New Age Islam
Mon May 12 2025, 02:44 PM

Urdu Section ( 22 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Religion And Morality اسلام اور اخلاقی اقدار

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

22 اپریل 2024

انسانی معاشرہ اخلاقی اقدار پر ہی قائم ہے۔ انسانوں کے معاملات اخلاقیات کی حدود میں ہی طئے پاتے ہیں۔ اور اخلاقیات کا سرچشمہ مذہب ہے۔ مذہب نے انسانوں کو اخلاقیات کی تعلیم دی اور انسانوں کے لئے نیک و بد ، صحیح اور غلط ، ظلم و انصاف کی کسوٹی قائم کی۔ اخلاقیات کو مذہب سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء نے انسان کو اخلاقیات کی تعلیم دی۔ ہر مذہب نے توحید کی تعلیم دینے اورعبادت کے طور طریقے سکھانے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھی درس دیا۔ انسان نے ابتدائی دورسے ہی ایسے اعمال و افعال انجام دئیے جو خدا کے تشکیل کردہ اخلاقی اقدار کے خلاف تھے۔ اس لئے اخلاقی اقدار ہمیشہ سے ہی انسان کی طبیعت پر بار رہے ہیں اور وہ ان اقدار کی خلاف ورزی کافطری میلان رکھتا ہے۔ انسانی نسل کے ابتدائی دور ہی میں بابیل نے اپنے بھائی قابیل کا حسد کی وجہ سے قتل کردیا۔ مقتول نے کوئی قصور نہیں کیا تھا۔ لہذا، مذہب نے یہ طئے کیا کہ کسی بے قصور کا قتل غلط ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ اگرمذہب نے اس قتل کو غلط قرارنہ دیا ہوتا تو آج انسانی معاشرہ محفوظ نہ ہوتا اور قتل و غارتگری عام ہوتی۔ قوم مدین کے افراد نے لین دین میں بے ایمانی کو اپنا شعاربنا لیا تھا۔ان کےنزدیک کم تولنا زیادہ منافع کمانے کا ذریعہ تھا۔ لیکن حضرت شعیب علیہ السلام کے ذریعہ خدانے ان کوبتایاکہ لین دین میں بے ایمانی اوربدعنوانی انسانی معاشرے کا وطیرہ نہیں ہے ۔ اس طرح لین دین میں ایمانداری انسانی اخلاقیات کا حصہ بن گئی اور قیامت تک کے لئے کم ناپنا اور کم تولنا غیر اخلاقی عمل قرار پایا۔اگر حضرت شعیب علیہ السلام نے اہل مدین کو صرف توحید کی تعلیم دی ہوتی اور لین دین میں انکی بے ایمانی پر انہیں نہ ٹوکا ہوتا تو کاروبارمیں بے ایمانی اور فریب کو غلط نہ سمجھاجاتا اور اسے عیب کی بجائےہنر تصور کیا جاتا۔ اسی طرح سدوم اور غمورہ میں آباد قوم جنسی کج روی میں مبتلا ہوئی تو حضرت لوط علیہ السلام نے ان کے عمل کو گناہ عظیم قرار دیا جبکہ ان کی قوم جنسی کج روی کو برا نہیں سمجھتی تھی۔مذہب نے ہی جنسی کج روی کو غلط اور غیر اخلاقی قرار دیا ۔ انسانی فطرت ہر اس عمل کی طرف مائل ہوتی ہے جس سے اسے ذاتی خوشی اور جسمانی لذت حاصل ہوتی ہو۔ وہ دوسرے انسانوں کےنقصان اور دکھ اور تکلیف کی پروانہیں کرتا۔ اگر ہر انسان صرف اپنی خوشی کی پروا کرے اور صرف اپنے فائدے اور آرام و آسائش کے حصول کی فکر کرے تو ہر انسان اپنے فائدے اور اپنی خوشی کے لئے دوسروں کانقصان کرے گا۔ اس طرح ہر انسان کی آزادی اور مفاد خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس لئے مذہب نے ہر انسان کے لئےاخلاقی حدود قائم کردیں تاکہ ہر انسان اپنی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہو۔وہ دوسروں کا,احترام کرے تاکہ اس کابھی احترام کیا جائے۔

اسلام۔نے اخلاقی اقدار کو بہت اہمیت دی اور دنیا میں اخلاقی اقدار کا,احیاء کیا۔ اسلام نےانسانی جان کے احترام کو ہر چیز پر مقدم رکھا۔ اسطرح انسانی جانوں کا احترام عالمی اخلاقی اقدار کا حصہ بن گیا ہے ۔بچیوں کی جنین کشی یا کمسنی میں بچیوں کا قتل قدیم زمانے سے ہی دنیا کے مختلف ممالک میں رائج تھا۔ یہ صرف عرب معاشرے کی بیماری نہیں تھی۔ یونان سے لیکر امریکہ اور چین تک یہ غیر انسانی چلن عام تھا۔ اسلام نے آکر اس غیر اسلامی چلن کو ختم کیا۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ جدید معاشرے میں تو غیر مسلم بھی جنین کشی اور کم سن بچیوں کا قتل گناہ سمجھتے ہیں۔ اور غیر اسلامی ممالک میں بھی جنین کشی ممنوع ہے۔ یہ درست ہے لیکن اسلام نے ساتویں صدی میں سب سے پہلےبچیوں کا,قتل ممنوع قرار دیا ۔ آگے چل کر مہذب سماج نے اسلامی اخلاقیات کا اثر قبول۔کرتے ہوئے جنین کشی کو گناہ اور غیر اخلاقی عمل۔قراردیا۔

غلامی کو بھی جدید معاشرے میں جائز سمجھا جاتا تھا۔ انسانوں کو غلام رکھنا شان کی بات سمجھا جاتا تھا اور غلاموں کی خرید و فروخت کو ایک منافع بخش کاروبار کا درجہ حاصل تھا۔ مغرب سے لیکر مشرق تک دنیا کے تمام ملکوں میں غلاموں اور لونڈیوں کو ملکیت اور جائیداد سمجھا جاتا تھا جو باپ کے بعد بیٹے کو ورثے میں ملتی تھی۔ اسلام نے اس چلن کو اخلاقی اقدار کے منافی قراردیا۔ اور غلاموں اور لونڈیوں کی سماجی بازآبادکاری کی تحریک شروع کی۔ اسلامی اخلاقیات سے متاثر ہوکر ہی 19ویں اور20ویں صدی سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے غلامی کے چلن کو قانونی طور پر ممنوع قرار دیا۔

دنیا کی مالی اخلاقیات پر بھی اسلام کا گہرا اثر ہے۔ اسلام سے قبل کے معاشرے میں سود کا رواج عام ہوگیا تھا۔ یہ دراصل مالی طور پر کمزور عوام کے مالی استحصال کی ایک صورت تھی جسے سماج۔میں غلط نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے سود کے کاروبار کو بھی اخلاقی اقدار کے منافی قرار دیا کیونکہ اس سے انسانی معاشرے میں ایک انسان کے ذریعہ دوسرے انسان کو مالی طور پر غلام بنایا جاتا تھا۔ سود بھی انسان کو جبراً غلامی کی طرف للے جاتا تھا۔ اسلامی اخلاقیات کا ہی اثر ہے کہ آج کے مہذب معاشرے میں سود کو برا سمجھا جاتا ہے۔ ،

مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذہب نے ہی عالمی اخلاقیات کی بنیاد ڈالی اور تمام انبیاء نے عالمی اخلاقیات کو فروغ دیا جس پر آج انسانی معاشرہ قائم ہے اور انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے۔ اخلاقیات کے بغیر انسان حیوان کے برابر ہو جاتا ہے۔ آج بھی جب کوئی فرد یا طبقہ اخلاقی اقدار سے روگردانی کرتا ہے تو اسے جانور سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ اسے حیوان سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے عالمی اخلاقیات کی تشکیل میں ، مذہب کا کردار مرکزی اہمیت کا,حامل ہے۔ مذہب نے جس عالمی اخلاقیات کی تشکیل کی اس کو ملحد اور مذہب بیزار افراد بھی مانتے ییں۔ خدا کی مخلوق سے محبت ، ایمانداری اور سچائی میں وہ بھی ایمان رکھتے ہیں جو خدا اور انبیاء پر ایمان نہیں رکھتے۔وہ غیر شعوری طور پر خدا کی اخلاقیات پر ہی ایمان رکھتے ہیں جو صدیوں سے انسانوں میں رائج ہوتے ہوئے انسانی شعور کا حصہ بن گئے ہیں۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/religion-morality/d/132180

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..