رشید پروین
21 دسمبر،2021
’’ اے ایمان والوں اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو
اور تم میں سے جو صاحب اختیار ہیں ، ان کی اطاعت کرو اور اگر تم میں اختلاف ہو تو
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آؤ ، اگر تم اللہ اور آخرت
پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے ‘‘۔(سورۃ النساء 59)۔ صاف اور واضح
پیغام یہ ملتاہے کہ اسلام منقسم وفاداری کی مسترد کرتا ہے، آدھا تیتر اور آدھا
بٹیر والا معاملہ کسی بھی صورت نظام شریعت میں قبول نہیں، اس لئے اس بات کی اسلام
میں کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ کو خالق ومالک کائنات بھی تسلیم کرے ، اور ریاست کو
اعلیٰ ترین مختار بھی تسلیم کرے، ظاہر ہے کہ اعلیٰ ترین اختیار اللہ ہی کا ہے نہ
کہ کسی او رکا ’’ کہہ دو میری نماز، میری قربانی، اور میرا مرناجینا سب اللہ ہی کے
لئے ہے جو دونوں جہانوں کا خالق و مالک ہے‘‘۔ ( سورۃ الاانعام :162)تاریخی طور پر
جائزہ لیا جائے تو یورپ نے اسلامی ریاست کا یہ تصور ہی ختم کردیا ، اور اس کا بھی
اہتمام کیا کہ کبھی او رکسی ملک میں اسلامی ریاست اور اس کا تصور بحال ہی نہ ہو’’
ایک طویل مدت سے کہیں کہیں کوششوں کے باوجود اسلامی ریاست بحال نہیں ہوپارہی اس کی
وجوہات یہ ہے کہ حجاز پر تسلط کی حامل سعودی حکومت کبھی خلافت کو بحال نہیں ہونے
دے گی، او رکہیں او رسے خلافت بحال کرنے کی کوشش حرمین شریف تک رسائی نہ ہونے کی
وجہ سے ناکام ہی ہوگی۔
عصری تاریخ اس بات کی گواہ
ہے کہ سعودی حکومت نے ہمیشہ اور ہر وقت ان تحریکوں کو کچلنے او ردبانے میں اپنا
زور دار کردار اداکیا جو اسلامی نظام حیات کی بات کررہی تھیں اخوان المسلمون او
رماضی قریب میں عرب امارات میں اسلامی تحریکیں جنہیں عرب بہار کے نام سے موسوم کیا
گیا‘ ان تحریکوں کو ختم کرنے کیلئے اوربادشاہی اور غیر اسلامی نظام کو مسلمانوں کے
سروں پر مسلط رکھنے کے لئے سعودی حکومت نے ان تحریکوں اور ان کے رہبروں کو کچلنے
میں پیٹرو ڈالرس کی ندیاں بہادیں‘‘اصل معاملہ یہ ہے کہ یورپ نے خلافت کو کئی
وجوہات کی بنا پر اپنی راہ کا کانٹا سمجھا اور اس بات کا تہیہ کیا کہ اب کہیں اور
زمین کے کسی خطے میں خلافت کا نظام قائم نہیں ہونے دینا ہے ، اور اس کا مقصد اس کے
سوا اور کچھ نہیں تھا کہ یہودیوں کو ارض مقدس میں او رپھر سعودی سرزمین پر بسایا
جائے اور تمام عالم اور انسانیت کو لادینی سیکولر، اور خدا بیزار شرک وفتنہ فساد
میں مبتلا کیا جائے، تاریخ بتاتی ہے کہ خلافت کا خاتمہ ترکی کے لئے سیکولر ترکی پر
منتج ہوا ۔ اور اسلام کے قلب سے (حجاز مقدس میں سعودی عرب کی مطلق العنان ریاست
ابھر کر سامنے آئی، 1916 میں برطانوی حکومت اور عبدالعزیز ابن سعود کے درمیان
معاہدہ ہوا او ربرطانوی حکومت کو اس کی قیمت صرف 5000 برطانوی پاؤنڈ استرلنگ فی
ماہ ادا کرنے پڑے اور دورسری طرف شریف مکہ جو ترکی کے گورنر تھے کے ساتھ بھی
معاہدہ کیا جس سے ترکی حکومت سے بغاوت کرنے پر 7 ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ رقم ادا کی گئی،
جس نے برطانیہ کو اپنے عزائم میں کامیاب کردیا، یہ سب نئی مملکتیں اسلام کے پردوں
میں بادشاہت اور اندرون خانہ سیکولر خدوخال رکھتی تھی کیونکہ یہ ریاست سودی اور
دوسرے معاشرتی قوانین کے ستونوں پر کھڑی تھیں، او راب یہ پوشیدہ خد و خال محمد بن
سلیمان کے عہد میں پوری طرح واضح و عیان ہوکر سامنے آرہے ہیں جس میں اسرائیل کے
ساتھ نہ صرف مفاہمت شامل ہے بلکہ اسرائیلیوں کو سعودی عربیہ میں باضابطہ شہریت
دینے کی باتیں تک ہورہی ہیں او ریہ دور اس لحاظ سے بھی عالم اسلام کے لئے المیہ سے
کم نہیں کہ وہ ساری چیزیں حلال ٹھہرائی جارہی ہیں جن کا اسلام کے ساتھ دور کا ساتھ
واسطہ بھی نہیں ، ماڈر نائزیشن کے نام پر شراب خانے ، تفریح گھر ، سنیما ، مغرب ہی
کے انداز کا مخلوط نظام حیات وغیرہ او رہر شعبے میں یورپی تقلید ، یہ بتانے کیلئے
کافی ہے کہ اپنے آپ کو حرمین شریف کے خادمین کہنے والے حکمراں ’’ اسلام کے ساتھ
کس قدر ہم آہنگی اور انسیت رکھتے ہیں؟ ‘‘ اسلامی نظام حیات کے خد وخال نظام خلافت
پر مبنی ہوتے ہیں، خلافت موروثی نہیں ہوتی، اس کااعلان حضرت امام حسین علیہ السلام
نے میدان کربلا میں اپنا اپنے سارے گھر انے کے سر کٹواکر کیا،خلیفہ کا کام نظام
اسلام قائم کرنا او رساری رعایا کے لئے انصاف و عدل قائم کرنا ہے ، عدلیہ حاکم او
رحکومت سے آزاد ہوتی ہے او رکسی بھی وقت خلیفہ الوقت کو بھی کسی بھی معمول آدمی
کی شکایت پر کٹہرے میں جوابدہی کے لئے کھڑا ہونا پڑتا ہے ، یہ اسلامی ریاست تصور
ہے اور ان ہی خطوط پر قرونِ اولیٰ کی اسلامی ریاستیں قائم تھیں، عصر حاضر میں دنیا
کا کوئی مسلم اکثریتی ملک اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتا بشمول پاکستان کے ۔
اب حالیہ تبلیغی جماعت سے
متعلق سعودی فیصلے سے اگر چہ مسلم دنیا متحیر ہے لیکن غیر مسلم بھی اس فیصلے پر
اپنی حیرت کا اظہار کررہے ہیں کیونکہ جہاں تک تبلیغی جماعت کا تعلق ہے ان کی دینی
خدمات سے متعلق اسلامی ممالک او ر مسلمانوں کے اندر بھی کئی نقطۂ نظر سامنے آتے
رہے ہیں، اور دنیا کی کسی بھی غیر مسلم سرکار نے تبلیغی جماعت پر کوئی پابندی نہیں
کی ہے او ردیکھا جائے تو بہت ساری سرکاریں او رممالک اس جماعت کے لئے کئی طرح کی
سہولیات بھی بہم رکھتی ہیں، کیونکہ ایک بہت بڑی جماعت مسلمانوں میں ایسی ہے جو
سمجھتی ہے کہ تبلیغی جماعت زمینی سطح پر مسجدوں ، جنت وجہنم او رمحلہ وار گشت تک
محدود ہوکر دنیا کے انقلاب ، سائنس وٹیکنالوجی کے پس منظر میں اسلامی مملکتوں کے
تقاضے ، کفر کی سازشوں او ربین الاقوامی اسلام دشمن او رمسلم دشمن منصوبوں پر نہ
تو کبھی بات کرتی ہے اور نہ انہیں سمجھنے او رمستقبل کے لئے ان کے اثرات ہی کے
بارے میں زباںکھولتی ہے، عظمت خان نے کئی برس مذہبی جماعتوں سے متعلق معلومات بہم پہنچائی
ہیں، ان کا خیال ہے تبلیغی جماعت کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں رکھتی ، یہ لوگ سیاست میں
ملوث نہیں ہوتے ، بظاہر اسلامی کی بات کرتے ہیں جس میں لوگوں کو کلمہ،نما ز اور
عربی میں دعائیں یاد کراتے او رقرآن سکھاتے ہیں، ایک طرح سے کہا جاسکتاہے کہ یہ
جماعت دین اورسیاست کو الگ الگ خانوں میں رکھتی ہے، او ر اپنے معاشرے یا سماج میں
ابھرتے مسائل سے مکمل دوریاں بنا کر مست مولا قلندروں کی طرح اپنے مراقبوں میں مگن
رہتی ہے ، او ریہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ جماعت دنیا کے کئی ممالک میں اب خاصی بڑی
تعداد میں موجود ہے، کیونکہ یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنے کے قائل ہی نہیں، اس
لئے ہر ریاست یہ اچھی طرح سمجھتی او رمانتی ہے کہ یہ لوگ کسی بھی طرح نہ تو سیکولر
ممالک کے لئے خطرات کے موجب ہیں اور نہ مسلم بادشاہتوں کیلئے ہی وجہ پریشانی ہے،
ان حالات اور حقائق کے پس منظر میں سعودی فرمانروا کا اس جماعت پر پابندی بے شک
حیران کن بھی ہے اور تعجب خیز بھی ، اخوان اور جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں جو دین
اور سیاست کو ایک ہی سکے کے دو رخ مانتی ہیں اور اس بات کا برملا ایجنڈا رکھتی ہیں
کہ ( دین سیاست سے جدا ہو تو رہ جاتی ہے چنگیزی) کیلئے بیر اور پابندیاں سمجھ میں
آنے والی باتیں ہیں لیکن سعوعی ولی عہد محمد بن سلیمان کا فیڈ بیک یا نظریہ
تبلیغی جماعت کے متعلق کیا ہے یہ اس پر پابندی عائد کرنے سے واضح ہے،یہ دلچسپ بات
ہے کہ بہت پہلے سے تبلیغی جماعت کو جس سے سعودی عربیہ میں ’احباب‘ کے نام پر چلایا
جارہا سرکاری سطح پر موافق تنظیموں میں شمار نہیں ۔
اس کی وجوہات سیوخ سید کے
خیال میں اس طرح سے ہیں، سیوخ لکھتے ہیں کہ ’’احباب‘‘ یعنی تبلیغی جمات میں بے
شمار لوگ سعودی فرمانروا کے شدید مخالف ہیں ، تبلیغی جماعت پر پابندی کی یہ بھی
ایک وجہ ہے کہ سعودی عربیہ میں اسلام کی تشریح ،اسلامی قوانین و دعوت اور تبلیغ
جیسے سارے معاملات کے حقوق سرکار یعنی سعودی شاہوں کے نام محفوظ ہیں، اور سرکاری
اداروں کے بغیر اور شاہوں کی منظوری کے بغیر او رکوئی تشریح ،یا فتویٰ کہیں سے
منصہ شہود پر آنے ہینہیں دیا جاتا، اخوان او ران کے لٹریچر پر بھی یہ قدغنیں
عائدہیں ، سعودی شاہوں کا فیڈ بیک یہ بھی ہے کہ اس جماعت میں دہشت گرد بھی پیدا
ہوتے ہیں، یہ سراسر جھوٹ او ربہتان ہے کیونکہ تبلیغی جماعت کے بغیر کچھ تنظیمیں
اگر چہ جہد مسلسل کی باتیں کرتی ہیں اور شمشیر و سناں کو ہی بقول علامہ اولین سمجھ
کر اس کے بعد طاؤس و رباب کی بات کرتی ہیں لیکن تبلیغی جماعت میں ایسا کچھ نہیں‘‘
ان سب باتوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سعودی شاہوں نے جو اصلاحات
کے نام پرماڈرنائزیشن شروع کی ہے جو یورپ کی اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں ، وہ ان
نام نہاد اصلاحات کو بڑی تیزی او رجلدی سے پایہ تکمیل تک پہنچا ناچاہتی ہے او
رسمجھتی ہے کہ راستے میں بے ضرر اسلامی تنظیموں کوبھی اخوان ،جماعت اسلامی اور
دوسری اس جیسی تنظیموںکے دائرے میں رکھ کر ہی اپنے عزائم کی تکمیل آسان اورسہل
ہوسکتی ہے تاکہ کسی بھی موڑ پر کہیں سے بھی کوئی ایسی صدائے بازگشت نہ سنائی دے جو
محمد بن سلمان کے ارادوں پر کوئی باندھ باندھنے میں معاون ہوسکتی ہو۔
21 دسمبر،2021 ، بشکریہ : روز نامہ چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism