ٹی او شناواس، نیو ایج
اسلام
29 نومبر 2023
اس مضمون میں ہماری کائنات
اور قیامت کے حوالے سے ایک قرآنی آیت اور سائنسی نظریات کے درمیان ایک دلچسپ ہم
آہنگی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آیت 21:104 کہتی ہے ("جس دن ہم آسمان کو
لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ نامہٴ اعمال کو لپیٹتا ہے، جیسے پہلے اسے بنایا تھا ویسے
ہی پھر کردیں گے یہ وعدہ ہے ہمارے ذمہ، ہم کو اس کا ضرور کرنا۔")، جس میں
آسمان کے لپیٹے جانے کی بات کی گئی ہے، جو کہ بگ بینگ اور کائنات کے خاتمے کے
سائنسی تصور سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔ اور یہ نکتہ قدیم کتب اور جدید سائنسی
نظریات کے ساتھ نمایاں طور پر ہم آہنگ ہے، جس سے قدیم حکمت اور عصری علوم کے
درمیان ایک دلچسپ تعلق کا پتہ چلتا ہے۔
گلوبل وارمنگ پر سائنسی
رپورٹیں اکثر اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں۔ ہم اپنے اسلامی سینٹر میں ہمیشہ انسانوں
کی حرص و ہوس اور خزانہ قدرت کے غلط استعمال کے تباہ کن نتائج سے لوگوں کو آگاہ
کرتے رہتے ہیں۔ قرآن کا حاضر و ناظر خدا، جس کی نظر میں لالچی اور طاقتور دونوں
ہیں، اس نے اپنے کے احکام اور فلاح عامہ کو نظر انداز کیے جانے کے نتیجے میں تیزی
سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔
یوم القیامۃ کے واقعات کے
بارے میں قرآنی آیات کا حوالہ پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیدا ہوتی کیونکہ جدید
سائنسی تحقیقات اور قرآنی پیشن گوئیاں لفظ بہ لفظ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نظر
آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، 1880 سے عالمی اوسط سطح سمندر میں 9–8 انچ (24–21 سینٹی
میٹر) کا اضافہ ہوا ہے۔ 2022 میں، عالمی اوسط سطح سمندر 1993 کی سطح سے اوپر اٹھ
کر 101.2 ملی میٹر (4 انچ) ہو گئی جو کہ ایک نیا ریکارڈ تھا۔ عالمی سطح پر سطح
سمندر میں اضافے کی شرح میں تیزی آرہی ہے: سطح سمندر بیسویں صدی کے بیشتر حصوں میں
0.06 انچ (1.4 ملی میٹر) سالانہ رہی جس میں 2015-2006 کے دوران ہر سال 0.14 انچ
(3.6 ملی میٹر) تک کی دوگنی رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، 2030 کی دہائی
کے وسط تک، ہر امریکی ساحل چاند کے مدار میں ہلچل کی وجہ سے زیادہ شدید سیلاب کا
سامنا کرے گا جو ہر 18.6 سال بعد ہوتا ہے۔
"قرآن کہتا ہے کہ
کائنات کے خاتمے کی ابتدائی نشانیاں سمندر کی سطح میں اضافہ اور ساحلی سیلاب ہوں
گی: [قیامت کے دن] 'اور سلگائے ہوئے سمندر کی' (قرآن 52:6)۔ اس آیت میں استعمال
عربی لفظ 'شجر' کا مطلب 'بھرنا' ہے۔ آج کی سائنس کے مطابق، ساحلی علاقوں کا سیلاب،
سمندر کے 'بھرنے' کی تعبیر ہے، جس کی وجہ قطب شمالی اور قطب جنوبی اور ساتھ ہی
ساتھ پہاڑی گلیشیئر کا پگھلنا بھی ہے۔"
سائنس کائنات کے خاتمے کے
قریب میں رونما ہونے والے دیگر واقعات کی وضاحت کرتی ہے: "اب سے اربوں سال
بعد، زمین پر ایک آخری دن ہوگا۔ اس کے بعد سورج دھیرے دھیرے سرخ ہو جائے گا اور
پوری زمین پر پھیل جائے گا اور پوری کائنات تباہ ہو جائے گی۔
ماہرین فلکیات کا خیال ہے
کہ سورج ہائیڈروجن اور ہیلیم کے ملاپ کی وجہ سے بڑی تبدیلیوں سے گزرے گا، جس کے
نتیجے میں وہ پھیلا اور ٹھنڈا ہوگا۔ سائنس کے مطابق سورج کا ٹھنڈا ہو جانا قرآن کی
آیت 81:1 ("اِذا الشمس کورت") کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جو سورج کے تاریک
ہونے کو بیان کرتی ہے۔ مزید برآں، جب سورج سرخ ہوگا اور پھول جائے گا، تو ایسا
لگتا ہے کہ قرآن اس حالت کو ایک "سرخ اور پھولے ہوئے" سورج کے طور پر
پیش کرتا ہے، اور اسے قرآن ایت 70:8 (یوم تکون السماء کالمھل) میں آسمان کے پگھلے
ہوئے تانبے کی طرح ہونے سے تشبیہ دیتا ہے۔
جیسے جیسے اربوں سالوں
میں"قیامت" قریب ہو گی، سائنسی تخمینے زمین پر شدید گرمی کی نشاندہی
کرتے ہیں۔ معروف ماہر فلکیات کارل ساگن کے مطابق، سمندر کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت
ہوا میں زیادہ پانی کے بخارات چھوڑے گا، جس سے بادلوں کی پرت میں اضافہ ہوگا، جو
عارضی طور پر زمین تک سورج کی روشنی پہنچنے میں تاخیر کا سبب ہو گا۔ تاہم، سورج کی
تپش میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں سمندر کے بخارات کی مقدار
بڑھتی جا رہی ہے۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن 81:6 (و اذا البحار سجرت) میں،
قرب قیامت کی انہیں نشانیوں سے پیشگی خبردار کرتا ہے۔
جیسے جیسے
"قیامت" قریب ہوتی جائے گی، سائنسی پیشین گوئیاں بتاتی ہیں کہ سورج
عطارد، زہرہ اور ممکنہ طور پر زمین کو نگل لے گا، اور داخلی نظام شمسی سورج کے
اندر چلا جائے گا۔ قرآن کی آیت 75:9 ("و جمع الشمس والقمر") یہی بتاتی
ہے کہ قرب قیامت میں سورج اور چاند کے ایک ہو جائیں گے۔ اور قرآن میں دوسرے سیاروں
کا ذکر نہ ہونا اس زمانے کے خانہ بدوش عربوں کی لسانی بندشوں کی وجہ سے ہو سکتا
ہے، جس میں "مرکری" اور "زہرہ" جیسی مخصوص اصطلاحات نہیں پائی
جاتی تھیں۔ تاہم، چاند ایک ایسا آسمانی مادہ تھا جس سے اس دور کے تمام عرب واقف
تھے۔
قیامت کے حوالے سے تین
سائنسی نظریات پائے جاتے ہیں: بگ فریز یا ہیٹ ڈیتھ، بگ رِپ، اور بگ کرنچ۔
1950-1930 کی دہائی میں ایڈون ہبل نے کہکشاؤں کے ایک دوسرے سے دور ہونے کا تصور
پیش کیا، جس سے بڑے پیمانے پر مقبول بگ بینگ تھیوری کی حمایت ہوتی ہے۔
ہیٹ ڈیتھ تھیوری یہ کہتی
ہے کہ جیسے جیسے موجودہ ستاروں کا ایندھن ختم ہوتا جائے گا اور وہ چمکنا بند ہو
جائیں گے، کائنات دھیرے دھیرے تاریکی میں گم ہوتی چلی جائے گی۔ بالآخر، بلیک ہول
کا غلبہ ہو گا، لیکن وہ بھی وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گے۔
بگ رِپ تھیوری یہ کہتی ہے
کہ کائنات کی ہر شئے ایک محدود وقت کے اندر اندر ذرات اور ریڈی ایشن بن کر ختم ہو
جائے گی۔
دوسری طرف، بگ کرنچ تھیوری
یہ کہتی ہے کہ کہکشائیں جو ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں آخر کار الٹے پاؤں پلٹ
جائیں گی، ایک واحد نقطے کی شکل اختیار کر جائیں گی، جو کہ بگ بینگ کے دوران اس
کائنات کی حالت تھی۔
قرآن مجید کے مطالعے سے
معلوم ہوتا ہے کہ قرآن بگ کرنچ کی شکل میں اس کائنات کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔
کیونکہ جہاں قرآن کہکشاؤں کے ایک دوسرے سے دور ہونے کی بات کرتا ہے، وہیں یہ
کائنات کے پھیلاؤ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، اور یہ کہتا ہے "والسماء بنینھا
باید و انا لموسعون) اور آسمان کو ہم نے ہاتھوں سے بنایا اور بیشک ہم وسعت دینے
والے ہیں، 51:47)۔ کائنات کی اس انداز میں توسیع "قیامت" کے دن آپس میں
ٹکرا جانے کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں پیچھے کی طرف ہٹتی ہوئی کہکشائیں الٹے سمت
کا رخ کر لیں گی، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر کائنات کا خاتمہ بگ کرنچ کی شکل
میں ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آیت ان دور ہوتی ہوئی کہکشاؤں کے اپس میں ٹکرا
جانے کی بات کرتی ہے۔
قرآن مجید کے مطالعے سے
معلوم ہوتا ہے کہ قرآن بگ کرنچ کی شکل میں اس کائنات کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔
کیونکہ جہاں قرآن کہکشاؤں کے ایک دوسرے سے دور ہونے کی بات کرتا ہے، وہیں یہ
کائنات کے پھیلاؤ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، اور یہ کہتا ہے "والسماء بنینھا
باید و انا لموسعون) اور آسمان کو ہم نے ہاتھوں سے بنایا اور بیشک ہم وسعت دینے
والے ہیں، 51:47)۔
"قیامت" کا تصور
کہکشاؤں کے آپس میں ٹکرا جانے سے عبارت ہے، جس کے نتیجے میں بگ کرنچ کی کیفیت پیدا
ہوگی۔ اور اس ٹکراؤ کی تفصیل ممکنہ طور پر قرآن کی آیات 16-81:15 میں ملتی ہے:
"فلا اقسم بالخنس ۔ الجوار الکنس، تو قسم ہے ان کی جو الٹے پھریں۔ سیدھے چلیں
تھم رہیں"۔
سائنس اس حوالے سے یہ
بتاتی ہے کہ قیامت کے قریب، انفرادی کہکشائیں ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں گی کیونکہ
خلا کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سائنسی نظریہ کہکشاؤں کے انضمام سے آسمان میں قابل
مشاہدہ روشنی میں کمی کے قرآنی تصور سے مطابقت رکھتا ہے، جس کے نتیجے آسمان خالی
نظر آتا ہے:و اذا السماء کشطت"اور جب آسمان جگہ سے کھینچ لیا
جائے"(81:11)۔
سیاہ ستارے کی تشکیل کا
تصور - ایک قسم کا ستارہ جو ٹھنڈا ہوتے ہی حرارت اور روشنی پیدا کرنے کی اپنی
صلاحیت کھو دیتا ہے- قرآن کی آیت 81:2 کے ساتھ ہم آہنگ ہے: "و اذا النجوم
النکدرت، اور جب تارے جھڑ پڑیں"۔ یہ آیت ممکنہ طور پر "قیامت" کے
دن اس آسمان کی کیفیت بیان کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، دیگر قرآنی آیات، مثلا "پھر
جب آسمان پھٹ ائے گا تو گلاب کے پھول کا سا ہوجائے گا جیسے سرخ نری (بکرے کی رنگی
ہوئی کھال)" (قرآن 55:37)؛ "اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر دفعتا ً چُورا
کردیے جائیں" (قرآن 69:14)؛ اور "وہ تو نہ ہوگی مگر ایک چنگھاڑ جبھی وہ
سب کے سب ہمارے حضور حاضر ہوجائیں گے ..." (قرآن 36:53)، اس کائنات کی حتمی
تباہی کو بیان کرتی ہیں۔
English Article: The Qur‘an And The Fate Of The Universe: Qur’anic
Verses And Scientific Quotes About The Events Of The Last Day Seem To Echo,
Almost Word For Word
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism