ڈاکٹر خواجہ افتخار
4 اگست، 2023
منی پور میں جاری بے رحم اشتعال
انگیزی اور تشدد جے پور ممبئی کے درمیان چلنے والی ریل گاڑی میں ایک پولیس اہلکار کے
ذریعہ تین بے قصور مسلم مسافر وں اور ایک ڈیوٹی پر اسی کے ساتھ تعینات سب انسپکٹر کو
گولی سے بھون ڈالنا ان کا موقع واردات پرہی ہلاک ہوجانا، ہر یانہ کے نوح، سوہنا، فرید
آباد،پلول اور گروگرام میں فرقہ وارانہ جارحیت تشدد، ہلاکت، نجی وسرکاری املاک کا بڑا
نقصان،متعدد عام لوگ پولیس اہلکار وافسران زخمی! گروگرام کے ایک رہائشی سیکٹر میں جمع
بھیڑ کے ذریعہ مسجد کی بے حرمتی، انہدامی عمل اور بالآخر اللہ کے گھر کو نذرآتش کر
کے شہید کیا جانا! اتناہی نہیں بلکہ مسجد کے امام محترم کو بھی شہید کردیا جانا۔یہ
سب ایسے واقعات ہیں کہ جن کی کوئی توجیہ نہیں پیش کی جاسکتی۔ ان واقعات نے اچھے اچھوں
کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کرکے رکھ دیا ہے۔
پلول میں بھی ایسا ہی کچھ
دوہرایا گیا۔کئی مساجد شہید کردی گئیں اور ایک نائب امام کو پیٹ پیٹ کرہلاک کردیا گیا۔
تشدد اور اللہ کے گھروں میں آگ زنی کا یہ سلسلہ تام دم تحریر جاری ہے۔کشیدہ حالات او
رکشیدگی کا جاری رہنا ہر مہذب شہری کو کرب میں مبتلا کررہا ہے۔یہ دردناک واقعات من
حیث القوم او روحدت کے کیا ہم سب کو ایک کٹہرے میں کھڑا نہیں کرہے ہیں؟ یقینا کھڑا
کررہے ہیں۔ او رہم سب کو اسے اسی طرح محسوس بھی کرنا چاہئے۔ علیحدہ ہندو مسلم سو چ
نہ ہماری میراث ہے او رنہ ہی روایت!
فی الوقت کئی سوال منہ پھاڑے
کھڑے ہیں؟
اگر ہم ایک وحدت ہیں جو ہم
ہیں او رجس طرح ہم اس کی بات چہار سو کرتے ہیں،اس کا دم بھرتے ہیں اور تمام عالم میں
اس کواپنے طرہ امتیاز کے طور پر پیش کرنے میں فخر کرتے ہیں تو کیا ضمیر میں ابال کھارہے
چند سوال آج ہم ہندو مسلمان،بودھ اور عیسائی نہ بن کر بلکہ بحیثیت ہندوستانی ان حساس
سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرینگے؟
یہ وقت ہم میں سے ہر ایک کے
لئے اپنے اندر جھانکنے اور آنکنے کا ہے۔ہماری تمام مذہبی وحدتیں اچانک راتوں رات تو
وجود میں نہیں آئی ہے۔دوہزار سال سے زائد مسیحی برادری اور ساڑھے چودہ سو سال سے مسلمان
اس وطن عزیز کااٹوٹ وانمول حصہ رہے ہیں۔ امن و آشتی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے
ہیں۔ اسلام سے تو رشتوں کا یہ عالم ہے کہ ایک سناتنی برہمنی طبقہ اپنے آپ کو آج بھی
حسینی برہمن کہتاہے۔ میرے آقا کو ہند سے ٹھنڈی ہوا ئیں آتی تھیں، جب الوطنی کو ایران
کے حصہ کے طور پر تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو الگ رکھ کر اور ایک علیحدہ وحدت
کی طرح سلوک رکھنے کا یہ خطرناک کھیل کیوں؟ایسے د وہرے پن کو فکری صفوں سے اکھاڑ کرپھیکنا
ہوگا۔
حالیہ پرتشد د واقعات کی جس
طرح سے مغربی ومسلم دنیا میں تشہیر ہوئی ہے اور اس نے ہماری پرامن، وجمہوری اقدار او
رمنفرد حیثیت پر ضرب کاری لگائی ہے وہ بھی ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس چیلنج
سے ہم کو مل کر لڑنا ہوگا۔ مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچا نا ہوگا۔ عدل کے تقاضوں کوپورا
کرتے ہوئے مجرمین کو بروقت عبرتناک سزائیں اور متاثرین کو بلاتاخیر مالی مدد،ان کی
زخم بھرائی اور داد رسی کرنی ہوگی۔
یوں تو کوئی بھی وقت بدنام
زمانہ کاموں کیلئے درست قرار نہیں پاتا مگر حکومت وقت،ذمہ داران مملکت،قیادت وقت متعنہ
انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا، قومی خفیہ ادارے، قومی مفادات، خطرات، اندرونی وبیرونی سازشوں
کے حوالے سے کبھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہتے۔خاص طور پر ہماری خفیہ ایجنسیاں
توچیل کی نظر او رکبوتر کی آنکھ کی تیزی سے بھی دورکا پڑھ لیتی ہیں۔
میرا پختہ سیاسی عقیدہ ہے
کہ امن مخالف اورتشدد کے حامی وحواری پیشہ ور عناصر ہمیشہ کسی کے آلہ کار کے طور پر
اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ان عناصر کا وطن عزیز کی سالمیت اور خود مختاری، قومی یا بین
الاقوامی ملک کو پہنچنے والے مفادات یا نقصانات سے کوئی نہیں ہوتا ان کے لئے یہ صرف
ایک شغل ہوتا ہے۔ حالیہ واقعات وواردات کو جو بھی انجام دے رہے ہیں یا ان سے کروایا
جارہاہے اگر ان کو میں وطن کا باغی کہوں تو کیا میرا یہ کہناغلط ہوگا؟ ایک عجیب پہلو
تصویر کا یہ بھی ہے جس پر شاید کبھی کھل کر بات ہی نہیں ہوئی کہ ہماری چند اقلیتیں
بالخصوص بودھ، مسیحی اور مسلم مقامی یا ملکی پر تواقلیت ہیں مگر بین الاقوامی سطح پر
ان کی حیثیت تین سب سے بڑی عالمی اکثریت کی ہے۔ ان سب سے ہمارے سیاسی،سفارتی، تجارتی
مفادات او رزرمبادلہ کے ذخائر کا استحکام جڑا ہوا ہے۔ یہ وہ اشوز ہیں جن کو قومی پالیسی
وعالمی سفارتکاری میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تمام بدبختانہ حادثات انسانی حقوق
کی عالمی تنظیموں اورعالمی قوتوں اور اس موضوع پر کام کرنے والے عناصر کو خاصہ مواد
فراہم کررہے ہیں۔
اس تمام پس منظر میں جائے
بغیر ہم اس بدامنی اورفساد کے محرکات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ مجھے کوئی یہ بتائے
کہ قانون کی عملداری سے بے پرواہ بے لگام جنونیوں کا جم غفیر جن کا سڑکوں، چوراہوں
پر قبضہ کیا جانا پھر ان کا مخصو ص علاقوں سے اپنے جلوسوں کو نکالنا، اس کی اجازت مل
جانا، انتہائی اکسانے والی نعرے بازی کرنا، انتظامیہ کاحرکت میں بروقت نہ آنا یہ سب
کچھ کیا اور کیوں؟ اس بم کے پھٹنے سے پہلے اس کے علاج پر ہم کب دھیان دینگے۔ جبر اور
تشدد سے بڑی بڑی اپنے وقت کی قوتوں کی شکست فاش ہم سب کی آنکھوں نے پچھلی چنددہائیوں
میں ہی دیکھی ہے۔
20 کروڑ کی اقلیت میں احساس محرومی پیدا ہونا،اس کو کبھی لنچنگ،کبھی
گائے پالن، جانوروں کی آمد رفت،سفر میں داڑھی نوچ لینا،تشدد کا بے وجہ نشانہ بنانا،
مسجد کے میناروں پر چڑھ کر ان کی بے حرمتی کرنا، مساجد اورائمہ کی بے عزتی وبے حرمتی،
راہگیر وں کا زندہ جلایا جانا، مسجد وں کی شہادتیں، اذان اور نماز پر اعتراض، لباس
او رکھانے کی عادتوں پر اعتراض،کاروبار نہ کرنے اور بائیکاٹ کااعلان،ہر چیز کو نشانہ
بنایا جانا اس سب کا مقصد کیا ہے؟
کچھ ہوتا ہے تو بات تو کرنی
ہی پڑتی ہے۔ ظرف اور اخلاق کا بھی یہی تقاضہ ہوتا ہے۔ضمیر کی بھی۔یہی آواز ہوتی ہے۔
جب حالات کشیدہ ہوں نفسیات میں ابال ہو ایسے میں شعلہ بیانی اور آپے کو کھونا دانشمندی
نہیں ہوتی۔جنگ، جارحیت، جبر اور تشدد نے کبھی مسائل کو انسانی تاریخ میں حل نہیں کیا۔بلکہ
سب کچھ خاک ہونے کے بعد مکالمے او رمفاہمت کی طرف ہی آنا پڑتا ہے۔
آر پار کی چند مقامی و بین
الاقوامی مثالیں لے لیجئے تب حواس خمسہ بہتر کام کرینگے۔مجھ پر کئی لوگ تنقید کرتے
ہیں کہ میں ملت کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیتا ہوں۔میرا موقف آج اور اچانک وجود میں نہیں
آیا۔ پھر کہتا ہوں کہ اگر اب تک اور آج تک سب صحیح تھا، اقتدار بھی ہمنواؤں کے پاس
تھا۔ اب بھی آپ اسی کے دشمنی ہیں تو پھر یہ حالت زار کیوں؟ ہمارے اور سنگھ پریوار کے
مابین اختلافات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ حالات بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔ میں نے تو
کبھی سیاست یاووٹ کی بات نہیں کی، نہ آج کررہاہوں۔ہمیشہ مکالمہ، مفاہمت، مسائل کے حل
میں درمیانہ روی اور اعتدال پر زور دیا ہے۔ گلی، محلے، بازار،دفاتر، تعلیمی اداروں،
تجارت اور دیگر معمولات زندگی میں باہم رشتے
بنیں ان پر محنت ہو۔ آج مسئلہ سیاست سے نکل کر روز مرہ زندگی کے معمول پر آگیا
ہے۔
انتظامیہ کی یہ آئینی ذمہ
داری ہے کہ وہ عدل وانصاف کے تقاضوں کا پاس رکھے۔ معاشرے کے کسی بھی حلقے یاطبقے میں
یہ احساس جنم نہ لے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔یہ احساس اپنے اندر بڑی پیچیدگیاں
رکھتا ہے۔ اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔جانا کسی کو کہیں نہیں ہے تو خوشگواری کے ساتھ ایک
دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟
جذباتی باتیں کرنا، یا جذبات
کو بھڑکانا مفکر کا کام نہیں ہوتا۔ اس کی نظر وہاں ہوتی ہے جہاں اکثر کی نہیں ہوتی!
اس کے مشورے منطق، حالات کی سنگینی او راس سے متعلق ہمہ جہتی نکات و محرکات کے تجزیے
پر مبنی ہوتے ہیں۔ جس کو کبھی کبھی سمجھنے میں عام قاری کو وقت لگ جاتاہے۔ جو بہاؤ
میں بہہ جاتے ہیں ان کو لہریں کھاجاتی ہیں۔اور جو شعوری احساس کا ساتھ نہیں چھوڑتے
کل پھر وہی کام آتے ہیں۔ اس وطن عزیز میں رہنے او ربسنے والی تمام وحدتیں ایک پریوار
کی طرح ہیں، اختلاف ہوجاتا ہے مگر بات اس سے آگے نہیں جانی چاہئے۔لیکن بات بہت آگے
جاچکی ہے۔میں دو باتیں بہت کھل کر کہناچاہتا ہوں۔اس ملک کے مظلوم طبقات نے ہمیشہ احتیاط،ضبط
اور تحمل سے کام لیا ہے۔ اب یہ حکومت وقت کی پہلی اور لازمی ذمہ داری ہے کہ وہ ان عناصر
پر ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر قابو پائے یہ عناصر حکمراں جماعت کے خیر خواہ ہرگز نہیں
ہیں۔حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ کہیں یہ عناصر خود اسی کے خلاف تو کام نہیں کررہے ہیں؟
4 اگست،2023، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism