راشد سمناکے ، نیو ایج اسلام
21 جون 2017
علیحدگی پسندی کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ صدیوں سے لوگ متعدد وجوہات کی بنا پر ملک کی غالب اکثریتی کمیونٹی سے علیحدہ ہونے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں، مثلاًاپنی مذہب، ثقافتت، قومیت پر مبنی اپنی شناخت کو برقرار رکھنا۔ اکثر ان عوامل میں سے ایک ان پر ظلم و زیادتی بھی اس کا سبب ہے۔
جدید دور میں زیادہ تر یورپی نوآبادی ملکوں کے سابقہ کالونیوں اور حالیہ ادوار میں مشرق وسطی کے متنازع فیہ علاقوں سے یورپ میں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد میں آمد نے یورپ میں ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جو ابتداء میں نہیں تھی ، وہاں حکومت نے تارکین وطن کی درآمدات کی نگرانی کی اور اس کا انتظام و انصرام کیا۔
پوری مغربی دنیا میں مسلم تارکین وطن کی طرف سے علیحدگی پسندی کے مظاہروں سے متعدد وجوہات کا انکشاف ہوتا ہے جن کی بناء پر وہ ان ممالک میں اپنی ایک الگ شناخت کے مطالبات اٹھا رہے ہیں جن میں وہ ہجرت کر کے منتقل ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان ممالک میں رونما ہونے والے وہ سیاسی واقعات بھی ہیں جن سے وہ فرار ہو کر ان ممالک میں منتقل ہوئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ صورت حال ہے اور منطقی انداز میں بامعنی طور پر اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرنا امر محال ہے۔
تاہم مسلمانوں کے تناظر میں اپنے ملک کے اندر یا بیرونی ممالک میں کسی علیحدہ شناخت کا مطالبہ غیر منطقی ہے جس کا جواز قرآن سے پیش کیا جاتا ہے جسے وہ اپنی رہنمائی کا ایک بنیادی مصدر و شرچشمہ مانتے ہیں۔ تاہم قرآن کا پیغام یہ ہے:
4:171- اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو۔
5:77- کہہ دیجیئے اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا بھی چکے ہیں اور سیدھی راه سے ہٹ گئے ہیں۔
'اسلام' کے نام پر کئے جانے والے مطالبے کی صورت میں ان ممالک کے اندر علیحدگی پسندی کا حوالہ موجود ہے جہاں مسلمان اپنے ملک کے اندر اکثریت میں موجود ہیں یا دوسرے ممالک میں اقلیت میں موجود ہیں ،جہاں ان کی اقلیت آبادی قائم ہے، جیسا کہ یہی معاملہ متعدد یورپین شہروں کا ہے جہاں مسلم شناخت کا مظاہرہ مبالغے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کی نشاندہی کی گئی ہے کیونکہ یہ رجحان دیگر مذہبی معاشروں میں بالعموم نہیں پایا جاتا ہے، جنہیں مرکزے دھارے کے معاشرے کے ساتھ ضم ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
دیگر معاشرے اور مذہب کے لوگوں کو عوامی سطح پر ان کے لباس کی بنیاد پر ممیز نہیں کیا جاسکتا- بعض اوقات میں سکھ کی دستار کا استثناء پایا جاتا ہے، لیکن کسی بھی مذہبی مسلم مرد یا عورت کو ممیز و ممتاز کیا جا سکتا ہے۔
اگر یہ نشان امتیاز کسی ‘‘تنازع’’ کا سبب بنتا ہے ، جیسا کہ یہ اکثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کا سامنا کرنے والے معاشرے کے افراد انتقامی کاروائی کرتے ہیں ،اور موجودہ حکومت علیحدگی پسندی کی اس مبالغہ آمیز صورت کو مکمل طور پر مسدود کرنے کے لئے کوئی قانون بناتی ہے تو پھر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ، مذہبی معمولات کی آزادی پر پابندی، اظہاررائے کی آزادی اور خوف و ہراس کا ایک شور پرپا کر دیا جاتا ہے۔
اسے ملکوتی اختیار عطا کرنے کے لئے انسانی رویے کے ہر معیار پر مذہبی جامہ کے اندر حدود سے تجاوز کا معاملہ مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں کا ایک مؤثر آلہ کار بن چکا ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد میں پیش قدمی کرنے کےلئے اپنے پیروکاروں کا استعمال کر سکیں۔
اس کی مثال وہ واقعہ ہے جو حال ہی میں جکارتہ انڈونیشیا میں پیش آیا ہے۔ گورنر کے انتخابات کے دوران حجاب میں ملبوس ایک خاتون کو ٹی وی پر خبر سناتے ہوئے دکھایا گیا تھا جو یہ کہہ رہی تھی کہ "چوں کہ میں ایک مسلمان ہوں اسی لیے مجھے کسی مسلم کو ہی ووٹ دینا چاہیے"۔ ایک عیسائی کے خلاف جھوٹ اور تعصب کا مظاہرہ پوری آزادی کے ساتھ کیا گیا! جس کے نتیجے میں انتخابی امیدواروں کے مذاہب کی بنیاد پر انتخابی فتح و شکست کا فیصلہ ہوا۔ یہ وہ فرق ہے جس کا مسلم مذہبی رہنماؤں نے مکمل طور پر استعمال کیا اور ان کے مُہروں نے اسلام کے نام پر اس کی مکمل اطاعت کی۔
ایسا لگتا ہے کہ محبت میں کسی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے جنگ جیتنے کی جد و جہد میں ‘‘سب جائز ہے’’ ، اگر چہ اس کا مطلب اپنے مذہب کے نام پر غرور و تکبر کا اظہار ہو۔
'محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے' اس جملہ استعمال "Euphues: The Anatomy of Wit" نامی ایک ناول میں کیا گیا تھا۔ اس جملے کو ایک طنزیہ جملے کے طور پر لیا جا سکتا تھا کہ اس رویہ کا اظہار وہ شخص کرتا ہے جس پر فریفتگی اور شیفتگی کا غلبہ ہوجائے اور اس کے اندر سے عقل و ستدلال اور متوازن فیصلے کی تمام صلاحیتیں دم توڑ دیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اکثر ایسے مذہبی ممالک کا معاملہ یہی ہے جہاں مذہبی جذبات اور شیفتگی نے لوگوں کی عقلی و استدلالی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے جو نام نہاد مذہبی رہنما کے پیروکار کی حیثیت سے ان کے منصوبوں کی تکمیل کرتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کے درج ذیل نعرہ ایجاد کرنے کے لئے انڈونیشیا کو اس کا کریڈٹ دیا جانا چاہئے ؛ جو کہ فکر و نظر کی پختگی اور انسانیت پسندی کی ایک عظیم مثال ہے۔
نعرہ: Bhinneka Tungal Ika – یعنی کثرت میں وحدت کا جو مظاہرہ اس نعرہ میں ہوتا ہے وہ انتخابی مہم کے دوران ان کے کارندوں میں مفقود تھا۔ اور وہ اپنی سرگرمیوں کے عظیم ترین نتائج سے غافل تھے۔ ملک میں امن و ہم آہنگی کا فقدان تھا اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور انتشار کا ماحول تھا۔
دنیا بھر میں جو ہو رہا ہے وہ اس سے مختلف نہیں ہے!
پینکاسیلا کو قوم کے پانچ اصولوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے؛ جو کہ ایک ایسا نظام ہے جسے اس نے خود اپنے لئے اختیار کیا ہے: 1) ایک واحد خدا کا تصور، 2) منصفانہ اور مہذب و متمدن انسانی اقدار، 3) قومی اتحاد، 4) حکمت و دانشمندی پر مبنی جمہوریت، 5) انڈونیشیا کے تمام لوگوں کے لئے سماجی انصاف۔
اس طرح کے بالغ النظر اور منصفانہ اصول تمام ممالک کو اپنانا چاہئے۔ لیکن خاص طور پر ان کا نفاذ ان تمام مسلم ممالک میں کیا جانا چاہئے جہاں آج وہی اس کے سب سے بڑے مجرم ہیں اور جنہیں غیر انسانی مذہبی قوانین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں میں سرفہرست کر دیا ہے اور انہیں نفرت پسند بنا دیا ہے! توہین، تین طلاق، مذہبی معمولات پر پابندی اور اقلیتوں پر ظلم و ستم اور بہت سی دیگر باتیں ان کے لئے عام ہیں!
مذہب کے نام پر سرزد ہونے والے ظلم و ستم کو ساتھ ملا کر اگر اسلام کابھی حوالہ ایک مذہب کے طور پر پیش کیا جائے جو کہ ایک طنزیہ اور توہین آمیز لفظ ہے اور جس کا استعمال کتاب میں کھلے طور پر مذہبیت کا مظاہرہ کرنے والوں کے لئے کیا گیا ہے ‘‘ریاء’’ –یراؤن –ہے ، جس کا مقصد لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا ہے لہٰذا، یہ سراسر نفاق ہے:
4:142- بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وه انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے واﻻ ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں، اور یاد الٰہی تو یوں ہی سی برائے نام کرتے ہیں۔ (107-6; 2-264بھی ملاحظہ کریں)۔
شیخ صاحب تسبیح لئے جاتے ہیں مسجد کو -
سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے اللہ والے ہیں!
معاشرے کے اندر "اچھے رویے" کی حد سے تجاوز کرنے والی تمام صورتیں انسانیت کو کمزور کرنے والی ہیں جس کی بنیاد پر قرآن میں اس پر نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ آیت 5:80 میں مذکور مندرجہ بالا انتباہ ایسے لوگوں کی اندھی تقلید کرنے والوں کے لئے ہے جو فرضی تقدس کے ساتھ اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرتے ہیں۔
قرآن نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے اوپر بھی محتاط رہنے اور 'نیکی کی خاطر' اپنے اعمال کے ردعمل کو متوازن طریقے پیش کرنے اور اس دنیا کے اندر فتنہ پیدا کرنے سے پچنے کی ذمہ داری عائد کی ہے تاکہ انسان اس دنیا کے اندر صحیح سمت میں ترقی کے لئے پیش قدمی کر سکے۔
ایک دن میں کتنی بار مسلمان اس کے لئے خدا سے دعا کرتے ہیں؟
ایک امید ہوتی ہے کہ کم از کم رمضان کے اس مہینے میں خدا ان کی دعائیں پوری رتا ہے۔ لیکن وہ کیسے کرے؟ انہوں نے تو مکمل قرآن کی تلاوت بغیر کچھ سمجھے اور جانے سماعت کر لی لیکن انہیں کچھ معلوم ہی نہیں ہے کہ انہوں نے کس چیز کے لئے دعا کی ہے!
URL for English article: https://www.newageislam.com/islam-politics/spread-separatism-muslims-world-community/d/111623
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism