سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
16مارچ،2024
پچھلے کچھ عرصے سے میں اردو
اخبارات میں حدسے زیادہ مذہبی مواد کی اشاعت کی طرف اہل اردو کی توجہ مبذول کرارہاہوں
۔ اس مسئلے پر میرے کئی مضامین اردو اخبارات میں شائع بھی ہوئے ہیں اور میں نے ذاتی
طور پر بھی کچھ اخبارات کے مدیروں کو ای میل کے ذرئعہ اس رجحان کی طرف توجہ دلائی ہے
لیکن اردو اخبارات کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
تمام زبانوں کے اخبارات بشمول
انگریزی اخبارات میں روحانیات اور مذہبیات پر بھی مخصوص کالم ہوتے ییں کیونکہ کچھ لوگ
مذہبیات اور روحانیات میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں اور چونکہ اخبارات سماج کے ہر طبقے
تک پہنچتے ییں اس لئے اخبارات کے ذمہ داران مذہبی مواد بھی شائع کرتے ہیں۔ ہندی اور
بنگلہ اخبارات میں بھی مذہبی کالم ہوتے ہیں۔ لہذا، اردو اخبارات میں بھی مذہبی کالم
یا مضامین کا شائع ہونا کوئی ایسی بات نہیں جس پر کسی کو اعتراض ہو۔ اردو اخبارات کے
قارئین پنجاب ، ہریانہ اور جموں و کشمیر کے علاوہ ریاستوں میں صرف مسلمان ہی ہوتے ییں
اس لئے ان میں حالات حاضرہ پر مضامین اور کالم شائع ہونے کے علاوہ اسلامی موضوعات پربھی
مضامین شامل ہوتے ہیں۔ خصوصاً جمعہ کے روز اردو اخبارات میں مذہبی مضامین کے لئے ای
پورا صفحہ وقف ہوتا ہے۔ لیکن اردو اخبارات اور دیگر زبانوں کے اخبارات میں مذہبی یا
روحانی مواد کی اشاعت میں نمایاں فرق یہ ہے کہ اسلامی تہواروں یا خصوصی ایام میں اردو
اخبارات ہر روز ایک خاص موضوع پر نصف صفحے یا پورے صفحے کے مضامین شائع کرتے ییں۔دیگر
زبانوں کے اخبارات کسی خاص موقع یا تہوار ہر مختصر سا کالم یا مضمون اخبار کے کسی گوشے
میں شامل کرلیتے ہیں۔ جبکہ اردو اخبارات میں مذہبی موقع پر اخبارات کے کئے صفحات میں
ایک ہی موضوع پر کئی مضامین شائع کئے جاتے ییں۔ کبھی کبھی کئی روز تک ایک ہی نوضوع
پر مختلف دینی کالم نگاروں کے مضامین کئی صفحات پر پھیلے ہوتے ییں۔ اس کی وجہ سے حالات
حاضرہ پر تبصرے اور مقامی اور بین الاقوامی خبریں کم شامل ہو پاتی ہیں۔مثال کے طور
پر شب برائت 15 شعبان کو منائی جاتی ہے اس رات کی عبادت نفل عبادت ہے لیکن اس نفل عبادت
کی فضیلت پر دس دن قبل سے یی مضامین شائع ہونے لگتے ییں اور ایک ہی موضوع پر دو دو
تین تین علماء کے مضامین ہرروز شائع ہوتے ہیں۔ یہی نہیں کچھ اخبارات میں بعد محرم یا
حسین کے مصداق شب برائت کے بعد بھی دوروز تک شب براءت کی فضیلت پر مضامین شائع ہوتے
رہتے ہیں ۔شاید ایسا اس لئے کے اخبار کے پاس صفحات بھرنے کے لئے مضامین نہیں ہوتے۔
شب براء ت کے گزرنے کے بعد رمضان کے استقبال اور اس ماہ کی فضیلت پر مضامین شائع ہونے
لگتے ہیں۔ اور ایک ہی دن میں اس موضوع پر دو تین مضامین شامل ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ
عید تک چلتا رہتا ہے۔
اب تو کچھ اخبارات میں ہرروز
بغیر کسی موقع و محل کے مذہبی مضامین اردو اخبارات میں شامل کئے جاتے ہیں۔ چونکہ مذہبی
مضامین کی کوئی تاریخی حد نہیں ہوتی ہے اس لئے انہیں کبھی بھی شائع کیا جاسکتا ہے۔عید
کے موضوع پر لکھا گیا مضمون ہر سال عید کے موقع پر شائع کیا جاسکتا ہے، شب براءت کی
فضیلت پر مضمون ہر سال شب براءت کے موقع پر شائع کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں ہرروز
ہزاروں اخبارات شائع ہوتے ہیں لہذا ، ہرروز ہزاروں کی تعداد میں مذہبی مضامین کی ضرورت
اخباروں کو پڑتی ہے۔تو کیا مذہبی نوضوعات پر مضامین لکھنے والے اتنی بڑی تعداد میں
ہیں۔؟ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ مذہبی موضوعات پر شائع کئے گئے گزشتہ برسوں
کے مضامین دوبارہ شائع کردئے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال رمضان کے دوران ایک اردو اخبار نے
رمضان پر ایک مضمون شائع کیا ۔اس مضمون میں آخر میں کووڈ اور لاک ڈاؤن کا بھی ذکر تھا۔ظاہر
ہے وہ مضمون کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران شائع ہوا تھا لیکن اخبار کے عملہ کے پاس اتنی بھی
فرصت نہیں تھی کہ وہ مضمون پر ایک سرسری نگاہ ڈال لیتا اور لاک ڈاؤن اور کووڈ سے متعلق
جملے حذف کردیتا۔ لہذا، یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ مذہبی مضامین پرانے شماروں سے نکال
کر دوبارہ سہ بارہ شائع کردئے جاتے ہیں۔
اردو اخبارات میں حد سے زیادہ
مذہبی مواد کی اشاعت کی ایک نہیں کئی وجہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے پاس حالات حاضرہ
اور سیاسی ومعاشی موضوعات و مسائل پر لکھنے والے قابل کالم نگاروں کے مضامین اتنی بڑی
تعداد میں نہیں آتے کہ ان سے اخبار کے سارے صفحات پر ہوجائیں۔ ان اخبارات کے پاس اتنی
مالی استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ پیشہ ور کالم نگار اور محقق رکھ سکیں۔ اخبار میں پارٹ
ٹائم جاب کرنے والے غیر پیشہ ور افراد رکھ لئے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی مدرسوں کے طلبہ
و فاضل بھی کم اجرت پر رکھ لئے جاتے ہیں۔ لہذا، ان اخبارات کے پاس مواد کی کمی ہوتی
ہے جسے وہ مذہبی مضامین سے پوری کرتے ہیں۔ اور بعض اوقات گزشتہ برسوں کے مضامین دوبارہ
شائع کردئے جاتے ہیں۔
چونکہ بیشتر اردو اخبارات
میں صحافت سے نابلد افراد کام کرتے ہیں چنانچہ انہیں اخبار کی ترتیب وتہذیب کا بنیادی
نصابی علم بھی نہیں ہوتا۔انہیں یہ بھی پتہ نییں ہوتا کہ اخبار کے ادارتی صفحے کی ترتیب
واہمیت کیا ہوتی ہے۔اس لئے کچھ پرانے اخبارات کو چھوڑ کر زیادہ تر نئے اردو اخبارات
کے ادارتی صفحے کو دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔ادارتی عملے کو اس بات کا بھی علم نہیں ہوتا
کہ اداریہ میں اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی کے مدنظر ملکی اور عالمی مسائل پر ایڈیٹر
یا مالکان کا نقطہء نظر پیش کیا جاتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ کچھ اخبارات کے اداریوں میں
رمضان اور شب قدر کی فضیلت بیان کی جاتی ہے۔ ادارتی صفحے پر قومی اور عالمی مسائل پر
سینئیر اور جہاندیدہ کالم نگاروں کے مضامین ہوتے ہیں۔ادارتی صفحے کی عمومی ترتیب یہ
ہے کہ ادارئے کے بغل میں سب سے اوپر کسی سلگتے ہوئے مسئلے یا موضوع پر کوئی مضمون ہو۔
اس کے نیچے کوئی ہلکے پھلکے موضوع پر مضمون ہو۔اردو میں کوئی فکایہ کالم شامل کرنے
کی روایت ہے۔ فکایہ کے نیچے مراسلات ہوں۔مختلف اخبارات میں یہ ترتیب تھوڑی مختلف ہوتی
ہے جیسے کلکتہ کے روزنامے آزاد ہند میں فکایہ کالم نمکدان از میاں نمکپاش سلمہ ادارتی
مضمون کی بغل میں ہوتا تھا۔انگریزی اخبار دی ٹیلیگراف کے ایک شمارے میں ادارتی کالم
کی بغل میں نیند کی صنعت پر ایک مضمون شامل تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ آج کل لوگ
اچھی نیند سونے کے لئے بھی کئی طرح کی چیزیں استعمال کرنے لگے ہیں جیسے دوائیں ، اے
سی ، نرم تکئے مخصوص قسم کے آرام دہ گدے وغیرہ۔ اور اس طرح نیند کی صنعت پھل پھول رہی
ہے۔ زیادہ تر اردو اخبارات میں اس ترتیب کی پاسداری نہیں ملتی بلکہ ادارتی صفحے میں
اوپر تلے تین سنجیدہ مضامین ڈال دئے جاتے ییں۔ آج کل کچھ اخبارات ادارتی صفحے پر بھی
دینی اور ادبی مضامین ڈال دیتے ہیں۔سیاسی موضوع پر کوئی مضمون ادارتی صفحے پر شائع
بھی کرتے ہیں تو اسے مذہبی یا ادبی مضمون کے نیچے لگاتے ہیں۔ کچھ اخبارات تو ادارتی
صفحے پر بھی خبریں لگاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس صحافتی مضامین نہیں ہوتے۔ اسطرح چند
اخبارات جن کی مجلس ادارت میں تجربہ۔کار اور مستند صحافی ہوتے ہیں ان کو چھوڑ کر زیادہ
تر اردو اخبارات مذہبی مضامین کے بل پر چل رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ تجربہ کار صحافی
ہیں اور نہ ہی ریسرچر۔ اس لحاظ سے رمضان کا مہینہ اردو اخبارات کے لئے بھی رحمت بن
کر آتا ہے کیونکہ وہ رمضان کے بہانے ایک ماہ تک اخبار میں مذہبی مضامین شائع کرتے رہتے
ہیں اور مواد کی کمی کا مسئلہ قاری کی نظروں سے چھپ جاتا ہے۔
آج کل اردو اخبارات دینی روزناموں
کی شکل اختیار کرچکے ہیں ۔ان میں سیاسی ، معاشی ، سائنسی اور عالمی اور قومی مسائل
و موضوعات پر عالمانہ موادبہت کم ہوتا ہے۔ اس لئے اردو داں طبقے کے زیادہ تر بالغ نظر
اور اعلی تعلیم یافتہ افراد انگریزی اور دوسری زبانوں کے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔اس
لئے اردو اخبارات کے مالکان اور مدیران کو اردو اخبارات کے معیار کو بلند کرنے کے لئے
صحافیوں اور اخبار کے عملہ کے لئے ٹریننگ اور ورکشاپ کا انعقاد کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism