راشدسمناکے، نیو ایج اسلام
26 مارچ 2016
میڈیامیں یہ خبر آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے کہ"سابق بوسنیائی سرب رہنمارادووان کاراجیچ(1995)کو سریبرینیکا قتل عام میں ان کے کردار کی بنیاد پر نسل کشی کا مجرم پایا گیا ہے۔"
اس سنگین جرم کے ارتکاب کے پچیس سال سے زائد گزر جانے کے بعد بین الاقوامی فوجداری عدالت نے بالآخر ایک بوسنیائی سربی جنگ کے مجرم کو سزا سنا ہی دی۔جبکہ دوسرا مجرم فیصلےکے اعلان سے پہلے ہی جیل میں دل کا دورہ پڑنے سےمر چکا ہے۔اور تیسرا مجرمجو کہ فوجی کمانڈر تھا اب بوڑھا ہو چکا ہے اورفیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔
لیپزگ جنگی جرائم کے مقدمات 1921 میں شروع کیے گیے تھے؛ اور اتحادی افواج نے نیورمبرگ فوجی ٹربیونل کے مقدمات کو دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے فوراً بعد ہی شروع کر دیا۔کہا جاتا ہے کہ پہلا مقدمہ اتنا مؤثر نہیں تھا جتنا مؤثر دوسرا مقدمہ تھا جسےانسانی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ مانا جاتا ہے۔
متعصب ہونے کے الزام کے خطرے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ کسی نے یہ سوال نہ کیا ہو کہ دونوں عالمی جنگوں اور اس کے بعدبوسنیا اور سربیا میں انجام دیے گئےجرائم میں فرق کیا ہے جہاں رادووان کاراجیچ اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھ میں کمان تھی؟
سرسری طور پر ان کے درمیان فرق ان جنگوں میں ضائع ہونے والی جانوں کیمقدار ہو سکتا ہے! لیکن کیا چھ معصوم جانوںکا اجتماعی قبر میں دفن کیا جانا اخلاقی لحاظ سے کچھ کم ہے؟اس کے بعد چھ ملین لوگوں کا گیس چیمبروں میں ہلاک ہونا یا اندازے کے مطابق ساٹھ سے اسی ملین لوگوں کا جنگ کےدوران ہلاک کیا جانا کیا کم ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ ایڈولف ہٹلر اور گوئبلز ھملر جیسےان کے ساتھیوں نے اس سوال کا جواب خود کودے دیا تھا۔انہوں نے یا تو ذہنی صدمے یا شاید جلاد کے ذریعہ پھانسی دیئے جانے کے خوف سے خود کشی کر لی تھی۔یا پھر کیا وہ ان تمام عوامل کے مجموعہ تھا؟
باقی تمام لوگوں کو ٹربیونل کے معاملے میں مجرم پایا گیا تھا اور ان تمام کو جنگ کے بعد بمشکل ہی ایک سال کے اندر1946 کے آخر تک پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔
متبادل ادویات اور نفسیات کے ڈاکٹر، اخلاقیات،جنگی ضابطہ اخلاق، اور شاعری میں متعدد کتابوں کے مصنفرادووان کاراجیچ کو ایک مسیحی عالم دین تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بائبل کی تعلیمات اور تاریخ کی بنیاد پر جنگ کا جواز پیش کرتے ہوئے دلیل پیش کی تھی۔
اگر وہ مسلمان ہوتے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اسلامی صحیفہ قرآنی تعلیمات کی بنیاد پرجنگ کا جواز پیش کرتے جیسا کہ آج داعش کا رہنماں بغدادی اور ایسے دوسرے لوگ کررہے ہیں جو اپنے اپنے قسم کے مذہبی یا دوسرے جہاد میں مصروف ہیں۔وہ بھی کسی نہ کسی قسم کے اسکالر اور ڈاکڑ ہونے کا ہی دعویٰ کرتے ہیں!بلا شبہ اس کی شرط اولین اس جدوجہد میں فتح کا حصول ہے جس کی شروعات وہ کرتے ہیں۔اس کے بعد ادارے ڈاکٹریٹ یا اعزازی ڈاکٹریٹ تفویض کرنے کے لیے آگے آتے ہیں.........یایہاں تک کہ انہیں ہتھیاروں کے سب سے بڑےصنعتی ادارے کی جانب سے نوبل امن انعام سے سرفراز کیا جاتا ہے۔
ان عالم رہنماؤں کو یہ معلوم ہے کہ شکست کا انعام موت یا عمر قیدیا ذلت اور پوری دنیا کی مذمت ہے۔
لیکن انصاف تاخیرسے ہو یا جلدیوہ کون سی ایسی بنیادی کسوٹی ہے جسے عالمی طور پر قابل قبول معیارقرار دیا جا سکے؟ یقینااس کا معیار نہ تو جدوجہد میں فتح یا شکست ہے اور نہ ہی صحیفہ ہے، اس لیے کہ تنازعہ میں مصروف دونوں فریق یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کا مقصد انصاف پر مبنی تھا اور جس کی تائید اور جس کا جواز صحیفوں سے ملتا ہے!
یہ اعتراف کیاجانا ضروری ہےکہ صحیفوں کو انسانوں نے لکھا ہے اور اس کی تدوین بھی انسانوں نے کی ہے۔اس لیے کہ خداانسانوں سےلفظ بہ لفظ اپنا کلام املاء نہیں کرواتا ہے؛ اسی طرح جو لوگ ان مسائل کے بارے میں فکرمند تھے جنہوں نےاس معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس میں انہوں نے پرورش پائی تھی اور جس کی وہ اصلاح کرنا چاہتے تھے ان کا غار ثور میں یا پہاڑ پر یا برگد کے درخت کے نیچےطویل مراقبہ اور غور و فکر ہے۔
ان شدید مراقبوں اور مجاہدوں سے حاصل ہونے والی ’’وحی‘‘" کا واحد مقصد انسانی معاشرے کی بہتری اور اصلاح ہے۔ لیکن مصلح اور شاید ان کے چند قریب ترین اصحاب کے علاوہ بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والوں نے اپنے ایجنڈے کے مطابق ان صحیفوں کی تعبیر و تشریح شروع کر دی۔
رادووان کاراجیچ اور ابو بکر البغدادی جیسے دوسرے لوگوں نے بھی ضروری طور پر صلیبی جنگوں اور جہاد کے جواز میں صحیفوں کی تعبیر و تشریح پیش کی۔اور اس طرح یہ انصاف کے نام پر انسانوں کا فیصلہ خود انسانوں کے ہاتھوں کرنا ہوا، جن کے ایک ہاتھ میں تلوار ہے اور ایک ہاتھ میں پیمانہ اور جن کے پاس معاوضہ کے عمل میں مظلوم کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔
اس عمل میں جسے جھلسنے کے لیےچھوڑ دیا جاتا ہے جو جنگی جرائم کا شکار ہیں۔
ہٹلرنے بھی کہا تھا کہ جنگ عظیم اول کے اختتام پر صلحِ امن کی نا انصافیاں تھیں، بالخصوص ان اتحادیوں کے لئے تاوانِ جنگ کے لیے لیا گیا وعدہ جنہوں نے انہیں 'واپس لڑنے' کے لیے قدم اٹھانے پر آمادہ کیا،تاکہ شکست خوردہ جرمن قوم پر مسلط کیے گئے سخت حالات کو دور کیا جا سکے۔ ان کے خیال میں اپنی قوم کو انصاف دلانے کے لئے دو دہائیوں تک انتظار کرنا بہت طویل تھا!
رادووان کاراجیچ اور بغدادی اپنی جماعت کے ترجمان کی حیثیت سے خود کو دوسروں کی جانب سے ماضی میں کی گئی ناانصافیوںکا شکار ثابت کرنے کے لیے بڑی باتیں کرتے ہیں اور اس بنیاد پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کی جدوجہد ایک "منصفانہ جنگ" ہے۔ان کے درمیان بہت باریک اور اہم فرق بھی ہے:
رادووان کاراجیچ کے پاس صرف ایک ہی جماعت تھی اور اس کے دشمن صرف مسلمان تھے۔ لیکن بظاہر ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے ابو بکر البغدادی کے دشمن خود ان کے مسلمان بھائی اوراسی طرح غیر مسلم بھی ہیں جس کےنتائج دنیا کے سامنےواضح ہیں!
مختلف نیک نیت مصلحین نے اپنی جانب سے کوششیں کی ہیں۔ بائبل کی کہانیوں میں - جن سے رادووان کاراجیچ اچھی طرح واقف ہے-موسی علیہ السلام نے مصر کے فرعون کے مظالم کے خلاف جنگ کیاور فرعون اور اس کے محلات کو زمین بوس کر دیا۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی آج تک اپنی زمین کے لیے لڑ رہے ہیں۔
عیسیٰ مسیح نے یہ تعلیم دی کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو اسے دوسرا گال پیش کر دو اور " جس طرح تم اپنے آپ سے محبت کرتے ہو اسی طرح اپنے پڑوسی سے محبت کرو" جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اور انہیں ان کی مشکلات کے لئے مصلوب کر دیا گیا تھا۔
ابو بکر البغدادی پہلی ہجری کے ان مسلم خلفائے راشدین کے پیروکار ہونے کا ڈرامہ کررہا ہے جن کا عنوان اور نام اس نے اختیار کر لیا ہے۔ لیکن وہ اس راستے پر چلا کر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہےکہ ھدایت حاصل کرنے کے لیے جس راستے سے بچنے کی دعا نیک اور صالحین بندوں نے کی تھی (1:7)۔اور اس نے ایسا ان مصلحین کے پیغامات سے قطع نظر کیا جن کا پیغام یہ تھا"بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے ....... (16:90)"۔
لیکن وہ لوگوں کے درمیان اس کی تشریح یہ پیش کر رہاکہ موسی، مسیح اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے مطلب یہ تھا کہ اللہ نے حملہ آوروں کو یہ ہدایت دی ہے کہ سب سے پہلے اپنی قوم کے ساتھ انصاف کرو اور ان کے ساتھ نرمی اور مہربانی کے ساتھ پیش آؤ؛ بالکل اسی طرح جس طرح ہٹلر اور رادووان کاراجیچ کی دلیل تھی!
URL for English article:https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/justice-delayed-justice-denied/d/106769
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/justice-delayed-justice-denied/d/108183