راشد سمناکے،نیو ایج اسلام
9 جولائی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
اگرچہ اس میں چونکا دینے والی
کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ پہلے بھی اور اس دور میں بھی کئی معزز حضرات نے حج پر اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے، لیکن
ان لوگوں نے اس کے روحانی اور مذہبی نقطہ نظر کو بیان کیا ہے۔کیوں کہ قرآن کریم نےآیت 25: 73
کے ذریعہ ہر انسان کو اس پر سوال
کرنے کا حق دیا ہے اور یہ تحقیق مسلمانوں کے
دنیاوی اور عملی فوائد کے لئے ہے۔
مثال کے طور پر، شاعر اقبال اس سلسلے میں پوچھتے ہیں:‑
زائرین کعبہ سے اقبال یہ پوچھے
کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں؟
بھولی بھالی مسلم قوم سال میں ایک
بار اس مقدس زمزم سے اپنی روحانی پیاس بجھاتی
ہے اور خدا سے انفرادی گناہوں کے لئے مغفرت
طلب کرتی ہے، اور اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کرتی ہے۔
لہذا یہ تحقیق اس بنیاد پر ہے کہ تمام اعمال، اچھے یا برے سب مناسب رد عمل پیداکرتے ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا
ہے کہ ،خاص طور پر مکہ شہر میں زیارت یا حج
22:28 کے کیا عملی "فوائد" ہیں۔ اس
سے مسلمانوں کو کیا حاصل ہوا اور اس کا کیا حاصل ہے؟ سوالات یہ ہیں:‑
- جزا کے قانون کا اعلان
قرآن میں آیت 53:39 میں واضح طور پر کیا
گیا ہے۔ اس لئے رسموں کا تجزیہ اس پر کئے گئےخرچ
اور محنت کے حوالے سے کیا جانا چاہئے۔ اس روایتی
زیارت کاعرب کے ایک شہر میں ہونا سب سے زیادہ اہم اعمال میں سے ایک ہے۔ اب ہر سال
بیس سے تیس لاکھ لوگ حج کے رسوم ادا کرتے ہیں۔ کیا مسلم طبقے اور خاص طور پرتمام انسانوں کو اس سے کچھ فوائد حاصل نہیں ہونا چاہیئے؟
- حج ، مکہ، حرم،
قبلہ اور کعبہ کے بارے میں قرآن میں حوالے کثرت سے ہیں۔ ان کی اہمیت اور وجود سے انکار کرنا ویسا ہی ہے جیسے کہ بولیویا کے ساتھ تنازعہ کے دوران ملکہ وکٹوریا
کا اس کے وجود سے انکار کرنا اور بچوں کی طرح
اس کے نقشے کو پھاڑ دینا اور اس پر پیر مارنا اور کہنا کہ ، " اب بولیویا
کا وجود نہیں ہے"۔ ( لندن میں ہندوستان
کے سفیر کے مینن نے اسے اپنی ایک تقریر میں
کہا تھا)
- اب دو حرم ہیں ایک مکہ میں اور دوسرا مدینہ میں ہے، جیسا کہ عرب حکمران خود کو "خادم الحرمین" کامنصب دیتے ہیں۔ حالانکہ صرف اور صرف ایک کا ذکر قرآن میں ہے۔ کیا یہ " ِليَشتَرُوا بِہِ ثَمَناٌ قلَيلَا
" 2:79 کے لئے ہے تاکہ اس سے چھوٹے فائدے حاصل کر سکیں؟ کیا میزبان
ملک کے لئے مادّی فوائد چھوٹے ہیں؟
- مذہبی علماٗ نے 'آخرت' کی زندگی کے لئے حج کے روحانی فوائد پر جلد
درجلد لکھےہیں، تاہم اس دنیا 2: 202 پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے یعنی
یہاں کی زندگی اور اب "فالد دنیا"
کی فکر میں ایک مثالی تبدیلی کی ضرورت ہوگی؛ جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ
سو سال قبل حاصل کیا تھا اور جس نے سب کچھ
مکمل طور پر تمام انسانی رسومات
کو تبدیل کر دیاتھا یہاں تک کہ وہ
بھی جو وہ اپنے مذہبی دیوتائوں اور شخصیات
کے نام سے مندروں میں پوجا کیا کرتے تھے ۔
- ہمیں زمانہ قدیم سے
بتایا جا رہا ہے کہ اس کے باوجود نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تجارتی شہر
مکہ میں مندروں کے کچھ ترمیمات کے ساتھ زیارت کی رسومات حج ادا کرنے میں اب بھی باقی ہیں۔ پھر کیا آج کا حج
شاندار اور اقتصادی پہلو سے کسی بھی
طرح پہلے کے مقابلے میں مختلف ہے؟
- کیا پیغمبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ دہائیوں اور صدیوں
بعد مکہ کے قدیمی رسومات واپس زندہ ہو گئے اور اور کالا پتھر
اب زری اور سیاہ غلاف میں اسے مذہبی مورت
اور آج کی توجہہ کا مرکز بنانے کے لئے ہے؟
- شیطان پر لعنت بھیجنے
کے لئے بنائی گئی چار کونے والے پرانی مینار یا آج کی دیوار کھڑی کی گئی ہے، اس کے باوجود کہ قرآن شیطان کی طرف سے کہتا ہے کہ ، " مجھ پر
لعنت مت بھیجو، لیکن خود پر لعنت بھیجو 14:22؟ لہذا کیا حاجی حضرات کو شیطان پر رجم
،جو مرنے سے انکار کرتا ہے اور ہر سال پتھر کھانے کے لئے واپس آ جاتا ہے کہ بجائے خود
پر ہی پتھر نہیں بر سانا چاہئے ؟
- کیا کعبہ اور اس کی
جغرافیائی جگہ کا تعین جس کے بارے میں
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ " خدا
کا گھر" ہے آیت 2:115اور 2:177 سے بے
میل نہیں ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ وہ پوری کائنات کا مالک ہے اس میں سب شامل ہیں؟
- کیا اسی تعلق سے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخر کار مایوسی
میں نہیں فرمایا تھا: "میں کائنات کے اصلی خالق کی طرف اپنا رخ موڑ لوں آیت 6:71-70
اور مسلمان بھی اپنی فرض اور واجب نمازوں میں اس کی تلا وت کرتے ہیں؟
- تو کیا قبلہ ، انسانیت کو
لوگوں کے ذریعہ بنائے گئے خود ساختہ مورتیوں کے بندھن سے اور ایک
آدمی کے دوسرے کے استحصال سے آزاد
کرنے کے لئے ایک دانشورانہ تصور اور زمین پر
میخ (Peg) نہیں ہے ؟
- کیا یہ دلیل نہیں
دی جا سکتی ہے کہ مکہ وہاں نہیں ہے جہاں اسلام کا قانون نافذ کیا گیا تھا، قرآن کے بیان کے مطابق اس شہر کے بانی حضرت ابراہیم تھے
جو ایک سچے اور مخلص مسلمان تھے، نہ عیسائی اور
نہ ہی یہودی تھے، اور تاریخی اعتبار
سے تل المقیر شہر کے تھے جو عراق میں
دریائے فرات کے کنارے ہے۔ کیا کسی دوسری جگہ
کے مقابلے یہ جگہ ان کا بلند و بالا مقام ابراہیم 3:97 نہیں ہونا چاہیئے؟
ڈاکٹر اقبال، جو علماء کے پسندیدہ لوگوں میں کبھی نہیں تھے نے
اپنی نظم 'لا الہ الللہ ' میں
مسلمانوں کے حقیقی مقام کے
نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں
:‑
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش
میں ہے
سنم کدا ہے جہاں، لا الہ الللہ !
- ایک بار پھر، اگر تعین کی بنیاد اسلام کے دستور کے پانچ ستونوں میں
سے ایک، حج پر ہے، تو کوئی کیوں نہیں پوچھ
سکتا ہے کہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے سب سے قریب تر حضرت عیسیٰ
علیہ السلام سمیت ان سے پہلے کے کسی بھی پیغمبر نے اس مقام کا کوئی بھی سفر کیوں نہیں
کیا؟ اگرچہ تمام رسولوں کوایمان اور دستور کا ایک جیسا
ہی پیغام الٰہی دیا گیا اور کسی کے ساتھ
آیت 41-43, 3:84 وغیرہ کے بیچ کوئی
تفریق نہیں کی گئی؟
- کیا اس اجتماع کو حکومتوں
کے سربراہوں کے ساتھ ایک مفید کانفرنس میں تبدیل نہیں کرنا چاہئے۔ الشوری 42:38، جو
مسلم دنیا اور وسیع تر دنیا کو بڑے پیمانے پر درپیش مسائل کا حل تلاش کریں، خاص طور
سے مسلم دشمنی کے اس زمانے میں جوکافی حد تک اس کی اپنے پیدہ کردہ ہیں؟ ---- یہ عملی مشورہ سب سے پہلے ایک مسلم اسکالر جی اے پرویز نے دیا تھا۔
- کہاجاتاہے کے ' گزرے زمانے کے قابل لوگوں کے تجربہ اور علم کی
مدد سے کوئی بھی مستقبل کی راہیں روشن کر سکتا ہے' اس سے مزید ایک قدم آگے جاکر کوئی
یہ تجویز دے سکتا ہے کہ اس سالانہ اجتماع میں قوت
اور مواقع ہیں اور پوری مسلم قوم کے لئے واضح فوائد ہیں، اگر یہ
سالانہ حج ہر سال مختلف ملکوں میں منعقد ہوں۔ کیا یہ
ان ممالک میں اقتصادی فوائد (2-3, 36:47وغیرہ) کے ساتھ ہی ساتھ روحانی فوائد
کو پھیلائے گا ؟ کیا یہ کسی نہ کسی
طرح سے غربت کے خاتمے کا طریقہ نہیں ہو سکتا
ہے؟
ایک مشق جسے 'SWOT' - طاقت (Strength)، کمزوری (Weakness)، مواقع (Opportunity) اور خطرات (Threats) کہتے ہیں جو آج کے نوجوان
ایم بی اے ( MBA) ایگزیکٹوز اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ عملی مقاصد کے لئے یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ اگر
پوری انسانیت نہیں تو مجموعی طور پر
مسلم قوم حج کے فوائدحاصل کرنا چاہتی ہے
تو مسلم دنیا کو اس پر عمل کرنا ہوگا۔ الناس 2:125, 196
وغیرہ جیسا کہ قرآن نے حکم دیا ہے۔
کسی خاص جگہ کے لئے اس تعین
کے ساتھ کمزوری اور خطرات کو دیکھنا آسان ہے:‑
1 ۔ یہ حج کے متعلق قرآن کے پیغام کا مشاہدہ کرنے سے دوستانہ اور تجسس
رکھنے والے لوگوں پر پابندی عائد کرتا ہے۔
2۔ یہ پوری اسلامی دنیا سے غیر ملکی کرنسی کے نکاس کا راستہ پیدا کر
دیتا ہے جو پہلے سے ہی بہت غریب، محتاج اور کئی تو دنیا بھر سے مدد چاہنے والے ہی ملک
ہیں۔
3۔ یہ سال در سال صرف ایک ملک کے خزانے کو بھرتا ہے اور اسے بڑے اقتصادی
فوائد پہنچاتا ہے، حالانکہ یہ ملک خالق کائنات کے عطا کردہ دیگر تحائف سے کافی مالدار
ہے جسے مجموعی طور پر پوری انسانیت کے ساتھ نہیں تو پوری مسلم قوم کے ساتھ حقیقت میں
اشتراک کیا جانا چاہئے۔
4 ۔ خاص طور پر یہ مسلمانوں کو
دوسرے مقامات کے سفر کرنے سے روکتا ہے جبکہ قرآن کئی بار انہیں ایسا کرنے کے
لئے کہتا ہے: "کیا انہوں نے زمین پر سیر
اور سیاحت نہیں کی جس سے ان کے دل و دماغ حکمت حاصل کر سکیں 22:46 " کیا یہ اشارہ
نہیں کرتا ہے کہ سیر و سیاحت علم اور حکمت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں؟ آخر کار زمین بہت وسیع ہے 91:6، تو
کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ ایک ہی مقام کا دوبارہ سفر کیا جائے؟
5۔ سب سے اہم بات پوری مسلم
دنیا میں اللہ کے نام پر لاکھوں جانوروں کی
قربانی دی جاتی ہے۔ ایک رسم جو کافروں کی قربانی
کی رسم ہوا کرتی تھی اسے اب بھی خدا کے نام
پرکیا جاتا ہے اور خدا جو خود فرماتا ہے کہ
– " اس کے لئے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے 22:37 " ۔ یہ غیر
ضروری مصائب اورکھانے کے طور پر جانوروں کے قیمتی وسائل
کو نقصان پہنچاتا ہے‑
( سوائے کھال اور مویشیوں کے کاروباریوں کو فائدہ پہنچانے کے!) " خدا ہر
بیجا خرچ کو ناپسند کرتا ہے 7:31" اس دوران مسلم دنیا صحت کے لئے نقصان دہ آلودگی
اور شدید طور پر قابل نفرت بد بو سے دوچار
ہوتی ہے۔ اگرچہ جانوروں کی قربانی کا حکم
ہے لیکن صرف حج کے مقام پر جیسا کہ
قرآن کہتا ہے، " تھکے ہوئے مسافروں کو
کھلانے کے لئے 22:36" ۔
اور اس طرح مسلط غربت، جہالت،
بربادی اور مذہبی تجارت کا سانحہ جمع ہوتا
ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم قوم کی کوششیں اور
اجتماعی دولت جو خرچ کی جاتی ہے وہ کسی خاطر
خواہ فوائد کے بغیر برباد ہوتی
ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا
کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے
رہے ہیں 18: 104"۔
جیسا کہ قرآن میں حکم ہے
کہ "اس ا جتماع میں اعمال صالحہ"
کرنے کی نیت کےمواقع موجود ہیں۔ اسے ایک مثال میں تبدیل
کیا جا سکتا ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری اور شاید واحد حج کے موقع پر میدان عرافات میں خطبہ دینے کے لئے
شروع کیا تھا۔ بہت سے عاقل پہلے بھی اس خیال کا اظہار
کر چکے ہیں۔ لیکن مذاہب اور گرجا
گھر اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ زیارت تما م مذاہب کے لئے ' خالص
عبادت اور روحانیت' ہے! اس دنیا کے بارے میں
پریشان نہ ہونے کے بارے میں ہمیں سکھایا جاتا ہے جو کہ آیت 2: 202
کے خلاف ہے۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاہب اوراس سے جڑی صنعت کو جاری رکھنا گرجا گھر
اور اس سے جڑے اشرافیہ طبقے کے لئے
ایک لازمی امر ہے، اہل کلیسا کے لئے تمام انسانوں
کو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اسی طرح حج مسلمانوں
کے لئے ہے!
ایک مشہور کہاوت اس طرح ہے: "عبادت میں اٹھے ہاتھ کے مقابلے
کسی کی مدد کے لئے اٹھنے والا ہاتھ بہتر ہے" ۔ مسلین نے اپنے ہاتھ اٹھائے ہیں اور صدیوں سے نماز میں اپنی
پیشانی کو جائے نماز پر اس سمت میں کر رہے ہیں جس سے اس دنیا میں کوئی خاطر خواہ فائدہ
ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے، سوائے اس کے کہ نا
اہل میزبان ملک امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا
ہے!
اس لئے یہاں پر چودھویں صدی
یا اس سے قبل کے صوفی پنجابی شاعر بلّے شاہ
کا قول پیش کرنا بہت مناسب
ہے:
بید قرآن، پڑھ پڑھ تھکّے
سجدیں کر دیاں، گھس گئے متّھے
نہ رب تیرتھ نہ رب مکّے
(قرآن اور وید پڑھ پڑہھ کر تھک گیا
سجدے کرتے کرتے پیشانی گھس
گیٗ
لیکن خدا نہ مکہ میں ملا نہ
ہی تیرتھ میں
ایسا لگتا ہے کہ مذہبی صنعتوں کے سی ای او کے ساتھ ساتھ حرم کے خادم نے صدیوں سے
باہمی اور خصوصی "دنیاوی فوائد" کے لئے سازش کی ہے، لیکن حجاج اکرام کو صرف "آخرت" میں اس کے فوائد
کا وعدہ کر رہے ہیں2:202!
تیس لاکھ مسلمانوں کو ہر سال ایک جگہ میں کم از کم ایک عالمی مسئلہ کو حل کرنے میں مدد کرنی چاہیے، مسلمانوں کو اس حج کے فوائد کاروباری انداز میں بھی پہنچانا چاہیئے 2:201, 18:10۔ قوم کو اس کی اشد ضرورت ہے، اور اسے دنیا کے ممالک کے درمیان اپنے بلند و بالا مقام کو دوبارہ
حاصل کرنا چاہیئے۔
راشد سمناکے ہندوستانی نژاد
انجینئر (ریٹائرڈ) ہیں اور چالیس سالوں سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور نیو ایج اسلام
کے لئے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/ijtihad,-rethinking-islam/let’s-redeem-the-“benefits”-of-hajj!/d/7870
URL
for this article: https://newageislam.com/urdu-section/come,-let-take-advantage-haj/d/7953