شیخ رشید، نیو ایج اسلام
ارشاد باری تعالی ہے:
اَلَّذِيۡنَ
يَاۡكُلُوۡنَ
الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ
اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ
الَّذِىۡ
يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ
مِنَ الۡمَسِّؕ
ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ
قَالُوۡۤا
اِنَّمَا الۡبَيۡعُ
مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ
وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ
وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ
فَمَنۡ
جَآءَهٗ مَوۡعِظَةٌ
مِّنۡ
رَّبِّهٖ فَانۡتَهٰى
فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ
وَاَمۡرُهٗۤ
اِلَى اللّٰهِؕ
وَمَنۡ
عَادَ فَاُولٰٓٮِٕكَ
اَصۡحٰبُ النَّارِۚ
هُمۡ فِيۡهَا
خٰلِدُوۡنَ
(۲:۲۷۵)
جو لوگ ربوٰا کھاتے ہیں وہ
ترقی یافتہ قوم نہیں بن سکتے مگر وہ ایسی قوم بنیں گے جن کو شیطان غیرقرآنی تعلیم
دے کر بے بصیرت کر دیتا ہے۔ غیر قرآنی تعلیم کی وجہ سے وہ کہتے ہیں یقینا البیع بھی
الرّبوٰا کی مثل ہے حالانکہ اﷲ نے تو بیع حلال کی ہے اور رّبوٰا کو حرام کیا ہے پس
جس کے پاس اُس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچ گئی پھر وہ رُک گیا پھر جو ماضی میں لے چکا
وہ اُسی کا ہے اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے اور جو پھر رّبوٰا لینے لگے پس یہی لوگ
آگ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
تفہیم اَلرِّبٰوا
بنیادی سہ حرفی مادہ ر ب وہے
رَبَا یَرْبُوْا کا معنی ہوتا ہے۔ زیادہ ہونا، بڑھنا، پھلنا اور پھولنا وغیرہ۔ قرآن
میں ہے۔ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ۔ 2/276 اللہ الرِّبٰواکو
مٹاتا ہے اور الصدقات کو بڑھاتا ہے۔ 22/5 میں الارض کے لئے رَبَتْ آیا ہے۔ بارش کی
وجہ سے زمین پھلتی پھولتی ہے۔ رَبْوَہ (2/265) بلند اور اُونچے ٹیلے کو کہتے ہیں۔ الرِّبٰواکا
موضوع 2/275 سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے ما قبل 261 تا 274 انفاق فی سبیل اللہ کی بات ہو
رہی ہے۔ اللہ کے ہاں اُس کا کیا بدلہ ہے۔ مثالیں دے دے کر سمجھایا جا رہا ہے۔ ایسے
صدقات کے مستحق لوگوں کو اُدھار دے کر اُن سے بڑھوتری لینا حرام قرار پایا ہے۔ وہاں
بزنس، تجارت یعنی البیع نہیں ہے۔ یقینا اُن کی ہنگامی طور پر رُ کی ضرورت پوری کر رہے
ہیں۔ اگر اس اُدھار پر کوئی زائد لیا گیا تو یقینا یہ الرِّبٰواکہلائے گا۔ الرِّبٰوا
قرآن کی اصطلاح ہے۔ جو البیع کے نفع پر لاگو نہیں کیونکہ اللہ نے البیع کو حلال اور
الرِّبٰوا کو حرام قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنے سرمایہ سے ہر آدمی ا لبیع
خود ہی کرے گا؟ کیا وہ نوکر رکھے گا یا وہ البیع میں حصّہ دار بنا ئے گا؟ کیا دوسرا
فرد سرمایہ کی بنیاد پر البیع میں شریکِ نفع ہو سکتا ہے؟ ان سوالوں کی مشاہداتی دلیل
یہی ہے کہ البیع میں اکیلا آدمی کافی نہیں ہے دوسرا نوکر ہو یا حصّہ دار ضرور رکھنا
پڑتا ہے۔ بڑے بڑے کاروبار، ورکشاپیں اور کارخانے اس کی واضح مثالیں ہیں۔ البیع میں
کوئی نوکر ہو یا سرمایہ کاری کی شراکت، شرائط طے کر کے فائد ہ لیا جا سکتا ہے۔ دونوں
پارٹیوں کی رضا مندی سے البیع میں سرمایہ کار ی کی بنیاد پر کسی کاروبار کرنے والے
سے جو معائدہ طے ہو جائے اُسے البیع کہا جائے گا۔ اس طرح سرمایہ کار کو جو نفع حاصل
ہو گا وہ الرِّبٰوا نہیں کہلائے گا۔ الرِّبٰوا جس کو اللہ نے منع کیا ہے یقینا وہ البیع
سے کوئی الگ شے ہے جس کا البیع سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ معائدے کی شرائط صرف نفع ہو
یا نفع و نقصان میں شراکت ہو اسے البیع ہی کہیں گے۔ الرِّبٰوا ایسے راس المال پر زائد
لینا ہے جس کا البیع سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لہٰذا بہت ہی واضح بات ہے کہ جہاں البیع ہے
وہاں الرِّبٰوا نہیں ہے۔ اب یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ایسا اُدھار جو کسی
ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہو جو البیع کی مد میں نہ آتا ہو۔ اُدھار
لینے والے کا اس اُدھار سے پیدا وار کرنا اور نفع کمانا مقصد نہ ہو۔ ایسے ضرورت مند
سے جو صدقات کا مستحق تھا اُسے اُدھار دے کر اصل زر سے زائد وصول کرنا الرِّبٰوا کہلاتا
ہے۔ ایسے مواقع تو صدقات دینے کے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں سے البیع بھی ہو سکتی ہے بشرطِ
کہ یہ لوگ ہنر مند ہیں تجارت یا کسی کاروبار میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس کی مثا ل یوں
سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر کوئی دوکاندار یہ اشتہار لکھ کر لگا دے کہ ضرورت مندوں کے
لئے یہاں سے ادھار چیزیں بغیر نفع کے مل سکتی ہیں۔ خود سوچئے دوکاندار کتنے دن کاروبار
کر سکتا ہے۔ دوکاندار محتاج سے البیع کرتا ہے اور چیزیں نفع پر ہی فروخت کرتا ہے۔ ضرورت
مند کا ضرورت پوری کرنے کے لئے اُدھار لینا الگ چیز ہے۔ ضرورت مند کا البیع کرنا یا
البیع کے لئے اُدھار لینا ایک الگ مسئلہ ہے۔ دونوں کو ایک نہ کریں اللہ کی کتاب کا
یہی فیصلہ ہے۔ الرِّبٰوا اور البیع الگ الگ ہیں۔ البیع میں اصل زر کاروبار میں لگتا
ہے۔ نفع حاصل کرتا ہے۔ اصل زر پیدا وار دیتا ہے۔ ایسا بار بار ہوتا ہے۔ البیع میں اُدھار
دینے والا نفع میں شریک ہوتا ہے۔ جب کہ ضرورت پر خرچ ہونے والا اُدھار نفع نہیں کماتا
اور ضرورت مند کو مزید اپنی جیب میں سے فالتو رقم دینی پڑتی ہے۔ لہٰذا سرمایہ کاری
پر نفع حلال ہے اور یہ البیع ہے۔ حاجت مند کی ضرورت پوری کرنے کیلئے جو غیر پیدا واری
مد میں اُدھار دیا ہو ایسے اُدھا ر پر اصل زر سے زائد لینا الرِّبٰوا کہلاتا ہے۔ الرِّبٰوا
کو الصّدقات کی ضد میں لا کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ الرِّبٰوا صدقات کے مستحق لوگوں
سے لیا جا رہا ہے۔ یہ یکطرفہ مفاد ہوتا ہے۔ کیونکہ صدقات کے مستحق لوگ اس اُدھار کو
ایسی ضرورت پر صرف کر لیتے ہیں جس میں کوئی پیداوار نہیں ہوتی اور انہیں اس اُدھار
پر جو زائد دینا پڑتا ہے وہ یک طرفہ فائدہ ہوتا ہے۔ اُدھار لینے والے کی رقم میں تو
ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا مگر اُدھار دینے والے کی رقم میں یک طرفہ اضافہ ہو
رہا ہے۔ یہی وہ لامِ تعریف والا الرِّبٰوا ہے جو ایک خاص اُدھار ہے جو ضرورت مند کو
کسی غیر پیداواری مد میں دیا گیا تھا۔ ایسے اُدھار پر زائد لینا قرآن کی اصطلا ح میں
الرِّبٰوا کہلائے گا۔ جس کا 30/39 آیت میں بھی ذکر ہے اس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ایسا
اُدھار جس میں باہمی مفاد ہوپیدا واری مد میں ہو ا لبیع کہلائے گا۔ اسے اللہ نے جائز
قرار دیا ہے۔ کیونکہ اُدھار لینے والا اس سے نفع کما رہا ہے لہٰذا اس نفع میں اُدھار
دینے والے کا سرمایہ ایک قوت ہے اس لئے اس نفع میں اُس کا حق ہے۔ اگر اُدھار لینے والے
کا تو دُگنا ہو رہا ہے۔ اور دینے والے کو اصل زر ہی ملے گا تو یہ بھی ظلم ہو گا۔ البیع
میں باہمی فائدہ ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ نے اسے حلال قرار دیا ہے۔ البیع کیلئے دئیے گئے
اُدھار پر زائد لینا حلال اور ضرورت مند کی غیرپیداواری مد میں اُدھار دے کرزائد لینا
الرِّبٰوا ہے۔ جو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ البیع اور الرِّبٰوا میں اتنے واضح فرق
کے باوجود بھی جو لوگ البیع اور الرِّبٰوا کو ایک ہی جیسا سمجھتے ہوں اُن کی قرآن
فہمی سے اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مفاد کے پیشِ نظرالرِّبٰوا کو
بھی البیع کی مثل کہتے ہیں۔ اللہ کے ہاں اُن کا قول غلط ہے۔ جب صورتِ حال یہ ہو کہ
البیع اورالرِّبٰوا میں امتیاز ہی نہ رہے۔ ہر قسم کا نفع حرام ہو جائے تو کوئی نظام
ترتیب دینا ہی مشکل ہو جائے گا۔ ہمیشہ غلط فہمی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ اب اس کا ازالہ
ہونا چاہیے۔ اگر یہ سازش ہے تو ہمیں اس سازش کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ قرآن کی
آیات کا غلط مفہوم لینے کی وجہ سے ہوا ہے۔ 2/219 آیت میں قُلِ الْعَفْوَ کے معنی
کئے جاتے ہیںزائد از ضرورت دے دو۔ قرآن زائد از ضرورت کی کوئی حد مقرر نہیں کرتا۔
سوال تو یہ ہے کہ کس مقصد کیلئے خرچ کرنا ہے جواب ہے کہ لوگوں کی عافیت کیلئے خرچ کرناہے
جیسا کہ 2/215 میں والدین، اقربا، مسکین اور ابنِ سبیل پر خرچ کرنا بتایا تھا۔
2/219 میں قُلِ الْعَفْو کہہ کر انفاق کا مقصد بتایا جا رہا ہے کہ یہ انسانوں کی عافیت
کیلئے ینفقون ہو گا۔ اللہ کی ذات عفوًا غفورًا ہے۔ وہ عافیت اور مغفرت والی چیزیں پیدا
کرنے والا ہے۔ کیا اللہ زائد از ضرورت چیزیں پیدا کرنے والا ہے؟ لہٰذا زائد از ضرورت
کا معنی غیر موزوں اور غیر قرآنی ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی کے عمل کو بھی متاثر کرتا
ہے۔ اور معاشرے میں ترقی کے لئے بچت کی سکیموں کی نفی ہو جاتی ہے۔ اور ذاتی ملکیت کا
تصور بطورِ امانت جو اللہ نے انسان کو تفویض کیا ہے۔ اُسے بھی دھندلا سا کر دیتا ہے۔
انسانوں کی عافیت صدقات کے ذریعے انفاق کامقصد ہے دوسری آیت اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ
اِلَّا مَاسَعٰی 53/39 ہے انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی اُس نے کوشش کی۔ اِس آیت
کو اپنے سیاق و سباق سے ہٹا کرالرِّبٰوا سے جوڑنا یحرفون الکلمہ عن مواضعہٖ نہیں تو
اور کیا ہے۔ اس سے پہلے نمبر 38 میں ہے کہ یہ وہ وقت اور وہ جگہ ہے جہاں کوئی کسی کا
بوجھ اُٹھانے والا نہیں ہے۔ اس جہان میں تو ایک دوسرے کی غلطیوں کاازالہ کرنے والے
اور بوجھ اُٹھانے والے موجودہیں۔ یہ تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے سامنے
پیش ہونے والے جہان کی بات ہے جہاں موت بھی نہیں ہے۔ جب وہاں کے قوانین کو اِس جہان
میں لاگو کریں گے تو یہ ناممکنات کو ممکن بنانے کی لا حاصل کوشش ہو گی۔ آیت مبارکہ
میں لَیْسَ اور اِلَّا کا حصر کسی فرد کو بھی بغیرمحنت کے کسی شے کا حق نہیں دیتا۔
اس کلمہ حصریہ میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ بچّے، بوڑھے، مریض اور عورت وغیرہ کا بغیر
محنت کے کسی شے پر حق تسلیم کرنا اس آیت کی نفی ہو جاتی ہے۔ یہ صورتِحال اس دنیاوی
معاشرے میں ناممکن ہے کہ سو فیصد محنت کرکے کھانے والے ہوں۔ بچّے، بوڑھے، بیمار اور
عورتیں وغیرہ تقریبًا پچاس فیصد تعداد بغیر محنت کے ہے جن کے کھانے پینے کا انتظام
محنت کرنے والے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اللہ نے باپ کو اپنی اولاد کا بالغ ہونے تک
کفیل بنایا ہے اور مرد کو بیوی کی کفالت کا ذمہ دار بنایا ہے۔ وراثت کے قانون میں بغیر
محنت کے وُرثہ جائداد کے وارث بن جاتے ہیں۔ ایک ماں اپنے دودھ پیتے بچّے کی کفالت سے
کیسے دستبردار ہو سکتی ہے یہ اس دنیا میں نا ممکن ہے۔ لہٰذا مودبانہ گزارش ہے کہ اس
آیت کوکسی بھی دنیاوی مسئلے کے لئے دلیل نہ بنایا جائے۔ الف لام معرفہ کی لغت کا جائز
استعمال ضرور کرنا چائیے کیونکہ اس کے ایک سے زیادہ مفہوم ہیں۔ من چاہی تاویل کا امکان
ہے۔ اس لئے قرآن کے باقی مقامات بھی سامنے ہوں اور مشاہدات عالم کی روشنی سے بھی استفادہ
ضروری ہے۔ مثلًا الخمر اور المیسر سے جب تک ہم خاص خمر اور خاص میسر مراد نہ لیں گے
تو اس کا مفہوم واضح نہیں ہو گا ا ور عام مفہوم لینے سے ہر خمیری شے اور آسانی سے
ملنے والی شے حرام ہو جائے گی تو خود اندازہ لگائیں کہ عمل کرنے میں کتنی مشکل پیش
آئے گی۔
یہ اصطلاحِ قرآن ہیں جب تک
یہ کلمات خصوصیت کے حامل قرار نہ پائیں گے قرآن فہمی میں دشواری ہو گی۔ الخمر کی وجہ
سے جس جس شے سے نشہ بنتا ہے وہ بھی حرام قرار دیا جائے اس طریقے سے چیزوں کو حرام قرار
دینا قرآن کا طریقہ نہیں ہے۔ مثلًا انگور سے نشہ بنایا جاتا ہے تو انگور کو بھی حرام
قرار دیا جائے یہ قرآنی فتوٰی نہیں ہے۔ الخمر و المیسر کے بارے سورۃ نمبر2 کی تفہیمات
کا نمبر91 کا مطالعہ فرما لیں۔ الرِّبٰواکے بارے بھی اتنی لمبی لسٹ بنانے میں یہی فلسفہ
کار فرما ہے کہ ہر قسم کی بڑھوتری کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ایسا ذہن رکھنے والوں کے
نزدیک کوئی کاروبار بھی الرِّبٰواکی زد سے بچا ہوا نہ پائو گے۔ الرِّبٰواکا قرآنی
موقف صدقات کے مستحق لوگوں کو غیر پیداواری مد میں اُدھاردے کر زائد لینا الرِّبٰواکہلاتا
ہے۔ لہٰذا کمرشل بینک، انشورنش کمپنیاں، کمرشل ادارے، کرایہ داری اور دوسری کاروباری
شکلیں قرآنی نقطہ نظر سے الرِّبٰواکی زد میں نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ تمام شکلیں استحصالی
نہیں ہیں بلکہ باہمی مفادات کے تحت عوام کی سہولت کے لئے کاروباری ادارے ہیں جو الرِّبٰوا
کی حدود سے خارج ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے سرمایہ پر محنت مزدوری کر کے نفع لینا حلال
ہے اور محنت کے بغیر سرمایہ کی بنیاد پر نفع لینا الرِّبٰواہے۔ یہ سب محنت مزدوری اور
تجارت کے فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ تجارت میں نفع ہمیشہ سرمایہ پر ہوتا ہے
مثلًا ایک سو بِکری پر دس روپے نفع ملے گا۔ بغیر سرمایہ کے کوئی فرد ایک جگہ سارا دن
بیٹھا رہے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ سرمایہ کاری کی وجہ سے جتنے سینکڑے آئیں گے اُتنی
دہائیاں نفع کی ہوں گی۔ محنت اور مزدوری میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کی مقرر شدہ وقت کی
اُجرت ملے گی کوئی کام کرے یا نہ کرے یہ صرف حاضری کی تنخواہ ہے۔ سرمایہ کاری کا تصور
ایسی جائداد ہوتا ہے جو فاضل پیداوار دے۔ سرمایہ مادی ہو یا غیر مادی اس سے نفع حاصل
کرنا اور ترقی کرنا ہر انسان کا حق ہے۔ ظاہر ہے جس کے پاس زیادہ صلاحیت ہو گی زیادہ
کمائے گا وہی دوسروں پر زیادہ خرچ کرے گا اور ریاست کو صدقہ دے گا۔ محنت و مزدوری میں
اوقات کار کا معاوضہ ہے اور تجارت میں بِکری (sale) پر فی صد کے حساب سے
نفع ہوتا ہے۔ تجارت میں سرمایہ کے بغیر محنت نہیں ہو سکتی لہٰذا سرمایہ کار کی بغیر
محنت کے کاروبار میں شمولیت جائز ہے۔ سرمایہ داری حرام اور سرمایہ کاری حلال ہے۔ الرِّبٰوا
کیلئے دیباچے کا نمبر40 بھی ملاحظہ فرما ئیے۔ وَمَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوْا
فِی اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَاللّٰہِ ج وَمَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ
تُرِیْدُ وْنَ وَجْہِ اللّٰہِ فَاُو لٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۔ اور جو تم مذکورہ
ضرورت مندوں کو بڑھوتری کی نیت سے اُدھار دیتے ہو تا کہ وہ اُدھار دیا ہوا تمہارا مال
ہی لوگوں کے مال کے مقابلے میں یک طرفہ بڑھتا رہے۔ پس وہ اللہ کے ہاں تو نہیں بڑھتا
(کیونکہ یہ لوگ تو صدقے کے مستحق تھے جن کو اُدھار دے کر زائد لینا شروع کیا ہے) اور
جو تم لوگوں کی نشو ونما کی نیت سے دیتے ہواور تم اللہ کی رضا چاہتے ہو تو یہی لوگ
اللہ کے ہاں اضافہ کرنے والے ہیں 30/39۔ یہاں رِبًا کی تنوین عہد ذکری ہے یہ اُسی الرِّبٰوا
کا بیان ہے جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اور حرف فِیْ بمعنی مقابلہ لیا گیا ہے۔ یہ اُدھار
صدقے کے مستحق لوگوں کو دیا گیا ہے جنہوں نے اس اُدھار سے تجارت نہیں کرنی جس کی وجہ
سے اُن کے مال میں تو اضافہ نہیں ہے لیکن اُدھار دینے والے کا مال اُن کے مال کے مقابلے
میں بڑھ رہا ہے۔ اس آیت میں یک طرفہ بڑھوتری کا تصور سامنے لایا گیا ہے۔ جو ضرورت
مند سے لیا گیا ہے جو اس سے البیع نہیں کر رہا۔ آیت نمبر 2/280 میں ہے کہ اگر وہ تنگ
دست ہو تو خوشحالی تک مہلت دینی ہے۔ اگر تم اُسے صدقہ کر دو تو یہ تمہارے لئے بہتر
ہے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ بزنس ڈیل نہیں ہے۔ یہ کوئی تجارت اور کاروبار کے لئے اُدھار
نہیں دیا گیا۔ یہ کوئی صدقے کا مستحق فرد تھا جس کو اُدھار دیا گیا ہے۔ جب کہ ہمارے
کمرشل ادارے بنک وغیرہ لوگوں کے پیسے جمع کر کے قومی ترقی میں لگاتے ہیں۔ نفع بخش کاروبار
کرتے ہیں۔ یہ کوئی خیراتی ادارے نہیں ہیں لہٰذا باہمی مفادات کی بنیاد پرکمرشل اداروں
میں انویسٹمنٹ کرنا البیع کہلائے گی یہ الرِّبٰوا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں صدقات پر چلنے
والے ادارے بھی ہیں جہاں کاروباری انویسٹمنٹ نہیں ہو سکتی مثلًا تعلیمی ادارے، ویلفیرسنٹر
اوراسپتال وغیرہ جہاںلوگ صدقات دیتے ہیں۔ ایسے اداروں کو اُدھار دے کر زائد لینا الرِّبٰواکہلائے
گا۔ لہٰذا صدقات کے مستحق ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے جو غیرپیداواری مد
میں اُدھاردیا جائے اُس پر زائد لینا الرِّبٰواکہلائے گا۔ اس کے علاوہ باہمی مفاد کے
لئے کمرشل بنیاد پرکسی کو اُدھار دے کر اُس کے کاروبار میں شریک ہو کر نفع میںشریک
ہونا البیع کہلاتا ہے۔ لہٰذا یہ حلال ہے۔
وما علینا الاالبلاغ المبین
مصدرو ماخذ: ماہنامہ صوت الحق
، کراچی ۔
----------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism