سلیم شیرازی
کشمیر کے روحانی ،سیاسی رہنما
جناب میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ کشمیری تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ
یہ تحریک پر امن رخ اختیار کرے اور اس پر سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا لیبل اتار
پھینکا جائے۔ حضرت میر واعظ نے نیویارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ انہوں
نے زور دے کر کہا کے کشمیری تحریک کو اپنی کامیابی کے لئے بندوق اور جہادیوں کو پوری
طرح مسترد کرنا ہوگا۔ جناب میر واعظ کے یہ تاثرات اس لئے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں
کہ انہوں نے اپنے سفر امریکہ کے دوران پاکستان کے صدر مملکت جناب آصف علی زرداری سے
بھی ملاقات کی ۔اس ملاقات کے دوران جہاں انہوں نے جناب زرداری سےگفتگو کے دوران دوٹوک
الفاظ میں کہا جہاں کشمیر کی تحریک کو حکومت ہند کی خونریزی سے لہولہان ہونا پڑا ہے
وہیں دوسری طرف جہادی تنظیموں اور ان کے پرتشدد سیاست سے بھی مظلوم کشمیریوں کی تحریک
کو شدید نقصان پہنچا ہے اس لئے کشمیریوں او ران کے تحریک کوانتہا پسندی دہشت گردی اور
تشدد کا راستہ ترک کر کے مذاکرات کا پر امن راستہ اختیار کرنا ہوگا کہ کشمیر کی تحریک
سے سخت گیر عناصر کا اخراج اس تحریک کی سرخروئی کے لئے از حد ضروری ہے۔
میر واعظ کے یہ ارشاد ات اس
امر کے غماز ہیں کہ اب کشمیر کی حقیقت پسند قیادت نے زمینی سچائیوں کو محسوس کرلیا
ہے اور اب وہ اپنی مجبوریوں ،مصلحتوں اور حدود کے ادراک کے ساتھ حکومت ہند سے گفتگو
کے ذریعہ اپنے مسائل کا پائیدار حل تلاش کرنے کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے اب وہ اپنے
تشدد کے دیرینہ موقف سے بھی دست بردار ہونے کے لئے تیار ہیں۔یادرہے کہ میر واعظ نے
اب سے کچھ ہی عرصہ قبل کہا تھا کہ کشمیر کےمسئلوں کے حل کے لئے تشدد کا راستہ اختیار
کرنے کے زمانے گزرگئے ۔ اب مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کا سہارا ناگزیر ہوگیا ہے۔ انہوں
نے یہ بات پوری طرح محسوس کرلی ہے کہ تشدد اور انتہا پسندی ان کے مسائل کا حل نہیں
ہوسکتی ،اس لیے اب انہیں بندوق کو خیر آباد کہہ کر پر امن مذاکرات کا راستہ اختیار
کرنا ہوگا۔
کشمیری تاریخ شاہد ہے کہ کشمیر
کبھی انتہا پسند نہیں رہا ۔ کشمیریوں نے کبھی انتہا پسندی اور تشدد کا سہارا نہیں لیا۔اس
کے برعکس کشمیری عوام نے ہر قسم کا استحصال اور جبر برداشت کرنے کے باوجود کبھی ہتھیار
نہیں اٹھائے۔ کبھی احتجاج نہیں کیا۔ انہوں نے ہر قسم کا جبروتشدد برداشت کیا لیکن پیشانی
پر شکن نہیں آنے دی۔ راجہ گلاب سنگھ کے دور سے آج تک کشمیریوں کو ہمیشہ دبائے رکھا
گیا ان کے عزائم کو ہمیشہ پامال کیا گیا،انہیں کبھی انسان نہیں سمجھا گیا ۔حکمرانوں
سے قائد ین تک سب نے ان کا استحصال کیا سب ان کا خون چوسا کسی نے ان کے احساسات کا
احترام نہیں کیا لیکن کشمیریوں نے کبھی شکو ہ نہیں کیا۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ کشمیری
عوام کو فطری ذہانت نے انگڑائی لینی شروع کی تو انہیں احساس ہوا کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں
کے دوران ان پر کس قدر ظلم وجبر اور استحصال وستم روا رکھا گیا ہے ۔ ان کی نسلو ں کو
کس طرح صدیوں تک غلام بنا کر رکھا گیا ان کی بیٹیوں ،ماؤں ، بہنوں، بھائیوں کے ساتھ
کے ساتھ وحشیانہ برتاؤ کیا گیا لیکن مظلوم کشمیریوں نے سب کچھ برداشت کر کے کشمیر کی
دیرینہ سماجی ، وثقافتی روایت کشمیریت کو ہمیشہ مقدم رکھا، انتہائی صبر وضبط کے ساتھ
کشمیریت کو برقرار رکھا۔
تاہم برداشت کرنے کی بھی ایک
حد ہوتی ہے اس لئے جب کشمیریوں نے محسو س کیا کہ ان کے جذبات و احساسات کی کوئی قدر
نہیں ، کوئی ان کی مظلومی ومجبوری کا احساس کرنے والا نہیں ہے تو انہو ں نے اپنے انسانی
حقوق کی بازیافت کے لئے احتجاج اور مظاہروں کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا۔ یہی وقت تھا
جب شیر کشمیر کے لقب سے موسم شیخ عبداللہ مرحوم نے کشمیریوں کے ان جذبات کا ادراک واحساس
کرکے ان کی بیدردی اور جذبہ مزاحمت کو ایک شکل دینے کی کوشش کی۔ ان کی قیادت نے کشمیری
عوام کو شاہی جبر واستبداد سے تو نجات دلادلی لیکن دوسری انسان سنور طاقتوں کو کشمیری
عوام نے جذباتی استحصال سے باز نہیں رہ سکے۔
شیخ عبداللہ مرحوم کی زندگی
خود زبردست جدوجہد اور تبدیلیوں سے عبارت تھی۔ جیل کی صعوبتوں سے لے کر سیاسی اقتدار
علیٰ تک کے سفر کی ان کی زندگی زبردست جد وجہد اور تبدیلیوں سے دوچار رہی ہے۔ لیکن
شاید کشمیریوں کے بے پناہ مسائل کی سنگینی کے سامنے وہ خود کو بھی بے بس محسوس کرنے
لگے تھے۔ تاہم انہوں نے کم از کم اپنی دانست میں اور اپنی بساط بھر تو کشمیریوں کی
مدد کرنے کی کوشش کی ہی۔ یہاں یہ بھی کہنا غلط ہوگا کہ انہوں نے کشمیریوں کے ساتھ خاطر
خواہ ہمدردی سے کام نہیں لیا لیکن شاید کشمیری عوام کے گو ں ناگوں مسائل کی تعداد شیخ
صاحب مرحوم کی زندگی کے ایام سے بھی زیادہ تھی اس لئے ان کی زندگی سے وفا نہیں کی وہ
مظلوم ومجبور کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر چل بسے۔
شیخ صاحب کے زمانے سے آج کی
نیشنل کانفرنس اور پیو پیلز ڈیموکریٹک کانفرنس تک تقریباًسبھی کشمیر ی پارٹیوں نے کشمیری
عوام کے مسائل کی دہائیاں تو دیں ان کے جذبات کا استحصال تو کیا لیکن ان کے زخموں پر
مرہم رکھنے کی کوشش نہیں کی۔یہی وہ حالات تھے جنہوں نے کشمیریوں کو مزاحمت کا راستہ
اختیار کرنے پر مجبور کیا اور پاکستان سمیت تمام بیرونی طاقتوں نے ان کے اس احساس محرومی
کا فائدہ اٹھا کر اپنا الوّ سیدھا کرنے کی کوششیں کیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اطمینان بخش بات یہ ہے کہ
حضرت میرواعظ نے حالات کی نزاکت او رزمینی صداقتوں کا احساس کر کے کشمیری عوام کو ان
کے مسائل کے حل کے لئے ایک نئی راہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی بات کو سرسری طور سے
ٹالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے کہ حضرت میر واعظ کشمیریوں کے روحانی قائد بھی ہیں اور
کشمیری عوام الناس کی باتوں کو احترام کے ساتھ سنتے ہیں اور ان کی ہدایات پر عمل کرتے
ہیں ۔ اس لئے جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے حکومت ہند کو حضرت میر واعظ کی جانب سے کی
جانے والی پیش رفت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے¬۔
اس مرحلے پر یہ بات بھی ملحوظ
رہنی چاہئے کہ حضرت میر واعظ کشمیر کی کل پارٹی حریت کانفرنس کے لیڈر ہیں۔ حریت کی
علیحدگی پسندی محتاج تعارف نہیں رہی ہے اس لئے اب اگر حریت کے قائد اعظم نے علیحدگی
پسندی کے نظریہ کو خیر باد کہہ کر گفتگو کا راستہ اختیار کرنے کی بات کہی ہے تو ان
کی اس بات میں پوشیدہ پیغام کو محسوس کیا جانا چاہئے ان کی آواز صرف ان کی آواز نہیں
بلکہ وادی کے تمام روحانیت نواز کشمیریوں کی آواز ہے اور چونکہ وادی میں روحانیت نواز
عوام کی اکثریت ہے اس لئے حضرت میر واعظ کی آواز نہیں بلکہ پوری وادی کشمیر کی آواز
تصور کیا جانا چاہئے ۔
ان حالات میں جیسا کہ ‘ہمارا
سماج’ کے ادارتی کالم میں پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ حکومت ہند کو اس موقع کا فائدہ
اٹھانے میں تساہل سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ کشمیری عوام کے دیرینہ مسائل اور ان
کے ساتھ روا رکھی جانے والی مسلسل ناانصافیوں اور استحصال کے سدباب کے لئے حضرت میر
واعظ سے رابطہ قائم کر کے گفتگو کی ابتدا کرنی چاہئے کہ حضرت میر واعظ پاکستانی صدر
آصف علی زرداری سے پاکستان کی جہادی تنظیموں کی شکایت کر کے یہ بات واضح کرچکے ہیں
کہ انہیں مسئلہ کشمیر کے حل میں پاکستان کی مداخلت قطعاً پسند نہیں ہے اور وہ بغیر
کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے کشمیریوں کے مسائل خود حل کرنا چاہتے ہیں اس لئے حکومت
ہند کو اس سلسلے میں تکلیف وتردوسے درگزر کر کے فوری طور سے مذاکرات شروع کرنے ہوں
گے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/realism-meer-waiz-/d/1839