New Age Islam
Mon Mar 24 2025, 02:19 PM

Urdu Section ( 17 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Ram Temple In Light Of Two Poems “Deeno Daan,” And “Shabvahini Ganga” "دینو دان" اور "شبواہنی گنگا" کی روشنی میں رام مندر

 سید علی مجتبیٰ، نیو ایج اسلام

 13 جنوری 2024

 اس وقت پورے بھارت میں ہر طرف رام مندر کا ہی چرچا ہے، جس کا افتتاح 22 جنوری 2024 کو ہونا ہے، جس کی گونج ہندوستان کی میڈیا میں بہت تیز سنائی دے رہی ہے۔ تاہم، 123 سال پہلے رابندر ناتھ ٹیگور کی لکھی گئی نظم "دینو دان"، اور پارول ککھڑ کی "شو واہنی گنگا" عہد حاضر کی عکاسی کرتی ہیں، جسے دیکھنا رام مندر کی تعریف میں بنے گئے بیانیے کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے۔

Ram Temple in Ayodhya

------

رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک نظم "دینو دان" لکھی جو ایک امیر مندر کے بارے میں تھی جس کے پجاری کا دعوی ہے کہ یہ خدا سے خالی ہے۔ یہ نظم بادشاہ اور پجاری کے درمیان ایک مکالمہ ہے جس میں بادشاہ اس مندر کی شان و شوکت پر اتراتا ہے جسے اس نے دیوتا کے لیے بنایا ہے۔ جبکہ پجاری کا کہنا ہے کہ مندر میں کوئی خدا نہیں ہے اور اس کی ساری دولت اور شان و شوکت مندر کے لیے بے معنی ہے۔ پجاری کا کہنا ہے کہ دیوتا محلوں اور عالیشان گھروں میں نہیں رہتے بلکہ غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کے دل میں رہتے ہیں، جس کے سر پر چھت نہیں ہے۔

 پارول کھکر کی نظم "شو واہنی گنگا" کووڈ-19 کے بے ہنگم دور کے پس منظر میں لکھی گئی تھی، کہ جب لاکھوں لوگ آکسیجن کے سلنڈر کے سہاراے زندہ تھے اور پوتر ندی گنگا لاشوں سے بھری ہوئی تھی۔

 مذکورہ دونوں نظموں کا لب لباب مذہب کو سیاست سے الگ کرنا اور یہ بتانا ہے کہ دونوں کو آپس میں جوڑا نہیں جا سکتا۔ دونوں شاعروں کی کوشش یہ ہے کہ بحران کے وقت میں اپنے خدا کو یاد رکھیں اور ان کے پاس مندر کی رسومات کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے روپے پیسے نہیں ہیں۔ عہد حاضر کے ہندوستان پر لکھی گئی یہ دونوں نظمیں اور ان میں درشائے گئی افسوسناک اور غم کا پیغام ایک ہی ہے، اگرچہ ان دونوں کے لکھے جانے کا وقت الگ الگ ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ کوئی بھی بادشاہ یا وشوا گرو کسی غلط کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔

یہاں رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم "دینو دان" کے کچھ اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش کیے جا رہا ہے،

’’اس مندر میں کوئی بھگوان نہیں ہے‘‘، پجاری نے کہا۔

 راجہ کو غصہ آیا، "ہے بھگوان! کیا تم ایک ادھرم جیسی بات نہیں کر رہے؟ قیمتی جواہرات کے تخت پر ایک سنہرا مجسمہ چمک رہا ہے پھر بھی تم کہتے ہو کہ یہاں کوئی بھگوان نہیں ہے؟‘‘

 ’’ہاں یہ مندر خالی نہیں ہے، بلکہ شاہی تکبر سے بھرا ہوا ہے، اس سے تمہاری ہی عزت بڑھی اے بادشاہ! اس جگ کے رچیتا کی نہیں۔" پجاری نے یہ کہا۔

 یہ سن کر بادشاہ غضبناک ہوا اور بولا: ’’بیس لاکھ سونے کے سکے ہم نے اس فلک بوس عمارت پر خرچ کیے ہیں، اور تمام ضروری رسومات ادا کرنے کے بعد ہم نے دیوتاؤں کے لیے انہیں وقف کیا ہے، اور تمہارے اندر اتنی ہمت کہ یہ کہو کہ اس عظیم الشان مندر میں بھگوان ہی نہیں ہے؟‘‘

پجاری نے بڑے آرام سے جواب دیا، "اسی سال جب آپ کی بیس لاکھ رعایا سخت خشک سالی سے مر رہی تھی۔ جن کے پاس نہ کھانے پینے کی کوئی چیز اور نہ ہی رہنے کا کوئی ٹھکانہ، آپ کے دروازے پر دست دراز سوال دراز کیے ہوئے، جنہیں آپ نے خالی ہاتھ لوٹا دیا، وہ جنگلوں، غاروں، شاہراہ کے کنارے پیڑ پودوں کے نیچے ڈیرے ڈالنے اور پرانے مندروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اور جب اسی سال آپ نے اپنے اس عظیم الشان فلک بوس مندر کی تعمیر میں 20 لاکھ سونا سکہ خرچ کیا، تو بھگوان نے یہ اعلان کیا:

"میرا ابدی گھر تو جگمگاتا ہے صدا روشن چراغوں سے، نیلگوں آسمان کے نیچے، میرے گھر کی بنیادیں ان اقدار پر ٹکی ہیں: سچائی، امن، ہمدردی اور محبت۔ وہ غریب، تنگ دست اور کنجوس، جو اپنی ہی مجبور و لاچار رعایا کو پناہ نہ دے سکا، کیا وہ اس گمان میں ہے کہ مجھے گھر دیگا؟"

وہی دن تھا جب بھگوان نے آپ کے مندر کو اپنے وجود سے خالی کر دیا اور سڑکوں کے کنارے درختوں کے نیچے رہنے والے ان کنگالوں اور مفلوک الحالوں سے جا ملا۔ جس طرح عظیم الشان سمندروں سے نکلنے والے جھاگ میں کوئی دم نہیں اسی طرح آپ کا بنایا یہ مندر بھی کھوکھلا ہے۔ یہ صرف ایک بلبلہ ہے آپ کی دولت اور غرور کا۔‘‘

 غضبناک بادشاہ نے چیخ کر کہا، ’’اے بے شرم انسان، تو ابھی اور اسی وقت میری حدود سلطنت سے دور چلا جا‘‘۔ پجاری نے بڑی نرمی سے جواب دیا، "وہیں جہاں تم نے بھگوان کو بھیج دیا، وہیں ان کے بندوں کو بھی بھیج دو"۔

--رابندر ناتھ ٹیگور، 20 شراون، 1307 (بنگالی کیلنڈر کے مطابق)

پارول کھکر کی نظم شو واہنی گنگا میں وزیر اعظم نریندر مودی کو 'رام راجیہ' پر حکومت کرنے والا 'ننگا بادشاہ' کہا گیا ہے جس کی مقدس ندی گنگا میں انسانوں کی لاشیں تیر رہی ہیں۔

 چودہ لائنوں پر مشتمل اس نظم میں ان تمام ہندوستانیوں کی آواز ہے جو وبائی امراض کی وجہ سے پیش آنے والے سانحات سے غمزدہ تھے اور حکومت کی بے حسی اور حالات کی بدانتظامی سے نالاں تھے۔

اس میں شاعر نے ایک ایسی حکومت کا نقشہ پیش کیا ہے جہاں اپنے ہی ملک کے شہریوں سے بادشاہ کی لا تعلقی عیاں ہے اور چاروں طرف بے بسی، غربت اور بدانتظامی پسری ہوئی ہے۔ اس نظم میں نہ صرف حکومت پر بلکہ مرکزی دھارے کے میڈیا، اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں وغیرہ پر بھی تنقید کی گئی ہے کیونکہ وہ ایک 'ننگے بادشاہ' کے دور میں بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور بے حس بنے ہوئے ہیں۔

 پارول کھکر کی نظم کا اردو ترجمہ حاضر خدمت ہے:

ایک ساتھ سب مردے بولے 'سب کچھ چنگا چنگا'

صاحب تمہارے رام راجیہ میں شو واہنی گنگا

ختم ہوئے شمشان تمہارے، ختم لکڑی کی بوری

تھکے ہمارے کندھے سارے، آنکھ بھی سب کی سوکھی

گھر گھر جا کر یمدوت کھیلے موت کا ننگا ناچ

صاحب تمہارے رام راجیہ میں شو واہنی گنگا

 یہ مسلسل جلتی چتائیں، راحت مانگیں پل بھر

یہ مسلسل ٹوٹتی چوڑیاں، پٹتی چھاتیاں گھر گھر

دیکھ شعلہ بار فضائیں، واہ رے 'بلا رنگا'

صاحب تمہارے رام راجیہ میں شو واہنی گنگا

صاحب تیرا لباس عجوبہ، عجوبہ تیری رنگت

کاش لوگ دیکھ سکتے تیری اصلی رنگت

ہو ہمت تو سب مل کے بولو "صاحب میرا ننگا"

صاحب تمہارے رام راجیہ میں شو واہنی گنگا

English Article: Ram Temple In Light Of Two Poems “Deeno Daan,” And “Shabvahini Ganga”

URL: https://newageislam.com/urdu-section/ram-temple-deeno-daan-shabvahini-ganga/d/131534

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..