رام پونییانی (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
(29ستمبر2009)مہاراشٹرمیں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے اور اس
کے ساتھ ہی سیاسی ماحول میں حرارت بڑھ رہی ہے۔اس ریاست میں بڑی تعداد میں کاشت کار
خودکشی کر چکے ہیں ،ہر طرف کئی سنجیدہ مسائل ہیں جن کا تعلق بڑھتی قیمتوں، بے روزگاری
اور روزمرہّ کی دوسری مشکلات سے ہے۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں سماج کے
ان بنیادی مسائل کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں اور ماضی سے ابھر کر آنے والے شناخت
کے مسائل میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں۔حال ہی میں(3ستمبر،2009) گنیش چترتھی کے موقع
پر میرج،سانگلی اور ان سے متصل علاقوں میں کشیدگی پھیل گئی۔یہ مہارشٹرکا سب سے اہم
تہوار ہے۔تہوار کے دوران مصیبت تب شروع ہوئی جب گنیش وسرجن کے راستے میں ایک محراب
بنائی گئی جس میں شیواجی کو افضل خان کا قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔شیوا جی اور
افضل خان کے ارد گرد فرقہ وارانہ کشیدگی کے خدشے کے مدنظر پولیس نے امن قائم رکھنے
کے لئے مہراب کو راستے ہٹا دیا۔اس محراب کو ہٹا دینے سے ناراض کچھ گنیش منڈلوں نے گن
پتی وسرجن تب تک نہ کرنے کا فیصلہ کیا جب تک کہ اس محراب کو واپس اسی جگہ نہیں رکھا
جاتا ہے۔اور اس کو لے کر ہوئے تشدد میں ایک شخص ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔
بی جے پی قیادت نے حکومت کے
اس فیصلے کی مذمت کی۔شیو سینا کے لیڈر نے اس بات پر زور دیا کہ وہ پوری ریاست میں شیواجی
کو افضل خان کا قتل کرتے پیش کرنے والاپوسٹر لگا دیں گے اور کہا کہ اگر شیوا جی نہیں
رہے ہوتے تو ہم سب اس وقت نماز پڑھ رہے ہوتے۔ریاستی انتظامیہ نے حالات کو قابو میں
کیا لیکن اس کے بعد شیوا جی کے ارد گرد بہت سی جزباتی اپیل کی گئی، یہ ایک آسان کام
تھا۔کچھ سال قبل گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران اسی سیاسی پارٹی نے افضل خان کے
مقبرے کو تباہ کرنے کے لئے ایک جلوس کو منظم کرنے کی کوشش کی۔خوش قسمتی سے اس وقت یہ
عوام کے ذہنوں میں بات ڈالی گئی کہ اس مقبرے کو خود شیوا جی نے تعمیر کرایا تھا اور
معاملہ ختم ہو گیا، لیکن اس سے قبل اس نے بہت نفرت پیدا کر دی تھی۔شیوا جی سے تعلق
رکھنے والے مسئلے مہاراشٹر میں بہت حساس ہوتے ہیں، ریاستی انتظامیہ نے بحر عرب میں
شیوا جی کا مجسمہ نصب کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں عوامی خزانے سے ہزاروں کروڑ روپئے
لگنے والے تھے اور وہ بھی دوسری عوامی ضروریات کی قیمت پر۔
شیوا جی کے عوام میں کافی
مقبول ہونےحقیقت یہ ہے کہ انہوں نے غریب کاشت
کاروں پر ٹیکس کم کر دئے تھے نہ کہ وہ مسلم مخالف تھے یا گائے اور برہمن کی پوجا کرنے
والے تھے ۔شیوا جی نے انتظامات کے ہر پہلو میں نرم پالیسی اختیار کی تھی اور جس کی
بنیاد مذہب نہیں تھی۔فوج اور بحریہ کے لئے جوان اور افسروں کی تقرری کے معاملے میں
مذہب کوئی معیار نہیں تھا اور ان کی فوج کا ایک تہائی حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا۔سدّی
سمبل ان کی بحریہ کے سربراہ تھے اور سدّی مسلمانوں کی بڑی تعداد انکی بحریہ فوج کاحصہ
تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی زیادہ تر جنگیں راجپوتانہ فوج سے ہوئی جس کی قیادت راجہ
جے سنگھ کرتے تھے اور راجہ جے سنگھ اورنگ زیب کے انتظامیہ میں تھے۔جب شیوا جی کو آگرہ
کے قلعے میں حراست میں لیا گیا تو وہاں سے فرار ہونے کے لئے جن دو لوگوں پر انہوں نے
انحصار کیا ان میں سے ایک مسلمان تھا جس کا نام مداری مہتر تھا۔ان کے خفیہ سکریٹری
مولانا حیدر علی تھے اور ان کے توپ خانے کے سربراہ ابراہیم گاردی تھے۔رستم جہاں ان
کا محافظ تھا۔
وہ واضح طورپردوسرے
مذاہب کا بہت احترام کرتےتھے۔انہو ں نے مقدس
مقامات جیسے حضرت بابا یاقوت بہت تھوروالے کا احترام کیا اور پوری زندگی ان کو پنشن
دی،انہوں نے فادر امبروس کی بھی مدد کی جن کے چرچ پر گجرات میں حملہ ہوا تھا۔اپنے دارالحکومت
رائے گڑھ میں اپنے محل کے سامنے انہوں نے ایک خاص مسجد کی تعمیر کروائی اسی طرح انہوں
نے روزانہ اپنی پوجا کے لئے جگدیشور مندر کی تعمیر
کروائی۔
اپنی فوجی مہمات کے دوران
انہوں نے اپنے فوجیوں اور افسروں کویہ سخت حکم جاری کر رکھا تھا کہ مسلم عورتوں اور
بچوں کے ساتھ کسی طرح کی بد سلوکی نہ کی جائے۔مسجدوں اور درگاہوں کو پوری حفاظت دی
جاتی تھی۔انہوں نے اپنے لوگوں کو یہ بھی حکم دے رکھا تھا کہ جب کبھی تمہارے ہاتھ میں
قرآن کا کوئی نسخہ آئے تو اس کا احترام کرنااور اسےاپنے مسلمان ساتھی کو دے دینا۔باسن
کے نواب کی بہو کے سے معافی مانگنے کی کہانی سب کو معلوم ہے۔جب اسے لوٹ کے حصے کے طور
پر ان کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے احترام کے ساتھ ان سے معافی طلب کی اور اپنے فوجیوں
کو اس خاتون کو اسی جگہ پہنچا دینے کا حکم دیا جہاں سے ان کو زبردستی لایا گیا تھا۔شیوا
جی دیگر مذاہب کے لوگوں کے خلاف کسی نفرت کے سبب متحرک نہیں تھے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ وہ تمام
مذاہب کے معزز لوگوں کا بہت احترام کرتے تھے۔یہ تمام واقعات ظاہر کرتاےہیں کہ شیوا
جی نے کس قدر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا اور ان کا بنیادی مقصد اپنی ریاست کا
قیام تھا جس میں زیادہ سے زیادہ جغرافیائی علاقہ شامل ہو۔ان کو مسلمان مخالف اور اسلام
مخالف کے طور پر پیش کرنا حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے۔نہ تو افضل خان ہندو مخالف
حکمراں تھا۔جب شیواجی نے افضل خان کا قتل کیا تو افضل خان کے سکریٹری کرشنا جی بھاسکر
کلکرنی نے ان پر تلوار سے حملہ کیا تھا۔
آج فرقہ پرست طاقتیں اپنے
سیاسی مفادات کے لئے شیوا جی کے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہی ہیں۔مہاراشٹر میں
شیواجی اور افضل خان ہندو اور مسلمان حکمراں کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔شیواجی کی
تمام تصاویر میں سے صرف اس تصویر کا انتخاب کیوں کیا گیاجو افضل خان سے تعلق رکھتی
ہے؟ان کی پرتاپ گڑھ قلعے کی تصویر کو دکھایا جا سکتا ہے جس میں افضل خان کا مقبرہ بھی
نظر آتا ہے، شیوا جی کی اس تصویر کو بھی دکھایا جا سکتا ہے جس میں ایک مسلم شہزادے
مداری مہتر نے ان کو آگرہ کے قلع سے فرار ہونے میں مدد کی اور شیوا جی نے اس کی مزار
پر احترام پیش کر رہے ہیں۔اس تصویر کے انتخاب کا مقصد لوگوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم
کرنا ہے۔تواریخ کی فرقہ وارانہ تشریح اور فرقہ واریت پر مبنی تواریخ فرقہ پرست قوتوں
کا اہم ہتھیار وں ہے۔اقلیتوں کو ایسے چیزوں پر رد عمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور
ہمیشہ تمام طبقات کے ساتھ امن کی بات کرنی چاہیے۔اب ہم سماج کو فرقہ وارانہ رنگ میں
رنگنے اور فرقوں میں تقسیم کرنے کے لئے اس طرح کی روش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ہمیں ایسے
حالات میں فرقہ واریت پر قابو پانے کے لئے شناخت کے مسئلے کو کمزور کرنے اور ہندوستانی
قومیّت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ہمیں تاریخ کے قائدوں کو اقتدار چلانے والے حکمراں
کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے نہ کہ کسی مذہب خاص کے نمائندے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
بشکریہ۔ www.countercurrent.org
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-history/communalizing-history--shivaji-and-afzal-khan/d/1883
URL: