ثاقب سلیم، نیو ایج اسلام
6 اکتوبر 2022
مولانا ظفر علی خان، جنہیں
اردو صحافت کا سرخیل سمجھا جاتا ہے، اپنے زمانے کے ایک مشہور و معروف مجاہد آزادی
رہے ہیں۔ اردو روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر کے طور پر، انہوں نے جنگ آزادی کی حمایت
میں بڑے پیمانے پر لکھا اور پانچ سال قید کی سزا بھی کاٹی۔ ابتدائی سالوں میں
کانگریس کے حامی رہے، بعد میں وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ آج یہ ناممکن نظر آتا
ہے کہ کوئی ایسا شاعر جس کی سیاست کی جڑیں مسلم تشخص سے وابستہ ہوں وہ ہندو مت اور
ہندو دیوتاؤں کی تعریف میں لکھے۔ ظفر نے بڑے پیمانے پر بھگوان رام کی تعریف میں
لکھا اور ان کے نزدیک یہ اسلام سے متصادم نہیں تھا۔
مولانا ظفر علی خان
-----
ظفر کی سری رام چندر سے
خطاب بھگوان رام کے لیے اردو میں لکھی گئی بہترین تعریفوں میں سے ایک ہے۔ ان کے
خیال میں بھگوان رام ایک زندہ ہندوستانی تہذیب کی علامت ہیں۔ انہوں نے بھگوان رام
کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:
نا تو نقوس سے ہے اور نہ
اصنام سے ہے
ہند کی گرمی ہنگامہ تیرے
نام سے ہے
ان کا خیال تھا کہ بھگوان
رام کے سکھائے گئے اصولوں، نظریات اور فلسفوں کو ہندوستانی لوگ نوآبادیاتی
پروپیگنڈے کی وجہ سے فراموش کر چکے ہیں۔ ہندوستانیوں نے اس اخلاقی پستی کا ذمہ دار
بدلتے وقت کو ٹھہرایا، جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ظفر نے لکھا
تیری تعلیم ہوئی نظرِ
خرافاتِ فرنگ
برہمن کو یہ گلہ گردش
ایام سے ہے
ظفر نے لکھا کہ ہندو تہذیب
استعماریت کے حملے سے صرف اس لیے بچ پائی تھی کہ لوگ بھگوان رام، دیوی سیتا اور
لکشمن کو نہیں بھولے تھے۔ انہوں نے پرزور انداز میں درج ذیل باتوں کی طرف اشارہ
کیا:
نقشِ تہذیب ہنود اب بھی
نمایا ہے آگر
تو وہ سیتا سے ہے، لچھمن
سے ہے اور رام سے ہے
مندرجہ بالا نظم، جس میں
جس کے تین اشعار اوپر درج کیے گئے ہیں، واحد مثال نہیں ہے جہاں ظفر نے بھگوان رام
کو خراج عقیدت پیش کیا ہو۔
1917 میں لکھے گئے ایک اور
مضمون میں، انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں سے محرم اور دسہرہ کو ہم آہنگی کے ساتھ
منانے کی اپیل کی، ظفر نے دسہرہ کے ذریعے بھگوان رام کی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔
اس نے لکھا:
فسانہ رام چندر جی کا سب
کو یاد ہے ازبر
انہوں نے کس طرح بنیاد حق
و صدق محکم کی
شدائد اور مصائب میں رہے
وہ مبتلاء برسوں
کسی تکلیف کی اس راہ میں
پرواہ بہت کم کی
ایک اور نظم، تہذیبِ ہنود
میں ظفر نے ایک مبلغ کا کردار ادا کیا۔
اس نے پوچھا،
وو تہذیب آئے ہندوؤں ہو
گئی کیا
بجا جسکا ڈنکا تھا دنیا
کے اندر
نظم میں انہوں نے موجودہ
دور کے ہندوؤں کے کئی مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ ظفر نے افسوس کا اظہار کیا کہ ارجن
کی بہادری ختم ہوگئی، کاشی کی شان و شوکت ختم ہوگئی، وہ قیمتی اثاثہ لٹ گیا اور
لوگوں نے اپنے ہی ہندو دیوتاؤں کا مذاق اڑایا۔ تمام برائیوں کو درج کرنے کے بعد،
انہوں نے ایک شعر میں ان تمام کا حل فراہم کر دیا۔ اور وہ حل بھگوان رام کی
تعلیمات کی طرف پلٹنا تھا۔ انہوں نے لکھا:
حقیقت شناسی کی گر جستجو
ہے
سبق تم کو دینگے سری رام
چندر
(اگر آپ دنیا کی حقیقت اور
حقیقی علم سیکھنا چاہتے ہیں۔ سبق بھگوان رام سکھائیں گے)
ایک اور نظم میں انہوں نے
انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنے والے ہندوستانیوں کو راون کے پیروکار قرار دیا۔
ظفر نے لکھتے ہیں:
کوئی لیتا ہے منہ سے رام
کا نام
مگر کہتا ہے راون ہی خدا
ہے
ظفر نے والمیکی رامائن
پڑھی تھی اور اس کا ترجمہ کیا تھا۔ رامائن کے ایک ایکٹ کا ترجمہ شاعری میں کیا اور
اپنی ایک کتاب میں شائع کیا۔
مولانا ظفر علی خان نے یہ
تمام تحریریں اردو کے ایک معروف اخبار میں شائع کیں اور اس سے ایک مسلمان مفکر
ہونے کی ان کی شبیہ کبھی مجروح نہیں ہوئی۔ بجا طور پر ان کا یہ ماننا تھا کہ
ہندوستان ایک قدیم تہذیب ہے جس نے ایسے علماء، مفکرین اور حکمران پیدا کیے ہیں جن
کا احترام کیا جانا چاہیے۔ مولانا ظفر علی خان کا کہنا تھا کہ اس سرزمین کے عظیم
انسانوں کو تنگ سیاست سے نجات دلائی جائے، ان کی تعلیمات کو دور حاضر میں اپنایا
جائے اور تمام مذاہب کا احترام کیا جائے۔ تبھی ہندوستان اپنے شاندار ماضی کی طرف
لوٹ سکتا ہے۔
مولانا ظفر علی خان کی طرح
کئی مسلم مصنفین نے ہندو دیوی دیوتاؤں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے
کہ ان میں سے اکثر اپنے قدامت پسند اسلامی نظریات کے لیے جانے جاتے تھے نہ کہ مذہب
کے بارے میں اپنے مغربی نقطہ نظر کے لیے۔
ایسے ہی ایک شاعر محمد
اقبال تھے جو علامہ اقبال کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے ساری جہاں سے اچھا
ہندوستان ہمارا.. بھی لکھا، جس کی گنگناہٹ آج بھی ہمارے دلوں کو فخر سے بھر دیتی
ہے۔ آج اقبال کو ایک مسلم مفکر کے طور پر زیادہ دیکھا جاتا ہے اور پاکستان میں
انہیں قوم کے بانیان تصور میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
انہوں نے بھی رام کی تعریف
میں لکھی ہے۔ قارئین، جو ان دنوں کی حقیقتوں سے بہت دور ہیں، ان کے لیے شاید یہ
یقین کرنا مشکل ہو کہ انہوں نے یہ نظم لکھی تھی۔ ذیل کا شعر اسی نظم کا ہے:
ہے رام کے وجود پہ
ہندوستان کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو
امام ہند
-----
ثاقب سلیم ایک مورخ اور
مصنف ہیں۔
------------
English
Article: Sri Ram Chandra of Maulana Zafar Ali Khan
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism