New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 11:00 PM

Urdu Section ( 22 Dec 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

No Religion Is Against Science and Technology کوئی مذہب سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں

ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب

20 دسمبر،2022

بزرگ سائنسداں محمد خلیل سائنس و ادب کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں،ان کی سائنسی و تصنیفی خدمات کا دائرہ کا فی وسیع اور کئی دہائیوں پر محیط ہے۔،وہ تقریبا ۲۷؍برسوں تک حکومت ہند کے زیراہتمام شائع ہونے والے رسالہ ’سائنس کی دنیا‘ کے ایڈیٹر رہے ہیں،اور یہیں سے انھوں نےسبکدوشی حاصل کی۔ سائنس  کے مختلف موضوعات پرلکھی ان کی متعدد کتابیں بہت مقبول ہیں۔ انھوں نے سائنس اور اس کی اردوزبان میں ترویج واشاعت  کے لئے نمایاں کوششیں کیں،اسے اپنا مقصد حیات بنایا اور صلہ وستائش کی پروا کیے بغیر اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔اس راہ میں آنے والی کسی رکاوٹوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔آج جب کہ وہ  کم و بیش ۸۰؍ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں  تب بھی ان کا عزم ویسے ہی جواں ہے۔خلیل صاحب گرچہ  جسمانی طور پر کمزور و لاغر ہوچکے ہیں ،لیکن ان کی سرگرمیاں اور جذبے بالکل تازہ دم ہیں۔ وہ نہ صرف قومی راجدھانی دہلی میں ہونے والی علمی وادبی تقریبات میں صف اول میں نظرآتے ہیں بلکہ اپنے سناشاؤں اور علم دوست افراد سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ پیرانہ سالی بہت سی بیماریوں ،پریشانیوں کو ساتھ لے کر آتی ہے، لیکن خلیل  صاحب کے جوش وامنگ کے سامنے پیرانہ سالی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ وہ اپنے عزم وارادے کے استحکام کی بدولت پیرانہ سالی پرسبقت لے جاتے ہیں۔ان کی جدوجہد کا بیانیہ بہت طویل ہے۔تفصیلات بیان کرنے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں۔سہ ماہی مجلہ ’انتساب عالمی‘ نے اپنے اکتوبر۲۰۲۱ء کے شمارے میں سائنس اور اردو ادب سے متعلق ان کی ہمہ جہت خدمات کا بالتفصیل احاطہ کیا ہے۔ نصابی کتابوں میں بھی ان کے مضامین شامل ہیں۔حکومت بہار کی کتاب’ نگار ادب‘ میں ان کا ایک مضمون موجود ہے۔خلیل صاحب پر گزشتہ چند دہائیوں سے اردو اور ہندی کے کالم نگاروں نے مضمون اور خاکےلکھے ہیں جو مختلف رسالوں و جرائد میں شائع ہوتے رہےہیں۔ان کے سائنسی مقالات  بی بی سی لند ن اور وائس آف جرمنی جیسے معتبر صحافتی ادارے سے نشر ہوئےہیں۔روزنامہ انقلاب دہلی کے لئے ایک خاص ملاقات میں محمد خلیل نے سائنس،ٹیکنالوجی اور اردوزبان و ادب کےحوالے سے کھل کربات کی ۔یہاں پر گفتگو کے چند اہم اقتباسات پیش ہیں۔

سائنسداں محمد خلیل

--------

سب سے پہلے اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بات کرتےہوئے محمد خلیل بتاتے  ہیں کہ شیراز ہند جونپور یوپی میری جائے پیدائش ہے، یہیں میں نے ۳۰؍جنوری ۱۹۴۴ کو آنکھیں کھولیں، ابتدائی تعلیم یہیں کے اسکول میں حاصل کی، بعدازاں محمد حسن انٹرکالج میں تعلیم حاصل کی ، یہاں تعلیم کا معیار بہت بلند وبالا تھا۔ اساتذہ کا برتاؤ میرے ساتھ بہت مشفقانہ تھا،جانکی پرشاد میرے استاذ تھے، نیاز احمد صدیقی جو کالج کے پرنسپل تھے،ان سے بھی میں نے بہت کچھ سیکھا۔وہاں سے مزید علو م کے حصول کےلئے دہلی آگیا، جواہر لال یونیورسٹی سے ڈپلوما ان ماس میڈیا کیا۔پھر جب وزارت سائنس ٹیکنا لوجی  میں سائنس کی دنیا کے لئے اسامی نکلی تو میں بھی انٹریوکے لئے گیا۔وہ انٹرویو بھی میری زندگی کا بہت اہم انٹر ویو تھا ،ڈیڑھ گھنٹے سے زائد انٹرویو لیا گیا۔کئی سوالات کیے گئے جس کا میں نےتشفی بخش جواب دیا۔ آخرمیں چیئرمین نے پوچھاکہ آنند نارائن ملا  سائنس کے تعلق سے بہت سے سوالات پوچھ چکےہیں جن کا جواب بھی آپ نے دیا۔میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ یہاں کیوں آنا چاہتےہیں۔تو میں نے سیدھا ساجواب دیاکہ میرا مقصد سائنس  کا پھیلاؤ ہے۔میں چاہتا ہوں کہ ہر زبان میں اس کی ترویج و اشاعت ہو، سائنس  کا فروغ ہی میرا مقصد ہے۔اردو زبان چونکہ ہندوستان کی مقبول ترین زبان میں سے ایک ہے، اس لئے اس زبان میں بھی سائنس کوگھرگھر پہنچاناچاہتا ہوں۔یہ جواب سن کر وہ بہت خوش ہوئے ،اس طرح سے میرا رشتہ سی ایس آئی آر سے جڑگیا اور یہاں میں نے ’سائنس کی دنیا ‘کے توسط سے اردوزبان میں سائنس کے لئے اپنی خدمات پیش کی۔سچ پوچھیے تو اردو حلقوں میں سائنس کو پہنچانے کی میں نے ہرممکن کوشش کی،اب اس میں مجھے کتنی کامیابی ملی یہ  آپ جانتےہیں۔    

کیاسائنس اور مذہب کے درمیان کوئی ٹکراؤ ہے۔؟اس سوال کے جواب میں محمد خلیل نے کہاکہ اسلام ہی نہیں کوئی بھی مذہب  سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہے۔بلکہ سائنسی علوم و تحقیقات کے ذریعہ اسلام اور قرآن و حدیث کو سمجھنا مزید آسان ہوگیا ہے۔بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں لوگ سوچتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے اور اب جدید ایجادات نے ثابت کردیاہےکہ اسلام کا جو نظریہ ہے وہ بالکل درست ہے، سائنس سے اس کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔ اس لئے میں یہ نہیں سمجھتاکہ مذہب اور سائنس میں کوئی ٹکراؤ ہے۔بلکہ یہ  دَور سائنسی علوم کے عروج کا دَور ہے اور میرے خیال میں  مذہب کی تبلیغ واشاعت کا کام جدید سائنسی  کے ذریعہ بہتر طور پر انجام دِیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر  مسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کی تروِیج کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ مسلم طلباءکے لئے مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ اِسلام کی رُو سے مذہب اور سائنس دونوں دین کا حصہ ہیں۔

آپ کے ساتھ رسالہ سائنس کی دنیا کی اشاعت کیوں موقوف ہوگئی؟۔اس سوال پرانہوں نے کہاکہ میں نے تقریبا ۲۷؍  برسوں سی ایس آئی آرمیں اپنی خدمت انجام دی۔ یہ ہندوستان میں تحقیق و ترقی کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔اس ادارہ کا قیام۲۶؍ ستمبر۱۹۴۲ء کو کیا گیا تھا۔نئی دہلی میں واقع اس ادارہ  نے  ملک کی ترقی اور تخلیق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آپ کی طرح پہلے بھی کئی لوگوں نے یہ سوال میں مجھ سے پوچھامگرسچی بات یہ ہےکہ میرے یہاں آنے کا مقصد سائنس کا فروغ اور اردو حلقوں میں اسے پہنچانا تھا ،جس میں میں کامیاب رہا ۔بڑے بڑے صحافیوں کےساتھ روابط رہے،ان میں جناب میم افضل،جناب ودود ساجدصاحب جو ان دنوں روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر ہیں،ان کے علاوہ بھی بہت سی اہم شخصیات  شامل ہیں ،کن کن کا نام لوں اورکن کا نہیں ۔بس اتنا جان لیں کہ’’سائنس کی دنیا‘‘ کےتوسط سے ہم نےسائنسی ایجادات و دریافت کو اردو جاننے والے لوگوں اور بچوں تک پہنچایا۔رسالہ سائنس کی دنیا سے قبل رسالہ’ سائنس‘ جس کے ایڈیٹر بابائے اردو مولوی عبدالحق تھے،یہ رسالہ بھی بہت مقبول تھا۔بچپن میں میرے گھر آتا تھا۔

آپ کو سائنسی خدمات پر جو اعزازات ملے اس بارے میں کچھ بتائیں؟۔محمد خلیل نے بتایا کہ میری تقریبا چودہ کتابیں ہیں۔ان میں سے کئی کتابوں پر مجھے اہم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔میری پہلی تصنیف’’ عجیب و غریب جانور‘‘تھی جس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔اس کتاب کی اشاعت پر  ہندوستان کی اہم علمی و سیاسی شخصیات نے مبارکباد پیش کی ۔تین مرتبہ این سی آرٹی کا نیشنل ایوارڈ ملا،ملک کی کئی اکاڈمیوں نے بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔بھارت سرکار کا نیشنل ایوارڈ براے سائنسی خدمات بھی مل چکا ہے۔اور میں آپ کو بتادوں کہ میرے لیے سب سے بڑا اعزاز یہی ہےکہ ملک کے تمام معتبرلوگوں،ادبی و سائنسی ہستیوں نے مجھ پر جو کچھ لکھاہے یہی میرا کل سرمایہ و اعزاز ہے۔مجتبیٰ حسین،یوسف ناظم،پروفیسر ظفر احمد صدیقی،شمس الرحمن فاروقی،پروفیسر عبدالحق،پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر قمر رئیس ،نند کشور،شاہد مہدی،پروفسیر اختر والواسع، ودودساجد، پروفیسر عارف علی،پروفیسر فاطمہ پروین،پروفیسر ابن کنول،ڈاکٹر اسد رضا،شیخ عقیل،پروفیسر شہپر رسول  جیسے ماہرین علم و فن نے میری حوصلہ افزائی کی ہے۔

محمد خلیل صاحب نے کہاکہ اگر سائنس کو اپنی مادری زبان میں پڑھیں گےتو اس کو اچھے سے سمجھ سکتےہیں۔یہی وجہ ہےکہ اردو کی بہت سی اہم شخصیات کو سائنس سے بہت لگاؤ رہا ہے۔اردوزبان اور سائنس کے  درمیان گہرا لگاؤ ہے۔میری تحریروں کو بہت شوق سے پڑھتے تھے اور برملا اس کا اظہا رکرتے تھے۔میں کچھ لوگوں کی رائے کا ذکرکرنا چاہتا ہوں۔شمس الرحمن فاروقی صاحب کہتے تھے کہ یہ خیال غلط ہےکہ اردو میں سائنسی ادب نہیں ہے اور نہ ہی اردو میں سائنسی ادب لکھا جا سکتا ہے۔ہمارے یہاں سائنس کی تعلیم انگریزی میں ہوتی رہی ہے مگر جس زمانے میں سائنس کی تعلیم اردو میں ہوتی تھی اس زمانے میں اردومیں بے شمار کتابیں لکھی اور ترجمہ کی گئیں۔دہلی ،لکھنؤ،یوپی کے مشرقی اور بہار کے مغربی شہروں میں کثرت سے تصنیف و ترجمہ کا کام ہوا۔وہ کہتے تھےکہ اردو کی اس روایت کو زندہ رکھنے کاکام محمد خلیل کا کارنامہ ہے۔انہوں نے اردو کو سائنسی ادب سے مالامال کیا ہے۔اسی طرح میرے استاد اخلاق الرحمن قدوائی صاحب جن نے سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے،کوٹھاری صاحب،پروفیسر شفیع احمد صاحب،بلقیس بانو ،صابرہ بانو ،فہمیدہ ریاض وغیرہ نے ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔اس لئے میں یہ کہہ سکتاہوں کہ میں اپنے کاموں سے گرچہ مطمئن نہیں ہومگر کام اپنی جگہ مکمل ہے۔

جہاں تک سائنس کی دنیا کی بات ہے تو میں کہوں گا کہ اس رسالہ نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔بڑے بڑے سائنس دانوں کے مضامین اس میں شائع ہوئے۔جنہیں اردو کے قارئین بہت پسند کرتے تھے ،بعض مضامین کے مطالبے کےلئے لوگ رابطہ کرتے تھے ۔اس میں بچوں کے سائنسی ادب کو ترجیحی بنیاد پر شائع کرتے تھے۔اسی طرح ماحولیات،آلودگی کے موضوع پر بھی خاص توجہ دی جاتی تھی۔

آخر میں ا پنی اہم تصنیفات پر بات کرتے ہوئے محمد خلیل کہتےہیں کہ میری  متعدد کتابوں کے کئی کئی  ایڈیشنز شائع ہوئے،یہ اردو میں سائنس کی مقبولیت کی دلیل ہے۔میری پہلی کتاب’عجیب وغریب جانور،حیوانات کی دلچسپ دنیا،عجیب و غریب جانوروں کی دنیا،سائنس کے دلچسپ مضامین،ڈاکٹرسی وی رمن ایک عظیم سائنس داں ،سائنس اور ہم ،چچاجان کی سائنسی کہانیاں۲۰۱۳ء اور سائنس دانوں کی دلچسپ باتیں بہت مقبول ہوئیں۔آپ نے مجھے اتنا وقت دیا جس کے لئے روزنامہ انقلاب اور آپ کا بہت بہت شکریہ

-----------

جناب ودودساجد صاحب نے اپنے ایک مضمون میں میری ستائش کرتے ہوئے لکھا ہےکہ محمد خلیل نے پوری زندگی سائنس کے حوالہ سے اردوکی خدمت میں گنوادی ہے۔ مگرانہوں نےہمت نہیں ہاری۔ان کا وجود زبان حال سے اردو والوں کی بے حسی کا شکورہ کرتا ہے،ہرچند کہ وہ اس سلسلہ میں لب کشائی نہیں کرتےمگر شکایت کی اپنی بھی زبان ہوتی ہے جس کو کوئی خاموش نہیں کرسکتا۔

------------

20 دسمبر،2022، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/religion-science-technology/d/128685

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..