گریس مبشر، نیو ایج اسلام
18 جنوری 2025
ایک یمنی نژاد امریکی عالم انور العولقی نے جہاد، تکفیر اور غیر مسلموں کے خلاف تشدد، اسلامی ریاست کے قیام کے لیے اقدامی جہاد کی وکالت کرنے، اور شہریوں پر بالخصوص عالم مغرب میں، حملوں کو جائز قرار دینے کے حوالے سے، اپنے بنیاد پرست نظریات کے لیے خوب بدنامی کمائی۔ اس کے خطبات نے اسلام کی مسخ شدہ تعبیر کو فروغ دیا، تشدد کو ایک مذہبی فریضہ کے طور پر پیش کیا، اور ان کے ساتھ اختلاف کرنے والے مسلمانوں کو مرتد قرار دے کر ان کا خون بہانا جائز قرار دیا۔ تاہم، اعتدال پسند مسلم علماء مثلا شیخ عبداللہ بن بیہ، ڈاکٹر طارق رمضان، اور ڈاکٹر محمد الغزالی، اس کے ان نظریات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
اہم نکات:
1. عولقی کے بنیاد پرست نظریات کو علماء دین اور اسلامی مفکرین کی ایک بڑی جماعت ہمیشہ سے مسترد کرتی آئی ہے، جن کا ماننا ہے کہ اس طرح کی بنیاد پرست تشریحات اسلامی تعلیمات کی غلط ترجمانی ہے۔
2. انوار العولقی ایک یمنی نژاد امریکی عالم ہیں جو جہاد، تکفیر، اور اسلام اور عالم مغرب کے درمیان خیالی جدوجہد کے حوالے سے، اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے لیے مشہور ہیں۔
3. وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جہاد، اپنے حقیقی معنوں میں، خود کی اصلاح، انصاف اور اپنے دفاع کے لیے جدوجہد کا نام ہے، نہ کہ بے دریغ تشدد کا۔ وہ تکفیر کے خطرناک استحصال کے خلاف بھی تنبیہ کرتے ہیں، اور اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں، کہ کوئی بھی مسلمان کسی کو مرتد قرار نہیں دے سکتا، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اور قیامت کے دن کے لیے محفوظ ہے۔ علمائے حق کا کہنا ہے کہ اسلام غیر جنگجوؤں کو نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے اور امن، بقائے باہمی اور انسانی جان کی حرمت پر زور دیتا ہے۔ ان علماء کا استدلال ہے کہ العولقی کے نظریات اسلام کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں، جسے صحیح طور پر سمجھنے سے، انصاف، رحم اور رواداری کو فروغ ملتا ہے۔
-----
عولقی کے خطبات کا حوالہ نیویارک میں ٹائمز اسکوائر پر بمباری کرنے کی کوشش کرنے والے بنیاد پرست انتہا پسند فیصل شہزاد نے اور روشن ارا چوہدری جیسے لوگوں نے دیا ہے جس نے اسٹیفن ٹمز ایم پی کو چاقو مارا۔ تصویر: HO/AFP/Getty Images
------
Awlaki’s sermons were cited by self-radicalised extremists such as Faisal Shahzad, who tried to bomb Times Square in New York, and Roshonara Choudhry, who stabbed Stephen Timms MP. Photograph: HO/AFP/Getty Images
------
تعارف
انور العولقی ایک یمنی نژاد امریکی عالم ہیں جو جہاد، تکفیر، اور اسلام اور مغرب کے درمیان تصوراتی جدوجہد کے حوالے سے، اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے خطبات کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا گیا، اس طرح عالم مغرب کے بہت سے نوجوان مسلم اس کی زد میں آ گئے، جو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث پائے گئے۔ انہوں نے غیر مسلموں کے خلاف پرتشدد جدوجہد کی ضرورت، مسلمانوں کو مرتد قرار دینے کے جواز، اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جنگ چھیڑنے کے تصور پر، مختلف لیکچر، مضامین اور اپنی کتاب "44Ways to Support Jihad" کے ذریعے اپنے افکار و نظریات کا پرچار کیا۔ "
تاہم، عولقی کے ان بنیاد پرست نظریات کو علماء دین اور اسلامی مفکرین کی ایک بڑی جماعت ہمیشہ سے مسترد کرتی آئی ہے، جن کا ماننا ہے کہ اس طرح کی بنیاد پرست تشریحات اسلامی تعلیمات کی غلط ترجمانی ہے۔ اس مضمون میں انور العولقی کے انتہا پسندانہ افکار کا تجزیہ کیا گیا ہے، ان کی تقاریر اور تحریروں کے اقتباسات اور حوالہ جات کو شامل کیا گیا، اور پھر اعتدال پسند مسلم علماء کی حکمت سے استفادہ کرتے ہوئے، ان نظریات کا رد کیا گیا ہے جو اسلام کی پرامن اور سیاق و سباق کے مطابق تعبیر و تشریح پیش کرتے ہیں۔ مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ العولقی کے افکار و نظریات اسلام کی حقیقی روح کی عکاسی نہیں کرتے جو امن، رواداری اور انصاف پر زور دیتی ہے۔
انوار العولقی کے بنیاد پرست نظریات
1. مسلمانوں کے لیے جہاد فرض ہے
العولقی کی سب سے زیادہ اثر انگیز اور متنازعہ فیہ تعلیم جہاد کے حوالے ہے۔ وہ جہاد کو محض ایک اجتماعی فریضہ (فرض کفایہ) نہیں، بلکہ ہر اس مسلمان کے لیے انفرادی فریضہ (فرض عین) سمجھتے ہیں، جو اسے ادا کرنے کے قابل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا ہو گا، جسے وہ غیر مسلم ریاستوں بالخصوص مغربی طاقتوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم و ستم مانتے ہیں۔
العولقی کا کہنا ہے کہ عالم مغرب، امریکہ کی قیادت میں، مسلم دنیا کو زیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور ان کے خیال میں، ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف جنگ کرے۔ یہ دلیل اسلامی جہاد کی تاریخی تفہیم سے کافی مختلف ہے، جس کی بنیاد اپنے دفاع پر ہے، اور اعلیٰ اخلاقی معیارات کی سختی سے پابندی پر۔ العولقی کے نظریات کافی جارحانہ ہیں، اور ضرورت پڑنے پر اس میں تشدد کے ذریعے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے اقدامی کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر، اپنی کتاب ""44Ways to Support Jihad"جہاد کی حمایت کے 44 طریقے" میں عولقی لکھتے ہیں:
"جہاد ہر مسلمان کا ایک انفرادی فریضہ ہے، اور اسلامی ریاست کے قیام اور دیگر تمام نظاموں پر اسلام کے غلبہ کے لیے، اخلاص کے ساتھ جہاد کیا جانا چاہیے۔" (عولقی، 2006)
یہ بیانیہ ان انتہا پسند گروہوں کے عین مطابق ہے، جو عام شہریوں اور فوجی اہداف پر، یکساں طور پر حملوں کا جواز پیش کرنا چاہتے ہیں۔ العولقی کے پیغام نے بہت سے نوجوانوں کو اس بات کا یقین دلایا ہے، کہ پرتشدد جہاد میں حصہ لینا ایک مذہبی فریضہ ہے، یہاں تک کہ براہ راست جارحیت یا کسی جائز حکومت کی اجازت نہ ہونے کی صورت میں بھی۔
اعتدال پسند علماء اسلام کی جانب سے تردید:
اعتدال پسند علماء طویل عرصے سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں، کہ العولقی کا جہاد کا تصور نہ صرف ایک انتہائی گمراہ کن نظریہ پر مبنی ہے، بلکہ مہلک بھی ہے۔ اسلام کا خوبصورت نظریہ طاقت کے استعمال پر سخت پابندیاں عائد کرتا ہے، اور جہاد کو انصاف اور اپنے دفاع کے لیے جدوجہد قرار دیتا ہے، اشتعال کے بغیر جارحانہ جنگ نہیں۔ قرآن و حدیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے، کہ جہاد کی پہلی شکل داخلی ہے — اپنی کمزوریوں کے خلاف جدوجہد کرنا، ذاتی ترقی کے لیے جدوجہد کرنا، اور ظلم کے خلاف غیر متشدد طریقے سے مزاحمت کرنا۔
موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز اسلامی اسکالر شیخ عبداللہ بن بیہ، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جہاد تشدد کا نام نہیں ہے۔ ان کی درج ذیل تحریر سے اس کی تصدیق ہوتی ہے:
"جہاد انصاف کے لیے جدوجہد کا نام ہے، لیکن یہ قتل کرنے کا لائسنس نہیں ہے۔ اسلام بے گناہوں کے قتل کی ممانعت کرتا ہے، اور کسی بھی قسم کا تشدد، جس میں غیر جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا ہو، اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔" (بن بیہ، 2014)
قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ طاقت کے استعمال کی اجازت صرف اپنے دفاع میں ہے، لیکن اگر کرنا ہی پڑے تو اس کا استعمال متناسب انداز میں، صرف فوجی جنگجوؤں پر ہونا چاہیے۔ سورۃ البقرہ (2:190) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو۔"
علماء کے مطابق یہ آیت بتاتی ہے کہ جہاد صرف عدل، اعتدال اور حسن اخلاق سے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ العولقی کا نقطہ نظر یہ ہے، کہ تشدد کا استعمال غیر جنگجو یا عام شہریوں کے خلاف بھی ہونا چاہیے، اس طرح یہ نظریہ قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہے۔
2. مسلمانوں کی تکفیر
العولقی کے نظریہ کی ایک اور اہم خصوصیت، ان کا مسلسل تکفیر کے عمل کی طرف اشارہ کرنا، یا کسی پر مرتد ہونے کا الزام لگانا ہے۔ ان کے نظریہ کے مطابق، جو کوئی بھی مسلمان العولقی کے پیش کردہ اسلامی نظریہ کو نہیں مانتا - خاص طور پر جو کوئی بھی پرتشدد جہاد، یا معاشرے میں شرعی قانون کے قیام کی حمایت نہیں کرتا - یقینا مرتد اور واجب القتل ہے۔
العولقی کی تقریروں سے ماخوذ ایک اقتباس:
"خلافت کو رد کرنے والے، شریعت کے نفاذ کو مسترد کرنے والے، اب امت مسلمہ کا حصہ نہیں رہے، ان کا خون بہانا جائز ہو چکا ہے۔" (اولقی، 2010)
تکفیر کی اس خطرناک تشریح کو مسلمانوں، حتیٰ کہ علماء، سیاست دانوں اور سادہ لوح شہریوں کے قتل کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، جو ان جنونیوں کے نقطہ نظر سے اب "مسلمان" نہیں رہے۔ ارتداد کے تصور کو پھیلاتے ہوئے، اور اسے تشدد کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے، العولقی نے داعش جیسے گروہوں کو ان "مرتدوں" کو تباہ و برباد کرنے کی ترغیب دی ہے، جو ان کے جیسا نظریہ نہیں رکھتے۔
اعتدال پسند علماء اسلام کی طرف سے اس کا رد:
تکفیر کا تصور اسلام میں سب سے زیادہ متنازعہ فیہ رہا ہے، اور علماء کی غالب اکثریت اس کے غلط استعمال سے احتیاط کرتی رہی ہے۔ امام غزالی جیسے علماء اور ڈاکٹر طارق رمضان جیسے معاصر مفکرین، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تکفیر ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے، جسے افراد یا گروہ تشدد کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال نہ کریں۔
ڈاکٹر طارق رمضان "اسلام، مغرب، اور جدیدیت کے چیلنجز" (2017) میں لکھتے ہیں:
"دوسروں کو کافر قرار دینے سے گریز کرنا ضروری ہے۔ تکفیر کا عمل ایک سنگین معاملہ ہے، اور اسے کبھی بھی ہلکے میں نہیں لیا جانا چاہئے، یا ایسے افراد پر نہیں چھوڑنا چاہیے جن کے پاس کوئی مذہبی اتھارٹی نہیں ہے۔"
یہ عقیدہ اسلامی طرز عمل پر مبنی ہے، جہاں علماء اس بات پر زور دیتے ہیں، کہ کسی کو مرتد قرار دینا اسلامی عدالتوں کا کام ہے، نہ کہ مذہبی قانون کی اپنی سمجھ کے مطابق ہر کوئی اس کا فیصلہ کرنے لگ جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جس نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو گویا اس نے اسے قتل کیا‘‘۔ (صحیح مسلم)
یہ حدیث تکفیر کے مسئلہ کی سنگینی کو واضح کرتی ہے، اور ایمان و عقیدہ کے معاملات میں احتیاط، حکمت اور مناسب عمل کی ضرورت پر روشنی ڈالتی ہے۔
مزید برآں، ایمان خدا کے ساتھ ایک انتہائی ذاتی اور گہرے تعلق کا نام ہے، اور یہ صرف خدا ہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ آیا کسی فرد کا اس کے ساتھ صحیح تعلق ہے یا نہیں۔ لوگوں کو کافر قرار دینا اسلامی عقیدے کے اندر رحم اور رواداری کے بنیادی اصول سے متصادم ہے۔
3. مغرب مخالف جذبات اور شہریوں پر حملہ کرنے کا جواز
العولقی کے بنیاد پرست نظریے کا ایک سب سے بڑا عنصر ان کا سخت مغرب مخالف موقف ہے۔ وہ عالمِ مغرب خصوصاً امریکہ کو اسلام کے وجود کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں، اور عالمِ مغرب بشمول عام شہریوں کے خلاف، پرتشدد جوابی کارروائی کی وکالت کرتے ہیں۔ وہ اپنے خطبات میں مغربی سامراج اور اس کے جبر کے خلاف لڑنے کا طریقہ، غیر جنگجوؤں پر حملے قرار دیتے ہیں۔
جیسا کہ العولقی نے اپنی بدنام زمانہ تقریر "امریکی عوام کے نام پیغام" میں کہا:
"عالمِ مغرب برسوں سے اسلام پر حملے کر رہا ہے، اور اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس کا منہ توڑ جواب دیں۔ عالم مغرب کے خلاف جہاد نہ صرف جائز ہے، بلکہ یہ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔" (عولقی، 2009)
اس بیان میں العولقی کا انتہاپسند نقطہ نظر موجود ہے، جس میں عالمِ مغرب کے خلاف تشدد خواہ فوجی ہو یا شہری، کو ایک دفاعی اور جارحانہ مذہبی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح کے افکار و نظریات کو مغربی شہریوں پر متعدد حملوں کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جن میں 9/11 کے حملے اور بعد میں القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں کی طرف سے انجام دی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیاں شامل ہیں۔
اعتدال پسند علماء اسلام کی جانب سے اس کی تردید:
العولقی کی پرتشدد انتقامی کارروائیوں کے مطالبات کے برعکس، مسلم علماء کی اکثریت، غیر مسلموں بشمول مغربی معاشروں میں رہنے والوں کے ساتھ، پرامن بقائے باہمی کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ ڈاکٹر محمد الغزالی اپنی کتاب "Islamic Ethics: A Brief Introduction," "اسلامی اخلاقیات: مختصر تعارف" میں لکھتے ہیں:
"اسلامی تعلیمات میں واضح طور پر غیر جنگجوؤں کے قتل کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اس میں خواتین، بچے، بوڑھے اور مذہبی اقلیتیں بھی شامل ہیں، جن کے ساتھ تصادم کے وقت احترام اور تحفظ کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔"
قرآن خود غیر مسلموں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بات کرتا ہے۔ سورۃ الممتحنہ (60:8) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو، بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں۔"
یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے، کہ اسلام مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ انصاف اور امن سے پیش آنے کی تاکید کرتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے ساتھ جو مسلمانوں پر حملے نہیں کرتے۔ اسلام میں کسی بھی شہری کے قتل کی سختی سے ممانعت ہے، کیونکہ یہ اخلاقیات کے اصولوں کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کے پیش کردہ ضابطہ جنگ و جدل کی بھی خلاف ورزی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی ایک بہت مضبوط مثال پیش کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عدل اور رحم دلی کے حامی رہے، حتیٰ کہ دشمنوں کے حملوں کے وقت بھی۔ لہذا، العولقی کے وہ انتہاپسند نظریات، جن میں مغربیوں کے بے دریغ قتل کی بات کہی گئی ہے، اسلامی تعلیمات سے بہت دور ہیں۔
نتیجہ
انور العولقی عالمِ مغرب کے مسلمانوں میں تشدد اور عدم برداشت کو فروغ دینے میں ایک انتہائی بااثر شخصیت تھے۔ اقدامی جہاد، مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے تکفیری حیلہ، اور مغربی غیر جنگجو شہریوں پر حملہ کرنے کے لیے ان کا موقف، اسلام میں امن، انصاف اور انسانی جان کی حرمت کی بنیادی تعلیمات سے متصادم ہے۔
ایک اعتدال پسند مسلم اسکالر مثلا شیخ عبداللہ بن بیہ، ڈاکٹر طارق رمضان، اور ڈاکٹر محمد الغزالی اسلام کی زیادہ متوازن اور سیاق و سباق کے مطابق تفہیم پیش کرتے ہیں۔ وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جہاد دراصل انصاف اور امن کے لیے لڑنے کا نام ہے، اور تکفیر کا حکم صرف مجاز حکام کے ذریعے ہی جاری کیا جانا چاہیے، اور یہ کہ غیر جنگجوؤں کے خلاف تشدد سختی سے ممنوع ہے۔ وہ اکثر مذہبی یا نسلی پس منظر سے قطع نظر رحم، رواداری، اور انسانی زندگی کے احترام کے موضوع پر زور دیتے ہیں۔
العولقی کی بنیاد پرست فکر و نظر سے لے کر علمی تردید تک، یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کی تشریحات اسلام سے خطرناک انحراف پر مبنی ہیں۔ حقیقی اسلام وہ مذہب ہے جسے علماء کی اکثریت پیش کرتی ہے، جو کہ پرامن ہے، بقائے باہمی کا حامل ہے اور بے گناہوں کی جانوں کی حفاظت کرتا ہے، لیکن ان تعلیمات کی روشنی میں تشدد یا نفرت کو مسترد کرتا ہے۔
حوالہ جات:
عولقی، انور۔ جہاد کی حمایت کے 44 طریقے۔ 2006.
عولقی، انور۔ امریکی عوام کے لیے پیغام۔ 2009.
بن بیہ، عبداللہ۔ جدید دنیا میں اسلامی اخلاقیات۔ 2014.
رمضان، طارق۔ اسلام، مغرب اور جدیدیت کے چیلنجز۔ 2017.
الغزالی، محمد۔ اسلامی اخلاقیات: ایک مختصر تعارف۔ 2010.
-----
English Article: Radical Ideas Of Islamic Terror Ideologue Anwar al-Awlaki And Its Refutation By Moderate Muslim Scholars
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism