رينا فرج
17 اپریل ، 2013
(عربی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام )
اُن سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں جن سے عرب تحریکوں کے ممالک گزر رہے ہیں، عورت دشمن سلفی آواز بلند تر ہوتی چلی جارہی ہے جو اپنی طاقت اس مردانہ فقہ سے حاصل کر رہی ہے جس کی بنیادیں مسلمانوں کے بعض ائمہ نے رکھی۔
سلفی سٹریم کا جھکاؤ عام زندگی سے عورتوں کو الگ کر کے ان کے کردار کو محض خاندانی فریم میں محصور کرنا ہے، یہ عورت کو صرف فتنہ کے نقطہ نظر سے ہی دیکھتے ہیں، چنانچہ اسے کوئی سیاسی حقوق نہیں دیتے سوائے بیعت پر قیاس کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے کے، رہا نمائندگی اور عوامی عہدوں پر فائز ہونے کا حق تو معاملہ برائی کے ذرائع روکنے کے مقولے کے تحت نا قابلِ قبول ہے اور تاکہ مردانہ مختاری کے مفہوم کو ولایت کے مفہوم پر فوقیت دی جاسکے، آج کے سلفیوں نے عورت کی مکمل شہریت کے مفہوم کی حد بندی کے لیے بنیادی نظریات اپنا رکھے ہیں، وہ قوامہ یعنی مردانہ مختاری کا مفہوم اس لیے پیش کرتے ہیں تاکہ ولایت اور جانشینی کے مفہوم کو معطل کیا جاسکے۔
ابنِ تیمیہ عورتوں کی سلفی دشمنی کا ایک بہترین نمونہ ہیں، انہوں نے آج کے سلفیوں پر اپنا گہرا اثر چھوڑا ہے، خواتین سے متعلقہ مسائل کے حوالے سے ان کے اپنے نظریات تھے جیسے نفقہ، حیض، نماز، مہر ودیگر مسائل، چودہویں صدی عیسوی کا یہ فقیہ اپنے زمانے میں خواتین کے بڑھتے اثر ورسوخ سے اس قدر پریشان تھا کہ یہاں تک لکھ دیا کہ جو عورتوں کی اطاعت کرے گا وہ ملک کے معاملات کی تباہی کا سبب بنے گا، شیخ محمد بن عبد الوہاب (1703 – 1791) کی کتاب التوحید میں آئی ایک حدیث کی شرح کرتے ہوئے شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں: “بعض لوگوں کے ہاں عورت کو “سیدہ” کے نام سے پکارنے کا رواج عام ہوگیا ہے، مثلاً وہ کہتے ہیں: یہ مردوں کے لیے مخصوص ہے اور یہ سیدات (عورتوں) کے لیے، یہ حقائق کے برعکس ہے، کیونکہ سادات تو مرد ہوتے ہیں، رسول نے کہا: “عورتیں تمہارے ہاں اسیر ہیں” یعنی ان کی حیثیت قیدی کی سی ہے، اور مردوں کے بارے میں کہا: “اپنے اہل کا نگران ہے اور اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے” لہذا درست یہ ہے کہ ایک کو عورت اور گروہ کو نساء کہا جائے کیونکہ سادات یا سربراہ مرد ہیں اور عورتوں کی قدر محض قیدیوں کی سی ہے، عورتوں کو سیدات کہنا حقائق کا الٹنا ہے”
“عرب بہار” کے سلفی اپنے خطاب میں پرانے سلفیوں سے بھی آگے نکل گئے، انہوں نے خواتین کے حق میں محض معاشرتی اور سیاسی علیحدگی پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ عجیب وغریب فتاوی دینے پر خصوصی توجہ دی، ان میں سرِ فہرست سلفی مُبلغ ابو اسلام ہیں جنہوں نے “میدان التحریر” کی آبرو ریزی کو بے حیائی کی حجت سے جواز دیا، سلفی شیخ ابو اسحاق الحوینی نے عورت کے چہرے کو اس کی شرمگاہ سے تشبیہ دی، یہ ان کی طرف سے اشارہ تھا کہ خواتین پر نقاب پہننا واجب ہے، بعض سلفی شیخوں نے تو عورت کی تصویر کو بھی شرمگاہ قرار دیا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خواتین سلفیوں کی نظر میں سوائے ایک جنسی آلے کے اور کچھ نہیں جن سے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔
کیا سلفیوں کی زبان عام فضاء میں خواتین کے بڑھتے کردار کے خطرے کی نمائندگی کرتی ہے؟ سلفی ذہنیت میں خواتین کے بدلتے کردار کو قبول کرنے کی گنجائش کیوں نہیں ہے؟
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سلفی سٹریم عرب دنیا میں کوئی رائج مذہبی فکر نہیں ہے حالانکہ میڈیا اور اپنے ماننے والوں کے ذہنوں پر اس کی پوری اجارہ داری ہے، ہمیں اسلام میں اصلاح پسندوں کی ان تاویلی جنگوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو رفاعۃ رافع الطہطاوی، امام محمد عبدہ اور الطاہر الحداد اور ان کے مجدد تابعین نے لڑی۔
پوری اسلامی تاریخ میں مسلمان خواتین کی بھرپور موجودگی رہی ہے، وہ پوری طرح سے الگ نہیں رہیں، اگر ہم اسلامی تراجم میں اس تاریخ کو کھنگالیں جس پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو ہمیں مختلف شعبوں میں ان کے اہم کردار کے بارے میں بہت کچھ ملے گا جس میں دینی معرفت کا باب بھی شامل ہے، مثال کے طور پر فاطمہ السمرقندیۃ ایک مسلمان فقیہہ تھیں جو بارہویں صدی عیسوی میں حلب میں رہتی تھیں، انہوں نے حنفی مسلک اپنے والد سے پڑھا اور ان کی جمع کردہ حدیثیں زبانیں یاد کیں اور دونوں باپ بیٹی نے مل کر شرعی فتاوی جاری کیے، اگر ہم تاریخ میں مزید اندر تک جائیں تو ہمیں خواتین میں کئی درخشاں کردار مل جائیں گے، سولہویں صدی عیسوی میں رہنے والی بعض خواتین اسلامی شریعت پر اچھی شدھ بدھ رکھتی تھیں، ان میں سے ایک تو مفتیہ کے عہدے تک بھی پہنچی، اس کے علاوہ دمشق کی متصوفہ شیخۃ عائشۃ الباعونیۃ بنت یوسف (وفات 1516ء) کو قاہرہ لایا گیا جہاں اسے فقہی رائے دینے اور پڑھانے کی اجازت دی گئی، ہجیمۃ بنت حیی الاوصابیۃ (وفات 701ء) کو دمشق کی اہم فقیہات میں شمار کیا جاتا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس نے بہت سارے مردوں کو پڑھایا اور خلیفہ عبد الملک بن مروان کا اعتماد حاصل کیا، وہ خلیفہ سے تواتر سے ملتی تھیں اور دونوں دمشق کی مسجد میں اکٹھے بیٹھتے تھے، بعض فقیہات تو “ست الفقہاء” کے درجہ تک پہنچ گئیں تھیں، یہ ایک اعزازی لقب ہے جو فقہ میں مہارت کی علامت ہے۔ (نحیل علی Encyclopedia of Women & Islamic Cultures: Methodologies, Paradigms and Sources, Brill Academic 2003)
تاریخی شہادتوں سے ہٹ کر جو مسلمان خواتین کی بطور فقیہات، عالمات، متصوفات اور سلطانات کے کردار کی یقین دہانی کراتی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ سلفی خواتین کے کردار کی تبدیلی کا اقرار نہیں کرنا چاہتے، شاید یہ ان کی مردانگی سے متصادم ہے، اسی لیے وہ زیادہ سے زیادہ اس مردانہ فقہ کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ان کی سانسوں تک پر قابض ہے، سلفی خطاب اپنے خطاب میں انقلاب برپا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ عورت کے جسم کے فتنے کے خوف میں مبتلا ہے، اس لیے وہ اس کی نمائندگی کو فتاوی سے محدود ومشروط کرتے ہوئے اسے واپس مردانہ حرم میں لے جانا چاہتا ہے۔
“جنوری” کے انقلاب کے بعد مصر کے سلفی منظرنامے پر پارلیمنٹ میں با پردہ خواتین کو نامزد کرنے کے معاملے پر بحث قابلِ غور تھی، کچھ سلفی پارٹیوں نے اسکندریہ میں سلفی تبلیغ کے سربراہ یاسر برہامی کے فتوے پر کچھ خواتین کو نامزد کیا، فتوے میں کہا گیا تھا کہ: “عورت کی نامزدگی فساد ہے، لیکن یہ فساد میدان کو ان لوگوں کے لیے خالی چھوڑ دینے سے کم ہے جو آئین کی دوسری شق کو بدلنا چاہتے ہیں، خاص طور سے جبکہ انتخابات کے نئے قانون میں ہر پارٹی کے نمائندوں کی فہرست میں کم از کم ایک خاتون کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے، اور صحیح یہ ہے کہ ایوانِ نمائندگان ولایت کی ہی ایک قسم ہے جو رسول کے اس قول کے تحت آتی ہے کہ: “وہ قوم فلاح نہیں پائے گی جو اپنے معاملات عورت کے ہاتھ میں دے دیں گے” انہوں نے مزید کہا کہ: “اصل جائز نہ ہونا ہے، لیکن فی زمانہ فتوی مطلق حکم پر نہیں ہے، ہم نے صرف یہ کہا ہے کہ اسلامی پس منظر کی حامل پارٹیوں میں عورت کی نمائندگی کی ممانعت نہیں ہے جس میں حزب النور بھی شامل ہے تاکہ پارلیمنٹ کو لبرل اور سیکولر لوگوں کے لیے خالی چھوڑنے کے فساد سے بچا جاسکے جو آکر ایسی آئین سازی کریں گے جو اسلام دشمن ہوگی اور دعوت کو مقید کر کے رکھ دے گی بلکہ اس سے روکے گی اور سزا دے گی”
عورت کے خبط میں مبتلا سلفی اسے منظرنامے سے ہٹانے کے لیے جد وجہد میں مصروف ہیں، انہیں اس کے اس بڑھتے ہوئے کردار سے ڈر ہے جو عرب انقلابوں میں بہت اجاگر ہوا ہے، خاص طور سے مصری اور تونسی نمونے میں، عورت کا “فوبیا” انہیں حرام وحلال کے ذریعے نگرانی بڑھانے پر مجبور کرتا ہے، یہ نوٹ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ عرب تحریکوں کے ممالک میں زیادہ تر فتووں کا تعلق براہ راست خواتین کے جسم سے ہے جس میں سلفی تصور انتہائی زرخیز ہے۔
سلفیوں نے قرآن کی اقرار کردہ مساوات سے قطع تعلق کر لیا ہے اور متن کے مقاصد سے باہر نکلتے ہوئے عورت کی فقہ کے اصلاحی رجحان سے ٹکرا گئے ہیں، یہ بدو اسلام، جیسا کہ شیخ محمد الغزالی کہتے ہیں تاریخ کی ہمسری کرنے کا اہل نہیں ہے کیونکہ یہ نفرت انگیز تصورات میں مقید ہے جو اپنے آپ کو صرف مردانگی کے آئنے میں ہی دیکھتا ہے۔
URL for Arabic article:
https://newageislam.com/arabic-section/women-captives-salafists’-doctrine-/d/11198
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-women-feminism/women-captives-salafists’-doctrine/d/11236
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/women-captives-salafists’-doctrine-/d/11258