راشد شاز
ہندوستانی مسلمان بی جے پی کے دام اشتعال میں پھنستے جارہے ہیں ۔ ایک عجیب مخمصہ ہے، ایک طرف وزیر اعظم مودی ہیں اور دوسری طرف جبّہ و دستار کے حا ملین اہل شرع ۔ گویا آگے کنواں پیچھے کھائی، نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ۔ اول الذ کر کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتا ہےاور ثانی الذ کر کو اس بات پر اصرار ہے کہ اس کی تعبیر کردہ شریعت پر ایمان لائے بغیر ان پر نجات کے تمام دروازے بند ہیں ۔ مسلمانوں کے تئیں مودی اور ان کی جماعت کےزعفرانی ایجنڈے کی حقیقت تو ہر خاص و عام پر عیاں ہےالبتہ جبہ و دستار کے حاملین کی طرف سے ایمان و شریعت کے پردے میں جس کفر بواح کی دعوت دی جارہی ہے اس کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔ مبادا آنے والے دنوں میں ہندوستانی مسلمانوں کی اجتماعی قوت اصل قرآنی ایجنڈے کےبجائے فارق العقل نعرے بازی اور غل غپاڑ ے کی نذر ہوجائے۔
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اتر پردیش کے انتخابی ماحول میں اچانک طلاق ثلاثہ کےمسئلہ نے اس قدر اہمیت کیوں اختیار کر لی ہے۔ یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں 7 اکتوبر کو جاری کردہ لاء کمیشن کا سوال نامہ یقیناً اس حقیقت کا علامیہ ہے کہ حکمراں جماعت حساس جذباتی مسائل پر پولرائیزیشن کی سیاست کرناچاہتی ہے لیکن ہم مسلمانوں کو آناً فاناً خم ٹھونک کر دعوت مبارزت دینے کی آخر کیا ضرورت پیش آگئی ؟ ہم یا تو خالی الد ماغی کے شکار ہیں کہ بڑی آسانی بی جے پی کے بچھائے ہوئے جال میں پھنستے جارہے ہیں یا پھر کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں ۔
بظاہر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اگر عین اسی وقت سڑکوں پر طلاق ثلاثہ کی اسلامی لڑائی نہ لڑی گئی تو مسلمانوں کی ایمانی زندگی تباہ ہوجاے گی۔ کچھ اسی عجلت کا اظہار یونیفارم سول کوڈ سےمتعلق دیئے گئے مجاہدا نہ بیانات میں بھی نظر آتا ہے۔ حالانکہ اغیار کی طرف سے یہ دونوں مسائل اس سے پہلے بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں ۔ رہی طلاق ثلاثہ کی بات تواسے 2002 میں شمیم آرا بنام ریاست اتر پردیش کےمقدمہ میں ہائی کورٹ پہلے بھی برحق تسلیم کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ کورٹ کا اصرار ہے کہ مروجہ طلاق ثلاثہ کےبجائے قرآنی طریقہ طلاق کواختیار کیا جائے۔ کچھ اسی قسم کی باتیں د گدو پٹھان بنام رحیم بی کے فیصلہ میں بھی کہی گئی ہیں جہاں فاضل جج نے وقوع طلاق کے لیے کسی معقول سبب کے پائے جانے اور فریقین کے لئے تحکیم کے مرحلے سے گزر نے کو لازم قرار دیا ہے اور اس بارے میں اسلامی قوانین کی متداول کتابوں سے متعدد شواہد پیش کیے ہیں ۔ اس بارےمیں دہلی کے ایک مسلم جج بدر دُرّیز احمد کا فیصلہ بھی غیر معروف نہیں ہے جس میں انہوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کو طلاق مغلظہ ماننے سے صاف انکار کردیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ اس تمام عرصے میں اہل شریعت کہاں سوئے تھے او رپھر اچانک الیکشن سےعین پہلے انہیں سڑکوں پر آنےکی ضرورت کیوں پیش آگئی؟
دوسری طرف سائرہ بانوں کا دائر کردہ پی آئی ایل جو طلاق ثلاثہ ، نکاح حلالہ اور تعداد ازواج کے خاتمے کی اپیل پر مشتمل ہے، اس کے پس منظر پربھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں 2005 سے ہی ڈومسٹک وائلنس ایکٹ نافذ چلا آتا ہے جو کسی بھی قسم کی جسمانی ،ذہنی تشدد اور مالی حق تلفی کےازالے کے لئے عورت کو غیر معمولی اختیار دیتا ہے۔ اس قانون کی اثر آفرینی کا عالم یہ ہے کہ بہت سےلوگ اسے ایک مرد مخالف قانون کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ایسے مؤثر قانون کا سہارا لینے کےبجائے ، جس میں سبک اور سستے انصاف کے امکانات موجود ہیں ،سائرہ بانو نے سپریم کورٹ میں مفادعامہ کی عرضی داخل کرنا کیوں ضروری سمجھا ؟
یہ ہے وہ پس منظر جہاں مسلمان بمقابل بی جےپی کی معرکہ آرائی کےلئے ، شریعت کےنام پر ہانکے پکارے جنگ کا بگل بجا یا جارہا ہے ۔ بےچارے مسلمان کریں تو کیا کریں ۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر انہوں نے شرعی حقوق کے تحفظ کی تحریک نہ چلائی تو ان کا رہا سہا پرسنل لاء بھی جاتا رہے گا۔ دوسری طرف ان کے اہل نظر سے یہ بات بھی مخفی نہیں کہ وہ جس پرسنل لاء کے تحفظ کی تحریک چلارہے ہیں اس کی بعض مقبول عام تعبیرات کا تو شرع اسلام سے کوئی علاقہ نہیں ۔
پہلی بات تو یہ سمجھ لینےکی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق غیر اسلامی او رغیر قرآنی ہے ۔ روایتی علماء بھی اسے بدعت اور گناہ پر محمول کرتے ہیں، پھر کوئی وجہ نہیں کہ مسلم مردوں کے لیے گناہ کے اس دروازے کو کھلا رکھنے پراصرار کیا جائے ۔ یہ خیال غلط ہےکہ ایک مجلس کی تین طلاق کےبرحق ہونے پر اہل علم کا اجماع چلاآتا ہے ۔ عہد صحابہ اور عہد تابعین میں ایسے اہل علم کی کمی نہ تھی جو ایک مجلس کی متعدد طلاقوں کو صرف ایک طلاق تسلیم کرتے تھے ۔ ان ہی آثار و آراء کی بنیاد پر ابن تیمیہ او ران کے شاگردوں نےاپنے تعبیر ی دوا وین مرتب کئے ہیں ۔ البتہ جن لوگوں کا مبلغ علم فقہ حنفی کی چند کتابوں تک محدودہے وہ ہمارے تعبیر مصادر میں پائی جانےوالی اس بو قلمونی پر آگاہ نہیں ۔ہمارےلیےاس بات کی چنداں اہمیت نہیں کہ کسی عالم یا فقیہہ نے کیا کہا ہے، جب طلاق کے طریقۂ کار پر خدا کا حتمی ، مبین اور مبرہن قول موجود ہے تو پھر کسی مفتی سے فتویٰ طلب کرنےکی گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے؟
مروجہ نکاح حلالہ خالصتاً فقہی فریسیت کی ایجاد ہے۔ اگر طلاق کا عمل قرآنی طریقۂ کار کے مطابق تحکیم کے مرحلے سے گزرتے ہوئے کم از کم تین طہر ( تین ماہ) کی مدت میں انجام پائے تو مروجہ نکاح حلالہ کی نوبت آئےگی او رنہ ہی مسلم معاشرہ کو ان ‘ نیک آدمیوں’ کی ضرورت رہے گی جواپنی حلالہ خدمات کے سبب اہل حاجت کے لیے مرکز توجہ بنے رہتے ہیں ۔ حلالہ کرنے اور کروانے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعنت بھیجی ہے ۔ پھر جو لوگ اس ادارے کی بقاء کے لئے خم ٹھونک کر میدان میں آگئے ہیں ا نہیں اپنی شرعی پوزیشن معلوم کرلینی چاہئے ۔ رہی تعددازواج کی بات تو یہ عدل کی شرط کےساتھ ایک ایسی گنجائش ہے جس راستہ شرع نےکھلا رکھا ہے،البتہ معمول کی زندگی وانکحو الایامی منکم کے تابع سمجھی جاتی ہے۔
گویا تین طلاق ،نکاح حلالہ، اور تعددازواج کے جن ارکان ثلاثہ کو آج علمائے شرع نے دین اور ایمان کامسئلہ بنا رکھاہے ا ن میں سے اول الذ کردو کی شناعت توہر خاص و عام پر عیاں ہے۔ تین طلاق بدعت ہے، گناہ ہے، قرآن کے طریقے کے یکسر خلاف ہے اور مروجہ نکاح حلالہ کرنےاو ر کروانے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے ۔پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان دو قبیح افعال کے بر قرار رکھنے پر اصرار کیا جائے ۔ حق تو یہ ہے کہ عدالت کی مداخلت سے کہیں پہلے ہمیں خود اپنے ہاتھوں سےاس خلاف شرع رسم پر خط تنسیخ پھیر دینا چاہیے تھا ۔ لیکن جو لوگ برطانوی راج کے شریعت اپلیکشین ایکٹ کو منزل من اللہ سمجھتے ہوں اور جن کی فہم شریعت دنشاہ فرد ونجی ملاّ کی پرنسپلز آف مسلم لا ء کی اسیر رہی ہو انہیں صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہوسکتا ۔
تین طلاق کی معصیت او رمروجہ کی شناعت سےبچنےکے لیے ایک تک خدا ترس مسلمان اہل حدیث علماء سے رجوع کا مشورہ دیتے تھے ۔ ان پر یہ بات واضح تھی کہ اس بارےمیں اہل حدیث علماء کا موقف اسلام کی اصل روح سے ہم اہنگ اورعدل و قسط کاضامن ہے۔ تحفظ شریعت کے اس نئے ہنگامے میں ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ قرآنی احکام پر عمل کرنےکی یہ گنجائش بھی جاتی رہی ۔ کتاب و سنت سے راست اکتساب کے دعویدار بھی آج شرعی سیاست کی یلغار کےآگےبےبس نظر آتے ہیں ۔
چوکفر از کعبہ پر خیز د کجا ماند مسلمانی؟
اب صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے علماء او ران کی ملی ادارے پوری قوت کے ساتھ قرآن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئےہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق قرآن سہی، بدعت سہی، گناہ سہی لیکن اصلی شریعت تو یہی ہے ۔ ہمارے علماء اس حقیقت سے آنکھیں بند نہیں کرسکتے کہ آج ہم انٹر نیٹ کے عہد میں جی رہے ہیں جہاں تعبیری و تفسیری ادب اور فقہی و قانونی نظائر کا کلی سرمایہ ہر خاص و عام کی دسترس میں ہے۔ اب صرف یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ ہمارا فقہی فہم ہی اصل اسلام ہے۔ فریق مخالف خود آپ کے متداول تعبیری ادب سے آپ کےموقف کی کمزوری پر بڑی آسانی سے وقیع شواہد فراہم کرسکتا ہے، جیسا کہ ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں بعض غیر مسلم جج صاحبان نےمروجہ طلاق ثلاثہ کی شناعت پر کلام کرتے ہوئے سائل کو صحیح قرآنی طریقہ، طلاق پر مطلع کیا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ان حساس مسائل پر کلام کرتے ہوئے غیر مسلم جج تو بار بار قرآن سے دلائل پیش کرتاہے اس کےبرعکس ہمارے علماء اپنے دفاع میں دستور کا سہارا لیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ مذہبی آزادی سےمتعلق ہے جس کی ضمانت ہمیں دستور ہند نےدی ہے۔ بورڈ نے اپنے حلف نامے میں طلاق ثلاثہ کی حمایت میں جو دلیلیں دی ہیں وہ بھی قرآنی حوالے سےیکسر خالی ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ اگر طلاق ثلاثہ کی سہولت پر روک لگائی گئی تو اندیشہ ہے کہ مسلمان مرد اپنی بیویوں کوزندہ ہی جلا ڈالیں ۔ یہ تو کچھ ایسی ہی بات ہوئی جیسے کوئی یہ کہے کہ مجرم کو اگر زنا سے روکاگیا تو اندیشہ ہے کہ وہ قتل کے درپے ہوجائے ۔ مسلم مردوں کی یہ خونخوارتصویر مودّہ اور رحمہ پر قائم ہونے والے معاشرے کی تصویر ہر گز نہیں ہے ۔ یہ یقیناً نبی رحمت کےوارثین کی تصویر نہیں ۔ بورڈ کو چاہیے کہ سڑکوں پر عوامی تحریک چلانے سے پہلےڈھنگ کاکوئی وکیل ہی مقرر کرلے ۔
ادھر دہلی میں بورڈ کے ‘ جواں سال’ سیکریٹری جنرل نےجو پریس کانفرنس کی ہے اس میں بھی انہوں نےاپنےموقف کی صلابت پر قرآن و حدیث سے کوئی استشہاد فراہم کرنے کےبجائے صرف یہ کہنے پہ اکتفا کیا ہےکہ ان کے پاس ایسے اعداد و شمارموجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ طلاق کاتناسب مسلمانوں میں دوسری اقوام کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔انہوں نے شکایت آمیز لہجہ میں کہا کہ میڈیا خواہ مخواہ اسےبڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ دین و شرع کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں کے دل و دماغ امت مختار کی غیر معمولی عظمت سے کیوں خالی ہیں۔ غیر اقوام کابھلا ہم سے کیا مقابلہ؟ کیا دوسروں کی غلط کاریاں ہمارے گناہوں کےبوجھ کو کم کرسکتی ہیں؟
مجھے اندیشہ ہےکہ اگر بروقت اس غلغلہ انگیز قومی لڑائی کے غبارےسےہوا نہ نکالی گئی تو مسلمان بی جےپی کےبچھائے ہوئے جال میں بری طرح پھنس جائیں گے ۔ان کی تعمیر و ترقی اور تعلیم و تعلم کے تمام منصوبے دھرے کےدھرے رہ جائیں گے ۔ اس ملک میں تحفظ شریعت کی سیاست بہت ہوچکی ۔ ہمارےاصحاب شرع کو جاننا چاہئے کہ شریعت تحفظ کے لیےنہیں بلکہ نفاذ کے لیے نازل کی گئی ہے ۔ محض خالی خولی طلسم آمیز ناموں سے شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے ۔ نہ کسی غیر اسلامی نظام کے اندر امارت شرعیہ کا قیام ممکن ہے او رنہ ہی قوت نافذہ سے تہی دست کوئی شخص امیر شریعت ہونےکا دعویٰ کرسکتا ہے ۔ جو لوگ ان مغالطہ آمیز اصطلاحوں کے ذریعہ اس ملک میں کار بار شریعت کی علمبرداری کادعویٰ کرتے ہیں انہیں نہ تو مسلمانوں کی ملی زندگی کا کوئی شعور ہے او رنہ ہی ان کے دل و دماغ شریعت کی اصل عظمت پر آگاہ ہیں۔
صورتحال کی نزاکت اس بات کی طالب ہے کہ مسلمانوں کےاہل نظر، غیر سیاسی علماء و دانشور ،ملی تنظیمیں اور تمام ہی قسم کے پرسنل لاءبورڈ خواہ وہ شیعہ ہوں یا دیوبندی ،عو رتوں کے ہوں یا بریلویوں کے یہ سب از سر نو ایک اجتماعی غور و فکر کا ڈول ڈالیں ۔ تاریکی جب گہری ہوجائے اور ایسا محسوس ہو کہ ہمارا قافلہ بےسمتی کا شکار ہوگیا ہے تو لازم ہے کہ محض شوق سفر پر اسرار کے بجائے ہم پھر سے وحی ربانی کی تجلّیوں سےاپنی راہوں کومنور کرلیں ۔ کاش کہ مسلمانوں کے اہل فکر طلاق ثلاثہ او رنکاح حلالہ پر اصرار کرنے او راسے ملی وقار کامسئلہ بنانے کے بجائے اس کی درستگی کے لیے خود آگے آتےاو رکورٹ پر یہ واضح کرسکتے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں ان دو مسائل کی درستگی کےلیےتو ہم تیار ہیں البتہ تعددازواج کی جو گنجائش شرع نے مخصوص حالات کے لیے رکھی ہے اس کی حکمت ہم سے کہیں بڑھ کر خالق کائنات جانتا ہے ۔ اس قسم کی ترمیم و تنسیخ ہم بندوں کےدائرہ اختیار سے باہر ہے ۔ گویا فہم شرع پر تو ہزار گفتگو ہوسکتی ہے البتہ نفس شرع پر کلاممکن نہیں ۔
دسمبر 2016 ، بشکریہ : ماہنامہ صو ت الحق ، کراچی
URL: