نصیر احمد، نیو ایج اسلام
28 فروری 2023
میں نے اپنے مضمون “The
Quranic Truths of Qayamat and Resurrection”میں قرآن کے کلام اللہ ہونے
کے حق میں عقلیت پسند عقیدے کی بنیاد، اور اس دعوے کو رد کرنے کی عقلیت پسند بنیاد
کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے:
قرآن کی فطرت
قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا
کا کلام ہوں، بلا شبہ جو سب کچھ جاننے والا، سب کچھ سننے والا اور حکمت والا خالق ہے۔
اس سے منطقی طور پر جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مطلقاً ایک کتاب صادق ہے۔ اس لیے
یہ متوقع ہے کہ جیسے جیسے ہماری مادی دنیا کے بارے میں ہمارا علم سائنسی طور پر بڑھتا
جا رہا ہے، ہماری مادی دنیا کے بارے میں قرآن میں موجودہ حقائق تجرباتی طور پر بتدریج
درست ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت کے آنے تک سائنس قرآن سے پیچھے رہے گا لیکن آخر
کار سائنس بھی قرآن کی تصدیق کرے گا۔
عقلیت پسند
کافر
تعریف کے اعتبار سے کافر وہ ہیں:
جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور/یا
قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتے۔
اس لیے وہ قرآن کو محض انسانوں
کا کلام مانتے ہیں۔
لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن
میں ایسی آیات نہیں ہو سکتیں جن میں آج کی ہماری موجودہ دنیا کا علم نہیں ہو سکتا اور
ان کا بھی نہیں جن کی دریافت سائنس نے پچھلی چند صدیوں میں یا اس کتاب کے لکھے جانے
کے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے کے بعد کی۔
مندرجہ بالا اعتراض بالکل منطقی
اور عقلی ہے جب تک کہ اس کے مفروضوں کو غلط ثابت کرنے والے اور اہل ایمان کو صحیح ثابت
کرنے والے ثبوتوں کا سامنے نہ لایا جائے۔
اس بات کا ثبوت کہ قرآن مطلق کتاب
صداقت ہے۔
ایسی بہت سی آیات ہیں لیکن اس مضمون
میں، میں اور بنی نوع انسان کی تخلیق اور اس کی سائنسی تاریخ کے بارے میں آیات پر توجہ
دوں گا۔
کائنات کی
تخلیق، تباہی اور اس کی تخلیق نو
قرآن مجید میں کائنات کی تخلیق،
تباہی اور اس کی تخلیق نو کے
دور پر کچھ قابل ذکر آیات ہیں
(51:47) آسمان کو ہم نے (اپنے)
ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں۔
روشنی کی طول موج اور تابکاری کے
زمین تک پہنچنے کے مشاہدات سے یہ دریافت ہوا کہ کائنات پھیل رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے
کہ پھیلنے سے پہلے یا تخلیق کے بگ بینگ تھیوری سے پہلے یہ سکڑی ہوئی تھی۔ پھیلتی ہوئی
کائنات کے تجرباتی ثبوت اس بات سے متفق ہیں جو آیت 51:47 کہہ رہی ہے۔
(21:30) کیا کافر لوگوں نے
یہ نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زنده
چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں ﻻتے۔
کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا کہ آسمان
اور زمین آپس میں جڑے ہوئے ہیں یا ایک دوسرے کے ٹوٹنے سے پہلے جڑے ہوئے تھے۔ سائنسدان
ایک صدی پہلے تک ایک اسٹیڈی اسٹیٹ یونیورس پر یقین رکھتے تھے۔ یہ آیت موجودہ دور کے
کافروں سے مخاطب ہے جو اب دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن سچ بولتا ہے اور یہ ساتویں صدی کی
کوئی فرسودہ کتاب نہیں ہے جیسا کہ وہ سوچتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے اس بات کا ثبوت
دیکھنے کو کہا گیا ہے کہ قرآن کی اہمیت و افادیت ابدی ہے اور اس میں محض نظریات یا
قیاس آرائیاں نہیں بلکہ حقیقت ہی حقیقت ہے۔
قرآن میں
تخلیق کا ایک اور تکمیلی نسخہ
کائنات کی تخلیق جس میں زمین بھی
شامل ہے صرف دو دن میں مکمل ہوئی (41:9 اور 12)۔ زمین کو زندگی گزارنے کے قابل بنانے
میں مزید چار دن اور لگے (41:10) یہ کل چھ دن بنتے ہیں۔ آیت 41:11 پھر اس بات پر روشنی
ڈالتی ہے کہ ہر چیز کو الگ کرنے سے پہلے سب کو ایک ساتھ رکھا گیا۔ بگ بینگ کو بطور
ابتدائی حالت کے ایک اکائی کے بیان کیا گیا ہے جس سے پہلے کچھ بھی موجود نہیں تھا اور
اس کا حجم ایک ایٹم سے بھی کم تھا۔ یہ مادی طور پر قرآن کے موقف سے مختلف ہے۔
تاہم سائنس،
آہستہ آہستہ قرآن کے ساتھ ہم آہنگی کے رستے پر گامزن ہے:
(41:9) آپ کہہ دیجئے! کہ کیا
تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین
پیدا کردی، سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔
(10) اور اس نے زمین میں اس
کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اوراس میں برکت رکھ دی اوراس میں (رہنے والوں کی) غذاؤں کی
تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دن میں، ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔
(11) پھر آسمان کی طرف متوجہ
ہوا اور وه دھواں (سا) تھا پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا
ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں۔
(12) پس دو دن میں سات آسمان
بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا
کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی، یہ تدبیر اللہ غالب و دانا کی ہے۔
یہاں دن سے مراد ہمارے 24 گھنٹے
والا دن نہیں ہے بلکہ ایک کائناتی دن ہے جسے قرآن نے ایک تناظر میں ہمارے ہزار سال
اور دوسرے تناظر میں ہمارے 50 ہزار سال کے برابر قرار دیا ہے۔ مختلف سیاق و سباق میں،
ایک کائناتی دن کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ وقت کی اضافیت کا تصور اب ہمارے
سامنے ہے۔ کائنات کی تخلیق کے تناظر میں، کائناتی دن کا تعین نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ
ہے کہ یہ تعداد بہت زیادہ ہے جس کا ساتویں صدی کے عربوں کی لغت میں اس کے لیے کوئی
لفظ نہیں تھا۔ لفظ ملین 14ویں صدی میں اور بلین 16ویں صدی کی ایجاد ہے۔ تخلیق کا کائناتی
دن جسے ہم اب سائنس کی بدولت جانتے ہیں، 1.72 بلین سال کا ہے۔
2 دن میں زمین اور باقی کائنات
کی تخلیق کا مطلب یہ ہے کہ زمین کو باقی کائنات سے ایک الگ وجود کی شکل اختیار کرنے
میں اندازاً 3.44 بلین سال لگے۔
زمین پر انواع و اقسام کی نعمتیں
پیدا کرنے میں مزید چار دن، اور اس میں ہر اس کو ایک اندازے کے مطابق رکھنے میں تاکہ
ان کی مناسب تناسب میں پرورش کی جا سکے، ان لوگوں کی ضروریات کے مطابق جو (روزی) کے
طالب ہیں، اور یہ سب ملا کر 6.87 بلین سال بنتے ہیں جو کہ ہمارے موجودہ سائنسی معلومات
سے بالکل مطابقت رکھتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ نسبتاً اضافی وقت کائنات کی تخلیق میں
لگا اس سے دوگنا زمین کو قابل زندگی بنانے میں صرف ہوا، جس کا ذکر قرآن میں ہے۔ اب
ہم سائنس سے جانتے ہیں کہ زندگی کو سہارا دینے کے لیے ہر چیز کی ضرورت ہے مثلاً آکسیجن،
نائٹروجن، کاربن، پانی، دیگر عناصر، مٹی، سورج وغیرہ کو بنانے کے لیے وقت درکار ہوتا
ہے اور یہ صرف زمین ہی ہے جس میں یہ چیزیں موجود ہیں، جو کہ زندگی کو گزارنے کے لیے
ضروری ہیں۔ یہ اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ قرآن جو یہ کہتا ہے کہ باقی آسمان زمین
کو اس کی مطلوبہ ضروریات کو درست انداز میں پورا کرتے ہیں۔
قیامت اور
ایک نئی کائنات کی از سر نو تخلیق کے بارے میں آیات
(21:104) جس دن ہم آسمان کو
یوں لپیٹ لیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں، جیسے کہ ہم نے اول دفعہ
پیدائش کی تھی اسی طرح دوباره کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعده ہے اور ہم اسے ضرور کر کے
(ہی) رہیں گے۔
(39:67) اور ان لوگوں نے جیسی
قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی، ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں
ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وه پاک اور برتر ہے ہر
اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔
یہ چار آیات 21:30، 41:11،
21:104 اور 39:67 مل کر ایک دوسرے کی حمایت، تقویت اور وضاحت کرتی ہیں جو ان کے معنی
کے بارے میں کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ آسمان اور زمین ایک اکائی کیسے بنتے ہیں
(21:30)؟ اکٹھے ہونے سے جب اللہ نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا (41:11)۔ جب دنیا ختم
ہو جائے گی تو کیا ہو گا؟ اللہ کے حکم پر، یہ سمٹ کر اللہ کے دست قدرت میں کوگا
(21:104 اور 39:67)۔ یہ کائنات کو دوبارہ بنانے سے پہلے کی بات ہے (21:104)۔ تخلیق
نو کا
عمل تخلیق کے عمل سے کی ہی طرح ہے۔ آیات ایک دوسرے کو واضح اور مضبوط کرتی ہیں۔
سائنس بھی اس نظریے سے اتفاق کر
ہے کہ تخلیق، قیامت اور پھر تخلیق نو ایک عمل مسلسل ہو سکتا ہے۔
اگرچہ مختصر، آیات نمایاں طور پر
تخلیق، قیامت اور تخلیقی نو کے
تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں جو ہمیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس تخلیق سے پہلے کیا ہو
سکتا ہے اور یہ بھی کہ اگلی تخلیق یقینی ہے۔ سائنس کی حالیہ پیش رفت نے قیامت (کائنات
کے اختتام) پر، اور ایک نئی کائنات کی تخلیق پر یقین کو تجرباتی شواہد اور سائنسی نظریات
کی بنیاد پر قابلِ اعتبار بنا دیا ہے۔ صرف سائنسی معلومات کی بنیاد پر ہی قیامت کا
امکان ایک ثابت شدہ سائنسی حقیقت ہے۔
کافروں کو جواب
تو کیا قرآن میں تخل کا بگ بینگ
نظریہ موجود ہے؟ غلط سوال۔ قرآن سائنسی نظریات کی کتاب نہیں ہے جس کی اصلاحات کی جائے۔
یہ کامل کتاب صداقت ہے۔ ہمیں قرآن میں سائنس کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ سائنس میں قرآن
کو تلاش کرنا چاہیے کیونکہ قرآن الفرقان یا مطلق کتاب صداقت ہے سائنس نہیں۔ قرآن مجید
میں بیان کردہ تخلیق کا واقعہ اس وقت بھی درست تھا جب سائنس دان کائنات کے بارے میں
اسٹیڈی اسٹیٹ یونیورس کا نظریہ رکھتے تھے - کہ یہ نہ تخلیق ہوئی ہے اور نہ ہی فنا ہو
گی ہے بلکہ ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ بہر کیف، موجودہ سائنسی نظریہ اس موضوع
پر قرآن کی مطلق صداقت کو تسلیم کر رہی ہے۔
منکرین، جو قرآن کی توہین
کرنے پر تلے ہوئے ہیں لوک داستانوں اور دیگر صحیفوں میں تخلیق کے حوالے سے اسی طرح
کے عقائد کو نقل کرتے ہیں تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ قرآن لوک داستانوں اور دوسرے
لوگوں کے عقائد کا مجموعہ ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے اور قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ
نے اب قرآن میں کوئی ایسی چیز نازل نہیں کی ہے جو اس سے پہلے پچھلے انبیاء پر نازل
نہ ہوئی ہو۔ کچھ الہامات کتابی اور کچھ زبانی روایات کے طور پر زندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ
نے واقعہ تخلیق کے بارے میں جو کچھ نازل کیا ہے وہ پچھلے انبیاء پر بھی نازل ہوا تھا۔
اس لیے اگر آپ کو قرآن میں کوئی چیز ملتی ہے لیکن کہیں اور نہیں، تو اس پر انہیں حیرانی
ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قرآن مجید کو بالکل اسی طرح محفوظ کیا گیا
ہے جیسا کہ یہ نازل ہوا تھا، یہ گزشتہ صحیفوں میں پائی جانے والی خامیوں سے پاک ہے
اور باقی تمام صحیفے واضح خامیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
مثال نمبر
2، بنی نوع انسان کی سائنسی تاریخ
یہ میرے اس مضمون میں تفصیل
سے مذکور ہے: A Brief History of Mankind
آیت 76:1 کا لفظی ترجمہ یہ ہے:
"(هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ)
کیا انسانوں پر نہیں گزرا؟
(حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ) ایک
زمانہ یا بہت لمبا عرصہ
(لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا)
کہ اس میں وہ شئی غیر مذکور تھا؟
مفسرین اور مترجمین کے نزدیک اس
آیت کے لغوی معنی میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ اس کا جواب ظاہر ہے:
’’ہاں، یقیناً، انسانوں پر
دہر میں ایک کافی طویل عرصہ ایسا گزرا ہے کہ جس میں وہ کوئی شئی مذکور نہیں تھا‘‘۔
تاہم، تفصیلی وضاحتی جواب کیا ہے؟
سوال کا انداز بیان اس بات کا تعین کرتا ہے کہ صحیح جواب کیا ہے اور اسے اسی انداز
میں پیش کیا جانا چاہیے۔ مندرجہ ذیل وضاحتی جواب، سوال کے انداز بیان کے تمام تقاضوں
کو پورا کرتا ہے اور ساتھ ہی بنی نوع انسان کی کھوئی ہوئی تاریخ کے بارے میں سائنس
کے دریافت کردہ حقائق سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔
"یقیناً ہاں۔ 13.8 بلین
سال کے دہر میں انسان 25 لاکھ سال سے موجود ہے اور 2.43 ملین سال کا ایک بہت طویل عرصہ
بنی نوع انسان پر گزر چکا ہے جس میں وہ کوئی شئی مذکور نہیں تھا"۔
کاسمولوجی اور بنی نوع انسان کی
سائنسی تاریخ سے، ہم جانتے ہیں کہ وقت 13.8 بلین سال پہلے شروع ہوا تھا۔ انسان تقریباً
2.5 ملین سال پہلے وجود میں آیا تھا اور تقریباً 2.43 ملین سال تک اس کا وجود اور علمی
صلاحیتیں کسی بھی دوسری مخلوق سے الگ نہیں تھیں۔ اس لیے اس کے وجود کے بارے میں کوئی
بات قابل ذکر نہیں۔ اس کے بعد تقریباً 0.07 ملین سال پہلے جدید انسان اپنی فکری صلاحیتوں
کے ساتھ ہماری موجودہ شکل و صورت میں ظاہر ہوا اور اسی وقت سے ہمیں آثار قدیمہ اور
انسان کی نمایاں کامیابیوں کے دیگر قابل ذکر شواہد موجود ہیں۔
76:1 میں سوال کا مذکورہ جواب
متوقع صحیح جواب اور معلوم سائنسی حقائق کے درمیان بالکل موزوں ظاہر ہوتا ہے۔
تاہم، سائنس کی دریافت حالیہ ہیں۔
پھر لوگوں نے صحیح علم کے بغیر اس آیت کا کیا جواب دیا؟ صحیح علم کے بغیر لوگ ضرور
اس کی تشریحات کریں گے جو ان کے علم میں ہے۔ ان کا جواب ہر لحاظ سے غیر تسلی بخش اور
حسب ذیل تھا:
’’ہاں، دہر میں 9 ماہ کا کافی
طویل عرصہ رحم مادر میں موجود ہر شخص پر گزرتا ہے کہ جس میں وہ کوئی قابل ذکر شئی نہیں
ہوتا‘‘۔
اس جواب میں اس بات کا کوئی جواب
نہیں ہے کہ ماضی میں بنی نوع انسان کے ساتھ کیا ہوا بلکہ ہر شخص کے ساتھ کیا ہوتا ہے،
اور 9 ماہ کو کافی طویل عرصہ مانا گیا ہے اور یہاں دہر کا حوالہ بے معنی ہے۔ اس کے
علاوہ، رحم میں بچے کا وجود اور نشوونما ایسا نہیں ہے جسے "ناقابل ذکر شئی"
قرار دیا جا سکے، کیونکہ بچے کی بے تابی سے امید کی جاتی ہے، اس کے بارے میں بات کی
جاتی ہے اور بڑی تیاریوں کے ساتھ منصوبہ بندی کی جاتی ہے، اور اندر رہتے ہوئے اس سے
بات کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ نو مہینوں کا ایک ایسا وجود جو اس کی
متوقع عمر کے 2 فیصد سے بھی کم ہے ایک بہت ہی کم مدت ہے نہ کہ اتنا طویل مدت کہ اسے
دہر سے تعبیر کی جا سکے۔ ویسے بھی جب لوگوں کے پاس صحیح جواب نہیں ہوتا ہے تو وہ اپنی
پوری کوشش کر ڈالتے ہی اور یہ ان کی بہترین کوشش تھی۔
اب جب کہ ہم جانتے ہیں کہ صحیح
جواب کیا ہے جو سوال میں موجود صحیح جواب کی توقع کو پورا کرتا ہے، سوائے ایک ہٹ دھرم
کے اس پر اور کون بحث کرے گا؟
عام کافروں
کا ردعمل
مذہب میں دلچسپی نہ رکھنے والا
ایک عام کافر اس طرح کے ثبوتوں کو "دلچسپ" کہہ کر آگے بڑھ جائے گا۔
غیر عقلیت
پسند کافر یا ہٹ دھرم منکر کا رد عمل
ہٹ دھرم منکر تو ایک الگ ہی قسم
کی مخلوق ہے۔ وہ اپنے کفر میں جان بوجھ کر ڈھٹائی کے ساتھ جما ہوا ہے اس لیے اس پر
کوئی بھی دلیل کار آمد نہیں ہوگی گی۔ وہ یہی کہے گا کہ "آپ کی ہر بات قرآن کو
سچ ثابت کرنے کے لیے سائنسی کامیابیوں کا استعمال ہے"۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ
یہ دلیل کس قسم کی ٹھوس ذہنیت کی عکاس ہے۔ اس کے لیے کوئی خدا نہیں ہے اور/یا قرآن
خدا کا کلام نہیں ہے، لہذا اس میں ایسی آیات نہیں ہو سکتیں جن میں دنیا کا کامل علم
موجود ہو، جو سائنس کے لیے اب تک نامعلوم تھا جس سے سائنس نے دریافت کیا ہے۔ ہٹ دھرم
منکر اپنے کفر میں انتہائی جری ہے، جو ہار ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے اور بے معنی
بحث پر اڑا ہوا ہے۔ وہ جھوٹ بولے گا اور ہر طرح کی بے ایمانی کا حربہ استعمال کرے گا
لیکن اسے واضح سچ کو قبول کرنے کی توفیق کبھی نہیں ہوگی۔ اس کی بے ایمانی کے حربے حسب
ذیل ہونگے :
1. سب سے پہلے وہ اس طرح کے
مضمون کو "فریب"، "گمراہ کن"، "بیکار"، "بے معنی"،
"خرافات" وغیرہ کہیں گے، لیکن ان کے پلے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوگا۔
2. تباہ کن تنقید: متبادل وضاحت
پیش کیے بغیر کہی گئی بات پر اختلاف کریں گے کیونکہ اس کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔
3. کھوکھلے دلائل: اگر وہ دوسرے
کی کہی ہوئی باتوں کے خلاف بحث نہیں کر سکتا تو وہ دکھاوا کرتا ہے کہ دوسرے نے وہی
کہا ہے جس کے خلاف وہ بحث کر سکتا ہے اور پھر اس کے خلاف بحث کرتا ہے جو کبھی کہا ہی
نہیں گیا تھا۔
4. لفظ کا اندھا پن: وہ جان
بوجھ کر غلط معنی لیتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ یہی صحیح ہے۔
5. وہ معمولی دلائل کو اپنے
الفاظ میں بار بار دہراتے ہوئے اس پر انحصار کرے گا اور یہ دکھاوا کرے گا کہ یہ نظریہ
اس کا ہے۔
6. گونگا بن جانا: جب وہ دوسرے
کی کہی ہوئی باتوں کا جواب نہیں دے سکتا تو وہ دوسرے کی کہی ہوئی باتوں کو نظر انداز
کرتے ہوئے بار بار اپنی ہی باتوں کو دہراتا رہتا ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔
7. خلط مبحث: جب باقی سب ناکام
ہو جائیں، شکست تسلیم کرنے کے بجائے، خلط مبحث کیا جائے۔
8. قرآن کے بارے میں کوئی اشتعال
انگیز بات کہہ کر نفسیاتی کھیل کھیلنا جیسے کہ آخرت پر یقین کو "پر فریب تھیوری"
کہنا اور جب قرآن کی کوئی مناسب آیت نقل کی جاتی ہے تو "تکفیر" کا نعرہ لگانا!
اس کا ایک اور طریقہ غیر ضروری طور پر اس موضوع پر قرآن اور بائبل کے درمیان تفاوت
کو بحث میں لانا ہے اور جب بائبل کے نسخے میں خامی دکھائی جائے تو "بالادستی"
کے نعرے لگانا ہے۔
9. فضول دلائل جاری رکھے جائیں
اور جب انہیں نظر انداز کر دیا جائے تو فتح کا دعویٰ کیا جائے۔ وہ ہر بحث میں انتہائی
جارحانہ انداز اپناتا ہے اور نہ کے برابر عقل و شعور کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ جانتے
ہیں کہ وہ کوئی دلیل ثابت نہیں کر سکتے اس لیے وہ وہی کرتے ہیں جس میں ماہر ہیں، یعنی
دوسرے کی کہی ہوئی باتوں کے بارے میں شک اور الجھن پیدا کرنا اور جس طرح بھی ہو سکے
اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔
10. ہٹ دھرم منکر کبھی ہار
نہیں مانتا چاہے اس کی کتنی ہی دلیلیں ناکام ہو چکی ہوں۔ وہ ایک شریر عفریت ہے جو مختلف
مضامین کے تحت ایک کے بعد ایک تھریڈ میں اسی موضوع کو چھیڑتا رہے گا۔ یہی وہ چیز ہے
جو اسے ایک ہٹ دھرم منکر بناتی ہے۔ وہ ایک حیوان ہے جو عقل سے عاری ہے اور اس وقت بھی
آرام سے نہیں بیٹھے گا جب آپ اسے کہیں گے کہ "تم اپنا دیکھو ہم اپنا"
قرآن کریم میں اس قسم کے ہٹ دھرم
منکر کے بارے میں متعدد آیات وارد ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنی مرضی سے اپنے آپ کو گونگا،
بہرا اور حق سے اندھا بنا لیا ہے اور اللہ کے دکھائے ہوئے سیدھے راستے پر کبھی واپس
نہیں آئیں گے۔ وہی آیات اس کے لیے علمی تعصب کی بنیاد بن سکتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ
سچائی سے انکار کے معاملے میں مزید ڈھیٹائی اختیار سے کرتا چلا جاتا ہے۔
English Article: The Rational
Believers and the Irrational Disbelievers
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/rational-believers-irrational-disbelievers/d/129325
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism