New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 05:14 PM

Urdu Section ( 22 Jun 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Ramadan: The Month of Spirituality and Closeness to God رمضان المبارک۔ روحانیت اور قرب خداوندی کا مہینہ

 

  

امام سید شمشاد احمدناصر، نیو ایج اسلام

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانان عالم ایک ایسے مہینہ سے گزر رہے ہیں کہ جس سے وہ خداتعالیٰ کے قرب پانے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہیں رمضان المبارک گناہوں سے پاک کر کے انسان کو خداتعالیٰ کے مزید قریب کر دیتا ہے۔

احادیث میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی بندہ کسی دن اللہ کی راہ میں روزہ نہیں رکھتا مگر اللہ تعالیٰ اس دن کی وجہ سے اس کے چہرے سے آگ کو ستّر(70) سال دور کر دیتا ہے۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب الصیام حدیث1934)

کتنی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں روزہ رکھنے کے نتیجہ میں آگ کے عذاب سے بھی بچائے گا۔ (انشاء اللہ) یہ روزے کی فضیلت ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ دار کی جزا میں خود بن جاتا ہوں۔ (مسلم کتاب الصیام حدیث 1930)

پس بلاوجہ روزہ نہ چھوڑنا چاہئے۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ جس نے بلاوجہ رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا اگر وہ شخص اس روزہ کی بجائے ساری عمر بھی روزہ رکھتا چلا جائے تو بھی اس ایک روزہ کے ثواب کو نہیں پا سکتا جو اس نے چھوڑا۔ (مسند دارمی من افطر یوما من رمضان متعمدًا)

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اگر لوگ جان لیں کہ رمضان کے کس قدر فوائد ہیں تو پھر میری امت یہ تمنا کرتی کہ رمضان پورا سال جاری رہے۔‘‘ (ماخوذ احادیث آنحضرت ﷺ صفحہ80)

پس جس قدر بھی طاقت اور ہمت ہو روزوں کو خالص ہو کر محض للہ ایماناً و احتساباً رکھنے چاہئیں تاکہ خداتعالیٰ کا قرب نصیب ہو جائے، گناہ ختم ہو جائیں اور روحانیت میں ترقی ملے۔ اور خدا مل جائے۔

فدیہ

فدیہ کے بارے میں گزشتہ تحریر میں کچھ تھوڑا سا بیان کیا گیا تھا۔ اس کی مزید وضاحت کی جاتی ہے۔ چند دن ہوئے کسی نے فون پر سوال کیا کہ میں کتنا فدیہ دوں؟ خاکسار نے پوچھا کہ آپ فدیہ کیوں دینا چاہتے ہیں وہ شخص کہنے لگا کہ میں روزے نہیں رکھنا چاہتا اس لئے فدیہ دوں گا!

خاکسار نے اس کی وضاحت کی کہ یہ ایسی بات نہیں ہے اور نہ ہی فدیہ کا مقصد یہ ہے کہ اپنی مرضی سے روزے نہ رکھے اور فدیہ دے دے!

اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے خاکسار نے یہ بات بیان کی کہ اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کئے ہیں۔ اگر آپ کی صحت ٹھیک ہے اور آپ سفر پر بھی نہیں جارہے ہو کوئی اور بات بھی مانع نہیں ہے تو روزے رکھنے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ روزہ نہ رکھو اور فدیہ دے دو بلکہ بیماری یا سفر کی وجہ سے جتنے روزے چُھٹ جائیں ان کا فدیہ بھی دو اور اگلے رمضان سے پہلے پہلے وہ چھٹے ہوئے روزے بھی رکھو کیونکہ فدیہ تو، توفیق کے لئے ہے۔

ہاں اگر کوئی شخص اتنا ہی مریض ہے کہ وہ مستقل بیمار ہے اور ڈاکٹروں نے یہ کہہ دیا ہے کہ اگر اس بیماری میں وہ روزہ رکھے گا تو ہلاک ہو جائے گا تو پھر وہ فدیہ دے دے۔ اس کے لئے بعد میں روزے رکھنے ضروری نہیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اسے صحت عطا کر دے اور اس کی بیماری کلیۃً ختم ہو جائے۔

لیکن صرف اس خیال سے کہ میں روزہ نہیں رکھتا فدیہ ہی دے دوں گا غلط رجحان ہے ہاں یہ بھی درست ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کے دنوں میں چند دن کے لئے بیمار ہوا یا سفر پر جانا ہو ااور اس کے کچھ روزے رہ گئے تو وہ ان روزوں کا فدیہ بھی دے دے۔ اور بعد میں وہ فوت شدہ روزے رکھ بھی لے۔ اور یہی بہتر ہے کیونکہ فدیہ توفیق کے واسطے ہے۔

اس کی مزید تشریح یوں ہے۔

’’اگر روک عارضی ہو اور بعد میں وہ دور ہو جائے تو خواہ فدیہ دیا ہو یا نہ دیا ہو روزہ بہرحال رکھنا ہو گا کیونکہ فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا۔ بلکہ یہ تو محض اس بات کا بدلہ ہے کہ ان دنوں میں باقی مسلمانوں کے ساتھ اس عبادت کو ادا نہیں کر سکتا یا اس بات کا شکرانہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عبادت کرنے کی توفیق بخشی ہے کیونکہ روزہ رکھ کر جو فدیہ دیتا ہے وہ زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ روزہ رکھنے کی توفیق پانے پر خداتعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہے اور جو روزہ رکھنے سے معذور ہو وہ اپنے اس عذر کی وجہ سے بطور کفارہ دیتا ہے۔‘‘

(الفضل 10اگست 1945)

روزہ کی فضیلت

دار قطنی اور بیہقی کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

’’جو بندہ بھی روزے کی حالت میں صبح کرے تو اس کے لئے جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اس کے تمام اعضاء تسبیح کرتے ہیں اور آسمان پر فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ اگر وہ ایک رکعت یا دو رکعت پڑھے تو اس کے لئے آسمان روشن کر دیئے جاتے ہیں۔۔۔ اور جب وہ تسبیح و تحمید کرتا ہے تو سترہزار فرشتے اس کے ثواب اور اجر کو لکھتے ہیں یہاں تک کہ دن گزر جاتا ہے۔‘‘

یہ سب بشارتیں اسی کے لئے ہیں جو صدقِ دل کے ساتھ اور تمام شرائط کے ساتھ روزے رکھتا ہے اور روزہ کی شرائط میں سے یہی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

’’مَنَ صَانَ نَفْسَہ وَ دِیْنَہ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ۔‘‘ (کنز العمال)

یعنی جو اپنے نفس اور اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے یہ مہینہ گزارے۔

پس صبر اور شکر اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے عبادات اور دعاؤں کے حق ادا کرتے ہوئے رمضان کی برکات کو حاصل کریں جو کہ اس وقت ہمارے لئے برکت اور روحانی بہاریں لے کر سایہ فگن ہے ۔

روزے کی فضیلت کا ذکر ہورہا ہے اس سلسلہ میں یہ روایت بھی قابل ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک بھی نفلی روزہ رکھا جو دکھاوے کے لئے نہ تھا تو اللہ تعالیٰ اسے ثواب دیتے ہوئے ضرور جنت عطا کرے گا۔ حدیث کے الفاظ ہیں:

مَنْ صَامَ یَوْمًا تَطَوُّعًا لَمْ یَطَّلِعْ عَلَیْہِ اَحَدٌ لَمْ یَرْضَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی لَہ بِثَوَابٍ دُوْنَ الْجَنَّۃِ۔ (کنز العمال کتاب السلام) اگر نفلی روزہ کی اتنی فضیلت ہے تو پھر سمجھ لیں کہ رمضان کے روزہ کی کتنی فضیلت اور برکت ہو گی۔

نماز تہجد اور نماز تراویح

اصل نماز تہجد ہے۔ عام دنوں میں بھی اور رمضان المبارک کے دنوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد کا باقاعدگی سے التزام فرماتے تھے جس کی قرآن میں واضح تصدیق موجود ہے۔ باوجود بے انتہا مصروفیات کے آپ تہجد میں باقاعدگی اختیار فرماتے، گھنٹوں تہجد کی ادائیگی میں صرف فرماتے۔ حتّٰی کہ آپ کے قدم مبارک بھی متورم ہو جاتے۔ آپ رمضان میں اور رمضان کے علاوہ بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے۔

کمزور طبائع کی سہولت کے لئے اور قرآن مجید کی قرأت و سماعت کے لئے نماز تراویح میں قرآن سنایا جاتا ہے تو نماز عشاء کے بعد یہ سہولت میسر ہے۔ باوجود اس کے کہ آپ نے نماز تراویح پڑھی ہے پھر بھی نماز تہجد ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اور بچوں کو بھی خصوصیت کے ساتھ اس کی عادت ڈالنی چاہئے کہ تہجد کے لئے انہیں خواہ ہلکی سی دو رکعتیں ہی کیوں نہ پڑھیں، لیکن پڑھیں ضرور پھر سحری کھائیں۔ تہجد سحری کھانے سے پہلے پڑھنی چاہئے کہ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فَرَضَ صِیَامَ رَمَضَانَ عَلَیْکُمْ وَسَنَنْتُ لَکُمْ قِیَامَہُ

(نسائی کتاب الصیام باب ذکر اختلاف یحیی بن ابی کثیر ۔۔۔ حدیث 2210)

کہ یقیناًاللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کر دیئے ہیں اور میں نے اس کی راتوں کی عبادت تمہارے لئے بطور سنت قائم کر دی ہے۔ پس جو ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اس ماہ میں عبادت کرے گا اور پورے یقین پر قائم ہو گا تو یہ راتوں کی عبادت اس کے تمام پچھلے گناہوں کی بخشش کا موجب ہو جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔

رمضان تو قرآن کی سالگرہ بھی ہے

رمضان المبارک کا نزول ماہ رمضان میں شروع ہوا جب ہمارے پیارے رسول حضرت محمد رسول اللہ رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خاتم الکتب دی گئی تو اس کے نزول کا آغاز ماہ رمضان میں شروع ہوا۔ تاکہ اس کامل نور اور ہدایت کی دنیا میں اشاعت کی جائے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں فرمایا ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ۔ (بقرۃ آیت نمبر186)

’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا۔‘‘

یعنی قرآن کا نزول اس بابرکت مہینہ رمضان میں ہوا۔ حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ رمضان میں جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کل قرآن کریم جتنا نازل ہو چکا تھا اس کا دور مکمل کرتے تھے۔ بلکہ آپ کی وفات کے سال ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کیا۔

(بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث 3624)

پس ہر ایک کو یہ کوشش بھی کرنی چاہئے کہ رمضان میں جتنی زیادہ سے زیادہ تلاوت ہو سکے کرنی چاہئے اور سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے پھر اس پر عمل کرنے کا بھی عزم ہو۔

تسبیح و تحمید و ذکر الٰہی اور درود شریف کا ورد

رمضان المبارک چونکہ سوشل تعلقات کا مہینہ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے سچا اور پکا تعلق جو ڑنے کا مہینہ ہے اور اس میں ہر نیکی کی جزا کئی گنا ملتی ہے اس لئے ایک اور پہلو اس کا یہ ہے کہ اپنی زبان کو ذکر الٰہی سے تر رکھنا چاہئے۔ قرآن دعائیں، ادعیۃ الرسول اور ادعیۃ المہدی کتابی صورت میں موجود ہیں دن بھر میں جب بھی موقع ملے ان دعاؤں کو دہراتے رہنا چاہئے۔

سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم

اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

کہ دو کلمات ایسے ہیں جو وزن میں ہلکے ہیں، زبان پر آسان ہیں لیکن میزان میں بھاری ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ یعنی جو ذکر الٰہی کرتا ہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔

(بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ تعالیٰ)

مسلم کتاب الصلوٰۃ میں حضرت ابوذرؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے جسم کا ہر حصہ نیکی اور صدقہ میں شامل ہو سکتا ہے، ہر تسبیح صدقہ ہے، الحمد للہ کہنا صدقہ ہے، لا الٰہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے، تکبیر کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔‘‘ (حدیقۃ الصالحین حدیث79)

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تجھے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ مجھے ضرور بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا لا حول پڑھا کرو (لاحول ولا قوۃ الا باللہ) یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ مجھ میں برائیوں سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکیوں کے کرنے کی طاقت۔

رمضان المبارک کا ایک بہت بڑا مقصد پاکیزگی، تزکیہ نفس اور خداتعالیٰ کا قرب ہے اور درود شریف اس کے لئے ایک بہت عمدہ راہ ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درود شریف کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’مجھ پر درود بھیجا کرو، تمہارا مجھ پر درود بھیجنا خود تمہاری پاکیزگی اور ترقی کا ذریعہ ہے۔‘‘ (جلاء الافہام بحوالہ کتاب الصلوٰۃ علی النبیؐ)

سنن ابن ماجہ کی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے مجھ پر درود بھیجنا چھوڑا اس نے جنت کی راہ کو چھوڑ دیا۔

جلاء الافہام ہی میں ایک حدیث یوں مذکور ہے حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھ پر درود بھیجا کرو کیونکہ مجھ پر درود بھیجنا تمہارے لئے ایک کفارہ ہے جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجے گا۔

جامع ترمذی کی روایت ہے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز میرے ساتھ تمام لوگوں سے زیادہ تعلق رکھنے والا شخص وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کی تمام برکتوں اور قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے عمل کرنے کی اور تسبیح و تحمید و ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھنے کی سعادت اور توفیق دیتا چلا جائے۔ آمین۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/ramadan-month-spirituality-closeness-god/d/103593

 

Loading..

Loading..