New Age Islam
Wed May 31 2023, 04:54 AM

Urdu Section ( 9 Nov 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Religion, Fundamentalism and Peace مذہب ، بنیاد پرستی اور امن

اصغر علی انجینئر  (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ،  نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)

ناروے میں ایک دن ایسا ہوا جس نے نہ صرف دنیا کو حیران کر دیا بلکہ اس نے کئی اہم سوال بھی اٹھائے۔کیا مذہب امن کے لئے ہے یا قتل و غارت کے لئے ہے؟ ایک بات تو طے ہے کہ9/11کے بعد صرف اسلام پر تشدد ،جنگ اور جہادکے لئے الزام لگایا جا رہا تھا۔اب یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ قتل و غارت کرنے والے ایسے دیوانے تمام مذہبی روائیتوں میں پائے جاتے ہیں ،یہاں تک کہ انتہائی طرقی یافتہ ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔صرف پسماندہ عرب یا کٹر اسلامی انتہاپسند ہی معصوموں کا قتل نہیں کرتے بلکہ اعلیٰ ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک کے عیسائی بھی معصوموں کا قتل کرتے ہیں۔

بہت سے لوگ آسانی سے اس طرخ کی قتل و غارت گری کے لئے مذہب کو ذمہ دار ٹھرائیں گے لیکن حقیقت کچھ زیادہ پیچیدہ ہے۔مذہب ایک آلہ ہے جسے قیام امن کے ساتھ ہی ساتھ جنگ کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔یہ اس خاص نظریے پر منحصرہے جس سے انفرادی لوگ یا کچھ گروپ منسلک ہیں۔ظاہری طورپر تمام افراد لوگوں کا قتل نہیں کرتے ہیں اور نہ سبھی گروپ دائیں بازو کے نظریے کوقبول کرتے ہیں۔امن مذہب کا اٹوٹ حصہ ہے یا نفرت ہے؟ کیا جو دوسروں سے نفرت کرتا ہے، اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہے؟مجھے نہیں لگتا ہے کہ اس کا جواب اتنا آسان ہے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں۔

مذہب وہ ہو سکتا ہے جو ہم اسے بنانا چاہیں۔ایسی کئی مثالیں ہیں جب مذہب کا استعمال قیام امن کے لئے اور ساتھ ہی نفرت پھیلانے کے لئے بھی کیا گیا۔ایسے کئی افراد ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی امن اور ہم آہنگی کے قیام کے لئے وقف کر دی ہے۔ان لوگوں میں سر فہرست مہاتما گاندھی اور امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ہیں۔گاندھی نے عدم تشدد کی وکالت کی اور اس لئے اپنے مذہبی رویات کے ساتھ ہی ساتھ دوسری روایات جیسے عیسائیت اور اسلام کو قیام امن کا علم بردار بتایا۔

اسی طرح ویتنام میں ایک بودھ راہب تھک ناٹ ہان امریکہ کے ذریعہ ویتنام میں کئے گئے تشدد کے خلاف امن کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم لوگ اکثر ایسے لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو مذہب کا استعمال دوسروں کو مارنے کے لئے کرتے ہیں اور انہیں ہم بنیاد پرست کہتے ہیں لیکن ایسے لوگ جو مذہب کا استعما ل قیام امن کے لئے کرتے ہیں اکثر مذہب کا بڑی سختی سے استعمال کرتے ہیں اور اس معنی میں وہ ’بنیادپرستوں ‘سے کم نہیں ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاتما گاندھی نے بھی یہ کہتے ہوئے پوری طرح پبلک اور پراؤیٹ کی تقسیم کو مسترد کر دیا کہ’میں تب تک مذہب کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا ہوں جب تک کہ میں خودکو پوری انسانیت سے جوڑ کر نہ دیکھوں اور میں ایساکر سکتا ہوں اور میںیہ تب تک نہیں کر سکتا ہوں جب تک میں سیاست میں حصہ نہ لوں‘۔۔۔آپ سماجی، اقتصادی اورخالص مذہبی کام کوپوری طرح الگ نہیں کر سکتے ہیں۔کسی بھی نظریے سے تنگ نظر مسلمان نہیں کہے جانے والے اسلامی مفکراقبال نے بھی کہا ہے کہ اگر مذہب کو سیاست سے الگ کیا جاتا ہے تو جو کچھ بچے گا وہ چنگیزی نظام ہوگا۔

اس طرح قیام امن کے لئے مذہبی امن پسند بھی سخت مذہبی رویے(نرم مذہبی رویے کے مقابلے) کا استعمال کرتے ہیں۔اس کی ایک اوراچھی مثال فالتو کی بات کرنے والوں کی ہے۔ ان لوگوں کی سیکولر اداروں جیسے حکومت سے سمجھوتے کو مسترد کرنے کی دیرینہ روایت ہے۔یہ لوگ امن کے لئے فوج میں جبراً بھرتی کو مسترد کرتے ہیں۔یہ لوگ غلامی کی مزمت کرتے ہیں اور غلام رکھنے سے انکار کرتے ہیں لیکن غلاموں کے تیارکردہ اشیاء کا استعمال کرتے ہیں یہاں تک کی زیر زمین ریلوے کی تعمیر میں غلاموں کے استعمال کو سرگرم طریقہ سے روک دیا۔اس لئے عوامی معاملات میں مذہبی عقائد کو فعال طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔

جو لوگ مذہب کا استعمال امن کے قیام کے لئے اورجو لوگ تشدد کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ،دونوں کواپنے اپنے مذہب کی سچائی کا یقین ہے۔ان کا پختہ یقین ہے کہ ان کا مذہب حق پر مبنی ہے۔یہ حق میں ان لوگوں کا یقین ہی ہے جو انہیں عمل پیرا ہونے کے لئے حوصلہ افزائی فراہم کرتا ہے۔پھر ان لوگوں کی سچائی کی حقیقت کیا ہے؟ حق کیا ہے ایک اہم سوال برقرار رہتا ہے۔جو لوگ امن پسند ہیں وہ جانتے ہیں کہ مذہب کی سچائی ایک ہی ہے۔حق مختلف مذہبی روایات میں متعدد طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ایک مذہب کی حقیقت کادوسرے مذہب کی سچائی سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔قرآن اسے وحدت دین یعنی مذاہب کی یکجہتی کہتا ہے اور مولانا ابو الکلام آزاد نے وحدت دین کی نوعیت پر پورا ایک والیوم (باب)وقف کیا ہے۔دارا شکوہ نے بھی اس موضوع پر اپنی معروف تصنیف مجموع البحرین میں(دو سمندروں کا ملنا۔ ہندو مت اور اسلام) اس کا تذکرہ کیا ہے اور اسلام اور ہندو مت میں حیرت انگیز یکسانیت پیش کرتا ہے۔

حق کی نوعیت بہت پیچیدہ ہے اور اسے فکر سے زیادہ عمل سے سمجھا جانا چاہیے۔سچ عملی حقیقت سے بھی زیادہ قیمت رکھتا ہے ۔یہ حقیقت اور اقدار کا مجموعہ ہو سکتا ہے یا کبھی صرف اقدار اور خصوصی طور پر صرف روحانی اقدار۔ اسے انسانی زبان میں تحریری طور پر یا پھر علامتی طور پر ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ جو فالتو لوگوں کی طرح مضبوط عقائد رکھتا ہے وہ اس کا اظہار عملی طور پر کرتے ہیں۔اور یہ ایک بار رائے بنا لینے سے زیادہ، جستجو کی چیز ہے۔

بدھ مت مین کسی فکر سے لا تعلقی ایک اہم کردار نبھاتا ہے۔اس طرح بودھ مذہب کا ایک اصول کسی نظریے کی پوجا یا اس سے بندھا ہوا نہ ہونا ہے۔اس اصول کے مطابق تمام نظام فکر صرف رہنمائی دیتی ہیں نہ کہ مکمل سچ ہیں۔انسانوں نے کسی ایک نظریے یا خیالات سے جڑ کر بہت نقصان اٹھایا ہے۔

اس طرح بت پرستی صرف بتوں کی پوجا نہیں ہے بلکہ خیالات اور نظریے کی بھی پرستش ہے۔سچائی کو ایک عمل کے طور پر لینا چاہیے اور ایک حقیقی مذہبی انسان کی اپنی زندگی اس کی جستجو میں صرف ہونی چاہیے نہ کہ اس کے نہ بدلنے والی نوعیت پر صرف ہونی چاہیے۔مختلف ثقافت اور اور مختلف حالات مختلف قسم کے سچ پیدا کر سکتا ہے یا اسے مختلف زبانوں یا ثقافتوں میں مختلف انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے جیسا کہ داراالشکوہ کی مندرجہ بالا کتاب میں تذکرہ کیا گیا ہے۔

قرآن بھی کہتا ہے کہ اللہ نے تنوع پیدا کیا ہے اور اسے خدا داد تحفے کے طور پر قبول کیاجانا چاہیے۔ناروے میں قتل و غارت کرنے والا کثرت ثقافت پر نالاں تھا اور یوروپی ممالک کے باشندے ہجرت کرنے والوں اور کثیر ثقافت کو مثبت انداز میں نہیں لیتے ہیں۔یہ تنگ نظری اور غصہ پیدا کرتا ہے اور کچھ افراد یا گروپ کے ذریعہ پرتشدد انداز میں پھٹ پڑتا ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ کثرت ثقافت کو قبول کیا جائے اور اسے خداداد تخلیق اور تحفہ مانا جائے۔ساتھ ہی آئیے ہم آخری سچائی کے اپنے تصور کو بھی بدلیں۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-pluralism/religion,-radicalism-and-peace-/d/5310

URL: https://newageislam.com/urdu-section/religion,-fundamentalism-peace-/d/5868

Loading..

Loading..