New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 03:03 PM

Urdu Section ( 7 March 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Inclusion Of Religious Studies In Religious Schools مدارس دینیہ میں مطالعہ مذاہب کی شمولیت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

7 مارچ 2025

مدارس دینیہ کا ملک کی تعمیر و ترقی اور آزادی میں بنیادی کردار ہے ، مدارس نے تعلیم کے فروغ میں جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ غیر معمولی ہیں ۔  مدارس دینیہ کے نصاب اور نظام تعلیم پر آواز اٹھتی رہتی ہے ۔ ارباب مدارس کو نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے ۔ البتہ یہاں ارباب مدارس کی اس جانب توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے یہاں لازمی طور پر مطالعہ مذاہب کے مضمون کو لازمی قرار دیں ۔ مدارس میں مطالعہ مذاہب سے سماجی ، علمی اور فکری طور پر نہایت مُفید اثرات مرتب ہوں گے ۔ معاشرے سے تشدد اور نفرت کا خاتمہ ہوگا،وہیں ایک دوسرے کے مذاہب و ادیان اور افکار و نظریات کے لیے احترام پیدا ہوگا ۔

سوال یہ ہے کہ جس بھارت میں ہم رہتے ہیں اور جس ملک کی اکثریت سے ہمارے معاملات ہیں ، اٹھنا بیٹھنا ہے ، خوشی و غمی کے موقع پرباہم شریک ہوتے ہیں اگر ہم اس طبقہ کے مذہبی عقائد و اعمال ، افکار و تصورات کو نہ جانیں یا ان کا مطالعہ نہ کریں تو یقینی طور پر  دونوں طبقوں کے اندر دوریاں بھی جنم لیں گی اور غلط فہمیاں بھی پیدا ہوں گی ۔ سچ بات یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ میں یہ کوشش ابھی تک منظم طور پر نہیں ہوئی کہ مدارسِ میں زیر تعلیم افراد و اشخاص کو دیگر مذاہب کے مطالعہ کی تحریک پیدا کی جائے اور انہیں مطالعہ مذاہب کے فوائد سے متنبہ کیا جائے۔  یہی وجہ ہے کہ آج ہم نے دوسرے مذاہب کا مطالعہ نہ کرکے اپنے دل و دماغ میں ان کے لیے کتنی غلط فہمیاں پال لی ہیں، صحیح معنوں میں ہمیں اس کا ادراک بھی نہیں ہے ۔

مدارسِ دینیہ میں مذاہب کے مطالعہ کا ایک پہلو تحقیقی اور علمی بھی ہے ۔ آج دنیا نے ایک گاؤں کی شکل اختیار کرلی ہے اور تحقیق و تفتیش کے نئے نئے دروازے وا ہورہے ہیں ۔  لھذا مدارس میں بھی تحقیق و تدوین کے ان اصولوں سے استفادہ کریں اور اسلام کے ساتھ ساتھ دیگر مذاھب مثلاً ہندوستانی مذاہب اور دیگر عالمی مذاہب پر تحقیقات کی ضرورت کو سمجھیں۔  اس طرح کے علمی اور فکری موضوعات پر کام کرنے سے سماج میں یقینی طور پر متوازن سوچ اور نظریہ کا فروغ ہوگا ۔ یاد رکھیے! جب سوچ اور نظریہ مثبت اور متوازن ہوتا ہے تو اس کے نتائج یقینی طور پر بہتر اور قابل عمل ہوتے ہیں ۔ مثبت سوچ کے اثرات صرف ایک وقت تک محدود نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس کے اثرات آفاقی ہوتے ہیں ۔ جن سے استفادہ ہماری نسلیں بھی کرتی ہیں ۔

یہ  بات کہنے میں مجھے کوئی تردد نہیں ہے کہ مدارسِ دینیہ کے تحقیقی دائرہ میں مذاہبِ عالم کے حوالے سے کسی نہ کسی حد تک تنگ نظری پائی جاتی ہے ۔ آج ہمارے مدارس دینیہ سے جو تحقیقات سامنے آرہی ہیں وہ صرف اسلام سے بحث کرتی ہیں ، ان  کا دائرہ محدود ہے ۔ ان تحقیقات میں بھی مسلکی نمائندگی  کا عنصر غالب نظر آتا ہے ۔ یہ رویہ اور کردار سماج کے لیے کتنا غیر مفید ہے اس کا اندازہ ہر ایک کو ہے ۔ اسلامی موضوعات پرتصنیفات و تالیفات زیادہ سے زیادہ آنی چاہیے مگر ان میں مسلکی نمائندگی کم بلکہ حقیقی اسلام کی تصویر پیش کرنے کی  زیادہ ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں صحیح پیغام جاسکے ۔ لیکن ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اپنے برادران وطن اور ان کے مذہب و دھرم سے متعلق بھی اپنی معلومات اور تحقیقی سرگرمیوں میں اضافہ کریں تاکہ مسلم طبقہ میں مذاہب کو لے کر کوئی غلط فہمی ہائی جارہی ہے تو اس کا قلع قمع کیا جاسکے۔ مطالعہ مذاہب کے حوالے سے آج مدارسِ دینیہ کو جن موضوعات پر کام کرنے کی ضرورت ہے ان میں ایسے موضوعات پر کام کیا جائے جن میں اشتراک و یکسانیت کا پہلو نمایاں ہو ۔ جن موضوعات سے سماجی اتحاد کو فروغ ملے ۔

ارباب مدارس کو ایک اور پہلو کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ وہ اپنے یہاں مذاہب کے ماہرین کے گاہ بگاہ خطبات بھی کرائیں ، اس سے یہ ہوگا مذاہب کے مطالعہ اور  تحقیقی کام کی جانب دلچسپی پیدا ہوگی ۔ خیال اس بات کا رکھا جائے کہ ہندو دھرم پر گفتگو کرانی ہے تو ایسے ماہر کو مدعو کیا جائے جو سنسکرت زبان پر قدرت رکھتا ہو کیونکہ ہندو دھرم کا بنیادی لٹریچر سنسکرت زبان ہی میں ۔ خواہ وید ہوں ، اپنشد ہوں ، یا دیگر شاشتر اور رزمیہ نظموں پر مشتمل مواد ہو ۔ ہندو دھرم پر جس طرح کی اور اہم گفتگو سنسکرت زبان کا ماہر کرسکتا ہے اتنی معیاری اور متوازن گفتگو کوئی اور نہیں کرسکتا ۔

ایسی طرح دیگر ہندوستانی مذاہب پر گفتگو کرنے کے لیے مذہب کے ماہرین اور ان مذاہب کے متون سے واقفیت رکھنے والوں کو مدعو کرنا چاہیے تاکہ جو پیغام جائے وہ بالکل سچ ہو ۔

ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ نیو ایجوکیشن پالیسی  2020 کا نفاذ ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ اس پالیسی میں مذہبی تعلیم کا وضاحت کے ساتھ ذکر نہیں ہے البتہ اس پالیسی میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ اساتذہ کی تقرری کے وقت ایسے افراد کو ترجیح دی جائے جو انڈو لوجی یعنی ہندوستانی تہذیب و تمدن اور یہاں کے ادیان و مذاہب سے واقفیت رکھتے ہوں ، اس تناظر میں بھی ارباب مدارس کو غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے کہ اب مدارس میں مذاہب کے مطالعہ کو رسمی طور پر داخل نصاب کیا جائے ۔

 دوسری اہم بات یہ ہے بھارت کی تہذیب اور یہاں کے تنوع و تعدد پسند سماج کا تقاضا یہ ہے کہ مکالمات اور تحمل و برداشت کے ساتھ زندگی گزاری جائے ۔ ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وسعت نظر سے مختلف تہذیبوں ، ادیان ، رسومات و رواج کا مطالعہ کریں اور ان کے احترام کو یقینی بنائیں ۔

بھارت ایک ایسی سرزمین ہے جسے  رشیوں، سنتوں ، صوفیوں اور ولیوں کی آماجگاہ کے طور پربھی جانا جاتا ہے ۔ جنہوں نے بھارت جیسے تکثیری سماج میں امن و امان اور خیر سگالی کے  لیے ہر ممکن سعی کی ہے ۔ آج بھی ان کے روحانی افکار و نظریات ،  بھارت کو یکجہتی ،رواداری  کا  پیغام دے رہے ہیں ۔ مدارس دینیہ سے اگر مکالمہ اور مطالعہ مذاہب کی راہ ہموار ہوتی ہے اور باقاعدہ اس مضمون کو شامل کیا جاتاہے تو یقینی طور پرسماج میں ہم آہنگی پیدا ہوگی  ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آج کا عالمی بحران مذہبی ، سیاسی ، سماجی ،اقتصادی اور معاشی طور پر دنیا کو بری طرح متاثر کررہا ہے ۔ جس کے باعث معاشروں میں بے چینی ، نفرت اور اضطراب کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔  اس لیے مذاہب وادیان اور تہذیبوں کے درمیان مکالمہ ، گفتگو اور مطالعہ کو عہد حاضر کی سب سے بڑی ضرورت محسوس کیا جا رہا ہے ۔ تاہم یہ کوئی نئی کوشش اور جد وجہد بھی نہیں ہے ، بلکہ ماضی میں بھی متعدد اور مختلف الخیال طبقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کاوشیں ہوتی رہی ہیں ۔ اس کی نظیریں تاریخ کے اوراق میں جابجا ملتی ہیں ۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تعدد پسند طبقات میں گفت و شنید کے لیے اسلام کا فلسفہ نہاہت متوازن اور مبنی بر حقیقت ہے ۔ دین اسلام نظریاتی و فکری اختلافات کی تائید کرتا ہے ۔ یاد رکھیے! برداشت ، احترام اور محبت کی پالیسی کو اسی وقت عمل میں لایا جاسکتا ہے جب کہ ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کیا جائے ۔ قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اسلام میں نہایت شفاف تعلیمات ملتی ہیں ۔ مکالمہ بین المذاہب کا مقصد سماج میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہو،مقامی اور عالمی سطح پر سیاسی برتری پیدا کرنا نہ ہو ۔ اس کا مقصد انسانی حقوق کا دفاع اور امن عالم کا قیام ہو ۔ مکالمہ بین المذاہب کے ذریعہ کسی بھی مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر غالب کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور کسی مذہب ، برادری اور قوم کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے تو اس کے نتائج معاشرے مثبت مرتب ہوں گے ۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/religious-studies-religious-schools/d/134805

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..