کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
گیارہویں شریف کی حقیقت سمجھنے سے قبل چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لینا ضروری ہیں۔ اسلام کا عمومی مزاج ہے کہ ہر انسان کو ہر ممکن فائدہ پہونچے ، نیک اور صالح لوگوں کو بھلایا نہ جائے بلکہ انہیں اچھے طریقے سے یاد رکھا جائے اور دوسرے لوگوں کو اس میں رغبت ہو، ذاتی مفاد سے زیادہ اجتماعی مفاد پیش نظر رکھا جائے ۔یہ خوب ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ خیر خیر ہے اور شرشر ہے اور ہر جگہ ہر زمانے میں اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا، نیکی اور بدی کا امتیاز سکھانا ، لوگوں کی بنیادی معاشی ومعاشرتی ضروریات مہیا کرانا ، اور ان کاموں کے لیے بلا امتیاز مذہب یعنی مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر سب کی بھلائی پیش نظر رہے ۔ وہ جو صالحین وبزرگان دین ہوئے انہوں نے اپنے علم وعمل اور مال سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا ، دنیاوی واخروی کامیابی کی سمجھ عطا کی یقینا وہ انسانیت کے محسن ہیں ، تو انہیں بھلانا احسان فراموشی کیوں نہیں؟ اس لیے ایسے بزرگان دین کی یاد رہتی دنیا تک منانی چاہیے ۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں متعدد ہستیوں کے عمدہ کارناموں کا ذکر ملتا ہے جن سے بے شمار عبرتیں اور نصیحتیں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔
گیارہویں شریف در اصل پیران پیر غوث اعظم دستگیر شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی قدس سرہ کے نام پر منعقد ہونے والی تقریب ہے ۔ اس تقریب میں سرکار غوث اعظم کے حوالہ سے اﷲ رب العزت و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیائے کرام کی ولایت کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اﷲ رب العزت آپ کی الفت و محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا فرمائے آپ کے علمی و عملی کارناموں سےامت مسلمہ واقف ہو ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے اللہ کے ولیوں سے انس پیدا ہوتا ہے۔اللہ تعالی کی عبادت کرنے کی ترغیب ملتی ہے ، اﷲ والوں کی اتباع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے نیکی اور بدی کی تمییز معلوم ہوتی ہے ۔ کہنے کو یہ گیارہویں شریف سرکار غوث پاک کی تقریب ہے مگر در حقیقت اس میں اﷲ و رسول کا تذکرہ ہوتا ہے ۔صدقات وخیرات کی کثرت ہوتی ہے ۔
بعض لوگوں کا اعتراض ہوتا ہے کہ گیارہویں شریف کے لیے کسی خاص دن مقرر کرنا درست نہیں حالانکہ انہیں جاننا چاہیے کہ محبوبان خدا کی یادگاری کے لئے دن مقرر کرنا بے شک جائز ہے۔ حدیث شریف میں ہے حضور کریمﷺ ہر سال کے اختتام پر شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لاتے تھے (جامع البیان (تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ 24/13‘ داراحیاء التراث العربی بیروت 170/13)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایسی حدیث کو اعراس اولیائے کرام کے لئے مستند مانا اور شاہ ولی اﷲ صاحب علیہ الرحمہ نے کہا: مشائخ کے عرس منانا اس حدیث سے ثابت ہے (ہمعات ‘ ہمعہ 11 مطبوعہ شاہ ولی اﷲ اکیڈمی‘ حیدرآباد سندھ ص58)
لیکن اس کے ساتھ یہ نقطہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ‘‘جو عامی شخص اس تعیینِ عادی کو توقیتِ شرعی جانے اور گمان کرے کہ ان کے علاوہ دنوں میں ایصالِ ثواب ہوگا ہی نہیں،یا جائز نہیں،یا ان ایام میں ثواب دیگر ایام سے زیادہ کامل ووافر ہے،تو بلا شبہ وہ شخص غلط کار اور جاہل ہے اور اس گمان میں خطاکار اور صاحبِ باطل ہے’’۔(فتاویٰ رضویہ جدید:۹/۹۵۱)
گیارہویں شریف کے متعلق مفتی عبد القیوم ہزاروی کے مضمون کے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں حاضر ہیں:
‘‘اولیاء اﷲ کی اصطلاح قرآنی اصطلاح ہے ان کا ذکر خیر کرنا اﷲ تعالیٰ کی سنت اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک طریقہ ہے امت نے روز اول سے اس نام اور اس کے مصداق پاکیزہ نفوس کی ہمیشہ تعظیم و تکریم کی ہے اولیاء اﷲ اس دین کے شعائر ہیں ان سے منسوب ہر چیز اﷲ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہے یہ حضرات اﷲ تعالیٰ کے دین کے خادم اور مخلوق خدا کے خیر خواہ ہوتے ہیں ان کی صحبت سے مردہ دلوں کو حیات جاوید ملتی ہے ان کے پاس زخمی دلوں کو مرہم، پریشان حالوں کو سکون اور دنیا کی نظروں سے دھتکارے ہوؤں کو امان ملتی ہے یہ خالق و خلق دونوں کی نظر میں محبوب ہوتے ہیں چونکہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کثیر فضائل و محاسن بیان فرمائے ہیں۔ قرآن کریم میں ان کی تاریخ و واقعات، فضائل و محاسن بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا :
(وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ )ابراهيم 14 : 5 ’’اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ۔‘‘
اﷲ کے دن تو سارے ہی ہیں سبھی اس کے پیدا کردہ ہیں پھر اﷲ کے دنوں کی یاد دہانی کا اس کے سوا کیا مفہوم ہے کہ لوگوں کو اﷲ والوں کا ذکر سناؤ اور بالخصوص ان دونوں کا جو اﷲ والوں سے منسوب ہیں تاکہ اولاً ان کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے جنہوں نے عمر بھر اﷲ تعالیٰ کا ذکر بلند کیے رکھا اﷲ تعالیٰ کا ان سے وعدہ ہے۔
(فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ.) (البقره 2 : 152)
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔‘‘
‘‘گیارہویں شریف کا عمل ایک ولی کامل حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے یوم وفات 11 ربیع الثانی کی نسبت سے کچھ اﷲ تعالیٰ کے ہاں ایسا مقبول ہوا کہ ہر مہینہ کی گیارہ تاریخ کو لوگ آپ کی یاد میں محفلیں سجایا کرتے ہیں۔ گیارہویں شریف چالیسواں سالانہ عرس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اﷲ والوں کا ذکر خیر ہو، اﷲ تعالیٰ کا ذکر، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام اور سرکار کی سیرۃ طیبہ اور قرآن و سنت کے جس چشمہ صافی سے ان بزرگوں نے اپنے آ پ کو اور پھر ایک جہان کو سیراب کیا ہے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے اور ان کو عبادت خداوندی کی رغبت دلائی جائے۔ محافل میلاد، محافل اعراس، سوم چالیسواں، یوم پاکستان، یوم اقبال، یوم قائد اعظم، صحابہ کرام و اہل بیت کے ایام، مدارس، دار العلوموں، کالجوں اور جامعات کی سالانہ پچیس سالہ، پچاس سالہ، سو سالہ تقریبات، تبلیغی و تربیتی اجتماعات، کانفرنسز، سیمینارز۔ یہ تمام سرگرمیاں اسی مقصد کے لیے تو ہوتی ہیں کہ لوگوں تک اپنے بزرگوں کے مقام و مرتبہ، علمیت، جد و جہد، تعلیم و تزکیہ، خدمت خلق، اعلیٰ اخلاق و کردار کے کارنامے پہنچائے جائیں جس سے ایک طرف ان محسنین کا ذکر خیر ہوتا رہے۔ دوسری طرف آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتی رہیں اور بلندیوں، عظمتوں اور عزیمتوں کا سفر جاری و ساری رہے اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگاتی رہے۔ گیارہویں شریف ہو یا کسی اور بزرگ کا عرس یا دیگر مواقع ان پر معمول سے زیادہ قرآن خونی ہوتی ہے نعت و منقبت پڑھی و سنی جاتی ہے اﷲ تعالیٰ اور اس کے حبیب پاک کا ذکر خیر ہوتا ہے احکام شرع کی تعلیم و تبلیغ کا موقع ملتا ہے رزق حلال سے حاضرین کی تواضع کی جاتی ہے ماحول میں نیکی کا غلبہ اور بدی کی پسپائی ہوتی ہے صدقہ و خیرات کے ذریعے انفاق فی سبیل اﷲ پر عمل ہوتا ہے۔ شریک محفل لوگوں میں میل ملاقات ہوتی ہے محبت و اخوت کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں غریبوں کو اچھا کھانا ملتا ہے۔ اب کچھ نیک لوگوں نے ان نیکیوں کو مزید وسعت دی ہے جو لائق تحسین ہے کہیں ترغیب کے طور پر حج و عمرہ کی قرعہ اندازی ہوتی ہے اور ان محافل کے ذریعے نادار لوگ بھی ان سعادتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں کہیں غریب بچیوں کی شادیاں کروائی جاتی ہیں ایک بڑے فرض کی ادائیگی اور والدین کی ایک بڑی پریشانی کا ازالہ کیا جاتا ہے۔ بعض تقریبات پر نادار طلبہ کی تعلیمی ضروریات کا اہتمام کیا جاتا ہے بعض مقامات پر بے گھروں کو گھر تک مہیا کیے جاتے ہیں انہی ترغیبات کا نتیجہ ہے کہ اہل ثروت میں فیاضی، کرم اور سخاوت کے اوصاف پیدا ہوئے۔ اﷲ کے رستے میں یعنی مخلوق خدا کی فلاح و بہبود کے لیے کثرت سے مدارس، سکولز، کالجز، جامعات، ہسپتال، انڈسٹریل ہومز اور دیگر رفاہی ادارے قائم ہیں اور اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے لیے وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران اس قوم کے سچے خیر خواہ ہوں تو زکوۃ وعشر کی رقم سے عوام کی بنیادی ضرورتیں با عزت طور پر پوری ہو سکتی ہیں۔ آج بھی دنیا کے کونے کونے میں اولیا ء اﷲ کے مزارات پر بندگان خدا کو بغیر کسی مذہبی و نسلی امتیاز کے مفت کھانا ملتا ہے اور ہر وقت ملتا ہے ہر ایک کو ملتا ہے ضرورت مندوں کا پیٹ بھرتا ہے اور کھلانے والے اجر وثواب کے مستحق بنتے ہیں مرحوم عزیزوں، بزرگوں کو اس تمام نیک کام کا اجر و ثواب ملتا رہتا ہے۔ جہاں کام ہوتا ہے وہاں کمی، کوتاہی اور غلطی بھی ہو سکتی ہے اس لیے ہر کام کتنا ہی مفید اور اچھا کیوں نہ ہو اصطلاح طلب رہتا ہے۔ خوب سے خوب ترکا سلسلہ رکتا نہیں۔
‘‘گیارہویں شریف کے اسباب و مقاصد اور طریقہ کار ہم نے بیان کر دئیے ہیں مگر فکری اور قدرتی امر ہے کہ وقت کے ساتھ اچھے کاموں میں بھی نقائص ہو جاتے ہیں یہی حالت گیارہویں شریف کی ہے۔ ان تقریبات میں چند خامیاں اکثر نظر آتی ہیں جن کا تدارک علماء، واعظین، مرشدین اور منتظمین کا ذمہ ہے۔ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر بلکہ لڑ جھگڑ کر زبردستی اور گھٹیا طریقوں سے ان تقریبات کے لیے چندہ کرنا لاؤڈ سپیکر پر سارا سارا دن چندوں کی اپیلیں کرنا اسلام اور تصوف و ولایت کو بدنام کرنا ہے۔ ایک آدھ مرتبہ محض اطلاع کے لیے اعلان کرنا معیوب نہیں بعض لوگ جس طرح مسلسل و متواتر کئی کئی دن تک سپیکر پر چندہ مانگتے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے اور مختلف حربے استعمال کرتے ہیں وہ باعث شرم ہیں اس کے ذمہ دار امام، خطیب اور مسجد کی انتظامیہ ہے اس رسم قبیح کو ختم ہونا چاہیے نعت و منقبت پڑھنا ایک پاکیزہ اور خوشگوار فرض ہے مگر اس کے مقام و مرتبہ کا تقاضا ہے کہ اسے احتیاط ووقار کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اولاً نعت خواں غیر شرعی، غیر معیاری اور ادب و احترام سے عاری کلام سے پرہیز کریں۔ ثانیاً مقررین و نعت خواں حضرات نماز با جماعت کی پابندی کریں اور مسلمانوں کی سی شکل و صورت بنائیں اور بصورت دیگر انہیں مائیک پر آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ثالثاً وہ اختتام مجلس تک شامل محفل رہیں مختلف بہانوں سے کھسکنے کی کوشش نہ کریں رابعاً معیاری کلام کے لیے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور بعد والے با علم و با عمل علماء و کاملین کا کلام پیش کریں۔
‘‘گیارہویں شریف اور اس طرح کی دیگر تقاریب میں کھلائے جانے والے کھانے کو انفاق فی سبیل اﷲ سمجھ کر وسعت دیں لوگوں کے پاس بے حساب مال ہے۔ ختم شریف کے لیے عمدہ کھانے، مستحقین کے لیے کپڑے اور نقدی، بیماریوں اور ذہنی مریضوں کے لیے کھانے، پھل اور دوائیاں، بیروزگاروں کے لیے زکوۃ، خیرات، چرمہائے قربانی، فطرانہ اور دیگر عطیات سے فنڈ مقرر کریں ان سے بیروزگاروں کو گزارا الاؤنس، غریب بچیوں کے لیے شادی کا بندوبست، نادار طلبہ کو تعلیمی وظائف معذوروں کے لیے کفالت خانے اور حادثات کے متاثرین کے لیے امداد کی جائے رفاہی و تعلیمی و تربیتی ادارے قائم کیے جائیں بیواؤں، یتیموں کے لیے کفالت عامہ کا بندوبست کیا جائے اور ان تمام نیک کاموں کا ثواب اپنے نیک بزرگوں کو پہنچایا جائے تاکہ ان کے احسانات کا کسی قدر حق ادا ہو۔ اور ان کے درجات مزید بلند اور ان کے فیوض و برکات مزید وسیع ہوں اور گناہ گاروں کو اس کا ثواب پہنچایا جائے تاکہ ان کی اخروی نجات ہو۔ ان نیکیوں کے صدقہ و وسیلہ سے پروردگار سے دعا ئیں مانگی جائیں کہ مسلمانوں پر پڑنے والی مصیبتوں کا خاتمہ ہو ان کی عزت و آزادی بحال ہو، ان کی کمزوریاں، محکومیاں اور محرومیاں ختم ہوں۔ ان کے باہمی اختلافات و تنازعات نابود ہوں وہ علم و عمل اور جہد مسلسل کے اسلحہ سے لیس ہو کر میدان مسابقت میں اتریں اور اپنا کھویا ہوا مقام و وقار دوبارہ حاصل کریں۔ یہ ہے میری نظر میں عرس گیارہویں شریف، چالیسویں اور برسی منانے کا صحیح طریقہ نیکی نیکی ہے جب بھی کی جائے جہاں بھی کی جائے یہ سوال بے معنی ہے کہ یہ کب شروع ہوئی ایصال ثواب کی مختلف طریقے اور نام ہیں ہر دور میں تھے ہر دور میں رہیں گے ان میں درپیش آنے والی خرابیوں کا ازالہ کریں ہر عمل میں خلوص و للہیت کا رنگ پیدا کریں خدا و رسول کی رضا اور مخلوق خدا کی بہتری پیش نظر رکھیں نیکی کی راہیں کثرت سے کھلی ہیں لیکن خلوص اور جذبہ و عمل کی ضرورت ہے۔’’ (ماخوذ از فتوی آن لائن)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism