New Age Islam
Sun Apr 20 2025, 06:48 PM

Urdu Section ( 29 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Absence of Reform Movements In Muslim Societies مسلم معاشروں میں سماجی اصلاح کی تحریک

نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر

29 اگست،2024

اکتوبر 2020ء میں جب فرانس کے صدر ایمانوئیل میکروں نے کہا تھا کہ اسلام ایک بحران سے دوچار ہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں نے ان کے اس بیان کو اسلام کی توہین قرار دے کر شدید احتجاج کیا تھا اور عرب ممالک نے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مسلمانوں نے میکروں کے خلاف پرتشدد احتجاج کیا تھا اور فرانسیسی سفیر کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان پرتشدد احتجاجوں میں ملک کی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور پاکستان میں کئی پولیس والے مظاہرین کے تشدد میں ہلاک ہوگئے۔ ان مظاہروں کی قیادت مسلم تنظیمیں کررہی تھیں۔

اس کے برعکس جب پاکستان میں گھروں میں کمسن ملازماؤں کے ساتھ بدترین جسمانی تشدد ہوتاہے یا کھیتوں میں کام کرنے والے بندھوا مزدوروں کے ساتھ تشدد ، جنسی زیادتی یا قتل ہوتا ہے تو مسلمانوں میں اس کا کوئی ردعمل نہیں ہوتا اور نہ ہی ملی تنظیمیں ان مظالم کے خلاف مظاہرے کرتی ہیں۔

جنوبی ایشیا کےمسلم معاشروں میں سماجی اور اخلاقی برائیاں دوسری قوموں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ہندوستانی جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد ان کی آبادی کی شرح سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان کا کراچی وہ شہر ہے جہاں جرائم کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے ۔ وہاں دن دہاڑے ڈکیتی ، قتل اور چھنتائی کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ وہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اس لئے ظاہر ہے جرائم پیشہ افراد کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں قانون کا نفاذ کرنے والا نظام کمزور ہے۔ بدعنوانی کے معاملے میں پاکستان ، افغانستان اور کرغزستان سرفہرست ہیں جبکہ یہ اسلامی ممالک ہیں یا پھر مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جہاں اسلامی قوانین کے نافذ ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے اس کے باوجود یہاں جرائم کی شرح دوسرے اسلامی ممالک کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔ عرب ممالک میں قوانین سخت ہیں اس لئے وہاں جرائم بہت کم ہیں۔ پاکستان میں جرائم اس لئے زیادہ ہیں کہ وہاں کا قانونی نظام بہت کم زور ہے۔ پاکستان کی ملی تنظیمیں صرف توہین مذہب کے معاملات میں ہی شرعی قانون اور قرآن اور حدیثوں کا حوالہ دے کر ملزم کے لئے سخت سزا کا مطالبہ کرتی ہیں۔پاکستان میں توہین مذہب کے لئے سخت قانون نافذ ہے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا موت ہے۔ ایسے ملزمین کو سزا دلوانے کے لئے مسلمان سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرتے ہیں اور ملی قائدین ان کے لئے سزا کی حمایت میں قرآن اور حدیثوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ حالیہ ایک احمدی فرقہ کے شخص کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے ملزم کو,ضمانت دے دی تو مسلمانوں نے مظاہرہ کیا اور سپریم کورٹ کا محاصرہ کیا۔علماء نے کورٹ میں حاضر ہو کر ملزم کی ضمانت کے خلاف قرآن اور حدیث سے دلائل پیش کئے اور آخر کار سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ لیکن جب ملک میں کئی کمسن ملازماؤں کے خلاف گھروں میں بدترین تشدد ہوا یہاں تک کہ ایک کا جنسی قتل بھی ہوا اور اس ظلم میں ایک مزار کے سجادہ نشین اور دوسرے کیس میں خود ایک کورٹ کے جج اور اس کی اہلیہ ملوث تھی تو ان کی سزا میں تخفیف کردی گئی ۔مزار کے سجادہ نشین کے متعلق کوئی خبر نہیں ہے کہ ان کا کیس آگے بڑھا یا دبادیا گیا۔ ان معاملات میں نہ مسلمانوں نے سزا میں تخفیف کے خلاف مظاہرہ کیا اور نہ کورٹ کا گھیراؤ کیا۔ نہ ہی علماء نے قرآن اور حدیث سے دلائل پیش کرکے ملزم کو سخت سزا دلوانے کے لئے مہم چلائی۔

پاکستان کی مذہبی تنظیموں نے تو تویین مذہب کا قانون نافذ کرالیا لیکن دوسرے جرائم پر قرآن اور حدیثوں کا حکم نافذ کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ انہوں نے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے ، زنا کی سزا سنگساری یا قتل ، بدعنوانی ، ملاوٹ فساد اور,قتل کی سزا قتل یا شہر بدری یا مخالف سمت سے ہاتھ اور پیر کاٹ دینے کے قانون کے نفاذ کے لئے نہ کبھی قرآن اور حدیث سے دلائل دئیے اور نہ ملزم کو باعزت بری کرنے یا,سزا میں تخفیف پر سپریم کورٹ کا گھیراؤ کرنے کے لئے مسلمانوں کو اکسایا۔ اسلام میں چوری ، ڈکیتی ، چھنتائی ، رشوت خوری ، ملاوٹ ، جمع اندوزی اور فساد بدترین جرم ہیں جن کی سزا بہت سخت ہے۔ لیکن پاکستان کی ملی تنظیموں نے ان جرائم۔کے لئے قرآنی سزاؤں کی کبھی سفارش نہیں کی۔ ان کا ساارا زور صرف اقلیتوں اور مسلکی مخالفین کے خلاف خلاف شرع اقدات پر ہوتا ہے۔توہین مذہب کے ملزمین کے خلاف جھوٹا الزام لگانے والوں کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے جبکہ قرآن میں بہتان تراشی جھوٹی گواہی کو بھی قابل مذمت کہا گیا ہے۔ہجوم کے ذریعے کسی پرجھوٹا الزام لگا کر اسے ہلاک کردینے کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے جبکہ یہ عمل فساد کے زمرے میں آتا ہے ۔ بدعنوانی پاکستانی معاشرےمیں عام زندگی کا حصہ بن چکی ہے اور بدترین جرم ہے لیکن اس کے خلاف ملی تنظیموں کی طرف سے کوئی اصلاحی مہم نہیں چلائی جاتی۔اورنہ ہی اس کے خلاف علماء اور مذہبی تنظیموں کی طرف سے سخت قوانین نافذ کرنے کی مانگ کی جاتی ہے۔پاکستان کے کئی علماء نے توہین رسالت پر کتابیں لکھ ڈالی ہیں جن میں مسلمانوں کوبھی اس جرم کے دائرے میں لاکر ان کے قتل کی بھی سفارش کی گئی ہے لیکن کسی عالم نے توہین مذہب کے الزام میں ہجومی تشد کے خلاف قرآن اور حدیث کے حوالے سے کوئی کتاب نہیں لکھی ہے۔ رشوت خوری ، بدعنوانی ، جمع اندوزی ، بلیک مارکٹنگ ، چوری ، ڈکیتی ، عصمت دری اور قتل پر مبلغین مذہبی جلسوں میں رسمی اور ضمنی گفتگو تو کرتے ہیں لیکن ان جرائم کے خلاف اس طرح کی منظم اور قومی سطح پر تحریک نہیں چلائی جاتی جیسی اقلیتوں کے خلاف یا توہین مذہب کے خلاف چلائی جاتی ہے۔ یہ صورت حال صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ بنگلہ دیش اور ہندوستان میں بھی ہے ۔ ملی تنظیمیں اور علماء جتنی شدت کے ساتھ اور جتنے منظم طریقے سے مذہبی اور مسلکی معاملوں میں تحریک چلاتے ہیں اتنے منظم طریقے اور اتنی ہی شدت کے ساتھ سماجی برائیوں کے انسداد اور سماجی اصلاح کے لئے مہم اور تحریک نہیں چلاتے۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ مسلم معاشروں میں سماجی اور اخلاقی برائیاں عروج پر ہیں اور ان برائیوں کی وجہ سے پورا معاشرہ جرائم کی زد میں ہے۔

---------------- 

URL: https://newageislam.com/urdu-section/reform-movements-muslim-societies/d/133072

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..