New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 08:52 PM

Urdu Section ( 30 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Problem of Religious Guidance of Indian Muslims ہندوستانی مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا مسئلہ: ایک تجویز

پروفیسر مشیر الحق

ہندوستان کے مسلمانوں پر اس وقت ایک‘عجیب وقت’ پڑاہے۔ ہر طرف رہنما دکھائی دیتے ہیں لیکن کوئی راہ نظر نہیں آتی۔حدیہ ہے کہ مذہبی مسائل میں بھی صحیح منصوبہ بند رہنمائی مفقود ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک کے تقریباً ہر شہر ، بلکہ ہر قابل ذکر قصبے میں ایسے علماء اور ادارے موجود ہیں جو ضرورت مندوں کو اپنے فتووں کے ذریعے دینی مسائل میں مشورے دیتے رہتے ہیں لیکن اسی سہولت نے ایک طرح سے قومی سطح پر ‘ انفراطِ ہدایت’ کی سی کیفیت پیدا کردی ہے چونکہ ملک کے تمام دینی ادارے اور انفرادی طور پر فتویٰ دینے والے علماء اپنے کو خدا کے علاوہ کسی ایسی شخصیت یا ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے جس کا فیصلہ آخری اورحتمی ہو اس لئے اکثر وبیشتر مواقع پر رہنمائی سے زیادہ انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

متعین مثالیں دیے بغیر بھی یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر ضرورت ہوتو ایک ہی مسئلے میں دوبالکل متضاد قسم کے فتوے بآسانی حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ یہاں یہ بات اچھی طرح واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اختلاف جواب میں مفتیوں کی نیت کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، بلکہ اس کا بنیادی سبب افتاء کے موجودہ ناقص طریق کار میں پنہاں ہے۔مفتی استفتا کے الفاظ کا پابند ہوتاہے ۔ اس کے پاس جن الفاظ میں استفتا بھیجا جاتا ہے وہ انہی کے مطابق جواب دینے پر مجبور ہے۔مفتی کا یہ منصب نہیں سمجھا جاتاکہ وہ فتویٰ دینے سے پہلے استفتا میں بیان کردہ واقعات کی اپنی طرف سے چھان بین کرے گا۔ کیا یہ مفتی کی خامی ہے یا خود افتا کے ‘ادارے’ کی بناوٹ کچھ اس قسم کی ہے کہ مفتی بذات خود محقق کا منصب اختیار نہیں کرسکتا!

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ابتدائے عہد اسلام میں افتا کا کوئی باقاعدہ ادارہ نہیں تھا۔ لوگ انفرادی طور سے باصلاحیت صحابہ او ربعد میں ائمہ کی طرف رجوع کرتے تھے ۔لیکن آہستہ آہستہ جب اسلامی حکومت کے مختلف شعبوں کی تنظیم ہوئی او رمرکز اور صوبوں میں حکومت کی طرف سے ایسی عدالتیں قائم کی گئیں جن میں قاضی، مقدمات کو سننے اور طے کرنے کے لئے خلفاء کی نمائندگی کرتے تھے، اس وقت یہ محسوس ہوا کہ ہر ہر مسئلے کی جزئیات پر ضروری نہیں ہے کہ قاضی کی پوری نظر ہو۔ اس لیے فقہی جزئیات پر گہری نظر رکھنے والے ایسے علما سامنے آئے جن کا بنیادی کام یہ تھاکہ وہ ضرورت کے وقت قاضی کو قانونی نظیریں مہیا کریں۔ یوں سمجھئے کہ جس طرح آج ہر عدالت کے ساتھ چھوٹی یا بڑی قانون کی ایک لائبریری ہوتی ہے اسی طرح اس وقت مفتی حضرات قاضیوں کے لئے چلتی پھرتی لائبریری کا کام دیتے تھے۔ جو علما عدالت سے منسلک نہیں ہوتے تھے انہیں سرکاری طور پر فتویٰ دینے کا اختیار نہیں ہوتاتھا۔صرف ایک موقع ایسا آتا تھا جہاں غیر عدالتی علماء بھی آزادی سے فتویٰ دیا کرتے تھے او روہ تھا بادشاہ وقت کے خلاف بغاوت کا فتویٰ۔

اسلامی ہند کی تاریخ میں بڑے بڑے جیّد علماء کے نام ملتے ہیں لیکن ان کا ذکر علاحدہ سے مفتیوں کی حیثیت سے نہیں ہوتا۔ یہ تو جب 19 ویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاؤں مضبوطی سے اس سرزمین پر جم گئے اورجگہ جگہ کمپنی کی طرف سے محدود اختیارات کے قاضی مقرر کیے جانے لگے تب لوگوں نے کمپنی کی ملازمت سے آزاد علما کی طرف رجوع کرنا شروع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ 19ویں اور 20ویں صدی کے ہندوستانی علماء کے فتاویٰ جتنی بڑی تعداد میں ہمیں دستیاب ہیں اتنے فتاویٰ شاید ہندوستان کی پوری مسلم تاریخ میں مجموعی طور سے نہ ملیں گے۔ بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ 19ویں صدی کے پہلے کے فتاویٰ زمانے کی دست بردسے محفوظ نہ رہ سکے ہوں گے، لیکن علمی اور تاریخی طور سے اس عذر میں کوئی وزن نہیں ہے ۔مسلمانوں نے اپنے علمی ذخیرے کی ہر دور میں حفاظت کی ہے۔ اسلامی ہندوستان میں مختلف علوم وفنون پر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ اگر سب کی سب نہیں تو بھی ان کی ایک بڑی تعداد ہمارے سامنے موجود ہے ،پھر کیا وجہ ہے کہ صرف فتاویٰ کے ذخیرے کو ہم یہ سمجھیں کہ وہ ضائع ہوگیا۔

شاہ ولی اللہ کی لکھی ہوئی تقریباً ایک ایک سطر ہمارے پاس اس وقت موجود ہے،لیکن آخر کوئی سبب تو ہوگا کہ ہمیں‘ مجموعہ فتاویٰ حضرت شاہ ولی اللہ ’ نام کی کوئی چیز نہیں ملتی، جب کہ انہی کے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالعزیز کے فتوے دوجلدوں میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی اپنے پیچھے فتاویٰ کوئی مجموعہ نہیں چھوڑا ۔لیکن 19ویں صدی کے میاں نذیر حسین محدث دہلوی ایک ضخیم مجموعے کی شکل میں اپنے فتاویٰ ہمارے پاس چھوڑ گئے ہیں۔ میری اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ 19ویں صدی سے پہلے ہندوستان میں فتاویٰ کے موضوع پر کام نہیں کیا گیا۔ اس کے برخلاف دور سلطنت کے فتاویٰ تاتار خانیہ اور دور مغلیہ کے فتاویٰ عالمگیری ،جنہیں آج بھی ہندوستان اور عالم اسلام میں سند کی حیثیت حاصل ہے،اسلامی ہند ہی کی دین ہیں۔لیکن یہ دومجموعے بعد کے مجموعوں کے برعکس حکومت کی طرف سے مرتب کرائے گئے تھے۔

میرا خیال ہے کہ اگر ایسٹ انڈیا کمپنی تاجر کے بجائے حاکم کی حیثیت سے ہندوستان میں آئی ہوتی صورت حال شاید دوسری ہوتی ۔ اس وقت تک چونکہ روایت یہی تھی کہ عدالت سے غیر متعلق اشخاص کے فتووں کا سکہ نہیں چلتا تھا اس لئے اگر کمپنی چاہتی تو لوگ اسی کے مقرر کردہ قاضیوں او رمفتیوں ہی کے فیصلوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ،خواہ اسے قہر درویش برجان درویش ہی کیو ں نہ کہا جاتا۔ لیکن چونکہ شروع میں کمپنی کو اپنی تجارت خود اپنے مذہب سے بھی زیادہ عزیزتھی ۔ اس لئے اس نے شرعی عدالتیں توباقی رکھیں لیکن رواداری کا سہرا اپنے سر باندھنے کی خاطر ایسی کوئی پابندی عائد نہ کی کہ علماء انفرادی طور سے فتوے نہ دیا کریں۔اس پالیسی کے نتیجے میں ہم کس حد تک علمی طور پر سے تو ضرور مالا مال ہوئے لیکن اس علمی ذخیرے کی ہمیں بہت بڑی قیمت بھی دینی پڑی ہے۔ اسی وقت سے فتووں کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی اور ہر عالم، کم از کم دینی معاملات میں ،خود اپنے کو آخر سند سمجھنے لگا۔

بہر حال اب یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے ملک میں نہ تو کسی عالم کو سرکاری طور سے مرکزی حیثیت حاصل ہے او رنہ کسی ادارے کو ۔ہر عالم فتویٰ دینے میں آزاد ہے او رہم عالم کی رائے کو اسی وقت قبول کرتے ہیں جب وہ ہمارے حسب منشا جواب دیتاہے او رجب کبھی دل پسند جواب نہیں ملتا توفوراً کسی دوسرے درکو کھٹکھٹا نے لگتے ہیں، کیونکہ جیساکہ میں نے پہلے اشارہ کیا ہے، ایک ہی مسئلے کو ذرا ہوشیاری کے ساتھ مرتب کرکے اس کے دو مختلف جوابات حاصل کرلینا مشکل کا م نہیں ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ کسی مفتی یا دارالافتا کو چونکہ اپنے فتاویٰ کو بزور کرانے کی قوت حاصل نہیں ہے اس لیے ان فتووں کو ماننا یا نہ ماننا بھی ہماری اپنی صوابدید پر منحصر ہوتاہے۔

آج برصغیر ہند کے علاوہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جہاں علماء کو انفرادی حیثیت سے اجتماعی مسائل میں فتویٰ دینے کی آزادی حاصل ہو۔ فتاویٰ صرف حکومت کے منظور شدہ اداروں ہی سے جاری کیے جاسکتے ہیں ۔تمام دنیا کے بارے میں تو نہیں بلکہ کہہ سکتا لیکن ملیشیا کے بارے میں اپنے کتابی علم کی بنیاد پر یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہا ں انفرادی طور سے فتویٰ دینا ‘جرم قابل دست اندازی پولس ہے۱؂۔ خود عالم عرب کے اسلامی ملکوں میں بھی کسی عالم کو انفرادی طور سے فتویٰ دینے کاحق حاصل نہیں ہے۔ اضافہ علم یا ذاتی معلومات کی خاطر لوگ بھلے ہی علما سے کچھ پوچھ لیں لیکن ‘ بااختیار’ فتویٰ صرف وہی عالم دے سکتا ہے جسے حکومت نے مقرر کیا ہو۔

آج پوری دنیا ایک طرح سے ‘علمی نراج’ کے دور سے گذر رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج ہر شخص اسلام پر رائے زنی کرنا اپنا حق سمجھتاہے۔ اس صورت حال پر ہمارے علماء کا یہ اعتراض بالکل بجا ہے کہ ہر بوالہوس کو حسن پرستی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس پر بھی غور کرناچاہئے کہ ہر عالم کو فتویٰ دینے کی کھلی چھوٹ کیوں حاصل ہو۔

اس وقت کم ازکم ہندوستان میں ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہم اجتہاد کو صرف چند معاشرتی اور اقتصادی مسائل ہی تک محدود نہ سمجھیں۔ اس وقت اسلام کی ہیئت مرکز یہ کی صحیح تعیین بھی اجتہاد کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے،اور افتاء کا تعلق اسی سے ہے۔جہاں آپ کو بہت وسیع اجتہاد ات کرنے ہیں وہاں اس معاملے کو بھی اجتہاد کے ذریعے طے کرنا ہوگاکہ فتویٰ دینے کااختیار کسی ایک مرکزی ادارے کو ہویا ہر عالم فتویٰ دینے میں بجائے خود آزاد ہو۔میرے خیال میں آخر الذکرصورت تباہ کن ہے۔ جب تک ہم فتویٰ دینے کااختیار کسی مرکزی ادارے کو سپردنہ دیں گے اس وقت تک قومی انتشار سے چھٹکارا نہیں ملے گا۔

اس لئے میری تجویز یہ ہے کہ فتویٰ دینے کا اختیار مسلمانوں کی ایک ایسی اعلامرکز ی کونسل کو حاصل ہو جس میں مختلف فقہی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلم الثبوت علماء او رجدید مسائل سے گہری واقفیت رکھنے والے مسلم دانشور برابر کے شریک ہوں۔ اس کونسل کے تحت مختلف ریاستوں میں علاقائی سطح کی چھوٹی چھوٹی کونسلیں ہوں۔ مرکزی کونسل ایک طرح مجتہد کے فرائض انجام دے اور علاقائی کونسل اپنے اپنے علاقے کے لیے مفتی کی حیثیت رکھے۔علاقائی کونسل عبادات کے باب میں تو سائل کے فقہی مسلک کو سامنے رکھتے ہوئے فتویٰ دے لیکن ‘معاملات’ کے باب میں مرکزی کونسل کے فیصلوں کی پابند ہو۔ اس فرق کو ہم ایک مثال سے یوں واضح کرسکتے ہیں کہ فرض کیجئے اگر کوئی المسلک مسلمان اپنے علاقے کی کونسل سے وضو میں پیر دھونے کے بارے میں فتویٰ طلب کرے تو کونسل کو حنفی مسلک کے مطابق یہ جواب دینا پڑے گا کہ ہاتھوں او رمنہ کی طرح پیر بھی دھونے ضروری ہیں ۔اس کے بغیر نماز نہ ہوگی۔ لیکن اگر مستفتی کا تعلق شیعہ مسلک سے ہوتو پھر کونسل یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ پیروں پر صرف مسح کرلینے سے نماز ہوجائے گی۔لیکن جب کبھی اس کو نسل کے سامنے حکومتی سودی قرضوں ،لائف انشورنس ، یونٹ ٹرسٹ، تصویر کشی اور ایسے ہی اجتماعی مسائل آئیں گے تو وہ مستفتی کے فقہی مسلک کا خیال کیے بغیر مرکزی کونسل کے فیصلوں کی روشنی میں فتویٰ دے گی۔

اس مرحلے پر مجھے یہ کہنے کی بھی اجازت دیجئے کہ صرف کونسل کا قیام ہمارے مرض کا علاج نہیں ہے۔ ہر وہ کونسل جسے قانونی طور سے اپنے فیصلوں کو عوام سے منوالینے کی قوت حاصل نہ ہو بیکار محض اور تضیع اوقات ہے۔‘ قوت نافذہ’ کے فقدان کے باعث ہم نے کئی اعلا کونسلیں بنتے ہیں اور بگڑتے دیکھی ہیں۔زیادہ دن نہیں گزرے جب دارالعلوم ندوۃ العلما نے اسی قسم کی ایک مجلس کی تشکیل کی تھی۔ اسی زمانے میں جمعیۃ العلماء نے بھی ایک مجلس کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

جمعیۃ العلما ء کی مجوزہ مجلس کے بارے میں تو میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس نے بعض اہم مسائل پر غور بھی کیا تھا او راپنے انقلابی فیصلے بھی شائع کیے تھے۔ لیکن چونکہ مجلس کو قوت نافذہ حاصل نہ تھی اس لیے اس کے فیصلوں کو نہ تو مفتیوں کی بارگاہ میں قبولیت حاصل ہوسکی او رنہ عوام میں اس کا سکّہ چل سکا۲؂۔ اس لیے کسی بھی کونسل کے قیام سے پہلے ہمیں ‘‘ اسلامی نظریہ سیاست’’ میں بھی اجتہاد کا دروازہ کھولنا پڑے گا۔ہمیں پھر سے دارالا سلام اور دارالحرب کی بحث کو چھیڑ کرنئے ہندوستان کی حیثیت متعین کرنی ہوگی ۔ اس وقت یہ مسئلہ نہ توبین الاقوامی ہے او رنہ بین اسلامی ۔یہ ایک خالص ہندوستانی مسئلہ ہے جسے ہندوستان کے علماء او رمفکرین ہی کو طے کرنا ہے۔ جس طرح ہماری تاریخ میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایک ‘دار’ سے بہت سارے ‘دار’ بنتے اور بگڑتے رہے ہیں، اسی طرح آج بھی ایک ایسا نیا ‘دار’ بن سکتاہے جس میں موجودہ جموری تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمان کے مقام کی تعیین کی جائے۔ ممکن ہے غور وفکر کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچیں کہ ہندوستان ایک ایسا ‘دار’ ہے جس میں کوئی حاکم ہے نہ محکوم ،بلکہ سب برابر کے ساجھیدار ہیں۔ ایسی صورت میں کیا کسی شرعی قباحت کے بغیر مجوزہ کونسل کو پارلیمنٹ سے تسلیم کرانے کی کوشش نہیں کی جاسکتی اور یہ بات نہیں طے کرائی جاسکتی کہ ہندوستان میں مجوزہ کونسل کے فیصلوں ہی کو فتوے کی حیثیت حاصل ہو!

حوالہ جات:

1۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہومیری کتاب مذہب اور جدید ذہن (مکتبہ جامعہ دہلی) کا چھٹا باب‘ ملایا میں قانون شریعت’

2۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہومیری کتاب مسلمان اور سیکولر ہندوستان (مکتبہ جامعہ دہلی) کا تیسرا باب ‘دینی رہنمائی : ماضی کا ورثہ’۔

(اسلام اور عصر جدید،جنوری 1978)

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/religious-guidance-indian-muslims/d/131008

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..