شکیل احمد ندوی
8مارچ،2024
رمضان المبارک کامہینہ ایک
بار پھر ہم سب پر سایہ فگن ہونے والا ہے یہ بڑا عظیم الشان مہینہ ہے یہ نیکیوں اور
اطاعتوں کا موسم بہار ہے یہ مقدس مہینہ اپنے جلو میں بے شمار رحمتیں برکتیں اور
قبولیت دعا کی ساعتیں لیکر آتا ہے اس میں ہر لمحہ عنایات خداوندی وتجلیات ربانی کا
نزول ہوتارہتاہے یہ مہینہ رحمت الہٰی کی باد بہاری کے پربہار نظر آنے لگتی ہے
انسانی قلب ودماغ منور ہوجاتے ہیں اور عبادت کی راہ آسان ہوجاتی ہے یہ مہینہ نزول
قرآن کا مہینہ ہے یہ مہینہ ایک قیمتی تحفہ ہے ایک عظیم نعمت ہے جو بندہ مومن کو
خدا کی طرف سے عطاء ہوتی ہے اس مہینہ میں خیر وبھلائی کی توفیق سے پورے سال خیر
وبھلائی کی توفیق ملتی رہتی ہے اس مہینہ کو صبر کا اور غمخواری کامہینہ قرار دیا
گیا ہے اس مہینہ کی عظمت حدیث پاک میں یوں بیان کی گئی ہے (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان آتاہے
توآسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں او رایک روایت میں یوں کہ جنت کے دروازے
کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں
میں باندھ دیئے جاتے ہیں او رایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے
ہیں)یہ مقدس مہینہ اپنی ابتداء سے ہی رحمت وبہار کی سوغات لے کر آتاہے اس میں
اعمال صالحہ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے بندہ جو بھی کار خیر کرتاہے وہ خدا کے
نزدیک بڑی قدروقیمت کا حامل ہوتاہے نفلی عمل پر فرض کا اور ایک فرض پر ستر فرض کا
ثواب ملتاہے حدیث میں آتا ہے(اللہ کا منادی اعلان عام کرتاہے کہ اے خیر کے طالب
آگے بڑھ یعنی اللہ کی طرف متوجہ ہو او راے شرکے طالب ٹھہر جا یعنی برائی کی طرف مت
جا)۔
اس مہینہ میں خدا نے روزے
فرض فرمائے جیسا کہ آیت کریمہ یا ایہاالذین امنو کتب علیکم الصیام سے واضح ہے روزہ
کے معنی اصلا امساک یعنی رکنے کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں طلوع فجر سے غروب آفتاب
تک روزہ کی نیت سے کھانے پینے اور جیسی خواہش سے مسلسل رکنے کا نام ہے یہ روزہ
اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اس کی فرضیت سن دوہجری میں ہوئی اس
وقت مسلمان عسرت وتنگی کے دور سے نکل چکے تھے او رانہیں فراخی حاصل ہوچکی تھی ان
کے عقیدہ وفکر میں استحکام او رنمازوں سے خصوصی تعلق پیدا ہوچکا تھا او روہ اسلامی
احکام پر پورے طور پر عمل پیرا ہوچکے تھے۔
روزہ محض امت محمدیہ پر
ہی فرض نہیں کیا گیا بلکہ قرآن مجید کے مطابق پہلی امتوں پر بھی فرض تھا لیکن
اسلامی روزہ اپنے اعتدال وتوازن،خیر وبھلائی کی جامعیت،قوت وتاثیر، جملہ روحانی،
اخلاقی ونفسیاتی فوائد ومنافع، قرب الہٰی کا خصوصی ذریعہ ہونے، دل کو صفائی
وپاکیزگی، قلب کو طہارت وتازگی، اخلاق وکردار کو بلندی عطا کرنے اور زندگی کی
تنظیم نو وترتیب جدید میں اپنی مثال آپ ہے اس میں وقت کی تعیین بھی ہے ایام کی
تحدید بھی ہے او رتسلسل کا لحاظ بھی ہے تاکہ ان کی افادیت وتاثیر میں کوئی فرق نہ
آنے پائے۔
روزہ ایک ایسا عمل ہے جو
ریا اور دکھاوے سے یکسر پاک ہوتاہے ظاہر ی اعتبار سے ا س کی کوئی ایسی شکل نہیں
ہوتی ہے جو لوگوں کے مشاہدہ میں اس کے اس کی بنیاد محض رضا الہٰی اور خوشنودی
خداوندی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کااجر بھی بہت ہے شریعت میں بندہ مومن کے ہر
نیک عمل پر کم سے کم درجے کا ثواب دس گنا ہے لیکن صدق اور اخلاص نیت کی بنیاد پر
اس عمل کا ثواب سات سوگنا تک بڑھا دیا جاتاہے مگر روزہ کے بارے میں آتاہے (اللہ نے
فرمایا کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا صلہ دوں گا) روزہ دار کو دو
خوشیاں ملتی ہیں ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی اپنے پروردگار سے ملنے کے
وقت)۔
شریعت نے روزہ کی ظاہر ی
صورت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی روح پر توجہ دی اس نے کھانے پینے اور جنسی
تعلقات کو ہی صرف حرام نہیں کیا بلکہ ہر اس چیز کو ممنوع قرار دیا جو روزہ کے
مقاصد کے منافی او را س کی روح کے خلاف ہے اس نے روزہ کو ادب احترام، تقویٰ
وپرہیزگاری، دل وزبان کی طہارت کے دائرے میں محدود کردیا،چنانچہ روزہ دار پر لازم
ہے کہ وہ روزے کی حالت میں ہر اس چیز سے بچے جو روزے کو خراب کرنے والی ہو جیسے
جھوٹ، غیبت، چغلی، برائی، لڑائی، جھگڑا وغیرہ کیونکہ صحیح معنوں میں روزہ کا فائدہ
اسی وقت ہوگا جب وہ اسلامی طریقے پر رکھا گیا ہو حدیث پاک میں فرمایا گیا (جب تم
میں سے کسی کا روزے کا دن ہو یعنی روزہ دار ہو تو وہ نہ بیہودہ او رفحش باتیں بکے
او رنہ چلائے اور، نہ شور مچائے او راگر اس سے کوئی گالی گفتاری کرے یا اس سے لڑنا
جھگڑا چاہے تو وہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں)ایک حدیث میں آتا ہے(جو شخص روزے میں
باطل کلام او ربرے کام کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کوکچھ ضرورت نہیں کہ اس نے کھاناپینا
چھوڑ دیا ہے) روزہ جس قدر اخلاص نیت کے ساتھ رکھا جائے گا اسی قدر اجر وثواب والا
ہوگا فرمایا گیا(جس شخص نے رمضان میں روزے رکھے ایمان کے ساتھ اور خالص اللہ کی
رضا مندی کے لئے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں)۔
روزہ تعمیل امر الہٰی کا
نام ہے جس طرح فجر کے بعد کھانے پینے اور خواہشات کی تکمیل کی ممانعت ہے اس طرح
غروب کے بعد کھانے پینے سے احترام کی بھی ممانعت ہے روزہ دار خواہشات نفس سے جتنا
آزاد ہوگا او رحکم الہٰی کاپابند ہوگا اسی قدر عبودیت میں سچا ہوگا۔
رمضان المبارک کو تین
حصوں میں تقسیم کیا گیا پہلا رحمت،دوسرا مغفرت، تیسرا جہنم سے آزادی، آخری عشرہ
یعنی تیسرے حصے کو مزید خصوصیات سے نوازا گیا اسی میں اعتکاف وشب قدر جیسی عظیم
نعمتیں رکھی گئی ہیں اعتکاف رمضان کے فوائد کی تکمیل کے لیے ہیں تاکہ جو کوتاہیاں
پہلے دوعشرے میں رہ گئی ہوں ان کا تدارک اس آخری عشرہ سے ہوسکے، یہ اعتکاف سنت
مؤکدہ کفایہ ہے او ریہ رمضان کے آخری عشرہ میں ہی ہوتاہے۔
اسی آخری عشرہ میں ایک
رات شب قدر ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے حدیث میں فرمایا گیا(جو اس رات سے محروم
رہا تو وہ ساری ہی خیر سے محروم رہ گیا اس رات سے وہی محروم رہا تو وہ ساری ہی خیر
سے محروم رہ گیا اس رات سے وہی محروم رکھا جاتاہے جو بدنصیب ہو)ہمیں شب قدر کے
حصول کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہئے، اگر یہ رات ہمیں نصیب ہوگئی تو اس سے
بڑھ کر خوش قسمتی او رکیا ہوسکتی ہے شب قدر ہمیں طاق راتوں میں تلاش کرناچاہئے۔
ہم پر ضروری ہے کہ ہم اس
ماہ رمضان مبارک کی قدر وقیمت کا احساس اپنے اندر پیدا کریں اور اس کو اپنی زندگی
بدلنے کا ذریعہ بنائیں توبہ و استغفار،گناہوں کی معافی، اورفرائض کی پابندی
کااہتمام کریں ایک لمحہ بھی اس مبارک مہینہ کاضائع نہ ہونے دیں او رکامل مسلمان بن
کر زندگی گزارنے کاعہد کریں انشاء اللہ خدا کی نصرت وتائید ہمیں حاصل ہوگی اور ہم
سرخرو و کامیاب ہونگے۔
8 مارچ،2024، بشکریہ: روزنامہ اودھ نامہ، لکھنؤ
-------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism