New Age Islam
Sun Jul 13 2025, 05:07 PM

Urdu Section ( 7 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Reform Colonial Islamic Law To Reflect Modern Realities جدید حقائق کی عکاسی کے لیے نوآبادیاتی اسلامی قانون کی اصلاح کی جائے

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 2 دسمبر 2023

 مسلمانوں کو اسلامی قانون کی اصلاح کے لیے آگے آنا چاہیے کیونکہ ان کی تدوین نوآبادیاتی دور میں کی گئی تھی۔ اب جب کہ ہندوستان اپنی نوآبادیاتی میراث کو ختم کر رہا ہے، مسلمانوں کو جدید حقائق کی عکاسی کے لیے مناسب اصلاحات کے لیے قدم بڑھانا چاہیے۔

 اہم نکات:

 1. انیسویں صدی کے آخر تک اسلامی قانون کا دائرہ خاندان/ فرد کے نجی معاملات تک ہی محدود تھا۔

 2.  شاہ بانو کیس میں، راجیو گاندھی کی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹ دیا، اور یوں دور جدید ضروریات کے مطابق اسلامی قانون میں اصلاحات کا ایک اہم موقع ضائع ہو گیا۔

 3. اب وقت آ چکا ہے کہ مسلم قیادت نوآبادیاتی قوانین سے آزاد ہوکر جدیدیت کی طرف قدم بڑھانے کے طریقوں کے بارے میں سوچے۔

 4. مختلف عرب اور مسلم ممالک کے ترقی پسند اسلامی قوانین سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

 -----

 ہندوستان پہلا مسلم ملک تھا جسے انگریزوں نے فتح کیا تھا۔ لہٰذا، انگریزوں نے ہندوستان کو مسلمانوں کو مسخر کرنے کے لیے ایک امتحان گاہ کے طور پر دیکھا۔ بعد میں انگریزوں نے افریقی-مالائی علاقوں میں اپنی حکومت قائم کی جہاں برطانیہ نے ہندوستانی ماڈل کا استعمال کر کے اس اسلامی سلطنت پر فتح حاصل کی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پاک و ہند میں اپنی حکومت دیوانی حیثیت سے شروع کی جو پلاسی کی جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو ملی تھی۔ اس وقت تک ان کے قوانین ان کے قلعوں تک ہی محدود تھے۔ دیوانی کا درجہ حاصل ہونے کے بعد صوبہ بنگال میں ٹیکس اور انصاف کا شعبہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دائرہ اختیار میں آگیا۔ انگریزوں نے پہلے مغل دور کے قانونی نظام پر ہی انحصار کرنے کی کوشش کی کیونکہ اقتدار انہیں مغلیہ خاندان سے منتقل ہوا تھا۔ اس کام کے لیے ان قاضیوں اور روایتی فقہاء کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے مغلیہ دور میں اسلامی قانون نافذ کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے انہیں قانونی افسر مقرر کر کے ایک قانونی نظام قائم کیا۔ برہمن پنڈتوں کو بھی ہندو قانون پر مشورہ لینے کے لیے نئے قانونی نظام کا حصہ بنایا گیا۔

 انگریزوں کو اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے براہ راست اسلامی فقہ کی کتابوں پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انہیں روایتی قاضیان کی خدمات حاصل تھیں جو اسلامی فقہ سے اچھی طرح واقف تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے قاضیوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے، کہ جو فارسی یا عربی زبان سے واقف نہیں تھے، اسلامی فقہ کی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔

اس طرح کا پہلا ترجمہ فقہ حنفی کی کتاب 'ہدایہ' کا کیا گیا۔ جس کے مصنف 13ویں صدی کے حنفی عالم برہان الدین مرغینانی ہیں، اور یہ کتاب ہندوستان میں حنفی مذہب کی سب سے مقبول کتاب تھی۔ چونکہ انگریزوں کو عربی نہیں آتی تھی اس لیے ہدایہ کا فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ ہدایہ اسلامی دیوانی اور فوجداری قوانین پر ایک جامع کتاب تھی۔ تاہم، ہدایہ وراثت کے قانون پر خاموش تھی۔ اسی لیے انگریزوں نے ولیم جونز سے ایک اور حنفی کتاب سراجیہ کا ترجمہ کروانے کا فیصلہ کیا۔ ترجمہ کے اس عمل نے اسلامی فقہ کو ہزاروں کتابوں سے بے نیاز کر کے محدود کتابوں تک سمیٹ دیا۔

 اس کے علاوہ انگریزوں نے ہر مقدمہ کو اکٹھا کر کے شائع کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ عدالتوں اور ججوں کے لیے نذیر بن سکے۔ ولیم میگناٹن کا اس طرح کے پرانے مقدمات کا پہلا مجموعہ ( Principles and Precedents of Muhammadan Law) کے نام سے 1824 میں شائع ہوا تھا۔ چونکہ Stare decisis کا تصور (یعنی جب کسی عدالت کے سامنے کوئی مقدمہ ہو اور اگر پچھلی عدالت نے اسی یا اس سے ملتے جلتے کسی مقدمہ پر فیصلہ دیا ہو، تو وہ عدالت، سابقہ عدالت کے فیصلے کے مطابق اپنا فیصلہ سنائے گی) اسلامی فقہ کے لیے بالکل ایک نئی بات تھی۔ یہ برطانوی کامن لاء سے ماخوذ تھا۔ اس کے علاوہ انگریز اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا بھی طریقہ نکال لائے۔ اس کے تحت، اسلامی قانون پر حتمی فیصلہ پریوی کونسل کا ہی ہوتا، جس کا صدر دفتر لندن میں تھا۔ جوزف شاٹ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نیا قانونی نظام اسلامی و انگریزی قانونی نظریہ کا امتزاج تھا۔ اس لیے انگریزوں نے اسے اینگلو محمڈن لاء کا نام دیا۔

 پہلے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کی عدالتوں نے بھی اسلامی فوجداری اور تجارتی قوانین کو کامن لاء کے طور پر ہی استعمال کیا۔ بعد ازاں ٹی بی میکالے کی سربراہی میں پہلی لاء کمیشن (1834) نے انگلش لاء کو کامن لاء بنانے پر بحث شروع کی۔ 1857 میں پہلی جنگ آزادی کے بعد، برطانیہ کے کامن لاء کو ہندوستان میں بڑے پیمانے پر نافذ کیا جانے لگا۔ یہ اس وقت ہوا جب ملکہ برطانیہ نے پہلی جنگ آزادی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہندوستان کا انتظام براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیاں شروع کر دیں۔ انڈین کریمنل کوڈ، 1862، انڈین ٹرانسفر ایکٹ، 1882، انڈین ایویڈینس ایکٹ، 1872، انڈین کنٹریکٹ ایکٹ، 1872، وغیرہ اس وقت نافذ ہیں۔ اسی وقت، ملکہ برطانیہ نے 1858 میں اعلان کیا کہ مقامی لوگوں کو خاندانی/ذاتی قوانین کے لحاظ سے مکمل آزادی حاصل ہوگی (ملکہ وکٹوریہ کا اعلان، 1858)۔ ملکہ کا اعلان انگریزوں کے لیے انتہائی اہم اور ضروری تھا۔ لہٰذا، انیسویں صدی کے آخر تک، اسلامی قانون کا دائرہ خاندان/ فرد کے نجی معاملات تک محدود ہو گیا۔

1860 کی دہائی میں، انگریزوں نے ذاتی قوانین کی وسیع تر معنوں میں تشریح کرنے کی کوشش کی۔ جس کا نتیجہ نیل بیلی کا فتاویٰ عالمگیری کا انگریزی ترجمہ تھا۔ حنفی فتاویٰ کا مجموعہ جسے فتویٰ عالمگیری یا فتاوی ہندیہ کے نام سے جانا جاتا ہے، مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور حکومت میں ان کے حکم پر کثیر حنفی علماء نے مل کر مرتب کیا تھا۔ صرف نیلی بیلی کے پرسنل لاء میں شامل حصوں کا ہی انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ اور اسے 'ڈائجسٹ آف محمڈن لا' کے نام سے شائع کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب روایتی فقہاء اور قاضیان کو عدالتی نظام سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اسلامی پرسنل لاء کی تصنیف کا کام جدید تربیت یافتہ ججوں اور انگریزی ترجمہ نگاروں کو منتقل کر دیا گیا۔ "اب جو شرعی قوانین کے ساتھ ہوا اسے تخفیف نہیں بلکہ تقلیب کہا جانے لگا۔ طلال اسد کا یہ نظریہ کہ اسے قانونی اصولوں (فقہ) کی ذیلی تقسیم میں پیش کیا گیا ہے جس کا نفاظ مرکزی حکومت کرتی ہے، ہندوستان میں اسلامی قوانین کی تاریخ سے بالکل ہم آہنگ ہے۔

 برطانوی قوانین کا اثر ان اسلامی پرسنل لاء میں بہت واضح تھا جو برطانوی اتھارٹی کو منتقل ہوئے تھے۔ اس لیے نوآبادیاتی عدالت کے فیصلے اکثر پرسنل لاء کے روایتی ذرائع کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ وقف الاولاد کا تنازعہ نوآبادیاتی دور میں ایک بڑا تنازعہ تھا جس کی بنیاد اس بات پر تھی کہ آیا جدید عدالتوں کو اسلامی پرسنل لاء پر مکمل اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ برطانوی سپریم کورٹ، پرائیوی کونسل نے فیصلہ دیا کہ وقف الاولاد اسلامی قانون کے تحت ناجائز ہے اور اس معاملے پر حتمی فیصلہ پرائیوی کونسل کا ہوگا۔ برطانوی جج ہوب ہاؤس نے 1893 میں اسی طرح کا فیصلہ سنایا۔ ساتھ ہی، روایتی اسلامی مصادر و ماخذ کے مطابق، کسی کا اپنے خاندان والوں کے نام وقف کرنا منع نہیں تھا۔

 رول اگینسٹ پرپیچویٹیز برطانوی قانون کے خلاف تھا، جس میں نجی افراد کو جائیداد سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی تھی۔ مسلمان اسلامی قانون پر برطانوی سپریم کورٹ کے اختیار کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جس کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں نے بڑے احتجاجی مظاہرے کئے۔ انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ نے پرائیوی کونسل کے خلاف قراردادیں پیش کیں۔

 شبلی نعمانی جیسے علماء نے وقف اولاد کے جواز کے لیے دنیا بھر کے علماء کے فتاویٰ اکٹھے کئے۔ اس کے بعد 1911 میں محمد علی جناح کا وقف ویلیڈیشن بل لایا گیا اور 1913 میں اسے سرکاری طور پر منظور کر لیا گیا۔ اس قانون کے مطابق مسلمانوں کا خاندانی وقف اسلامی پرسنل لا کے تحت جائز ہے۔ یہ ہندوستان کی تاریخ میں اسلامی پرسنل لاء کی سب سے پہلی تدین تھی۔ خود پرائیوی کونسل کی تاریخ میں بھی یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی فیصلے کو الٹ دیا گیا۔ اسے مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں ایک فیصلہ کن فتح کے طور پر دیکھا گیا۔

آزادی کے بعد ہندوستان میں، شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک بار پھر یہ سوال زندہ کر دیا کہ اسلامی پرسنل لاء کا لکھنے والا کون ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق طلاق یافتہ سابقہ بیوی کی کفالت سابق شوہر کی ذمہ داری ہے۔ غلط مشورہ دینے والے علماء اور مفاد پرست سیاست دانوں کے احتجاج کی وجہ سے، راجیو گاندھی کی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پلٹ دیا، اس طرح جدید ضروریات کے مطابق اسلامی قانون میں اصلاحات کا ایک اہم موقع ضائع ہو گیا۔ سیاسی طبقے نے ہمیشہ اسلامی قانون کو ایک سودے بازی کے آلے کے طور پر استعمال کیا ہے اور اسلامی قانون کی بروقت اصلاح کا دروازہ بند کیا ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں سول قوانین نافذ کرنے کا رجحان نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ مہاجرین کو بھی اپنے شہری قوانین میں آزادی دی جائے۔ جن ممالک میں جمہوری حکومتیں نہیں ہیں، وہاں ایسے شہری قوانین شہریوں اور مہاجرین کو اپنے شہری قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیتے ہیں۔ تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جمہوریت کی سب سے بڑی دشمن نوآبادیاتی حکومتوں نے بھی مقامی لوگوں کی شہری آزادیوں پر پہرا نہیں بٹھایا۔ ماقبل جدیدیت کی تاریخ میں بھی مختلف معاشروں کے شہری قوانین کی آزادی کو سلب کرنے کا ایک بالکل عجیب و غریب نظام رائج تھا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے، 21 ویں لاء کمیشن نے تجویز پیش کی کہ ہندوستان میں پرسنل لاء جمہوریت کے اشاریے ہیں اور یکساں سول کوڈ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا یکسانیت کے نام پر ایسی کسی بھی کوشش کو انسانی آزادی اور تاریخ کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

 اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو خود بھی اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ اب جب کہ جبکہ ہمارا ملک اپنی نوآبادیاتی میراث کی زنجیریں توڑنا چاہتا ہے، اگر اسلامی قانون اس میں پیچھے رہ جاتا ہے تو انارکی کا شکار ہو جائے گا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ مسلم قیادت نوآبادیاتی قوانین سے آزاد ہوکر جدیدیت کی طرف قدم بڑھانے کے طریقوں کے بارے میں سوچے۔ مختلف عرب اور مسلم ممالک کے ترقی پسند اسلامی قوانین سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

 اس نازک دور میں اگر مسلمان سماجی قدامت پسندی کو نہیں چھوڑیں گے تو تباہ ہو جائیں گے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تقسیم کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی مذہبی قدامت پسندی تھی جبکہ عالمی نظام جدیدیت اور آزادی کے لحاظ سے ترقی کر چکا ہے۔

English Article: Reform Colonial Islamic Law To Reflect Modern Realities

URL: https://newageislam.com/urdu-section/reform-colonial-islamic-law-modern-realities/d/131269

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..