
وضو کرنے یا ندی میں
نہانے دھونے سے کیا ہوگا مسجد میں سر جھکانے سے بھی کیا ہوگا
تم دل میں کینے کی نماز
گزارتے ہو تمہیں مکہ جاکر کیا فائدہ ہوگا
یہ گیت یا شبد اس سماج
میں نہیں لکھے جاسکتے تھے جس میں دوسروں کے افکار کو چاہے وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ
ہوں برداشت کرنے کی روایت نہ ہو ۔ ان افکار کا اظہار کرنے والوں کو مذہب کا دشمن
کہہ کر موت کے گھاٹ اتارنے کی روایت یا ذہنیت اس دور میں نہیں تھی۔ بلکہ اس طرح کی
تنقید عوام میں خود احتسابی کی تحریک پیدا کرتی تھی۔
پندرہویں صدی کی مشہور
بھکتی شاعرہ میرا بائی جن کے بھکتی گیت اتنے مقبول ہیں کہ زباں زد خاص و عام۔ہیں۔
اتنا ہی نہیں ان کے کئی گیتوں کے مکھڑے ہندوستانی فلموں میں شامل۔کئے گئے ہیں جیسے
پگ گھنگھرو باندھ میرا
ناچی تھی
پایو جی میں نے رام رتن
دھن پایو
انہوں نے ایک طرف اپنے
گیتوں میں خالق حقیقی سے بے لوث محبت کا,اظہار کیا تو,دوسری طرف کبیر اور سراہا
پاد کی طرح ظاہری عبادت کا مذاق بھی اڑایا۔ وہ کہتی ہیں
اگر پھل مول کھانے سے ہی
خدا کا دیدار ہوتا
تو چمگادڑوں اور بندروں
کو کیوں نہ ہوا
اگر پوتر دریا میں اشنان
کرنے سے ہی خدا کا عرفان حاصل ہوتا
تو مچھلیوں کو کیوں نہ
ہوا
اگر سبزیاں اور پتے کھانے
سے خدا مل جاتا
تو ہرنوں اور بکریوں کو
کیوں نہ ملا
اگر بیویوں کوچھوڑدینے سے
خدا کا دیدار ہوتا
تو ہجڑوں کو کیوں نہ ہوا
میرا کہتی ہے عشق الہی کے
بغیر
کسی کو خدا کا جلوہ نہیں
مل سکتا
میرا بائی سے پہلے بابا
فرید نے بھی ایسی ہی باتیں ظاہری عبادتوں کی لایعنیت کے متعلق کہی تھیں
تن دھونے سے دل جو یوتا
پاک
پہش رو اصفیاء کے ہوتے
غوک
خاک لانے سے گر خدا پائیں
گائے بیلاں بھی واصلاں
ہوجائیں
صوفی اور بھکتی وادی
شاعروں کا ایک مشترکہ اسلوب اور مزاج عہد وسطی میں دیکھا جاتا ہے۔ وہ عوام کے
درمیان ایک مصلح کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور ان کی تلخ باتوں اور وعظ و نصیحت
کو لوگ کڑوی گولی سمجھ کر نگل لیتے تھے۔ اس وقت تک تکفیر کا نظریہ وضع نہیں ہوا
تھا,اور نہ عوام کے جذبات کے مجروح ہونے کا تصور ہی فروغ پایا تھا۔ مذہبی رواداری
کا یہ کلچر پنجاب سے لیکر بنگال تک رائج تھا۔ بنگال کے عظیم۔بھکتی شاعر اور مذہبی
پیشوا لالن فقیر بھی کبیر کی ہی طرح سماج کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور
ریاکاری ، ظاہرداری اور ذات پات کی تفریق پر کرارا ضرب لگاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں
ختنہ دینے سے اگر مسلمان
بنتا ہے
تو عورت کے لئے کیا طریقہ
ہے
برہمن مرد کی پہچان اگر
جنیو ہے
تو برہمن عورت کی پہچان
کیا ہے
ایک گیت میں وہ انسانوں
کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق پر سوال اٹھاتے ہیں
وید پران میں کہا گیا ہے
مسلمان کا خدا ہندو کا
ہری
یہ تو میری سمجھ سے باہر
ہے
کیا اس نے یہ امتیاز پیدا
کیا ہے
عورتوں کے لئے نہیں ختنہ
جس کا جنیؤ نہیں وہ بھی
تو برہمن عورت ہے
جو گیانی ہیں وہ سمجھتے
ہیں
لالن سب کی ذات ایک ہے۔
ایک دوسے گیت میں وہ کہتے
ہیں
برہمن چنڈال چمار موچی
ایک ہی پانی سے سب کا جنم
ریکھ سن کے بھی نفرت نہیں
جاتی
یم دوت تو کسی کو نہیں
چھوڑتا
چھپ کر جو ویشیہ کا بھات
کھاتا ہے
اس کا دھرم تو نہیں جاتا
ہے
لالن کہتا ہے ذات کیا چیز
ہے
یہ بھرم تو دور نہیں ہوا
لالن جس,دور میں جی رہے
تھے اس میں سماج میں ذات پات اور چھوا چھوت کی برائی عروج پر تھی ۔ یہ برائی
ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں طبقوں میں تھی۔ لالن نے ذات پات اور اونچ نیچ کی تفریق
پر بڑے ہی مؤثر انداز میں ضرب لگائی۔۔
ان سب باتوں کےباوجود
بھارت میں کسی بھکتی وادی کوی کو اس کے باغیانہ افکار کے لئے اور توہین مذہب کا
الزام لگا کر انہیں نہ پھانسی دی گئی اور نہ قتل کیا گیا۔ اس مذہبی رواداری اور
اظہار کی آزادی کے کلچر نے بھارت میں شاعری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ۔
شاعروں نے کھل کر اپنے نظریات اور فلسفے کا,اظہار کیا ۔ اس کے نتیجے میں بھکتی اور
صوفیانہ شاعری کا ایک بڑا ذخیرہ ہندوستان میں عہد وسطی۔میں جمع ہوگیا جو ہندوستانی
سماج کا سرمایہ افتخار ہے۔۔اگر عہد وسطی کے عوام اور خواص میں مذہبی رواداری اور
اظہار کی آزادی نہ ہوتی تو آج ہندوستان کی شاعری میں اتنا تنوع اور اتنا حسن نہ
ہوتا۔
اس تناظر میں ہم آج کے
ہندوستان کو دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے۔شاعروں کو اتنی آزادی نہیں ہے جتنی کہ عہد
وسطی۔میں تھی جبکہ آج کا معاشرہ زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism