سہیل انجم
22جنوری، 2025
اس وقت سو شل میڈیا پر آر ایس ایس کے نظریہ ساز اور بی جے پی کے سابق ایم پی راکیش سنہا کی ایک تقریر وائرل ہے جس پر ایک تنازعہ پیدا ہوگیا ہے۔ بی بی سی جیسے عالمی میڈیا ادارے کی ہندی سروس نے بھی اس پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ سنہا نے یہ تقریر ’نئی دنیا نیشنل فورم‘ کے زیراہتمام 16جنوری کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ہونے والے ایک پرہجوم سمینار میں کی جس کا عنوان تھا’آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل‘ مذکورہ فورم کا قیام ہفت روزہ نئی دنیا کے ایڈیٹر اور سابق ممبر آف پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے کیا ہے۔ سمینار سے ملک کے چوٹی کے سیاست دانوں اور دانشوروں نے خطاب کیا۔ شاہد صدیقی نے ’بہتر جامع اور ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر کے لیے گفت وشنید‘ پر زور دیا اور اس پراظہار افسوس کیا کہ ’ہمارے اکابرین نے بات چیت کا راستہ بند کردیا ہے‘۔ اگر دیکھا جائے تویہی خیال اس سمینار کا حال تھا۔ اس فورم کا یہ پہلا بڑا پروگرام تھا اور یقینا یہ ایک اچھی پہل تھی۔ راکیش سنہا اور خواجہ افتخار احمد کی شمولیت نے پروگرام کو تیکھا مگر دلچسپ اور قابل بحث بنادیا۔ راکیش سنہا نے اپنی تقریر میں ایک نیشنل نیوز چینل کی ڈبیٹ کے بارے میں جو انکشاف کیا وہ اگر چہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے لیکن چونکہ یہ بات آر ایس ایس کے ایک نظریہ ساز کی زبانی سننے کو ملی تھی کہ آپ کو ڈبیٹ میں مسلمانوں کی داڑھی او رٹوپی کے بارے میں غیر مہذب باتیں کرتی ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں کسی کی داڑھی ٹوپی اتارنے کے لیے نہیں بلکہ اتارنے والوں سے لڑنے کے لئے پیدا ہوا ہوں۔ ان کے اس بیان پر مثبت اور منفی دونوں طرح کا رد عمل سامنے آرہاہے۔ سوشل میڈیا پرجہاں اس کی روشنی میں نیوز چینلوں پر تنقید کی جارہی ہے وہیں ان کو بھی ہدف بنایا جارہا ہے۔ رد عمل کا نچوڑ یہ ہے کہ آر ایس ایس کے لوگ مسلمانوں میں میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں لیکن ان کا اندرون زہر سے بھرا ہوتا ہے۔خود راکیش سنہا کے بارے میں کہا گیا کہ وہ راجیہ سبھا کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں۔ ان کے زہریلے مضامین انڈین ایکسپریس میں بھی پڑھنے کومل جاتے ہیں۔بہر حال ہمیں یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے کسی نیوز چینل کے بارے میں ایسی رائے کیوں دی لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اردو میڈیا پر بھی اسی طرح کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ بلکہ انہوں نے اس کے لیے ایک کتاب لکھ دی جس کا نام ہے ’آتنگ واد اور بھارتیہ میڈیا‘۔
یہ کتاب 156صفحات پرمشتمل ہے او ریہ 2009 میں منظر عام پر آئی تھی۔ اسے ’بھارت نیتی پرتشٹھان حوض خاص، نئی دہلی‘ نے شائع کیا ہے۔ اس کے منظرعام پر آتے ہی میں نے اسے قیمتاً منگوایا او را س کا جائزہ لیا۔ میں نے اس حوالے سے دومضامین لکھے۔ ایک میں ان کی کتاب کا جائزہ ہے اور دوسرے میں میں نے ان کو جواب دیا ہے۔کتاب میں دہشت گردی کے تناظر میں ملکی میڈیا کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں تین ایشوز اٹھائے گئے ہیں اور ان پر انگریزی، ہندی اور اردو میڈیا کی رپورٹنگ کے نمونوں کی روشنی میں تینوں زبانوں کی صحافت کو پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوایشوز بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر او رممبئی پر دہشت گردانہ حملے ہیں۔ تیسرا غیر متعلق ایشو ہے۔کہنے کو تو اس میں تینوں زبانوں کے میڈیا کا جائزہ لیا گیا ہے لیکن درحقیقت اس کا واحد اوراصل مقصد اردو میڈیا اورمسلمانوں کو بدنام کرنا اور ان کو کٹہرے میں کھڑاکرناہے۔ اس میں انگریزی میڈیا پر 52 ہندی میڈیا پر 21 او ر اردو میڈیا پر 61 صفحات خرچ کیے گئے ہیں۔ تینوں زبانوں کے معروف اخبارات کی خبروں اور تجزیوں کے نمونے پیش کرکے ان کی روشنی میں نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ اردو میڈیا کے بارے میں لکھا گیاہے کہ ’اردو ملک کی 17 ریاستوں میں بولی جاتی ہے او راردو اخباروں کی ہر جگہ پہنچ ہے۔لہٰذا ایک خاص مذہب کی صحافت کرنا اس زبان کے تنگ نظر ہونے کا ثبوت ہے۔ ایسی صحافت آزادی اور غیر جانبداری کے نام پر من مانی اور فرقہ پرست ہوجاتی ہے۔ اردو اخباروں نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو فرضی مانا۔ ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں کو جہاں مین اسٹریم کے اخبارات نے جہادی سازش کے طور پر دیکھا وہیں اردو اخباروں نے اسے یہودیوں، موساد، امریکہ اور سی آئی اے کی سازش قرار دیا۔ وہ اپنے اس نظریے پر اس وقت بھی قائم رہے جب ممبئی پولیس نے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر گیا رہ ہزار صفحات کی چارچ شیٹ دائر کردی۔ اس جائزے میں اردو اخبار وں پر فرضی اور بے بنیاد جائزوں کی روشنی میں سنسنی خیزی کا الزام لگایا گیا ہے او رکہا گیا ہے کہ اردو صحافت افواہوں کا گھوڑا دوڑانے والی صحافت ہے۔ ان کا مزید کہناہے کہ ’بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو فرضی قرار دینے کا مقصد فرقہ وارانہ ذہنیت کو روان چڑھانا ہے۔ اس معاملے کومسلم سیاست کا مرکز ومحور بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور دہشت گردی سے زیادہ دہشت گرد کے مذہب کو موضوع بحث بنایا گیاہے۔ پولیس کی کارروائی پر شکوک وشبہات ظاہر کیے جارہے ہیں اور انکاؤنٹر میں مارے گئے دونوں دہشت گردوں کومعصوم اور بے قصور بتایا جارہاہے۔ اردو اخباروں کی جانب سے ان بیانات کو شائع کرنے پر بھی ان پر لعن طعن کی گئی ہے جن میں انکاؤنٹر کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اردو کے جن اخباروں کی رپوٹوں کو نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے وہ ہیں: ہفت روزہ نئی دنیا، انقلاب، راشٹریہ سہارا، اردو ٹائمز، سیاست، آزاد ہند، منصف، اخبار مشرق، ہندوستان ایکسپریس، رہنمائے ملت، جدید مرکز، نشیمن اور عالمی سہارا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تینوں زبانو ں کے اخباروں سے صرف ان خبروں کے تراشے شامل کئے گئے ہیں جو ان کے مقصد کی تکمیل کرتی ہوں۔ ان خبروں اور جائزوں کونظر انداز کیا گیا ہے کہ جو پہلے سے طے شدہ ان کے نظریے کے خلاف ہوں۔ اردو اخباروں کی ان خبروں کو چھوا تک نہیں گیا جن میں دہشت گردی کی مخالفت کی گئی یا دہشت گردی کے خلاف کانفرنسوں او رپروگراموں کی رپورٹنگ کی گئی تھی۔ اردو اخباروں سے صرف ان خبروں کو چنا گیا جن میں سوالات کھڑے کیے گئے او رپولیس کے بیانات کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح انگریزی او رہندی کی صرف انہی خبروں کو لیا گیا جن میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں پولیس کے بیانات کو شائع کیا گیا، مسلمانوں کو دہشت گرد کہا گیا، جہاں دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مین اسٹریم میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف رپورٹنگ ہوتی ہے او رمسلمانوں کی غلط شبیہ پیش کی جاتی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ وہ بعض اوقات حقیقت پسندانہ تجزیہ بھی کرتاہے او رمسلمانوں کے ساتھ ہورہی نا انصافی پر آواز بھی اٹھاتاہے۔ ایسے کئی اخبارات ہیں جو فسادات میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف کھل کر لکھتے ہیں انہوں نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملے پر بھی بہت سے سوالات اٹھائے او رچند لوگوں کی حرکتوں کی آڑ میں پوری مسلم قوم کو دہشت گردثابت کر نے پر تلے ایک طبقے کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ میں نے آٹھ صفحات پر ان کی کتاب کا خلاصہ پیش کیا اورآٹھ صفحات میں ہندی اور انگریزی کی ان خبروں کی روشنی میں ان کو جواب دیا ہے جن میں راکیش سنہا جیسے لوگوں کے نظریات کی نفی کی گئی ہے۔ میں نے ہندی اور انگریزی کے انہی اخباروں کی خبروں کے نمونے لیے ہیں جن کی خبروں کے نمونے راکیش سنہا نے پیش کیے تھے۔ میرے یہ دونوں مضامین 2010 میں شائع ہونے والی میری کتاب ’میڈیا اردو اور جدید رجحانات‘ میں شامل ہیں۔ راکیش سنہا کا ایک چہرہ یہ بھی ہے۔ کیا وہ اپنی اس کتاب کی روشنی میں اپنے نظریات کی وضاحت کریں گے۔
22 جنوری،2025، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
---------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/rakesh-sinha-muslim-cap/d/134420
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism