رشید قدوائی
28اکتوبر،2020
کرۂ ارض پر موجود ہر
مسلمان کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ قدرت کے ہر پہلو کا مطالعہ کرے۔ اس کی کاریگری پر
غوروفکر کرے۔ فطرت کے ہر پہلو کی تحقیق کرے اور اس غوروفکر، مطالعہ و تحقیق کی مدد
سے تمام انسانوں کو مستفید کرتا رہے۔ جس سے حیات انسانی آسان ہو۔ تخلیق کائنات کے
پیچھے منشاءِ خداوندی یہی ہے۔ انسانوں و اس کائنات کی تخلیق کا مقصد اللہ کی بنائی
کائنات پر غوروفکر کرتے ہوئے اس کے احکامات پر چلنا، اس کے آگے خود سپردگی ہے۔
یہی اصل عبادت ہے۔ معروف ادیب و مفکر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق
وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی تازہ کتاب ’دی سائنٹفک مسلم‘ یہی پیغام دیتی
ہے۔ڈاکٹر پرویز خود ایک معتقد مسلمان ہیں۔ اپنی اس فکر انگیز کتاب میں انہوں نے یہ
نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ عبادات محض جسمانی رسم ادائیگی یا کچھ آیتیں پڑھ لینے کا
نام نہیں ہے۔ ہماری عبادات تب تک مکمل نہیں مانی جائیں گی جب تک کہ ہم اس میں علم
کی جستجو کی فکر شامل نہ کریں گے۔ اپنی سابقہ کتابوں کی مانند اس کتاب میں بھی
ڈاکٹر اسلم پرویز نے مدارس کی تعلیم اور ان کے نصاب پر بات کی ہے۔ وہ مدارس کو
مذہبی تعلیمات کے ساتھ جدید علوم کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے حامی ہیں اور چاہتے
ہیں کہ مدارس دینیاپنی ہ تدریس و نصاب کو اپ ڈیٹ کریں ناکے ،جس پر وہ ۲۰۰؍
سال سے جمے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ منصوبہ بند ڈھنگ سے مدارس میں جدید علوم کی
تعلیم کا نظم کرنے کے ساتھ اسکولوں میں بھی قرآنی تعلیمات کا انتظام کیا جائے۔
قرآن و سائنس پر گہری
نظر رکھنے والے ڈاکٹر اسلم پرویز نے علم سے متعلق قرآن کی متعدد آیتوں کا اپنی
اس تصنیف میں نہ صرف ذکر کیا ہے، بلکہ کائنات کا نظام چلانے سے ان کی مطابقت بھی
ظاہر کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کرہ ارض پر حضرتِ انسان کو اللہ تعالیٰ کا نائب و
خلیفہ بنائے جانے والی بات سے بھی بحث کی ہے۔ انہوں نے محنت شاقہ کر کے یہ امر
ثابت کر دیا ہے کہ حسیاتِ انسانی اور قوت مشاہدہ کے ذریعے علم کا تجسس اور منطق کا
استعمال خدا کے تمام بندوں پر لازم کر دیا گیا ہے۔کتاب میں تاریخ انسانی اور اسلام
کا مطالعہ کرتے ہوئے فاضل مصنف نے یہ نکتہ بھی پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت،
یہ زمین و آسماں اور ان کے بیچ موجود تمام اشیاء کسی مقصد کے تحت بنائی ہیں۔ کائنات
کی تمام چیزیں کسی خاص مقصد سے ہی انسان کے تابع کی گئی ہیں۔ یہ ہمارے لیے قدرت کے
انمول تحفے ہیں، ان سے متعلق ربانی اشاروں پر ہماری خصوصی توجہ ہونی چاہیے۔ اگر ہم
ان چیزوں پر غوروفکر نہیں کرتے اور ان کی مدد سے اللہ تعالیٰ تک رسائی کی کوشش
نہیں کرتے، تب ہم حقیقی معنوں میں اس کے فرمانبردار بندے نہیں ہیں۔ سو جو اہل علم
و دانش معبود برحق کی تخلیقات پر غوروفکر کرتے ہیں، اس سے رب کائنات کی حقیقت
سمجھنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں، وہی اس کے سچے بندے ہوتے ہیں اور اس کی بارگاہ
میں خوشی خوشی سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔
قرآن و سائنس میں یکساں
دلچسپی رکھنے والے مصنف کے مطابق قرآن اپنے قارئین سے قدرت اور مظاہرِ قدرت کے
مسلسل مشاہدے پر اصرار کرتا ہے اور اسے اپنی آیتوں سے تعبیر کرتا ہے۔ ان آیات
میں خالقِ کائنات یعنی اللہ تعالیٰ کی حقانیت کے اشارات پوشیدہ ہیں۔ اگر ہم ان آیات
کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کو سمجھ سکتے ہیں: کیا کافر
لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین منہ بند ملے جلے تھے۔ پھر ہم نے انہیں
کھول کھول کر جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔ کیا یہ لوگ پھر
بھی یقین نہیں کرتے۔ اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیے تاکہ وہ مخلوق کو ہلا نہ سکے
اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، تاکہ وہ ہدایت حاصل کریں۔ آسمان کو محفوظ
چھت بھی ہم نے ہی بنایا ہے، لیکن لوگ اس کی قدرت کے نمونوں پر دھیان ہی نہیں
دیتے۔(سورۃ الانبیاء۲۱،۳۰تا۳۲)
ان آیات میں قرآن کریم
واضح کر رہا ہے کہ کرہ ارضی و جنت پہلے ایک دوسرے سے متصل تھے، بعد میں انہیں
ہمارا نظام شمسی قائم کرنے کے لیے الگ الگ کیا گیا۔ دوسرے یہ زندگی کا آغاز پانی
میں پانی سے ہونا بتاتی ہیں۔ ان باتوں کا مطالعہ کر کے سائنس کے ایک طالب علم کو
فوراً ان کا ربط سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ اس کے سامنے یہ امر بھی واضح رہتا ہے کہ
یہ تمام باتیں ایک ایسی کتاب میں بیان کی گئی ہیں، جس کا نزول ۱۴؍سو
سال پہلے ہوا ہے۔ اپنے نزول کے وقت سے ہی اسے حفظ کیا جا رہا ہے اور کروڑوں لوگ اب
تک اسے حفظ کر چکے ہیں۔ ساتھ ہی یہ اب تک کسی بھی قسم کی تحریف و افراط و تفریط سے
پاک ہے۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے یہ منطق و دلائل پیش کرتی ہے۔ یہی نہیں ان
آیات کے آخر میں یہ چیلنج بھی کیا گیا ہے کہ ’کیا وہ اب بھی یقین نہیں کریں گے؟‘
آل عمران(۳) جیسی
سورتوں میں گھما پھرا کر بات کہنے کا اسلوب بھی اختیار کیا گیا ہے۔ (آیات ۱۳۰۔۱۳۱)
ڈاکٹر پرویز لکھتے ہیں کہ
تخلیقِ کائنات میں قدرت کی کاریگری کا مشاہدہ کرنے والے اُس کی صناعی میں محو ہو
کر رہ جاتے ہیں اور اس بے مثال تخلیق کار کی حمد و ثنا میں رطب اللسان ہو جاتے
ہیں۔ وہ پاتے ہیں کہ بنا کسی طاقتور دوربین کی مدد لیے، محض آنکھوں سے نظر نہ آ
پانے والے ایک مہین خلیے(سیل) میں پورا جہان پوشیدہ ہے۔ اس کی نہ صرف باہری حدود
ہیں، بلکہ اس میں سائٹوپلازم جیسا رقیق مادہ بھی ہے، جس میں خلوی عضو تیر رہے ہیں۔
ان میں ایک قطعی نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔ یہی نہیں خلوی عضو میں بھی مائٹوکونڈرائن
یا کلوروپلاسٹ موجود ہے اور اس میں سیکڑوں کیمیائی اجزاء بھی ہیں، چھوٹے اور بڑے
مولیکیولس اور اینزائمس بھی ہیں۔ انہیں باندھنے یا ایک ہی جگہ محدود رکھنے کے لیے
بوتل یا کنٹینرس جیسی کوئی شے نہیں ہے، پھر بھی وہ آزادانہ کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔
ان کا ہر ردعمل کسی مخصوص وقت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب ضرورت ہوتی ہے یہ مادے متحرک
ہو جاتے ہیں اور مقصد پورا ہونے پر غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ ظاہر اس حیرت کدے پر
غوروفکر کرنے والے کے لیے یہ عوامل بہت اہم ہوتے ہیں اور اس کی رسائی خالق کائنات
کی عظمت تک کراتے ہیں۔فاضل مصنف کے مطابق تخلیقِ کائنات کے پیچھے خالق کائنات کی
حکمت سمجھنے کے لیے سائنٹفک علوم پر دسترس و سائنٹفک ایٹی ٹیوڈ کی سمجھ لازمی ہے۔
قرآن میں اس کی جانب جابجا اشارات کیے گئے ہیں۔ عالمِ انسانی کے سامنے اس وقت جو
چیلنجز ہیں، ان کا سامنا کرنے کے طور طریقے قرآن مجید میں موجود ہیں۔ اور جو
قوانین فطرت پر غوروفکر نہیں کرتے، ان کے لیے سورہ الانفال (۸) میں کہا گیا ہے،’یقیناً
تمام جانداروں سے زیادہ برے اللہ کے نزدیک وہ بہرے گونگے ہیں، جو کچھ بھی عقل نہیں
رکھتے‘(۲۲)
28اکتوبر،2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-quran-science-/d/123302
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism