ضیاء الرحمن ،نیو ایج اسلام
10 فروری، 2015
قرآن میں ہر اس موضوع یا مسئلے سے بحث کی گئی ہے جو نزول قرآن کے دوران عرب خصوصاً مکہ یا مدینہ میں اہم تھااور ان میں ایک اہم موضوع ارتداد کا بھی ہے۔چونکہ ارتداد ابتدائے اسلام میں ایک عام مسئلہ تھا خصوصاً مکہ اور مدینہ میں ، چنانچہ قرآن نے اس موضوع پر اپنے مؤقف کا اظہار آیات محکمات میں کردیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمان دین سے پھر جانے والوں یا مرتدوں کے ساتھ کیا سلوک کریں۔مکہ میں جب کوئی اسلام قبول کرتاتھا تو مشرکین اور یہود اس پر طرح طرح سے اسلام سے باز آنے کے لئے دباؤ ڈالنے لگتے تھے۔ نتیجے میں کچھ لوگ دھمکیوں یا سماجیوں و معاشی مجبوریوں کے تحت مرتد ہوجاتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب اسلام اور مسلمان عرب میں غالب ہوگئے تو لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے ۔اسی طرح بہت سے قبائل اور افراد مختلف وجوہات کی بنا پر دین سے پھرنے بھی لگے اور دین اسلام میں داخل ہونے اور دین کو ترک کرنے کا ایک سلسلہ چلتارہا۔جب بھی لوگوں کو اپنے مادی اور معاشی مفادات خطرے میں نظر آتے وہ مشرکوں اور یہودیوں کے دباؤ میں مرتد ہوجاتے تھے ۔ کچھ قبائل اور افراد تو زکوٰ ۃ کے لزوم کی وجہ سے بھی مرتد ہوگئے۔
لہٰذا، قرآن نے اس اہم مسئلے پر کئی واضح آیتیں نازل کی ہیں ۔ قرآن میں ایسی چھ آیات ہیں جن میں مسئلہ ارتداد سے بحث کی گئی ہے۔ایک آیت میں منافقوں کے متعلق بھی ارتداد کے ہی ذیل میں بحث کی گئی ہے۔وہ آیات درج ذیل ہیں۔
1)’’ اورتم میں سے جو کوئی بھی اپنے دین سے پھرجاتاہے اور حالت کفر ہی میں مر جاتاہے توان کے اعمال اس دنیا میں اور آخرت میں ضائع ہوجاتے ہیں ا ور وہ آگ کے ساتھی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘ (البقرہَ 217)
2)’’ بے شک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے اور بڑھتے رہے کفر میں اللہ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا اور انہیں رہ نہیں دکھاے گا۔ ‘‘ (النساء: 137)
3)’’ اور اللہ نے بنی اسرائیل سے پہلے ہی عہد لے لیاتھا اور ہم نے ان میں سے بارہ پیشوا اٹھائے تھے اور اللہ نے کہا میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم کرو اور زکوٰ ۃ دو اورمیرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کاساتھ دوور اللہ کو اچھی طرح قرض دو میں تمہیں ضروربرائیوں سے پاک کردوں گا اور ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی۔لیکن تم سے جو بھی اس کے بعد کفر کرے گا وہ بے شک راہ راست سے بھٹک جائے گا۔‘‘ (المائدہ : 12)
4)’’ بے شک جو ایمان لانے کے بعد پیغام کو رد کردیتے ہیں اور پھر کفر میں بڑھتے رہتے ہیں تو اللہ ان کی توبہ قبول نہیں کرے گا اور ہی لوگ گمراہ ہیں۔‘‘ (آل عمران : 90)
5)’’اے ایمان والو تم سے جو بھیاپنے دین سے پھر گیاتو اللہ ان کے بدلے ایسی قوم کو لائے گا جو اس سے محبت کرینگے اور اللہ ان سے محبت کرے گا۔ ‘‘ (المائدہ : 54)
