نیو ایج اسلام
اسٹاف رائٹر
30 اگست 2023
نفرت انگیز
تقاریر اور تشدد پر بھڑکانے کی روک تھام کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد پر تمام رکن
ممالک کو عمل درآمد کرنا چاہیے۔
اہم نکات:
1. مذہبی انتہا پسندی تمام
مذہبی برادریوں میں پھیل چکی ہے۔
2. اس سے قبل صرف اسلامی
ممالک میں ہی بڑے پیمانے پر مذہبی انتہا پسندی دیکھنے کو ملتی تھی۔
3. ڈنمارک اور سوڈان حالیہ
برسوں میں مذہبی عدم برداشت کا مرکز بنے رہے ہیں۔
4. ہندوستان کے اندر بھی
اقلیتوں کے خلاف مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھا
گیا ہے۔
5. مذہبی تشدد نفرت اور
تشدد کا جنم ہوتا ہے۔
.....
حالیہ برسوں میں پوری دنیا کے اندر
مذہبی انتہا پسندی، مذہب کے نام پر نفرت اور تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا
ہے اور اس کا دائرہ مسلسل وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے قبل صرف اسلامی ممالک
میں ہی مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت اور دہشت گردی کو حتمی نتیجہ سمجھا جاتا تھا،
لیکن حالیہ برسوں میں عالم مغرب میں بھی اقلیتوں کے خلاف مذہبی انتہا پسندی دیکھی جا
رہی ہے۔ اس عدم برداشت کا مظاہرہ کبھی انفرادی نظریات کے حامل افراد کے ذریعے ہوتا
ہے اور کبھی انتہاپسند اور متعصبانہ نظریے کی حمایت کرنے والے گروہ کے ذریعے۔ بعض اوقات،
ریاست اظہار رائے کی آزادی کے نام پر عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی کی اجازت دے
کر اسے جواز فراہم کرتی ہے اور فروغ دیتی ہے۔
صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے
ہوئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 14 جون 2023 کو ایک قرارداد (2686) منظور کی
جس میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ اشتعال انگیزی، نفرت انگیز تقاریر، نسل پرستی
اور انتہا پسندی وغیرہ کی مذمت کرے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے:
"اس بات کو تسلیم کرتے
ہوئے کہ نفرت انگیز تقریر، نسل پرستی، نسلی امتیاز، زینوفوبیا، عدم برداشت، صنفی امتیاز
اور انتہا پسندی کی کارروائیاں تصادم کا باعث بن سکتی ہیں، سلامتی کونسل نے آج متفقہ
طور پر ایک قرارداد منظور کی جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ، رکن ممالک پر زور دیا گیا
کہ وہ تشدد، نفرت انگیز تقریر اور انتہا پسندی کی عوامی سطح پر مذمت کریں۔ اور انہیں
اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ عدم برداشت کے نظریے کی اشاعت اور نفرت انگیزی کو روکیں۔
کونسل کی قرارداد 2686 (2023)
(دستاویز S/RES/2686(2023) کے طور پر جاری کی جائے گی) جس کی شرائط کے مطابق، 15-قومی ادارے
نے تمام شرکاء کی اس بات پر حوصلہ افزائی کی کہ وہ رواداری اور پرامن بقائے باہمی کو
فروغ دینے اور نفرت انگیز تقاریر اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے اچھے اور مؤثر طریقوں
کا اشتراک کریں، جو بین الاقوامی قانون سے ہم آہنگ ہوں۔ خاص طور پر رکن ممالک سے مطالبہ
کیا گیا کہ وہ بین المذاہب اور بین ثقافتی مکالمے کو امن، سماجی استحکام اور بین الاقوامی
سطح پر متفقہ ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے ایک اہم ذریعہ سمجھیں۔"
یہ دیکھا گیا ہے کہ قرارداد
کو منظور اور اس پر دستخط کرنے کے باوجود بھی رکن ممالک نے نفرت انگیز تقاریر، نسل
پرستی، تشدد اور انتہا پسندی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات نہیں
کیے ہیں۔ اب نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ عالم مغرب اور ایشیا میں بھی مذہبی انتہا پسندی
عروج پر ہے۔
حالیہ برسوں میں سوڈان اور ڈنمارک
نفرت انگیز تقاریر اور مسلم اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مظاہروں کا مرکز بنے رہے ہیں۔
نفرت انگیز کاروائیوں کو آزادی اظہار کے نظریے سے جائز قرار دیا جا رہا ہے اور ایک
مذہبی طبقے کے مذہبی صحیفے قرآن سوزی کی آزادی اظہار کے نام پر اجازت دی جا رہی ہے،
حالانکہ اصولی طور پر یہ کسی خاص برادری یا مذہب سے نفرت کا مظاہرہ ہے۔ اگرچہ ڈنمارک
نے آزادی اظہار اور نفرت انگیزی کی آزادی کے درمیان فرق کو بھانپ لیا ہے اور اس نے
ملک میں قرآن یا بائبل کو جلانے پر پابندی لگانے کے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے، لیکن
سوڈان اس بنیاد پر ایسا کرنے سے گریزاں ہے کہ اسے اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے
گی۔
پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی
عروج پر ہے۔ جڑانوالہ کی مسیحی برادری پر حملہ کیا گیا اور ان کے گھروں اور گرجا گھروں
کو گزشتہ ہفتے پرتشدد ہجوم نے نذر آتش کر دیا اور انہیں تباہ و برباد کر دیا۔ ان کے
مذہبی صحیفوں کی بھی بے حرمتی کی گئی اور انہیں نظر آتش کیا گیا۔ اسے آزادی اظہار نہیں
کہا جا سکتا۔
بھارت میں بھی مذہبی عدم برداشت
اور نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے اقلیتی برادریوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد
میں اضافہ ہو رہا ہے۔ منی پور اور دہلی میں عیسائیوں پر حملہ کیا گیا اور ان کے گرجا
گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا جبکہ مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہے
اور ان کے گھروں اور عبادت گاہوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ فرقہ وارانہ گروہوں
اور فرقہ پرست افراد کی نفرت انگیز تقریر اور تشدد پر اکسانے کا نتیجہ ہے۔ حال ہی میں،
اقلیتی برادریوں کے بچوں کو نفرت انگیز تقریر اور لنچنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ حال
ہی میں بھارت کے اتر پردیش میں ایک ٹیچر ترپتا تیاگی نے نرسری کلاس کے ہندو بچوں کو
اپنے 7 سالہ مسلمان ہم جماعت کو تھپڑ مارنے کی تعلیم دی جس پر بچے کی توہین و تذلیل
کی گئی اور اسے ایک گھنٹے تک مارا پیٹا جاتا رہا۔
یہ واقعہ انتہائی تشویشناک
ہے اور اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ مارچ 2014 میں، مذہب اور عقیدے کی آزادی پر اقوام
متحدہ کے نمائندے نے کہا تھا:
"اجتماعی نفرت کے واقعات
آتش فشاں کی طرح نہیں پھٹ جاتے بلکہ یہ انسانوں کی وجہ سے ہوتے ہیں، جن کے اعمال یا
بھول چوک معاشروں میں ایک بظاہر نہ رکنے والی منفی قوتوں کو متحرک کر سکتی ہے، جن کے
نقصانات کسی قدرتی آفت سے کہیں سنگین دکھائی دیتے ہیں۔"
انہوں نے یہ تنبیہ بھی کی کہ اجتماعی
مذہبی منافرت کے جذبات اکثر خوف اور حقارت کے امتزاج کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جو بداعتمادی،
تنگ نظری اور اجتماعی ہسٹیریا کو جنم دے سکتے ہیں اور ریاستوں سے مطالبہ کیا کہ وہ
عوامی اداروں کو مذہب کی آزادی یا مذہب کے عقیدے کا ضامن بنا کر اعتماد سازی میں فعال
کردار ادا کریں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جن عوامی اداروں
کو اعتماد سازی میں کردار ادا کرنا چاہیے تھا اور مذہب کی آزادی یا مذہبی عقیدے کا
مستند ضامن بننا چاہیے تھا، اب وہی لوگوں میں نفرت کی بیج بو و رہے ہیں۔ مسلمانوں کے
خلاف نفرت کے حالیہ واقعات کی روشنی میں اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں اسکول
تیزی سے نفرت کی آماج گاہ بنتے جا رہے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک نچلی ذات کے نابالغ لڑکے
کو اس کے اونچی ذات کے استاد نے اس گھڑے سے پانی پینے پر مارا پیٹا جو صرف اونچی ذات
والے اساتذہ کے لیے تھا۔ لڑکا مر گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی قرارداد 2686 عالمی
برادری سے نفرت انگیز تقاریر کی مذمت کرنے پر زور دیتی ہے لیکن بھارت میں نفرت انگیز
تقاریر کی مذمت نہیں کی جاتی۔ قومی میڈیا اکثریتی اور اقلیتی برادریوں کے درمیان نفرت
پھیلانے میں ملوث ہے لیکن سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی
نہیں کی جاتی۔ اقوام متحدہ کے نمائندے نے بجا طور پر کہا تھا کہ مذہب کا استعمال قومی
شناخت کی سیاست کے مقصد سے کیا جا رہا ہے۔ ڈنمارک، فرانس اور ہندوستان میں ہونے والے
واقعات کے پس منظر میں یہ بات درست ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری
دنیا میں مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ اگر
فوری طور پر روکا نہ گیا تو یہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی مزید ممالک کو نسلی تشدد اور
فرقہ واریت کی آگ میں ڈال دے گی۔ ا۔ فیصلہ ہمارا ہے۔
--------------
English
Article: Rising Religious Extremism and Intolerance A Cause of
Great Concern for Humanity
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism