تارا کیری برائے نیو ایج اسلام
29 نومبر 2024
افریقہ بھر میں، عصمت دری ایک عام جرم کی شکل میں رائج ہے۔ نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح عصمت دری کے حوالے سے ناکافی مجرمانہ کارروائی، قانون کا ناقص نفاذ، عصمت دری کے افسانے، اور متاثر کو ہی مجرم بنا دیا جانا، انصاف کی راہ میں رکاوٹیں بنی ہوئی ہیں جن کا سامنا متاثرین کو کرنا پڑتا ہے۔ یہ رکاوٹیں ایسی ہیں جو بہت سے مقدمات کو عدالت تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں، جس کے نتیجے میں سزائیں بھی کم ہوتی ہیں، اور زیادہ تر مجرمین سزا سے بچ جاتے ہیں۔ اس سے متاثرین انصاف اور امدادی خدمات تک رسائی سے محروم رہ جاتی ہیں۔
Representative Photo from Files
-------
انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خلاصہ:
اکویلیٹی ناؤ (Equality Now) کی ایک نئی رپورٹ '(Barriers to Justice: Rape in Africa, Law Practice and Access to Justice)، جس میں 47 افریقی ممالک میں عصمت دری کے قوانین اور ان کے نفاذ کا جائزہ لیا گیا ہے، اور کیمرون، ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو، مڈغاسکر، روانڈا، سینیگال، سیرا لیون، جنوبی افریقہ، جنوبی سوڈان، اور زیمبیا کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
اگرچہ کچھ افریقی ممالک میں عصمت دری کے حوالے سے ترقی پسند قوانین نافذ کیے گئے ہیں، لیکن کچھ بڑی قانونی، پروسیجرل، اور سماجی رکاوٹیں جنسی تشدد کے شکار لوگوں کو انصاف سے محروم کر رہی ہیں۔ عصمت دری کے مجرمین کو بری کیے جانے کے کلچر کو فروغ دینے، عدالتی نظام سے اعتماد کو ختم کرنے، متاثرین کی تکلیف کو بڑھانے، اور جنسی تشدد کی وسیع پیمانے پر کم رپورٹنگ کا سبب، قانونی فریم ورک کی خامیاں اور صنفی امتیازات دونوں ہی ہیں۔
انسانی حقوق کے وکیل اور رپورٹ کے سرکردہ قلم کار، جین پال مرونگا کا کہنا ہے کہ "افریقہ بھر میں عصمت دری کے قوانین کا جائزہ لینے کے بعد، یہ واضح ہوتا ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے، حکومتوں کو فوری طور پر عصمت دری کے قوانین میں جامع قانونی اصلاحات کرنے، نفاذ کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے، اور انصاف تک ان کی رسائی اور مدد کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
عصمت دری کی تنگ قانونی تعریفیں
عصمت دری کی قانونی تعریفیں انسان کی رضاکارانہ، حقیقی اور رضامندی پر مبنی ہونی چاہئیں، جس میں جنسی تعامل کے دوران کسی بھی وقت ترمیم کی جا سکے، یا اسے واپس لیا جا سکے، اور اس کا اطلاق ہر قسم کے جنسی عملوں پر ہونا چاہیے۔ مجبوری یا انتہائی خطرے کے حالات میں حقیقی رضامندی ناممکن ہے، مثال کے طور پر، تعلیمی اداروں میں، اصلاحی اداروں میں، یا جب کوئی شکار معذور ہو، مثلا نشے میں ہو یا ذہنی طور پر کمزور ہو۔
عصمت دری کی قانونی تعریفیں مختلف ہوتی ہیں، جن میں سے بعض میں غیر رضامندی سے جنسی عمل یا عوامل شامل ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ اس تناظر میں، 25 افریقی ممالک کے پاس ایسے پینل کوڈ ہیں جو ناقص یا مبہم ہیں، اور بین الاقوامی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ عصمت دری کی تعریفیں جسمانی طاقت کے استعمال، دھمکیوں، یا تشدد کے حقیقی استعمال پر مبنی ہیں، جبکہ ایسی عصمت دری جس میں ڈرانا دھمکانا، جبر و تشدد، دھوکہ دہی، اور غیر مساوی طاقت کا استعمال ہوا ہو، اسے بجا طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے کہ عصمت دری کی قانونی تعریف میں، کچھ طریقوں، جسم کے اعضاء، یا اشیاء کے استعمال کو چھوڑ کر، غیر رضامند جنسی عمل کے تمام اعمال شامل ہوں۔ بعض صورتوں میں، دخول کی مخصوص قسموں کو ہلکے جرمانے کے ساتھ کم درجے کا جرم قرار دیا گیا ہے جو کہ غلط ہے، جس سے اس جرم کی شدت کم ہو جاتی ہے۔
وہ قوانین جن کے ذریعے عصمت دری کی درجہ بندی کی گئی ہے
بین الاقوامی معیارات کا تقاضا ہے کہ عصمت دری کی سزائیں مؤثر، جرم کی شدت کے متناسب، اور مستقبل میں ہونے والے جرائم کو روکنے کے لیے کافی ہوں۔ کچھ ممالک میں نرم سزا دینے کا رواج ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عصمت دری کوئی سنگینی جرم نہیں ہے۔
مرنگا کہتی ہیں، "عصمت دری کی تنگ قانونی تعریفیں مقدمات کی قانونی کاروائی میں، انصاف کے خلا کو تقویت دیتی ہیں اور اسے مزید وسیع کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مجرم باعزت بری ہو جاتے ہیں یا کچھ جرائم ہلکے ثابت ہو جاتے ہیں، جن پر معمولی جرمانے لگائے جاتے ہیں۔ عصمت دری میں اس طرح کی درجہ بندی سے یہ اصول کمزور ہو جاتا ہے، کہ تمام انسانوں کو اپنے جسم پر پورا کنٹرول حاصل ہے۔
"بھاری بھرکم اور بھید بھاؤ پر مبنی ثبوت کے تقاضے، جن میں جسمانی چوٹ کے ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اس سے یہ سارا بوجھ متاثرین پر آ جاتا ہے، کہ وہ یہ ثابت کریں کہ انہیں جسمانی طور پر زد و کوب کیا گیا ہے۔ اس سے استغاثہ اور سزا کے معاملے میں ایک غیر معقول معیار قائم ہوتا ہے، اور متاثرین کی رضامندی کی عدم موجودگی کا اصل مسئلہ نظر انداز ہو جاتا ہے۔
دھبہ اور مضرت رساں صنفی تصورات
20 افریقی ممالک میں عصمت دری کی رضامندی پر مبنی تعریفیں ہیں۔ تاہم، جنسی تعلقات کے حوالے روایتی مزاج اور معاشرتی مزاج، عصمت دری کے افسانوں اور مظلومین کو ہی ملزم ٹھہرائے جانے کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے، جس سے قوانین کی تشریح اور ان کا نفاذ کمزور ہو جاتا ہے۔ اہلکار عصمت دری کے مقدمات کی تفتیش کرنے، مقدمہ چلانے، یا ملزمین کو مجرم قرار دینے سے منع کر سکتے ہیں، جب تک کہ کوئی جسمانی ثبوت نہ ملے، خاص طور پر کوئی ایسا ثبوت جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہو کہ متاثرہ نے مزاحمت کی ہے۔
عدالت اپنی صوابدید پر الزامات کو کم کر سکتی ہے، یا متاثرین کے رویے سے متعلق صنفی تصورات کی بنیاد پر، شواہد کی وضاحت کر سکتی ہے۔ بہت سے علاقے طاقت، اخلاقیات، یا حالات پر زور دیتے ہیں، اور صنفی امتیازی تصورات مثلا "عزت" اور "شرم و حیا" کا اطلاق کرتے ہیں۔ اس سے متاثرین کے رویے اور ان کی "عفت و پارسائی" کے حوالے فیصلوں کے بارے میں تعصب و تنگ نظری پیدا ہو جاتی ہے، اور یہ بات پیدا ہو جاتی ہے کہ کیا عصمت دری کا شکار ہونے پر وہ انصاف کے مستحق ہیں یا نہیں۔
عصمت دری کے متاثرین اور ان کے خاندان والوں کو اکثر بدنامی، الزامِ جرم اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بالعموم متاثرین پر خاموش رہنے، مجرمانہ شکایات واپس لینے، اور غیر رسمی ثالثی کے ذریعے مقدمات کا ماورائے عدالت تصفیہ کرنے کا دباؤ بھی بنایا جاتا ہے۔
استوائی گنی میں، ماورائے عدالت تصفیوں کی قانونی طور پر اجازت ہے، کہ عصمت دری کا شکار ہونے والے، مجرم کو کھلے یا چُھپے طور پر معاف کر دیں۔ اس سے متاثرہ کا تحفظ نہیں ہو پاتا، جسے ممکن ہے کہ انہیں نظامِ انصاف پر تھوڑا بہت بھروسہ ہو، لیکن وہ مصالحت کرنے پر مجبور کر دی جاتی ہے، کیونکہ اگر وہ انکار کرتی ہے تو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کر دی جائے۔ یہاں تک کہ ان ممالک میں بھی، کہ جہاں مصالحت کی قانونی طور پر اجازت نہیں ہے، اس کا عام رواج ہے۔
ازدواجی عصمت دری اور چائلڈ میرج
کچھ افریقی ممالک میں رشتہ ازدواج کے اندر عصمت دری کو جرم نہیں مانا جاتا۔ اس کی بنیا یہ غلط فکر ہے کہ رشتہ ازدواج کے اندر عصمت دری ثابت نہیں ہو سکتی، کیونکہ شادی کرنے پر رضامندی ظاہر کر دینا، بیویوں کی طرف سے اپنے شوہروں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی مستقل طور پر رضامندی کا اظہار ہے۔
سات ممالک نے واضح طور پر، میاں بیوی کو رشتہ ازدواج کے اندر قانونی چارہ جوئی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے، بشمول کوٹ ڈیوائر، ایتھوپیا، اور جنوبی سوڈان کے۔ کچھ ممالک، جیسے لیسوتھو اور اریٹیریا، صرف اس صورت میں رشتہ ازدواج کے اندر عصمت دری کو جرم مانتے ہیں، جب میاں بیوی ایک ساتھ نہ رہتے ہوں۔
ان ممالک میں جہاں بچوں کی شادی کی قانونی طور پر اجازت ہے، اور ازدواجی عصمت دری کو جرم قرار نہیں دیا جاتا، بچیوں کے حقوق کا کوئی محافظ نہیں ہوتا۔ ایک قانونی سقم اس کے لیے پیدا کر دیا گیا ہے، جسے بغیر شادی کے عصمت دری کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے، اور کم عمر بیویوں کو رشتہ ازدواج کے اندر، جنسی تعلقات، جنسی تشدد اور استحصال کے معاملات میں، بہت کم کسی طرح کا کوئی سہارا حاصل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، گبون میں یہ قانون ہے کہ، جب ایک اغوا کار نے اغوا شدہ نابالغ لڑکی سے شادی کر لی، تو اس صورت میں ان دونوں کے درمیان اس رشتہ ازدواج کے تحلیل ہونے کے بعد ہی، مجرم پر کوئی مقدمہ چلایا جانا ممکن ہے۔
مرنگا نے کہتی ہیں، "بین الاقوامی انسانی حقوق نے جو معیارات طئے کیے ہیں، ان کا تقاضا یہ ہے کہ حکومتیں عصمت دری کی تمام اقسام کو جرم قرار دیں، قطع نظر اس کے، کہ مجرم اور متاثرہ کے درمیان تعلق کچھ بھی ہے۔ رشتہ ازدواج کے اندر عصمت دری کو جرم قرار نہ دیا جانا، اس بات کو نظر انداز کرنا ہے کہ رشتہ ازدواج سے قطع نظر، جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے آزادانہ رضامندی ضروری ہے۔ قانونی طور پر اسے جرم تسلیم کر لیے جانے سے، قانون نافذ کرنے والے اداروں، استغاثہ اور ججوں کے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی، کہ رشتہ ازدواج کے اندر عصمت دری ایک سنگین جرم ہے، اور اس کے خلاف اسی کے مطابق مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
ناقص نظام
اس حوالے سے لوگوں میں کوئی بیداری نہیں ہے کہ عصمت دری کے مقدمات میں بہترین انصاف کیسے حاصل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ تفتیش کاروں، استغاثہ، گواہوں، اور عدالتی اہلکاروں کے درمیان مہارتوں اور وسائل کا ایک بہت بڑا خلاء پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ کثرتِ مقدمات طویل تاخیر اور مقدمات کے خاتمے کا سبب بنتے ہیں۔ دیگر رکاوٹوں میں ریاستی عملوں کے درمیان تعاون کا فقدان، بدعنوانی اور غیر مؤثر انداز میں ثبوتوں کا جمع کیا جانا اور ان کی جانچ پڑتال شامل ہیں۔
ہمیشہ ڈاکٹر موجود ہوتے نہیں، کہ وہ متاثرین کا معائنہ کر سکیں، تاکہ ثبوت اکٹھا کیا جا سکے یا میڈیکل رپورٹیں بنائی جا سکیں۔ کوٹ ڈی آئیور اور گنی میں، یہ قانون ہے کہ عصمت دری کا شکار ہونے والوں کو پولیس شکایت درج کرانے سے پہلے، میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرنا لازمی ہے، اور یہ ان علاقوں میں ایک بڑا چیلنج ہے جہاں بہت کم طبی سہولیات ہیں۔
تنازعات اور بحران کے دور میں عصمت دری کے واقعات بڑھ جاتے ہیں، جب قانون کی بالادستی مجروح ہو جائے اور قانونی، طبی، اور نفسیاتی امداد کی خدمات کا فقدان ہو تو متاثرین کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایتھوپیا، سوڈان اور ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو کے اندر تنازعات کے دور میں جنسی تشدد کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو ملا، جہاں عصمت دری کو لوگوں کی تذلیل، انہیں مجبور کرنے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے، جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
عصمت دری کے قوانین کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا
بہت سے افریقی ممالک کئی بڑے علاقائی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں پر دستخط کنندہ ہیں، مثلا پروٹوکول ٹو دی افریکن چارٹر آن ہیومن اینڈ پیپلز رائٹس، اور دی رائٹس آف وومن ان افریقہ (میپوٹو پروٹوکول)، اور کنونشن آن دی ایلمنیشن آف آل فارمز ڈسکریمنیشن اگینسٹ وومین (CEDAW)، وغیرہ۔ تاہم، افریقی حکومتیں ان معاہدوں میں بیان کردہ خواتین کے حقوق کو برقرار رکھنے کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہی ہیں۔
اس کو حل کرنے کے لیے، اکویلیٹی ناؤ (Equality Now) یہ تجویز پیش کرتا ہے، کہ عصمت دری کی تمام قانونی تعریفیں جامع اور متاثرین کے حق میں ہوں، جن میں اتنی مضبوطی ہو کہ ان کی مدد سے ہر قسم کے غیر رضامند جنسی تعلقات سے نمٹا جا سکے۔
مثال کے طور پر، روانڈا نے جنسی تشدد کے مقدمات کی تفتیش کرنے اور اس سلسلے میں مقدمہ چلانے کے لیے، متاثرین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نقطہ نظر کو فروغ دینے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ اس میں متعدد اضلاع میں صنفی بنیاد پر تشدد سے نجات کے مراکز کا قیام، متاثرین کے حق میں گواہوں کا تحفظ، طبی اور نفسیاتی و سماجی امداد، اور قانونی امداد فراہم کیا جانا شامل ہے۔ سینیگال نے عدالتی، قانونی اور نفسیاتی و سماجی خدمات پیش کرنے والی "(law shops) قانون کی دکانیں" قائم کرکے اسی طرح کا راستہ اختیار کیا ہے۔
اس سلسلے میں مؤثر انداز میں قانون کا نفاذ بھی اتنا ہی اہم ہے، انصاف کے مؤثر نفاذ اور مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے مضبوط میکانزم کی ضرورت ہے۔ اعتماد پیدا کرنے اور مقدمات کی قانونی کاروائی میں غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لیے، شفافیت پیدا کرنا اور جوابدہی طے کرنا ضروری ہے۔
متاثرین کو ایسے معاون نظاموں تک رسائی حاصل ہونی چاہیے، جو انہیں شفا یابی میں سہولت فراہم کریں، اور اگر وہ چاہیں، تو انہیں انصاف حاصل کرنے کا موقع بھی میسر ہو۔ قوانین، ریفرل سسٹم اور میکانزم کو جامع اور حساس ہونا چاہیے، جس میں معذور افراد کے لیے بھی گنجائش ہو۔ تنازعات کے ماحول میں، جنسی تشدد کی روک تھام اور اس کے نتائج سے، ایسی پالیسیوں کے ذریعے نمٹنا ضروری ہے، جن سے نقصان کم سے کم ہو اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
-----
English Article: Gaps In Rape Laws In Africa Are Enabling Perpetrators To Avoid Punishment
URL: https://newageislam.com/urdu-section/rape-laws-africa-enabling-perpetrators-punishment/d/133958
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism