راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
19 اگست 2016
ایک دوسرے کے ساتھ معاملات اور تعلقات میں عملی اور نتیجہ خیز سرگرمی اںہی اصل روحانیت کا مظہر ہیں جن میں لوگوں کے لیے فائدہ مند اجر کا راز مضمر ہے۔
اسکول کا ایک نوعمربچہ یا بچی جس کی پیٹھ پر کتابوں کا بستہ ہے اور اس کے ایک ہاتھ میں سامان سے بھرا ہوا ایک بھاری بستہ ہے اور دوسرے ہاتھ میں کسی ضعیف شخص کی انگلی ہے تا کہ وہ اس ضعیف شخص کو محفوظ طریقے سے سڑک پار کرا سکے، یہ ایک ایسا نظارہ ہے جس سے راحت و سکون اور محبت کا وہ پیغام لوگوں تک پہنچتا ہےجو ہزاروں الفاظ نہیں پہنچا سکتے۔
کسی بچے کے چہرے پر خوشی و شادمانی کی لہر اور کسی عمردراز شخص کا بِن بولے اس کی مدد کرنے کا منظر کسی عام ناظرین کی اور بھی زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اچھائی اور خوشی کا احساس پید کرنے والی اس عملی روحانیت سے شاید اتنی ہی خوشی و مسرت حاصل ہوتی ہے جتنی ایک نماز سے ہوتی ہے۔
اس سادہ انداز میں ان کے باہمی تعامل کے منظر کو یعنی عوامی سطح پر اس بچے کے اندر بے لوث خدمت کا جذبہ اور بزرگ شخص کا اس بچے کی ضرورت کو سمجھنا اور بغیر مطالبہ کیے اسے خوش دلی کے ساتھ تسلیم کرنا انتہائی انسانیت نوازخیر سگالی کی عملی تبلیغ قرار دیا جا سکتا ہے،جس کا ناظرین پر غیر ارادی طریقے سے مثبت اثر مرتب ہو گا۔
یہ خاص طور پر اسکول کے وقفے کے اختتام پر کئی ممالک میں ایک مرتبہ ظاہر ہونے والاتحریر کردہ ڈرامہ نہیں ہے۔ بچے اکثر بس یا ریل گاڑیوں میں کھڑے کسی ضعیف اور بزرگ شخص کو مسکراتے ہوئے اپنی سیٹ فراہم کریں گے۔ کم از کم یہ اتنا غیر معمولی نہیں تھا شایداب جتنا مغربی ممالک میں ہے۔ بڑھتی ہوئی نسلی اور ثقافتی تقسیم اس کی وجہ ہو سکتی ہے!
وہ کون سی شئے ہے جو کسی شخص کو ایسے نامعلوم افراد کی بے لوث خدمت کرنے پر آمادہ کرتی ہے جن سے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ملے، اور وہ مدد کے لیے لوگوں کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خوش دلی کے ساتھ تھام لیتے ہیں؟اس خوش دلی کا مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب دوڑ میںD’Agostino نے گرنے کے بعد Hamblin کو سہارا دیا تھا، اور اس کے اس عمل نےریو میں پورے اسٹیڈیم کا دل جیت لیا تھا۔ اور بڑے پیمانے پر پوری دنیا نے اس کے اس عمل کو سراہا۔اس معاملے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فریق کے لیے اس پر کوئی مادی انعام نہیں تھا۔اس کا انعام صرف حقیقی روحانیت کا احساس تھا، اور اس کا اجر کسی انسان کی بے لوث خدمت کرنے اور اس بے لوث خدمت پر لوگوں کی مخلصانہ قدردانی کا احساس تھا۔
اولمپکس یا دیگرمتعدد شعبہ ہائے زندگی میں ہرگزیہ واقعہ ایک واحد واقعہ نہیں تھا۔بلکہ یہ جذبہ انسانی اور یہ خصلت اس قدر نادر و نایاب ہے کہ اس پر بہت سے مہذب ممالک میں ایوارڈز اور تمغوں سے نوازا جاتا ہے؛ اس لیے کہ احسان اور بہادری کے ایسے اقدامات اتنے نادر و نایاب ہوتے ہیں کہ انہیں قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔
کیا اس واقعے سے ان دونوں کھلاڑیوں اور ان کے متعلقہ ممالک نیوزی لینڈ اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والے "خیر سگالی" کے جذبات کو کسی بھی پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے؟کیا اس میں کسی کے لئے کوئی اجر نہیں ہے؟ اس کا جواب ہم اس کتاب قرآن سے دریافت کرتے ہیں کہ مسلمان اپنی زندگی پر کھیل کر جس کی حفاظت کی قسم کھاتے ہیں: -
قرآن کہتا ہے:
55:60۔نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کیا یہ کہنا درست ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے خوشنما معاملات میں رحمت و ہمدردی پر مبنی انسانی فطرت انسانوں کے اندر فطری طور پر ودیعت کر دی گئی ہے؟ نہیں ایسی ہمہ گیر کوریج کی صورت حال میں تو ایسا بالکل ہی نہیں کہا جا سکتا!
تاریخی واقعات سے نتیجہ حاصل کرنے کی بات تو چھوڑ دیں صرف اس دنیاکے موجودہ حالیہ واقعات کی بنیاد پر بھی یہ نتیجہ اخذ کرنابہت بڑی حماقت ہوگی کہ بنی نوع انسان کے اندر موروثی طور پر رحم دلی اور دوسرےانسانوں کے ساتھ محبت و ہمدردی کے ساتھ پیش آنے کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے! اس بات کے بے شمار شواہد موجود ہیں کہ بڑے پیمانےپر انسانی فطرت ظالمانہ ہے۔
عام طور پر کیتھولک چرچ سےمنسوب کیا جانے والا'سات نیک اعمال میں سے' نمبر سات پر،جیسا کہ اس کی نمائش مغرب کی مشہور پینٹنگز میں کی گئی ہے، اب تک انسانی مظالم اور گناہوں کے وہ واقعات سبقت لے جا چکے ہیں جن کا ارتکاب خود انسان دوسرے انسانوں پر اپنے آپسی معاملات میں کر سکتے ہیں۔بلکہ انہیں تو اب عام طور پر 'سات مہلک گناہ'تصور کیا جاتا ہے!
ان ساتوں میں بد ترین گناہوں اور اعلیٰ ترین نیکیوں کو تعین کرنا ایک مشکل ترین امر ہے۔نظام فطرت کے مطابق تمام اعمال میں سے کسی ایک کو بھی انجام دینے پر ردعمل کا ایک تسلسل قائم ہو جاتا ہے۔ تاہم،موجودہ بین الاقوامی منظر نامے کے پیش نظر جہاں خود انسان دوسرے انسانوں پر مصائب و آلام کے پہاڑ ڈھا رہا ہے،یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہو سکتا کہ درج ذیل دو گناہ ممکنہ حد تک سچائی سے قریب ہیں۔
موجودہ بحران کے پیش نظر مندرجہ ذیل امرکو گناہوں کی فہرست میں کوئی مقام ضرور دیا جا سکتا ہے:
1- جو اپنے بھائیوں کے درمیان فتنہ و فساد پیدا کرتا ہے.......اور
2-جو ہاتھ معصوم لوگوں کا خون بہاتے ہیں........وہ ایسے اعمال بد کی فہرست میں اول نمبر پر ہیں جس کے لیے انہیں جہنم کی ایسی آگ میں جلایا جائے گا جس کی کلفت موت کے بعد ایک اور موت کی طرح ہوگی8: 21، Revelation!
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ یہ دونوں فرمان مکمل طور پر قرآن کےفرمان کے موافق ہے۔اگر چہ قرآن میں (اسی مرتبہ) عٰملوا الصالحات کی بنیادی ہدایات وارد ہوئی ہے، جس سے مراد ایسے اعمال ہیں جن کے نتیجے میں خوش گوار اور فائدہ مند رد عمل کا صدور ہو۔اس کی دلیل قرآن میں اس طرح موجود ہے کہ:
13:17۔اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے، اﷲ اس طرح مثالیں بیان فرماتا ہے۔
وہ اس زمین پر ایک زینہ کی حیثیت سے باقی رہتا ہے تاکہ انسانیت اس کے ذریعہ ترقی کی اعلیٰ منزلیں طئے کرتی رہے۔
قرآن کے تناظر میں مندرجہ بالا دونوں امور کا ذکر اس طرح ہے:
ا) 2:27۔یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں،یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
ب) 5:35 .......جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانےیعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔
ایک عقل مند انسان کو جس کے اندر مذکورہ بالا آیت پر غور و فکراور تجزیہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو محبت و ہمدردی سے بھرے پرامن اور ہم آہنگ معاشرے کی اہمیت کو سمجھنے اور زندگی کی حرمت کا احترام کرنے کے لیے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ 'نیکی کے لئے نیکی‘کا نچوڑ اور لب لباب یہی ہے۔جبکہ بنی نوع انسان کے لئے جو اچھا ہے وہ زمین پر باقی ہی رہتا ہے۔
لہٰذا، یہ بات انتہائی حیران کن اور پریشان کن ہے کہ مذہب اسلام کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے اور اپنے برے اعمال کو ’’اسلامی عمل‘‘ کا نام دینے والے لوگ جو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے اعمال کی بنیاد قرآنی تعلیمات پر ہے،وہ مسجد کے منبروں سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ: اپنے ایجنڈے کے نفاذ کے لئے انتہائی ظالمانہ طریقےسے لوگوں کی جان لینا جائز ہے۔مثال کے طور پر لوگوں کی گردنیں کاٹ کر سر کو تن سے جدا کرنا ان کی مقدس کتاب قرآن کے مطابق درست ہے؛ جب کہ اس کا قرآن مخالف ہونا بالکل واضح ہے۔ اور پھر میڈیامیں اس کی تشہیرکرنے کے لیے وہ کٹے ہوئے سر کوبچوں کے حوالے کرنے کے کھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تاکہ دنیا ان کے مظالم کا مشاہدہ کرے۔ان کے اس عمل نے انسانیت کو حیوانیت سے بھی زیادہ ذلیل کر دیا ہے!
بنی نوع انسان کی تخلیق کے الٰہی منصوبےپر فرشتوں کا سوال کیا درست تھا؟ اس لیے کہ قرآن کا فرمان ہے کہ غور و فکر سے عاری انسان جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔قرآن کی دلیل ہے کہ جانوروں کے اندر غور و فکر کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے! لیکن اس وقت میڈیا میں دکھائے جانے والے وحشت ناک کارناموں سے خوفزدہ ہونے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ بنی نوع انسان پر انسانوں کی انسانیت سوز سرگرمیوں کی کوئی حد نہیں ہے۔اورہماری ماضی کی تاریخ یاد دلانے کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہولناکی کے چیمبرمیں اسے انجام دیا جاتا ہے۔
تنازعات سے بھری آج کی اس دنیا میں مائی لائ، پول پاٹ، ابو غریب، گوانتانامو، سربیا، روانڈا، بوکو حرام، الشباب، طالبان اور آسٹریلیا کی حالیہ ابو غریب کو ہمیں وحشت ناک صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے کسی ہولناکی کے چیمبر کی ضرورت نہیں ہے !
کیا مارک ٹویننے یہ نہیں کہا تھا کہ اس طرح کے حیوانوں کو'انسان' کہنا اس لفظ کا غلط استعمال کرنا ہے؟
https://newageislam.com/spiritual-meditations/service-creator’s-creation-spirituality-his/d/108308URL: https://newageislam.com/urdu-section/service-creator’s-creation-spirituality-his/d/108356