6)’’ وہ قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نبی کے خلا ف کچھ نہیں کہا جبکہ انہوں نے کفر کہا تھااور ایمان لانے کے بعد کفر کیااور منصوبے بنائے جو کبھی کامیاب نہیں ہونگے۔اور وہ لوگ ناراض نہیں تھے سوائے اس بات پر کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں مالا مال کردیا تھا۔ سو اگر وہ توبہ کرتے ہیں تو ان ہی کے بھلے کے لئے ہے اور اگر وہ پھرجاتے ہیں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب دے گااور زمین پر ان کا کوئی محافظ و مددگار نہ ہوگا ‘‘ (التوبۃ: 74)
ان آیات کے مطالعے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن دین سے پھر جانے والوں پر دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر لعنت بھیجتاہے اور ان کے لئے آخرت میں سخت سزا کی بشارت دیتاہے ۔ قرآن کہتاہے کہ دین سے پھرجانے والوں پر خدا ، فرشتے اور تمامخلوقات لعنت بھیجتے ہیں مگر ان کے لئے دنیا میں کوئی سزا تجویز نہیں کرتا۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ سورہ النسا ء کی آیت نمبر ۱۳۷ میں خدا کہتاہے ’’وہ لوگ جو ایمان لائے ، پھر کافر ہوگئے ، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے اور پھر کفر میں بڑھتے گئے ، اللہ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘ اس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ ایک مرتد کو ایک اسلامی ملک یا سماج میں اتنی مہلت دی جائے گی کہ وہ بار بار ایمان لائے اور پھر دین سے پھر جائے اور پھر اپنے فطری موت کو پہنچے۔ اسے اپنے ارتداد سے تائب ہونے اور خدا پر سچے دل سے ایمان لانے کا پورا موقع دیاجائے گا تاکہ اسے حشر میں یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ مجھے تو توبہ کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ا گر پہلی بار ہی دین سے پھر جانے پر انہیں موت کی سزا دینے کی تجویز ہوتی تو قرآن یہ آیت نہ لاتا۔
قرآن میں ایک آیت منافقوں سے متعلق ہے جو ارتداد کے ہی تناظر میں ہی لائی گئی ہے اور خدا منافقوں کے ایک گروہ کو بھی مرتدوں کے خانے میں ڈالتاہیاور انہیں بھی آخرت میں درد ناک عذاب کی بشارت دیتاہے۔
’’عذر نہ سناؤ،تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہو۔اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کردیں گے تو دوسرے گروہ کو سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم تھے۔‘‘(التوبۃ :66)
اس آیت میں خدا کہتاہے کہ وہ منافقوں کے ایک گروہ کو معاف کردے گا ۔ غالباً یہ ان منافقوں کے متعلق کہا گیا ہے جو زندگی کے کسی حصے میں سچے دل سے ایمان لے آئیں اور اپنے گناہوں سے تائب ہوجائیں جبکہ دوسرا گروہ آخر دم تک اپنی منافقت سے باز نہیں آئے گااور کفر پر ہی اس کا دم نکلے گا۔
منافق ان لوگوں کو کہا گیا جو باہر سے اسلام قبول کرنے کا دعوی کرتے تھے مگر اندر سے اپنے دین کفر و شرک پر قائم تھے ۔ ایسے لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انہی کے درمیان رہ کر سازشیں کرتے تھے۔اللہ نے ایسے منافقوں کے متعلق الہام یا وحی کے ذریعہ حضور پاک ؐ کو آگاہ فرمادیاتھا تاکہ وہ ان کی سازشوں سے محفوظ رہیں۔بہرحال، چونکہ وہ زبان سیے اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لانے کا دعوی ٰ کرتے تھے انہیں سزا سے منع کیا گیا بلکہ حضور پاک ؐ ایسے لوگوں سے صلہ رحمی سے پیش آتے رہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن میں مختلف جرائم اور اخلاقی برائیوں کے لئے سخت سزا مقرر کی ہے جیسے :
چوری کی سزا
’’ چور کے لئے ،مرد اور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹوبدلہ اس کا جو انہوں نے کیا اللہ کی طرف سے سزا ‘‘ (المائدہ :38)
بدکاری کی سزا
’’ زنا کرنے والے مرد اور عورت کو مارو سو درے اور خدا کے دین میں ان پر ترس نہ کھاؤ، اگر تم اللہ اور قیامت پر یقین رکھتے ہو اور ایک جماعت تم سے وہاں موجود ہو گواہ ‘‘ (النور : 2)
فتنہ فساد کی سزا
’’بے شک وو لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور زمین پر فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا تو یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی چڑھائے جائیںیا ان کے ہاتھ اور پیر مخالف سمتوں سے کاٹے جائیںیا انہیں ملک بد ر کیاجائے۔یہ دنیامیں ان کے لئے ذلت ہے اور آخر میں بھی ان کے لئے درد ناک عذاب ہے ‘‘(الماندہ : 33)
لیکن قرآن مرتد کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کرتاکیونکہ ارتداد حقوق العباد کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ حقوق اللہ کی خلاف ورزی ہے۔ خدا انسانوں کے حقوق پر سخت ہے جبکہ خود اپنے حقوق کے متعلق کہتاہے کہ اس کی سزا وہ خود قیامت کے دن دے گا اور اسے دنیا میں آخر دم تک توبہ کرنے کی مہلت دے گا۔خدا کا یہ حق ہے کہ بندے اسی کی عبادت کریں اور اس نے انہیں جو نعمتیں عطا کی ہیں اس کے لئے اس کا شکریہ ادا کریں اور جو لوگ اس کو چھوڑ کر جھوٹے خداؤں کی پرستش کرتے ہیں یا کفران نعمت کرتے ہیں خدا ایسے لوگوں کو سخت عذاب کی وعید سناتاہے۔ارتداد یا کفر خدا کے نزدیک اتنا سنگین گناہ ہے کہ وہ اس کے لئے سخت ترین عذاب دینا چاہتا ہے ۔ انسان دنیا میں اسے اتنا سخت عذاب نہیں دے سکتاْ ۔ اس لئے وہ چاہتاہے کہ ارتداد کے مجرموں کو آخرت میں قرار واقعی سزا ملے اور انہیں ہزاروں سال جہنم کے لئے عذاب میں ڈال دیاجائے۔ اس سے بہلے اسے دنیا میں تائب ہونے کی مہلت دے دی جائے۔یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ قرآن میں چوری ، بدکاری، فتنہ فساد وغیرہ کے لئے واضح سزائیں مقرر کرتاہے وہیں ارتداد کے لئے دنیا میں کوئی سزا مقرر نہیں کرتا اور اسے آخرت میں درد ناک سزا کی وعید سناتاہے۔ارتداد کے لئے دنیا میں کوئی سزا مقرر نہ کرنے اور آخرت میں سزا دینے کے پیچھے قرآن کی یہی منطق ہے ۔
دوسری منطق یہ ہے کہ خدا اپنے بندوں سے بے حد محبت کرتاہے اس لئے نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندجہنم کی آگ میں جلے۔ اس لئے وہ اسے گناہوں سے توبہ کی پوری مہلت دیتاہے۔ وہ بندوں کو سزادینے میں جلد بازی کا قائل نہیں۔
بہرحال علما ء کا ایک طبقہ مرتد کے لئے سزائے موت کا حامی ہے۔ ایسے علماء دلیل میں ایسی قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جو ارتدادسے بحث نہیں کرتیں کیونکہ قرآن میں ایسی آیت ہی نہیں ہے جو ارتداد کے لئے سزائے موت یا کوئی دوسری سزا تجویز کرتی ہو۔اس لئے علماء ارتداد کے لئے سزائے موت کی حمایت میں چند احادیث نقل کرتے ہیں جن میں مرتد کو ہلاک کرنے کا ذکرہے۔ ایسی چند حدیثیں پیش ہیں:
1)’’۔۔۔رسول پاک ؐ نے فرمایا ،اگر کوئی (مسلم ) اپنے دین سے پھر جائے تو اسے ہلاک کردو۔ ‘‘ (بخاری 52: 260)
2)’’اللہ کے بنی ؐ نے ان تین حالتوں میں سے ایک سوا کسی کو قتل نہیں فرمایا، ’’(1) وہ شخص جس نے بلا جواز کسی کو قتل کیا، وہ قصاص میں ہلاک کیاگیا، (2) شادی شدہ شخص جس نے زنا کا ارتکاب کیا اور (3) وہ شخص جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی اور دین کوترک کردیا اور مرتد ہوگیا۔‘‘(83:37)
3) ’’ابو موسی ٰ کے پاس ایک شخص زنجیروں میں جکڑا ہواتھا ۔ معاذنے پوچھا ، یہ شخص کون ہے۔ معاذ نے جواب دیا، یہ ایک یہودی تھا اور مسلمان ہوگیا تھا مگر پھر یہودیت کی طرف پھر گیا۔پھر ابوموسی سے بیٹھ جانے کو کہا۔ معاذ نے کہا ، میں تب تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اسے قتل نہیں کردیا جاتا۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے اور اس نے اسے تین بار دہرایا۔‘‘ اس کے بعد ابو موسی ٰ نے اس کے قتل کا حکم دیا اور اسے قتل کردیاگیا۔ ابوموسی ٰ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم عشاء کی نماز کے متعلق گفتگو کرنے لگے،‘‘ (بخاری :84:58)
لیکن علماء ان احادیث کو نظر انداز کرجاتے ہیں جن میں مرتد کے لئے سزائے موت کی حمایت نہیں کی گئی ہے۔ ایسی چند احادیث درج ذیل ہیں:
1)’’حضرت انس نے روایت کی کہ ایک عیسائی نے اسلام قبول کیا اور وہ البقرہ اور آل عمران کی سورتیں پڑھتاتھااور وہ پیغمبر اسلام ؐ کے لئے وحی نقل کرنے کا کام کرتاتھا۔بعد میں اس نے عیسائیت کی طرف مراجعت کرلی۔ وہ کہاکرتاتھا کہ محمد کچھ نہیں جانتے ، انہیں تو میں لکھ کر دیا کرتاتھا۔اس کے بعد اللہ نے اسے موت دے دی۔اور اس کے لوگوں نے اسے دفن کردیا۔لیکن اگلی صبح لوگوں نے دیکھا کہ زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیاہے۔انہوں نے کہا ’یہ محمد اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے۔ ان لوگوں نے ہمارے ساتھیوں کی لاش کو زمین کھود کر نکال لیا ہے کیونکہ اس نے انہیں چھوڑدیاتھا۔‘پھر انہوں نے اس کے لئے اس بھی گہری قبر کھودی مگر اگلی صبح کو دیکھا کہ زمین نے اس کی لاش کو پھر باہر پھینگ دیا ہے۔ سو ان لوگوں نے پھر کہا کہ یہ محمد اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے ، انہوں نے ہمارے ساتھیوں کی لاش زمین کھود کر باہر پھینک دی ہے کیونکہ وہ انہیں چھوڑ کر آگیا تھا۔‘ اس بار انہوں نے اس کی قبر جتنی گہری کھود سکتے تھے کھودی اور دفن کردیا مگر اگلی صبح پھر دیکھا کہ اس کی لاش زمین نے باہر پھینک دی تھی۔تب انہیں یقین ہوگیا کہ جو بھی اس کے ساتھ ہورہا تھا وہ کسی انسان کا کام نہیں تھا۔ لہذا، انہوں نے اس کی لاش کو زمین پر ہی چھوڑ دیا۔(بخاری جلد 56 حدیث نمبر 814)
مندرجہ بالا حدیث سے یہ واضح ہے کہ مرتدعیسائی کو قتل نہیں کیاگیاتھا بلکہ وہ فطری موت مراتھا جبکہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب مدینے میں حضور پاک ؐ اور ان کے صحابی موجود تھے۔
2)’’سلامہ بن الاکوا سے روایت ہے کہ وہ الحجاج کے پاس گیا تو اس نے پوچھا ’ اے ابن الاکوا، تم تو مرتد ہوگئے تھے تو پھر تم (ہجرت کے بعد)ریگستان میں بدوؤں کے ساتھ آکر کیوں رہنے لگے؟‘ اس نے جواب دیا ’ نہیں ، پیغمبر اسلام ؐ نے مجھے یہاں(ریگستان میں) رہنے کی اجازت دی ہے۔‘(مسلم کتاب 20: حدیث نمبر 4593)
3) مالک نے عبدالرحمان بن محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری کے حوالے سے مجھے روایت کی کہ اس کے والد نے کہا ’’ایک شخص ابوموسی ٰ اشعری کے پاس سے حضرت عمر بن خطاب کے پاس آیا۔انہوں نے ان سے مختلف لوگوں کے متعلق استفسار فرمایا اورانہوں نے ان کے بارے میں بتایا۔ پھر حضرت عمر نے پوچھا، کیا کوئی اور تازہ خبر ہے؟انہوں نے جواب دیا ہاں، ایک شخص اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہوگیا ہے ۔ عمر نے پوچھا ، تم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے جواب دیا، ہم نے اس کا سر قلم کردیا۔ عمرنے پوچھا ، کیا تم نے اسے قید نہیں کیا اور تین دنوں تک اسے روٹی نہیں کھلائی اور اسے توبہ کرنے کا مشورہ نہیں دیا تاکہ وہ تائب ہوکر اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آتا؟‘ پھر عمر نے فرمایا، ’’میں وہاں موجود نہیں تھااور میں نے اس کا حکم نہیں دیااور اس خبر سے میں خوش نہیں ہوں۔‘‘(مالک ، کتاب 36حدیث 36۔18۔16)
ان حدیثوں کے علاوہ مندرجہ ذیل حدیث یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ کبھی کبھی کسی مرتد کو اس کے دوسرے جرائم کی پاداش میں بھی قتل کیاگیا مگر اس کے قتل کو ارتداد کی سزا کے طورپر پیش کیاگیا کیونکہ ان جرائم کا مرتکب مرتد بھی تھا۔
’’انس بن مالک سے روایت ہے کہ( قبیلہ ) عرینہ سے کچھ لوگ مدینہ میں پیغمبر اسلام ؐ کے پاس آئے۔لیکن انہیں یہا ں کا موسم راس نہیں آیا۔لہٰذا، رسول پاک ؐ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تو جاکرصدقے کی اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پی سکتے ہو۔انہوں نے اس پر عمل کیا اور صحتمند ہوگئے۔پھر ان لوگوں نے گلے بان کو قتل کردیا اور مرتد ہوگئے اور پیغمبر اسلام کے اونٹوں کو ہنکا کر لے گئے۔یہ خبر حضور پاک ؐ تک پہنچی تو آپ نے ان کو پکڑنے کے لئے آدمی بھیجے جو انہیں گرفتار کرکے لائے اور آپ ؐکے سپرد کردیا۔حضور پاک ؐ نے ان کے ہاتھ اور پیر کٹوادئیے ، اور ان کی آنکھیں نکلوادیں اور انہیں پتھریلی زمین پر ڈال دیاجہاں وہ مرگئے۔‘‘(صحیح مسلم کتاب 16، حدیث 4130)
اسی واقعے سے متعلق ایک اور حدیث ہے
’’انس نے روایت کی کہ اللہ کے نبی ؐ نے ان کی آنکھیں اس لئے نکلوائیں کہ انہوں نے گلہ بان کی آنکھیں نکالی تھیں۔‘‘ (مسلم کتاب 160 : حدیث نمبر 4137)
لہٰذا، قروآن کی آیتوں کا ایمانداری سے مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوجائے گا کہ اسلام میں مرتد کے لئے دنیا میں کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کو درد ناک سزا دینے کی ذمہ داری اللہ نے اپنے اوپر لی ہے کیونکہ مرتدبراہ راست اللہ کا مجرم ہوتاہے۔
URL for English article:
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/qur’anic-teachings-–-5-apostasy/d/101442