رفیع رضا، نیو ایج اسلام
25دسمبر،2024
تمام دنیا کے ہر سوچنے والے کے کچھ سوال ایسے ہیں جن کا مکمل جواب کسی ایک علم یا فلسفے کے اندر موجود نہیں ہے۔ جوابات مہیا کرنے میں ناکامی سے کوئی بھی علم یا شعبۂ علم ہرگز ہرگز کمتری کا شکار اس لیے نہیں ہوتا کہ اس شعبے کی کوشش مسلسل جاری و ساری رہتی ہے۔ واحد شعبہ جس کا اپنا علم اس کے اپنے شعبے کے اندر نہیں، بلکہ باہر سے لیا جاتا ہے، وہ مذہب ہے۔
مذہبی رویہ ہر کائناتی سوال کا جواب کسی کائناتی خدا کے ارد گرد تلاشنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ زبردستی سے دائرے میں رکھنے کے طریقے ڈھونڈتا ہے۔ سائنس اس کے برعکس میسر و موجود آلات یا نظریۂ آلات کی مدد سے کسی بھی مظہر کے بارے سوالات اٹھاتی ہے، سمجھتی ہے، سمجھاتی ہے اور کوشش کر کے اس جواب کو بہتر بناتی ہے۔ اگر ماضی میں غلط نتیجہ نکالا تھا تو بہتر نتیجہ پیش کرتی ہے، پہلے نتیجے کی غلطی پر ڈٹی نہیں رہتی۔
مثلاً اگر کوئی پوچھے کہ چیزیں زمین پر کیوں گرتی ہیں؟ تو مذہب کہے گا کہ اللہ کی مرضی ہے، اللہ نے اسے ایسا بنایا ہے۔ پھر اگر چاند پر وہی چیز اتنی تیزی سے کیوں نہیں گرتی جتنی تیزی سے زمین پر گرتی ہے تو مذہب کہے گا کہ خدا کی مرضی ہے۔ لیکن اگر سائنس سے پوچھیں گے تو وہ کہے گی کہ یہ اجسام کی کمیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بھاری کمیت کی چیزیں دوسری چیزوں کو کھینچتی ہیں، اس کشش ثقل یا گریوٹی کہتے ہیں۔ اب اگلا سوال، کششِ ثقل کیوں ہے؟
مذہب کہے گا اللہ نے تناسب کے لیے ایسا بنایا ہے۔سائنس کہے گی مادے کی خاصیت ہے۔ لیکن مادے کو توانائی میں تبدیل کریں تو یہ خاصیت جاتی رہے گی۔تاہم ایسا کیوں ہے، اس کا جواب سائنس کے پاس نہیں ہے۔ مذہب کی راگنی وہی ہوگی: اللہ کی مرضی ہے۔ ماضی میں بے شمار سوالات کے جوابات معلوم نہ تھے اور آئندہ میں ایسے جوابات پا لیے گئے۔ مثلاً، کیا دل جذبات رکھتا ہے؟ جیسا کہ ہم کہتے ہیں: "میرا دل چاہتا ہے"۔ تاہم سائنس نے معلوم کر لیا کہ دل نہیں، دماغ چاہتا ہے۔ دل صرف ایک پمپ ہے، اور پلاسٹک کا پمپ لگا کر انسان پہلے کی طرح کچھ چاہتا ہے، کچھ نہیں چاہتا۔
انسان نے کیوں دل کو جذبات کا ماخذ سمجھا، پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے۔ابتداء میں جب جانوروں اور انسانوں کے دل کو دیکھا گیا تو یہ سب سے مختلف چیز نظر آئی جو جسم میں خود ہی دھڑکنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دی۔ اسی لیے فرض کر لیا گیا کہ دل ہی جذبات کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ ماضی کی اصطلاحوں کو آج تک برتا جاتا ہے، حتی کہ الہامی کتابوں میں چونکہ انسان ہی کی لکھی تھیں، اُن میں بھی "ان کے دلوں میں بیماری ہے" جیسی آیات خدا سے منسوب کی گئیں۔ لیکن سائنس نے یہ "خدائی" جھوٹ پکڑ لیا، جو کہ انسانی جھوٹ تھا، کیونکہ خدا کو تو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ان کے دماغوں اور سوچوں میں بیماری ہے، دل میں نہیں۔ اس نے نہیں کہا۔
پس سائنس نے انسانی شعور کو ترقی دی اور آئندہ جب کوئی مذہبی مہم چلے گی تو اس میں جبریل اپنے نبی کے دل کا آپریشن، غارِ حرا میں، کر کے صفائی نہیں کرے گا۔ بلکہ دماغ کی اور فکر و سوچ کی صفائی و تطہیر کرے گا۔ یہاں پہلے ہی ممکنہ اعتراض کا جواب دیتا چلوں کہ کچھ فوری بہانہ تراشیں گے کہ خدا نے وہی زبان و اظہار کا طریقہ اپنانا تھا جو رائج تھا، نیا کیوں رواج دیتا؟ تو یہ فراری بیان باطل ہے کیونکہ خدا تو مخلوق کو پرانی جھوٹی باتوں کو رد کر کے نئی سچی باتیں سمجھانے کے لیے نیا نبی مبعوث کر رہا ہے۔ اگر پرانی دھرانی ہیں تو نئے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اور یوں بھی قرآن کا باطل دعویٰ ہے کہ ہم نے چھوٹی سے چھوٹی بات اس میں کھول کھول کر بیان کر دی ہے، جبکہ دنیا بھر میں ہزاروں تفاسیر آپ میں ملتی نہیں۔ اسی لیے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ فضول دعویٰ تھا۔
خیر، میرا مقصد صرف مذہبی بحث نہیں ہے ورنہ بائیبل، انجیل، توریت، وگیتا۔۔۔ سب میں ایسے ہی اوہام ہیں۔میں واپس اسی بنیادی سوال کی جانب جانا چاہتا ہوں کہ کیا انسان کو اس کے سب سوالوں کے جوابات کسی ایک شعبہ علم سے مل سکتے ہیں؟ مثلاً، مذہب سے پوچھا جائے کہ ہوا کے اجزاء کیا ہیں؟ اور جواب مذہبی حوالوں سے ہی مانگا جائے تو مذہب سائنس کو تجربے کو استعمال کیے بغیر جواب نہیں دے سکتا۔ ادھر سائنس سے جواب مانگا جائے کہ ایٹم اور مالیکیول کیوں بنے؟ کس غرض و غایت تھی؟ تو ان کے پاس بھی یہ جواب نہیں۔ اس کا جواب فلسفیانہ شاید کہیں مل جائے، لیکن اس جواب سے وقتی تسلی ہو سکتی ہے، اس کی سچائی کی گواہی نہیں دی جا سکتی کہ جواب درست ہی ہوگا! فلسفے کے نزدیک خدا ہمیشہ سے تھا، اس نے سوچا کچھ نیا کیا جائے تو حیات تخلیق کی۔ تاہم ان سے یہ سوال کیا جائے کہ وہ کہاں سے آیا؟ اسے کس نے پیدا کیا؟ تو جواب نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے خدا کیا کرتا تھا؟ سویا رہتا تھا؟ اکیلا کیسے کوئی رہ سکتا ہے اور وہ بھی پوری کائنات میں اکیلا؟ اور اگر پوری کائنات پر حاوی ہے تو صرف چھوٹی سی زمین پر ہی حیات کیوں بنائی؟
بڑے سائنسدان اسی لیے ہمیشہ مذہب اور سائنس کو بالکل الگ شعبے سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر سلیم احمد سے جب بھی مذہب اور فزکس پر اکٹھی بات ہوئی تو انہوں نے صاف کہا: "مذہب عقیدہ ہے، اس کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔" جس کسی نے مذہب اور سائنس کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی، اس نے ہمیشہ منہ کی کھائی۔ جیسے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں کام کرنے والے ایک سائنسدان سے ہوا۔ سلطان بشیر الدین محمود نے مغربی کافروں سے ایٹمی ری ایکٹرز پر کام کرنے کی ڈگری اور تجربہ حاصل کیا، اور پاکستانی ایٹمی پروگرام میں قرار واقعی اچھا کام کیا۔ خام یورینیم کو افزودہ کرنا آسان کام نہیں، انہوں نے دوسرے سائنسدانوں کی مدد سے یہ کام کر دکھایا۔
تاہم جب وہ یہ مغربی تعلیم کی وجہ سے کر چکے تو انہیں فوری طور پر اللہ، قرآن، نبی، مدینہ، مکہ یاد آیا، اور انہوں نے ایک پیپر کانفرنس میں پڑھا کہ چونکہ قرآن میں جنات کو آگ سے پیدا کرنے کا ذکر ہے، تو ہم جنات سے توانائی بنانے کی کوشش فرماتے ہیں۔ اس دن کے بعد سے وہ سائنس کے لیے ایک بیکار شخص بن چکے اور صرف تبلیغی خدمات کے لیے ویڈیوز میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ یعنی میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ آئنسٹائن اور ڈاکٹر سلیم احمد کی طرح علمی شعبوں کو ملا کر دیکھنا، احتراز ہی صحیح علمی طریقہ ہے۔ آپ نماز پڑھ کر یا حج کر کے یہ نہیں معلوم کرسکتے کہ پانی سے کار کیسے چلائیں؟ بلکہ آپ کو اس کے لیے تجربات کرنے ہوں گے، گزشتہ علم و مشاہدے کو سامنے لانا ہوگا، انجن کو تھرسٹ دینے کے لیے لوازمات سوچنے ہوں گے، بائی پروڈکٹس کو سوچنا ہوگا۔ یعنی یہ دائرہ علم، مذہبی دائرہ علم سے باہر کا دائرہ ہے۔
تو سوال یہ بنتا ہے کہ کیا سائنس ہر اٹھائے گئے سوال کا جواب دے سکتی ہے؟ تو جواب یہ ہے: ہرگز نہیں۔ البتہ سائنس کسی واقعے، وقوعے، مشاہدے کی سائینسی عملی صورتِ حال ضرور بتا سکتی ہے۔ جغرافیے والے عالم یہ نہیں بتا سکتے کہ پرندے کے معدے میں کون کون سے اینزائم یا کیمیکل ہوتے ہیں۔ حکمت والے بتا سکتے ہیں کہ پیٹ میں درد کی کیا کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ خدا کس جگہ موجود ہے؟ کیوں موجود ہے؟ خدا سے پہلے کون تھا؟ خدا کو چھپنے کی ضرورت ہے؟ خدا نے دنیا کیوں بنائی؟ پہلے اسے یہ خیال کب آیا؟ کیا کوششیں کیں؟ ایک ہی بار بنائی یا لمبا عرصہ لگا؟ خدا کی اپنی شکل کیسی ہے؟ اگر کوئی شکل نہیں تو انسانی شکل کیوں ایسی بنائی؟ ہر بات پر قادر ہے تو لنگڑے لولے اندھے معذور کیسے بن گئے؟ وائرس خدا نے خود بنائے یا غلطی سے بن گئے؟ (وائرس ایسی مخلوق ہے جس کا ہرگز کسی بھی رنگ میں کوئی فائدہ نہیں، سوائے خلفشار، موت اور خرابی کے) پس سائنس سے تمام سوالوں کے جوابات مانگنا بیوقوفی کی بات ہے۔ اسی طرح مذہب کا سائنس پر اطلاق مزید بیوقوفی ہے۔
مذہب ہرگز نہیں بتا سکتا کہ خدا نے اگر کائنات یا دنیا حیات بنائی تو اس سے ذرا پہلے کیا سوچا تھا؟ اس کا جواب خدا کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔ اس لیے ہماری ممکنہ تسلی جہاں بھی، جس بھی علمی شعبے سے ہو کر لینے میں کوئی خاص نقصان نہیں مگر یاد رکھیں، سائنس کے علاوہ کوئی بھی علمی روش سوائے جذباتی تسکین کے، کوئی دنیاوی عملی فائدہ نہیں دے سکتی۔ آپ کو سائنس کی جانب اس لیے لوٹنا ہوگا کہ پرکھنے، سمجھنے، مشاہدہ کرنے، تجربہ کرنے کا نظام سائنس کہلاتا ہے۔ سائنس کسی واقعے، چیز، اثر، ماحول، تخلیق، نتیجے کو سمجھنے، پرکھنے، دہرانے کا نام ہے۔ آپ کا رویہ سائینسی ہونا چاہیے، مذہبی نہیں ہونا چاہیے۔
مثال کے طور پر، آپ کا بچہ بیمار ہوا، مذہب آپ کو بتائے گا کہ یہ آپ کے گناہوں کی وجہ سے ہوا ہے یا آپ کو آزمانے کے لیے خدا نے ایسا کیا ہے، لیکن بچے کو بچانے کے لیے آپ کو ڈاکٹر یعنی سائنس کے پاس جانا ہی پڑے گا۔
میں تو اشعار میں یہ سب باندھتا رہتا ہوں:
خدا کے بارے سوالات ایسے ٹال نہیں
کہ خد و خال نہیں ہیں تو خدؔ و خال نہیں
رفیع رضا
ہے دسترس جو طبیعات میں تو اسکے طفیل
خدا کے بارے میں ابہام سے بچے ہوئے ہیں
رفیع رضا
اسی طرح ایک نظم میں خدا پر سوالات اٹھائے تھے کہ:
جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں اور پھر دنیا کو اور اپنی زمین پر نباتات و حیوانات کو دیکھتے ہیں، تو سوچتے ہیں کہ آخر ان کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟
ہم ایسا اس لیے سوچتے ہیں کہ ہماری یہ سوچنے کی نہج ایسی ہے کہ ہر جاندار کی کوئی ابتدا ہمیں نظر آتی ہے، یہ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے۔
عام انسان نہیں جانتے کہ پلاسٹک کیسے بنتا ہے، وہ اس پر سوال نہیں اٹھاتے کہ پلاسٹک اور نائیلون کیسے وجود میں آگیا؟ انہیں علم نہیں ہوتا کہ زمین سے نکلنے والے تیل کو خاص درجہ حرارت پر گرم کرنے سے کئی اجزا الگ کیے جاتے ہیں، جن میں سے ایک پلاسٹک بائی پروڈکٹ ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ پلاسٹک کے استعمال سے انسانی صحت پر کیسے اور کیا اثرات ہوتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے اس کے رنگ کیسے بدلتے ہیں، خالص پلاسٹک اور پولیمر میں کیا فرق ہے؟ یا نقلی پولیمر اور اصلی پولیمر میں فرق کس کمپاؤنڈ کی وجہ سے ہوتا ہے؟ یا ایسیٹال اصلی پولیمر ہے یا جھوٹا پولیمر؟
پس عام لوگوں کا علم کسی چیز کے استعمال تک ہوتا ہے، لیکن سائنس کا ذہن مختلف ہوتا ہے۔ اسے کسی سامنے کی چیز کے وجود کا ادراک کئی سطحوں پر ہوتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ فیکٹری میں بنتا ہے اور وہ بس اسی علم پر مطمئن ہیں، لیکن سائنس کسی بھی چیز کا مشاہدہ مختلف سطح کے علوم سے کرتی ہے۔ عام انسان لاؤڈ اسپیکر کی آواز روز سنتا ہے، مگر جانتا نہیں یہ کام کیسے کرتا ہے؟ آواز کیا ہے؟ کیسے وائبریشن والی صوتی لہریں مائیک کے پردے سے ٹکراتی ہیں؟ پھر اس پردے سے آگے جو لرزش پیدا ہوتی ہے، اس کے اثر کو کیسے مقناطیسی میدان برقی رو میں منتقل کرتا ہے؟ پھر کیسے وہ آگے منتقل ہو کر سپیکر سے خارج ہوتی ہے؟
عام انسان کو اسی طرح دنیا کی کروڑوں چیزوں اور اربوں کھربوں کیمیائی تعاملات کا علم نہیں ہوتا۔ لیکن اُسے ایک علم ہوتا ہے کہ ایک مذہبی خدا ہے جو سب دیکھ رہا ہے، اچھے برے کو جزا سزا دیتا ہے، پتے ہلتے نوٹ کرتا ہے، بادل لاتا ہے، زلزلے لاتا ہے، سیلاب لاتا ہے، فرشتے رکھتا ہے، شیطان سے اس کی لڑائی ہے۔ یہ عام انسان کو پتہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ وہ اسے ایسا سچ سمجھتا ہے کہ اس کے انکار پر آپ کو قتل کر دیتا ہے، اپنے بیوی بچوں، ماؤں، بھائیوں کو قتل کر دیتا ہے کہ اس خدا کا انکار کیوں کیا؟
تاہم آپ کو معلوم ہے کہ یہ عام انسان دنیا کی کروڑوں چیزوں کا علم نہیں رکھتا۔ اسے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا ہے، سائیکل خراب ہو تو میکینک کے پاس جاتا ہے، روٹی کے لیے کسان کا محتاج ہے، تعلیم کے لیے سکول و استاد کا محتاج ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات پر اس کا یقین، ایمان اور علم اتنے پکے ہوتے ہیں کہ وہ آپ کو کافر، ملحد، زندیق، بندر، خنزیر کہہ دیتا ہے، زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔
تو صاحبو، ایسا عام انسان اس لیے ایسا کرتا ہے کہ اس کے دماغ کی برین واشنگ یا بچپن سے تربیت اس مسلط کردہ ایمان یا غیبی علم کے سائے میں ہوتی ہے۔ وہ اس کنویں سے باہر سوچنے سے معذور ہوتا ہے! اُسے کنویں سے باہر جو دکھائیں گے وہ اسے چلو بھر پانی کہے گا۔ وہ اپنے موجود کو ہی احسن ترین سمجھے گا۔ وہ دوسروں کو کافر، باطل، دوزخی کہے گا اور اس پر دل سے یقین رکھے گا۔ اس کا کوئی قصور نہیں، یقین کریں، اس کا اس میں کوئی قصور نہیں، وہ چونکہ اس فاسد تربیت سے گزرا ہے جس میں اندیکھے پر ایمان فرض ہے، اُسے صرف وہ دلائل پسند ہوں گے جن کی روشنی میں وہ اپنے ہی عقیدے، ایمان، مذہب یا علم کو سچا ثابت کر سکے۔ ہر وہ بات جو اس کے پسندیدہ عقیدے کے خلاف ہوگی، وہ کافرانہ، دھریانہ، بری، باطل، گمراہ کُن ہوگی۔
دوسری طرف سائنس ایسا علم ہے جس میں ایمان و عقیدے کے پرچار کی روشنی میں کسی بھی چیز، منظر، مادے، آواز، لہر، موج، پروسیس وغیرہ کو نہیں پرکھا جاتا، بلکہ مشاہدے، تجربے اور جزیاتی پیچیدگیوں کی تہوں کو کھنگالنے کے بعد کوئی نتیجہ نکالا جاتا ہے۔ سائنس نے قدیم ترین فوسلز میں ابتدائے حیات کے شواہد تلاشے اور یہ نتیجہ نکالا کہ شاید ابتدا میں یک خلیاتی حیات کیمیائی تعامل سے پیدا ہوئی ہوگی، پھر اینٹروپی کے نظریے کے تحت کثیر خلوی جاندار بنے، اور یوں ارتقائی طور پر موجودہ جانداروں تک وقت پہنچ گیا۔ تاہم اس نظریے کے مطابق ابتدائی حیات یا جاندار خلیے میں ضربی تحریک کیسے پیدا ہوئی؟ یہ سوال شافی جواب نہیں پا سکا۔
ادھر مذہبی سائنس یا مذہبی غیر سائینسی نظریے کے مطابق ایک خدا ہے جو ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا، اور اُس نے زمین بنائی، آسمان بنایا، ہوا، پانی اور عناصر بنائے، اور حیات بنائی، اور وہ اس کو کنٹرول کرتا ہے۔ وہ طیش میں زلزلہ لاتا ہے تاکہ لوگ اچھے ہو جائیں، بیماریاں لاتا ہے تاکہ سزا دے، سیلاب لاتا ہے تاکہ سزا دے، بجلی چمکاتا ہے کہ ڈرائے اور آنکھوں سے بینائی لے جائے، یخطف ابصارہم۔ اور یہ خدا، یعنی یہ مذہب خدا بہت سی صفات رکھتا ہے جیسے قرآن میں صفاتی نام، جیسے بائبل میں صفاتی نام ہیں: یعنی، رحیم، مہربان، سمیع، غنی، بصیر، نذیر، ودود، باری، مصور، کریم، غفور، مکّار، وغیرہ (اللہ خیر الماکرین) اپنی صفات کی روشنی میں خدائے مذہبی نے زمین پر حیاتیاتی نظام بنایا، جو ہم دیکھتے ہیں۔ کہ جاندار آکسیجن کے محتاج بنائے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں، جو درختوں پودوں کو ملتی ہے، وہ جذب کر کے واپس آکسیجن بناتے ہیں۔
اسی خدا نے جاندار بنائے، جانور بنائے، جن میں بھیڑیا، کُتا، بھگیاڑ، مگرمچھ، شیر، چیتا، نیولہ، عقاب، بنائے جو گوشت خور ہیں۔ پس اس خدا نے دوسرے جانور بنائے جو گھاس کھاتے ہیں اور ان کو یہ گوشت خور کھاتے ہیں۔ اب چونکہ وہ مذہبی خدا رحیم، بہت رحم کرنے والا، ترس کھانے والا، مہربان، مشفق اور ماں کی درد رکھنے والا ہے، اس لئے اس نے ایسا نظام بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانوروں کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ نوچے جانے والی گائے، بھینس، بکری، ہرن، ہاتھی، زرافے، بندر وغیرہ درد کی شدت سے چیختے ہیں۔ ایک جانور ماں کے سامنے اس کے بچے کو شیر، بھیڑئیے نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ اب چونکہ خدا بڑا رحیم ہے اور ترس کھانے والا ہے، مخلوق روئے تو اس کو ترس آتا ہے، تو اس نے ایسا نظام کیسے بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانداروں کو ضرورت میں اور بلا ضرورت بھی قتل کریں، بھنبھوڑیں، نوچیں، ان کی بوٹیاں کاٹ کاٹ کر کھائیں؟ کیا خدا ترس کھانے والا نہیں؟ آپ تو کہتے ہیں مذہبی خدا ترس کھانے پر مہربان، رحیم ہے، پھر یہ تکلیف دینے والا نظام کیوں؟ اگر آم، سیب، کیلا کھانے سے پھلوں کو تکلیف نہیں ہوتی تو سب کو سبزی خور ہی بنا دیتا۔ لیکن مچھلی کو مچھلی کھا رہی ہے، ہزاروں قسم کے جانور ایک دوسرے کو قتل کر کے کھاتے ہیں۔ ایسا نظام بنانے والا کیسے رحم کرنے والا ہو سکتا ہے؟ کیسے ماں کی طرح اولاد کے لئے رو سکتا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا کنویں جیسا دماغ جو مذہبی تعلیم سے محدود کر دیا گیا، اس نے خیالی مذہبی خدا کی صفات خود بنائیں؟ ترس کھانے کا تصور شاید خود انسانی دماغ کی صفت نہ ہو؟ ایسا کیوں آپ نے کبھی نہ سوچا؟ آپ کہیں گے کہ خدا نے یہ نظام ہی ایسا بنایا ہے۔ تو پھر میں یہی سوال کروں گا، ایسا تکلیف دہ نظام کیوں بنایا ہے؟ یا پھر جانداروں کو ایسی حسیت ہی نہ دیتا کہ وہ اس ظلم یا کریہہ نظام کو برا اور بےرحمانہ سمجھیں؟ یہ صلاحیت ہی نہ دیتا؟
اگر صلاحیت بھی دی ہے اور بےرحمانہ نظام بھی بنایا ہے، تو یقینی بات ہے کہ وہ رحم پر مبنی نظام بنانے کی صلاحیت سے عاری تھا۔ ورنہ وہ اپنی صفات مہربانی و رحم کی وجہ سے بےرحمانہ نظام نہ بناتا۔
یا پھر، خدا میں یا بنانے والے میں رحم کی صفت موجود ہی نہیں، اور ہم اپنے کنویں میں سوچ کر جو صفت اس سے منسوب کر بیٹھے ہیں وہ اس کی نہیں، ہماری انسانی صفت ہے! اس گفتگو سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ خدا کی ایسی صفات جو نرمی، مہربانی، رحم، ترس اور محبت پر مشتمل ہیں وہ انسان نے بنائی ہیں۔ خدا کی صفات نہیں ہیں۔ یا پھر یہ وہ والا خدائے مذہبی نہیں ہے، کوئی اور خدائے قدرتی ہے جو ایسی کسی بھی صفت سے عاری ہے۔
سائنس ہمیں سمجھاتی ہے کہ دیکھو، بجلی کوئی نہیں چمکاتا بلکہ فضا میں موجود گیسیں، ہوا کا دباؤ، پانی کے بخارات اور مقناطیسی میدان یہ سب کچھ پیدا کرتے ہیں جسے ہم آسمانی بجلی کہتے ہیں، جو مندروں، مساجد، گورو گھروں، کعبہ وغیرہ پر ضرور گرے گی، اگر وہاں خدا کے حملے سے بچاؤ کے حفاظتی ارتھ سسٹم والا آلہ نہ لگائیں! یعنی خدا کے اپنے گھروں کو بھی اسی کے غضب یعنی بجلی سے بچانے کے لئے انسان کو آلہ ایجاد کرنا پڑ گیا۔ اس دلیل کے جواب میں مذہبی علما کی آئیں بائیں شائیں دیکھنے والی ہوگی، وہ کہیں گے انسان کو خدا نے عقل اسی لئے دی ہے۔ مگر بجلی خدا کے حکم سے کسی پر سزا کے لئے گرنے والے پرانے عقیدے کو خود ہی جھٹلائیں گے کہ فلاں الہامی کتاب میں جو لکھا ہے وہ اور حوالے سے ہے اور حدیثیں تو خدائی نہیں ہیں، بعد کے لوگوں نے بنائی ہیں۔
چھاپہ خانے کی ایجاد کو کفر کہا گیا۔ گانے بجانے کو کفر کہا گیا۔ فلمیں اور بت گری کفر و شرک کہا گیا۔ خدا کے کام میں مداخلت کو جرم کہا گیا، جس میں دوائیں بھی شامل ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ اجتہاد کر کے معانی بدل کر ایسی آیات چن لیں جن کے مطالب مشتبہ ہیں، کہا کہ خدا کو ستارے سجدہ کرتے ہیں، کا مفہوم یہ نہیں وہ ہے۔ درخت سجدہ خدا کو کرتے ہیں، کا مطلب اصل میں یہ نہیں کچھ اور ہے۔
عام مذہبی انسانی ذہن چونکہ مذہب کے مقید کنویں میں ہی سوچتا ہے، اس لئے اس کی تسکین مذہبی علما یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ خدا کی مرضی اسی میں ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی بیماری سے مر گیا تو خدا کی مرضی ہے، معذور پیدا ہوا تو خدا کی مرضی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمہارے چچا کے لڑکے لڑکیاں تم پر حلال، تو سائنس کہتی ہے تھیسیمیا کی بیماری اس سے بڑھ رہی ہے، مت کرو کزنوں میں شادی ورنہ معذور معاشرہ بن رہا ہے۔
مذہبی کہتا ہے پولیو کے قطرات خدا کے عمل میں رکاوٹ ہیں۔پھر ایک طرف کوئی نبی، رسول، ولی، اللہ، خلیفہ، پوپ، پنڈت، ربی، گورو، مخالفوں کی موت کو اور مخالفوں کے بچوں کی موت کو اپنا خدائی معجزہ یا دعا بتاتا ہے، لیکن اپنا بچہ مر جائے تو اسے مخالفین کی سچائی نہیں مانتا بلکہ خود پر ابتلا کہہ کر بات گھما دیتا ہے کہ مجھے خدا نے میرے بچے کی موت کے بارے خود ہی بتا دیا تھا۔ یعنی مخالف کا بچہ مر جائے تو خدا سے ان کا تعلق، اپنا بچہ مر جائے تو بھی خدا سے تعلق پکا ہے۔
مذہبی کتب میں غیر مذہب کو، مخالفوں کو خدا برا بھلا کہتا ہے، مگر غور سے دیکھیں تو جو جو الفاظ خدا مخالفوں کے لیے استعمال کرتا ہے وہ سارے انسانی خصائلِ بد ہیں۔یعنی صاف پتہ چلتا ہے کہ ان الہامی کتابوں میں خدائی طیش و غضب اصل میں انسانی غصہ، مایوسی، ناراضگی وغیرہ ہیں۔جیسے دیہات میں پنجابی میں کچھ ہو نہ سکے تو کہتے ہیں، "تیرے ککھ نہ رھویے، تُو ڈوب مرے، تینوں شالہ موت آوے، اوئے لعنتی، اوئے مورکھ، تجھے خدا بے اولاد رکھے، تُو اندھا، گونگا، بہرا ہے، تُو بندر جیسا ہے، تُو خنزیر جیسا ہے۔"
یعنی خدا اپنی ہی ایک مخلوق انسان کو اپنی ہی دوسری مخلوقات جیسا بتا کر برا بھلا کہتا ہے۔خدا خود ہی کہتا ہے، "ان نہ ماننے والے لوگوں کے دلوں میں پہلے سے ہی بیماری ہے اور اللہ ان کی بیماری اور بڑھاتا ہے۔" یاد رکھیں کہ یہ خدا وہ خدا ہے جو مان سے زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے، اور رب ہے اور رحیم ہے، اور کریم ہے اور غفور ہے، اور ودود ہے، اور رحمان ہے۔
اچھا، اب اس مذھبی خدا کو ماننے والوں کے مختلف علمی ذہنی طبقے ہیں۔ جو بہت فاتر العقل ہیں، وہ تو ایک آدھ آیت کے بعد جواب سے معذور ہو جاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو تھوڑا بہت جانتے ہیں، کچھ ادھر سے لیا کچھ ادھر سے، اور پھر ایک ملغوبہ قسم کا ایمان اپناتے ہیں، جس میں بات کو گھما پھرا کر اپنا عقیدہ سچا ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ لیکن تفسیر و پیچیدہ مسائل کے لیے وہ مفسر نما مذھبیوں کے محتاج ہوتے ہیں، جیسے ذاکر نائک یا جاوید غامدی، ایسے مذھبیوں کی تشفی اپنی مثالوں سے کر دیتے ہیں۔
مثلاً جب غامدی جی سے پوچھا گیا کہ یہ قرآن میں بار بار لالچ اور دھونس و ڈراوا کیوں خدا کی طرف سے آتا ہے؟ یہ حوروں کا ذکر، ڈھکے انڈوں جیسی بڑی موٹی آنکھیں۔ حوریں جو کنواری ترین ہوں گی۔۔۔ تو عورتیں کیا پائیں گی؟ تو ہنس کر یا تو ٹال دیتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں کہ وہ اصل میں بیویاں ہی ہوں گی یا محسوسات ایسی ہوں گی وغیرہ۔
ایک درس کے دوران جاوید غامدی نے شہری کی جانب سے بھیجا گیا سوال پڑھا، شہری نے پوچھا: "جنت میں حوریں ہوں گی جنہیں اہل جنت سے پہلے کسی جن و انس نے چھوا نہیں ہوگا، کیا اہل جنت ان حوروں کے نتیجے میں اولاد سے بہرہ ور ہوں گے؟"
شہری کے سوال پر جاوید غامدی نے کہا: "ایک تو یہ سمجھ لیجئے کہ حور کوئی مخلوق نہیں ہے، بلکہ حور ایک صفت کا نام ہے جس کا مطلب آہو چشم ہے، آپ کی بیویاں ہی حوریں ہوں گی۔"
آپ خود ایمانداری سے سوچیں، قرآن میں صاف صاف لکھا ہے لیکن یہ ملاں اپنے معانی بناتے ہیں۔ آئیے ذرا اس کو پھیلاتے ہیں:
حُورٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِۚ(۷۲) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِۚ(۷۳)
ترجمہ: کنزالایمان "حوریں ہیں خیموں میں پردہ نشین تو اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے"
تفسیر: صراط الجنان
{حُوْرٌ: حوریں۔} ارشاد فرمایا کہ ان جنتوں میں خیموں میں پردہ نشین حوریں ہیں جو کہ اپنی شرافت اور کرامت کی وجہ سے ان خیموں سے باہر نہیں نکلتیں۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۱۵)
جنتی حور اور اس کے خیموں کا حال:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اگر جنتی عورتوں میں سے زمین کی طرف کسی ایک کی جھلک پڑ جائے تو آسمان و زمین کے درمیان کی تمام فضا روشن ہو جائے اور خوشبو سے بھر جائے۔" (بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۴، حدیث: ۶۵۶۸)
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مؤمن کے لئے جنت میں ایک کھلے موتی کا خیمہ ہوگا، اس کی لمبائی 60 میل ہوگی، مؤمن کے اہل خانہ بھی اس میں رہیں گے، مؤمن ان کے پاس (حقِ زوجیت ادا کرنے کے لئے) چکر لگائے گا اور ان میں سے بعض بعض کو نہیں دیکھ سکیں گے۔" (مسلم، کتاب الجنہ وصفۃ نعیمھا واہلہا، باب فی صفۃ خیام الجنۃ وما للمؤمنین فیہا من الاہلین، ص۱۵۲۲، حدیث: ۲۳(۲۸۳۸))
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ:} تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں پیدا فرمائیں جو تمہارے لئے پردہ نشین اور (دوسروں سے) چھپی ہوئی ہیں، تو تم دونوں اپنے رب عزوجل کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ (روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۳، ۹ / ۳۱۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر کے بیانات کو دیکھیں اور جاوید غامدی سمیت بہت سے ایسے مذھبی علما کی تاویلات کو سنیں تو آپ اگر برین واشڈ نہیں ہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ سب الہامی کتابیں انسانی کاوشیں ہیں۔۔۔ ان میں کچھ اس پرانے عہد میں قدرے روشن خیال باتیں سمجھی جا سکتی ہیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو کتاب خود کھول کھول کر مچھر جتنی حقیقت بھی لاریب طریقے سے بیان کرتی ہے، وہ حوروں کا لالچ دیتے ہوئے یہ کیوں نہیں بتاتی کہ تمہاری موجودہ بیویاں آخرت میں کنواری بن جائیں گی اور خوبصورت بن جائیں گی وغیرہ؟ خدا کو مسئلہ کیا ہے کہ اس کی بات غامدی جی کو ہی سمجھ آتی ہے، پورے عرب سمجھ نہیں آئی؟
اور پھر مخاطب بھی وہ زمانہ جہاں لونڈیاں خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حسین عورتوں کے دام بہت بالا تھے۔۔ وہاں اپنی پرانی بیویوں پر عربی انسان کیسے قناعت کرتے؟ صاف ظاہر ہے آخرت میں مظلوم کو ظالم کے مقابلے پر جنت کی نعمتیں ملیں گی۔۔۔ اور رسول کے ساتھیوں کو اعلیٰ مدارج ملیں گے کی ترغیب گروہ کو بڑھانے کی انسانی کاوش کا نتیجہ ہے۔
کسی مذھبی خدا سے اس کا کوئی تعلق نہیں، نہ ایسا کوئی خدا ہے جس کو ستارے سجدہ کرتے ہیں۔۔۔ یا اشجار سجدہ کرتے ہیں۔
النجم و الشجرُ یسجدان۔۔۔
تاہم جب آپ سائنس اور حقیقت کی طرف آئیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی طاقت ہے یا طاقتیں ہیں جنہوں نے فزکس کے اصولوں کے تابع رہ کر حیاتیات بنائیں۔ ایسی طاقتیں ایک ہوں یا کئی، یا پانچ سو، اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سائنس مسلسل دریافت کا علم ہے۔ کئی اور ڈائمنشن ہو سکتی ہیں جن تک ہماری رسائی نہیں ہے۔۔۔ یا محدود کر دی گئی ہے۔ اگر رسائی ہوئی تو ان طاقتوں سے ملاپ ہو سکتا ہے۔ تاہم، مذھبی خدا بقول مذھب رحم کرتا ہے، مہربان ہے، غنی ہے، سلیم ہے، سمیع ہے۔۔۔ تاہم غور کریں تو حیاتیاتی نظام میں کوئی رحم نہیں سوائے مادر پدر کے، شفقت پدری و مادری کے۔ کیونکہ حیات کے سلسلے کو چلانا ہے، وہ بھی ٹوٹو پھوٹا رحم ہے۔ کئی جگہ ماں باپ بچے کو مار دیتے ہیں، ماں بچے کو کھا بھی لیتی ہے، کئی جانور اپنے بچوں کو کھا جاتے ہیں۔۔۔ قدرت میں ہماری انسانی رحم کی صفت کا کہیں پتہ نہیں۔۔۔ جاندار دوسرے جانداروں کا حق مار کر خود زندہ رہتے ہیں، بھیڑئے اور بیسیوں جانور دوسروں کو زندہ نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔
کیا آپ دیکھنا پسند کرتے ہیں کہ ہرن یا گائے کو سات آٹھ بھیڑیے زندہ نوچ نوچ کر کھائیں؟ آپ اس منظر کو دیکھ کر دکھ محسوس کرتے ہیں یا بہت لذت ملتی ہے؟
اگر ہم کسی جاندار کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے تو خدا تو رحیم کریم مہربان ہو کر کیسے ایسا نظام بنا سکتا ہے؟ کوئی قصائی کبھی شاعر نہیں بن سکتا۔۔۔ پس ہمارا مشاہدہ بتاتا ہے کہ قدرتی خدا کبھی رحیم کریم مہربان غفور سمیع علیم نہیں ہو سکتا۔ ورنہ وہ ایسا ظالمانہ تکلیف دہ نظام نہ بناتا۔
آپ نے تصاویر دیکھی ہوں گی کہ ایک معروف پاکستانی کرکٹر اپنی معصوم پانچ چھ سال کی بچی کو جانور کی گردن کاٹتے یا کٹی گردن دکھاتا ہے، وہ مذھبی جگہ جگہ نمازیں پڑھتا دکھایا جاتا ہے، کیا مذھب کی تلقین جانوروں کا قتال ہے؟ معصوم بچی کو کیا تربیت دے رہا تھا؟
کیا آپ کو علم ہے کہ جانوروں کے انسداد بے رحمی کے قوانین کافر اقوام نے بنائے ہیں؟ حتیٰ کہ درختوں تک کی حفاظت کے عالمی قوانین کافروں نے بنائے ہیں۔
خدا نے کیوں ایسے قوانین نہ بنائے؟ خدا میں انسانی غصہ کیوں ہے؟ خدا غصہ کرنے کی بجائے دلوں کی بیماری ٹھیک کیوں نہیں کرتا؟ خدا معذور کیوں پیدا کرتا ہے؟ خدا نے بیماریاں کیوں پیدا کیں؟ خدا ہر چیز پر قادر ہے تو پاخانہ اور غلاظت والے نظام کی بجائے کچھ اور کیوں نہ بنایا؟
آپ سوچیں اور پھر آپ سمجھیں گے کہ مذھبی خدا انسان کا بنایا گیا تصور ہے۔ اور قدرتی خدا وہ ہے جو حیاتیاتی نظام بنانے والی قوت ہے۔
وہ قوت کہاں ہے؟ یہ سائنس معلوم نہیں کر سکی۔۔۔ جیسے سائنس اور کل انسانی شعور کو پہلے بہت سی باتیں معلوم نہیں تھیں۔۔۔ جیسے زمین کی کششِ ثقل ہے، یا زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، یا آسمان اوپر نہیں، ہر طرف ہے۔۔۔ یہ باتیں سائنس نے لاکھوں سال بعد دریافت کی ہیں، اس لئے جلدی کی کوئی ضرورت نہیں، ذرا صبر کریں۔
سوچیں، قدرتی خدا کسی اور ڈائمینشن میں ہو گا۔۔۔ نہ بھی ہو تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم بیماریوں اور قدرتی آفات سے خود ہی لڑتے ہیں۔ ہر بظاہر معجزے یا جادو کا سائنس سے تجزیہ موجود ہے، کوئی جادو نہیں ہوتا۔ کسی روح کا ہونا سائنس سے ثابت نہیں۔۔۔ جلد کو لیبارٹری میں اگایا جا سکتا ہے۔۔۔ اب اعضا بھی بنائے جائیں گے۔ دلوں میں بیماری ہے تو سائنس نے ربڑ کا دل بنایا اور دنیا میں کئی مریض اُسی دل کی پمپنگ سے جی رہے ہیں۔
ملاں کہیں گے قرآن میں جو ان کے دلوں میں بیماری سے مراد ہے وہ دماغ ہے۔۔۔ تو پھر۔۔۔ رسول کا اوپن ہارٹ آپریشن یاد آئے گا جس میں جبریل نے دل کو صاف کیا تھا۔۔۔ ظاہر ہے کوئی بیماری ہی ہو گی۔۔۔ لیکن یاد رکھیں، دل نکالا تھا دماغ نہیں۔۔۔ پس آپ جو دلیل دیں وہ آپ کو واپس ادھر بھی لاگو کرنی ہو گی۔ میں نے یہاں تک سفر 50 سال میں کیا ہے، اچانک نہیں پہنچ گیا۔
جن ملحدین کو قدرتی خدا پسند نہیں آیا وہ برائن کاکس کی گفتگو سنیں، شاید کوئی دلیل پسند آ جائے۔۔۔ ورنہ میں تو خدا کے ہونے نہ ہونے دونوں سے ہرگز پریشان نہیں ہوں، لیکن جو بھی خدا ہے، اس کو میرا یہ پیغام ہے کہ:
اگر خدا نے چلایا ہے یہ نظامِ حیات
قسم خدا کی بہت ہی برا چلایا ہے
۔۔۔
رفیع رضا ایک پاکستانی کالم نگار ہیں ۔
---------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/religion-science-philosophy-different-knowledge/d/134134
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism